راہنما اصول

اسم اعظم

اسم اعظم

اسم اعظم سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ صفاتی یا ذاتی نام ہے جسے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق پیدا ہوتا ہے۔ معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔ اسم اعظم پڑھنے والے کو اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے مالا مال کر دیتا ہے، وہ اپنے رب سے اہم اعظم کی بدولت جو کچھ مانگتا ہے سو پاتا ہے۔ اسم اعظم کے صدقے اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے جن لوگوں کو اسم اعظم کا راز ہاتھ آجاتا ہے وہ اس کے خاص بندے بن جاتے ہیں اللہ انہیں دین ودنیا میں انعام یافتہ بنا دیتا ہے۔ انہیں نہ ملنے والی عزت ملتی ہےاور نہ ختم ہونے والی دولت میسر آتی ہے گویا کہ اسم اعظم ہر کام کی کنجی ہے اور گونا گوں فیوض و برکات کا حامل ہے۔

اللہ کا ذاتی نام اور ہر صفاتی نام اس کی ایک خاص شان کا مظہر ہے۔ جو شخص اللہ تعالی کو جس شان یعنی جس صفاتی نام سے پکارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی اس شان کے فیوض و برکات سے اسے نواز دیتا ہے اور اپنی اس خاص شان کا راز اس پر کھول دیتا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو رحمن کہہ کر پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے مالا مال کر دیتا ہے اور اس کا وجود دوسروں کے لیے باعث بنا دیتا ہے معلوم ہوا کہ جس نام سے ہم اسے پکاریں گے اسی سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہو جائے گی اور یہی قربت جس لفظ سے میسر آتی ہے وہ اسم اعظم ہوتا ہے لہذا اسم اعظم تلاش کرنے کا ایک عام اصول پیش کیا جارہا ہے کہ جس آیت یا لفظ میں اللہ تعالیٰ شان معبودیت شان رحمانیت ، شان قیومیت، شان صمدیت، شان قدرت ، شان جلالیت شان علویت، نشان بدیعت، شان لطافت کا اظہار ہوتا ہو، وہ لفظ یا آیت اہم اعظم ہو گی۔ مثلاً اللہ تعالیٰ معبود ہے ہم اس کی عبادت کرتے ہیں اس لیے لفظ اللہ یا یا ایسی آیت جس میں یہ لفظ ہو کہ اللہ ہمارا معبود ہے وہ اسم اعظم ہے لہذا لفظ الله اور لا اله الا اللہ اسم اعظم ہے۔ ایسے ہی اللہ اپنی مخلوق پر ہر وقت رحم کرتا ہے لہٰذا لفظ رحمن اور رحیم یا ایسی آیات جس سے رحمت باری کا مفہوم ظاہر ہو وہ اسم اعظم ہوگی، اسی طرح اللہ ہمیشہ سے قائم دائم اور زندہ ہے۔ لہذا جو شخص اسے فی القیوم کہ کر پکارتا ہے وہ اسے ہمیشہ کے لیے قائم دائم کر دیتا ہے لہذا یہ لفظ اور ایسی آیت جس سے قائم اور ہمیشہ زندہ رہنے کا مفہوم نکلے وہ اسم اعظم ہوگی۔ اس طرح اس کی ایک اور شان یہ ہے کہ ہر چیز کا خزانہ اس کے پاس ہے یعنی اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں چنانچہ وہ ہر لحاظ سے بے نیاز اور مالا مال ہے لہٰذا لفظ الله الصمد اسم اعظم ہوا، اس لیے جو اسے اللہ الصمد یعنی یہ کہتا ہے کہ تو میرا بے نیاز محمود ہے تو وہ اسے بے نیاز بندہ بنا دیتا ہے ایسے ہی لفظ یا ذَا الْجَلَالِ وَالإِكْرَامِ يَا لَطِيفُ يَا قَادِرُ يَا عَلَى – يَا بَدِیعُ ہے یہ اسم اعظم ہیں کیونکہ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی ایک خصوصی شان مضمر ہے جو ان الفاظ کے پڑھتے سے ظاہرہوتی ہے۔