ٹیلی پیتھی اور مراقبہ
آپ کا واسطہ کبھی ایسے لوگوں سے پڑا ہو گا جن کی بے پناہ مقناطیسی کشش اور پروقار شخصیت کے باعث آپ غیر ارادی طور پر ان کی طرف کھینچے چلے گئے ہوں گے۔ ان کی مسحور کن نگاہیں آپ کے دل میں سما گئی ہوں گی ۔
اس وقت جی چاہتا ہو گا کہ کاش ان سے قربت کے لمحات طویل سے طویل تر ہوتے جائیں ۔ بعض لوگ بالکل حسین و جمیل نہیں ہوتے مگر نا معلوم کیوں دل ان کی طرف کھینچا ہوا ہی چلا جاتا ہے۔
دراصل ہر شخص کے جسم کے ارد گرد ایک ہالہ نور ہوتا ہے جسے مقنا طیسی ہالہ بھی کہتے ہیں۔ یہ ہالہ نور جس قدر طاقتور ہوتا ہے اور جس قدر اس کی لہریں دُور دُور تک جاتی ہیں اسی قدر انسان کی شخصیت پرکشش طلسماتی اور مسحور کن ہوتی ہے اور پھر جس قدر یہ ہال نور کمزور، ناتواں اور ماندہ ہوتا ہے اسی لحاظ سے اس شخص کی کشش دوسروں کے لیے کم تر ہوتی ہے یہاں تک کہ بعض افراد سے تو بات کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا
طاقتور ہالہ نور بعض افراد میں پیدائشی طور پر قدرت کی طرف سے بھی ودیعت ہوتا ہے مگر بعض اسے مختلف ریاضتوں سے طاقتور بنا لیتے ہیں۔ہاں تو میں عرض یہ کر رہا ہوں کہ یہ ہالہ نور مختلف ریاضتوں سے بھی طاقتور بنایا جا سکتا ہے۔ جس میں سر فہرست ماہ بینی ہے جس طرح چاند کی کشش سمندر میں طوفان بپا کر دیتی ہے۔ ماہ بینی کی ریا ضت انسانی دماغ کی سپر نارمل قوتوں کو بیدار کرنے میں بڑی اہمیت کی حاصل ہے۔
سخر اور جادو وغیرہ کے عمل بھی چاند کی تاریخوں کو مد نظر رکھ کہ کئے جاتے ہیں۔ مثلاً محبت والفت کے عمل چاند کے پہلے ہفتوں میں کئے جاتے ہیں۔ بعض عدادت یا کسی کو تکلیت پہنچانے یا ہلاک کرنے کے عملیات چاند کی آخری تاریخوں میں کئے جاتے ہیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض حساس افراد جپ چاند کی اول تاریخوں میں خوش و خرم رہتے ہیں۔ اور بے پناہ مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس چاند کی آخری تاریخوں میں ان پر ثپر مردگی بے اطمینانی اور بے چینی چھا جاتی ہے
چاند خصوصیت کے ساتھ حساس لوگوں پر شدت سے اثر اندازہ ہوتا ہے۔ اس لئے حساس افراد ماہ بینی کی مشق سے بہت زیادہ فائدہ حاصل کر لیتے ہیں۔
عام تندرست لوگ اپنے حواس کے ذریعے بیک وقت مختلف قسم کے نقوش مسلسل اپنے ذہن میں مرتسم کرتے رہتے ہیں۔ یہ انسان کی معمولی سی حالت ہے۔ جسے ہم کثیر الخیالی کی حالت سے بھی تعبیر کرتے ہیں. لیکن جب کوئی شخص شمع بینی کی مشق کرتا ہے تو وہ کثیر الخیالی کی حالت سے نکل کر واحد الخیال بن جاتا ہے۔
جب تو جہ سے کام لے کر تمام ذہنی خرابیاں جو وقتی حیثیت رکھتی ہیں۔ معدوم ہو جاتی ہیں تو پھر ذہنی ارتقاء کا دور شروع ہو جاتا ہے۔
ہمارے ذہن کی دنیا میں خیالات حسی تجربات گزشتہ یادیں اور ورثے نو آبادیوں کی طرح بسے ہوئے ہیں ٹیلی پیتھی ایک علم بھی ہے اور سائنس بھی ۔
جو یہ کہتی ہے کہ انسان میں مقناطیسی پراسرار قوتیں موجود ہیں۔ جنہیں میں اگر بیدار کر لیا جائے تو انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے جبکہ ان پر اسرار مخفی قوتوں کو بیدار کرنے کے لئے ارتکاز توجہ کی ضرورت ہے جس کی مختلف نام ہیں۔
1_ارتکاز توجہ
2_ یکسوئی
3_محویت
4_استغراق
5_ مراقبہ
مراقبے کو انگریزی میں Meditation(میڈیٹیشن ) کہتے ہیں پر اسرار علوم اور ادراک ماورائے حواس کی تمام تر بنیاد ذہنی یکسوئی اور محویت پر قائم ہے
ٹیلی پیتھی کی قوت ہر شخص میں موجود ہوتی ہے جو شخص اپنے اندر اعلی درجے کی قوت پیدا کر لیتا ہے وہی اس میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ ارتکاز توجہ کا مطلب ہے کہ کسی خاص نقطے کی طرف شعور کا بہاؤ ( اپنی تمام تر توجہ کسی ایک مرکز پر مرتکز کر دینا) اس سے حواس خمسہ کی بجائے ادراک کسی بلند تر روحانی میڈیم سے حاصل ہوتا ہے
جب ہم کسی ایک چیز پر پوری توجہ کے ساتھ پلک چپکائے بغیر نظریں جما دیتے ہیں تو رفتہ رفتہ عملی شعور کی رو معطل ہو جاتی ہے تو لاشعور کی کاروائی شروع ہو جاتی ہے اور تمام معجزے سے اور کرشمے اس سے پیدا ہوتے ہیں کسی چیز پر کامل تو جہ دینے ہی سے شعور کا مل یا شعور پرتر پیدا ہوتا ہے