باب الصلوۃ

کس مسجد میں نماز پڑھی جائے قدیم یا نئی؟

 مسئله۔ زید نے اپنی خوشی سے اپنے نئے مکان میں اذان دے کر کچھ عوام کولیکر نماز پنجگانہ شروع کیااورجمعہ بھی پڑھ لیا خود اذان دیگر اس کی ابتدا کی جوکہ آج تک جاری ہےاورباقاعدہ پیش امام بھی باہر سے لاکر رکھ دیا ہے مسجد قدیم جو کہ آبادی کے وقت سے قائم ہے اور پچاس گز کے فاصلےپرہےآیانئی مسجد جس میں لوگ نمازپڑھتے ہیں مسجد کےحکم میں ہوگا یانہیں؟

2۔زیداورپیش امام نے مل کر مصلیوں میں تفرقہ ڈال دیا ہے اور پرانی مسجدکوبرباد کرنے کی کوشش میں لگا ہےاورجاہل عوام کو بہکا کرمسجد قدیم سے الگ کر دیا ہے ایسےپیش امام کےپیچھےنمازجائز ہے یانہیں؟اور ذیدپراورجن لوگوں نےساتھ دیا ہوشرع کاکیاحکم ہے؟

3:پیش امام مسجد کچھ دن بریلوی مدرسہ میں چپراسی رہا پھر وہاں سے الگ ہونے کے بعد دیو بندی مدرسہ کاسفیررہااور مدرس بھی پھردیوبندی بستی میں پیش امام رہاپھرچندہ کی غرض سے بریلوی بن کر آیا اور عوام میں نفاق ڈال کر الگ مسجدبناکرنمازپڑھاناشروع کر دیااورمسجدقدیم کوبربادکرنے میں لگاہواہےاس کےپیچھےنماز جائز ہےیا نہیں۔اس پر شرع کا کیا حکم ہے؟

الجواب: نئی جگہ جہاں لوگوں کو اکٹھا کر کے زید نے نماز پڑھنی شروع کردی ہےاگراس جگہ کومالک زمین نےمسجدقرار دےدیاہےتووہ مسجد کےحکم میں ہے اگرچہ مسجد جیسی عمارت نہ ہو۔

(2)جوشخص کہ کسی مسجد کو برباد کرنے کی کوشش کرے اور ازراہ نفسانیت مصلیوں میں تفرقہ ڈالےاس کےپیچھےنماز پڑھناجائزنہیں اور جو لوگ کہ ایسےشخص کاساتھ دیں وہ گنہگار ہیں قال الله تعالی واما ینسينك الشيطن فلا تقعد بعد الذكری مع القوم الظلمین (پ7 ع14)

(3)شخص مذکوراگر ایساہےکہ دیو بندیوں میں دیوبندی بن جاتاہےاورسنیوں میں سنی تووہ دیوبندی بھی ہےاور منافق بھی اس کےپیچھے نماز پڑھا ہرگز جائز نہیں اگر چہ وہ دیو بندیت سے توبہ بھی کرے۔ہاں کچھ زمانہ گزرنے کے بعد جبکہ اس کی سنیت پر اطمینان ہوجائے تو اس کےپچھےنمازپڑھ سکتےہیں بشرطیکہ کوئی اور وجہ مانع امامت نہ ہو۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین غیظ المنافقین کے امام العادلین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جب صبیغ سے جس پر بوجہ بحث متشابہات بدمذہبی کا اندیشہ تھا بعد ضرب شدید توبہ لی ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمان بھیجا کہ مسلمان اسکے پاس نہ بیٹھیں اسکےساتھ خریدوفروخت کریں بیمار پڑے تواس کی عیادت کو نہ جائیں مرجائے تو اس کے جنازہ پرحاضرنہ ہوں بلتعمیل حکم احکم ایک مدت تک یہ حال رہا کہ اگر سو آدمی بیٹھے ہوتے اور وہ آتا سب متفرق ہوجاتے جب ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے عرضی بھیجی کہ اب اس کا حال اچھا ہو گیا اس وقت اجازت فرمائی اخرج نضر المقدسى فى كتاب الحجة وابن عساکر(فتاوی رضويه جلد سوم ص313) و هوتعالى اعلم بالصواب

بحوالہ:فتاوی فیض الرسول

ص:327