مسئلہ : قربانی کرنا واجب ہے اگر کسی شخص نے ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد اور نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ قربانی جائز ہے یا نہیں۔
الجواب: دیہات میں نماز عید جائز نہیں ۔قربانی گاؤں میں طلوع صبح کے بعد ہو سکتی ہے اگر چہ شہری نے اپنی قربانی وہاں بھیجدی ہو اور اگر قربانی شہر میں ہو جہاں نماز عید واجب ہے تو لازم ہے کہ بعد نماز ہو اگر نماز سے پہلے کر لی قربانی نہ ہوئی اگرچہ قربانی دیہاتی کی ہو کہ اس نے شہر میں کی بھیج دی ہو۔
در مختار ۔۔فتاوی افریقہ ۔
بہار شریعت میں ہے۔
۔ شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہوچکے لہذا نماز عید سےپہلے شہر میں قربانی نہیں ہوسکتی اور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی ہو سکتی ہے اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ بعد طلوع آفتاب قربانی کی جائے اور شہر میں بہتر یہ ہے کہ عید کا خطبہ ہو چکنے کے بعد قربانی کی جائے۔ (1) ( عالمگیری ) یعنی نماز ہو چکی ہے۔
ابھی خطبہ نہیں ہوا ہے اس صورت میں قربانی ہو جائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
۔ یہ جو شہر و دیہات کا فرق بتایا گیا یہ مقام قربانی کے لحاظ سے ہے قربانی کرنے والے کے اعتبار سے نہیں یعنی دیہات میں قربانی ہو تو وہ وقت ہے اگرچہ قربانی کرنے والا شہر میں ہو اور شہر میں ہو تو نماز کے بعد اگرچہ جس کی طرف سے قربانی ہے وہ دیہات میں ہو لہذا شہری ادمی اگر یہ چاہتا ہے کہ صبح ہی نماز سے پہلے قربانی ہو جائے تو جانور دیہات میں بھیج دے۔ (2) (در مختار )
۔ اگر شہر میں متعدد جگہ عید کی نماز ہوتی ہو تو پہلی جگہ نماز ہو چکنے کے بعد قربانی جائز ہے یعنی یہ ضرور نہیں کہ عید گاہ میں نماز ہو جائے جب ہی قربانی کی جائے بلکہ کسی مسجد میں ہوگئی اور عید گاہ میں نہ ہوئی جب بھی ہو سکتی هے ۔ (3) (در مختار، ردالمختار )
۔ واللہ تعالی اعلم