مسئله:جمعہ کے روز خطبہ سے پہلے جو اذان دی جاتی ہے وہ مسجد کے اندر دینا چاہئے یا مسجد کے باہر؟ زید کہتا ہے کہ در مختار اور فتاوی عالمگیری وغیرہ میں ہے کہ جمعہ کی اذان ثانی خطیب کے سامنے دیجائے خطیب کےسامنے یا رو برو کا کیا مطلب نکلتا ہے؟فتاوی رضویہ اور بہار شریعت وغیرہ دکھانے کے بعدزیدکہتا ہےکہ نئی کتاب اور نئے مسائل کی ضرورت نہیں۔ رکن دین در مختار فتاوی عالمگیری یہ سب بہت پرانی کتابیں ہیں۔اس میں خطیب کے سامنے اور خطیب کے روبرو اذان ثانی دینے کو لکھا ہے اس لئے یہ اذان مسجد کے اندر ہی دینی چاہئے کیونکہ یہ بہت پرانا رواج ہے۔ اس سے قبل چھ 6ماہ تک جمعہ کی اذان ثانی باہر دی جاتی رہی جوکہ زیداب اپنی ہٹ دھرمی سے جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر دلوا رہا ہے۔ زید خود فاسق معلن ہے اس کے لئے کیا حکم ہے؟اور زید کا یہ کہنا کہ فتاوی رضویہ اور بہار شریعت وغیرہ یہ سب نئی کتابیں ہیں اور نئے مسائل ہیں ان کی ضرورت نہیں، تو زید کے اس قول سے عند الشرع کیا جرم عائد ہوتا ہے۔حدیث مبارکہ کی روشنی میں اس کا مدلل جواب تحریر فرمائیں ۔
الجواب – خطبہ کی اذان مسجد کے باہر پڑھناسنت ہےاور مسجد کے اندرخطیب کے سامنے دو تین ہاتھ کے فاصلہ پر پڑھنا جیسا کہ بعض جگہ رائج ہے خلاف سنت اور بدعت سیئہ ہےاس لئے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ظاہری زمانہ میں اورخلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دور میں ایک بار بھی خطبہ کی اذان کا مسجد کے اندر ہونا ہرگز ثابت نہیں بلکہ ان کے مبارک دور میں خطیب کے سامنے مسجد کے باہر دروازہ پر یہ اذان ہوا کرتی تھی جیسا کہ حدیث مبارکہ کی مشہور کتاب ابو داؤد شریف جلد اول ص 162میں ہے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب منبر پر جمعہ کے روز تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں اھ۔اور خطیب کے سامنے یارو برو کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ کی اذان خطیب کے بالمقابل مسجد کے باہر ہو جو لوگ خطیب کے سامنے یاروبرو کا مطلب مسجد کے اندر ہونا سمجھتے ہیں وہ کھلی غلطی پر ہیں کہ حدیث مذکور میں بین یدیہ کے ساتھ علی باب المسجد بھی ہے جس سے معلوم ہوا کہ خطیب کے سامنے روبرو کا مطلب یہ ہے کہ خطیب کے چہرے کے با لمقابل مسجد کے باہر دروازہ پر اذان ہو نہ کہ اندر جیسا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں یہ اذان مسجد کے باہر ہوتی تھی لہذا رکن الدین در مختار اور فتاوی عالمگیری وغیرہ میں جو خطیب کے سامنے یا خطیب کے روبرو اذان ثانی دینے کو لکھا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ خطیب کے بالمقابل مسجد کے باہر ہو اسی لیے ان کتابوں میں مسجد کے اندر خطیب کے سامنے دو تین ہاتھ کے فاصلے پر اذان دینے کو نہیں لکھا بلکہ مخالف کی پیش کی ہوئی کتاب فتاوی عالمگیری اور فقہ کی دوسری معتبر کتابوں میں مسجد کے
اندر اذان پڑھنے کو مکروہ و ممنوع فرمایا جیسا کہ فتح القدیر جلد اول ص 319 میں ہے قالوا لا یؤذن فی المسجد یعنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے اور بحر الرائق جلد اول ص268 فتاوی قاضی خان جلد اول مصری ص78 اور فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص 55 میں ہے لا یؤذن فی المسجد یعنی مسجد کے اندر اذان پڑھنا منع ہے
اور طحطاوی علی مراقی میں ہے مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے اسی طرح قہستانی میں نظم سے ہے۔ لہذا جو لوگ مسجد کے اندر اذان پڑھنے کو صحیح سمجھتے ہیں وہ فقہ اور حدیث شریف کے بجائے رواج کےماننے والے ہیں کہ ان کے پاس ہٹ دھرمی اور رواج کےسوامسجد کے اندر اذان پڑھنےکا کوئی ثبوت نہیں۔اور زید جس نے یہ کہاکہ فتاوی رضویہ اور بہار شریعت سب نئی کتا بیں ہیں اور سب نئے مسائل ہیں تو جاہل نہیں تو گمراہ ہیں اور اگرگمراہ نہیں تو جاہل ہے۔کہ فتاوی رضویہ اور بہار شریعت نئی کتابیں ضرور ہیں مگر مسائل پرانے ہیں خدائے تعالی مسلمانوں کو حدیث شریف اور فقہ پر عمل کرنےکی اور ہٹ دھرمی سے بچنے کی توفیق رفیق بخشے ۔ (آمین) و هو تعالى اعلم
بحوالہ:فتاوی فیض الرسول
ص:221