نورانی پیکر
لطیف ترین مادہ کی طاقت ور لہریں بیکراں کائنات میں ہمیشہ بہتی رہتی ہیں۔ اس انرجی کو ایتھر یا اتیرا کہتے ہیں ایتھر کی تین قسمیں اور تین رنگ ہوتے ہیں ۔
کیمیاوی ایتھر
ایتھر اس کا رنگ سبز ہوتا ہے
سبز رنگ کامطلب یہ ہوتا ہے کہ مختلف رنگوں کا نمایاں عکس
لائٹ ایتھر
اُسے نورانی کہا جاتا ہے اس کا
رنگ اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ بعض اوقات سنہرا معلوم ہونے لگتا ہے۔ نارنجی رنگ بھی اسی کو کہتے ہیں ۔ یہ رنگ مدقوق اور سنہرا خود پسندی کی علامت بھی ہے ۔
لائف ایتھر
: اس کا رنگ ہلکا نیلگوں یا آسمانی ہے نیلا رنگ روحانیت کی علامت ہے اور کچھ پراسراریت بھی ر کھتا ہے۔ ایتھر کو سائنسی اصطلاح میں “فیلڈ آف فورس” بھی کہتے ہیں۔یہ مادے کی لطیف ترین صورت ہے ۔ مادے تین طرح کے ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہمارا شعور معطل ہو جاتا ہے تو یہ نورانی پیکر ہمارے جسم سے علیحدہ ہو کر عجائبات عالم کی سیر کو نکل جاتا ہے۔ چونکہ یہ ایک شفاف اور چمکدار دھاگے کی مدد سے اپنا کچھ نہ کچھ تعلق جسم سے ضرور قائم رکھتا ہے۔
اس لئے ہمارا شعور بھی اس کی آوارہ گردی کے چند مناظر دیکھ دیکھ لیتا ہے جو غیب دانی کے زمرے میں آتا ہے۔ بعض لوگ اس نورانی پیکر کو ہمزاد بھی کہتے ہیں اور اس کی تسخیر کے لئے چلے کھینچتے ہیں اور وظیفے پڑھتے ہیں ۔ ان نورانی شعاعوں کو الیکٹرو میگنیٹ یا موج برقاطیسی کرنٹ کہتے ہیں۔ نورانی شعاعوں کا یہ ہالہ انسانی جسم کا احاطہ کئے رہتا ہے اور کبھی چند منٹ کے فاصلے تک رہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موت انسان کے خاکی جسم پر ہوتی ہے ۔ انسان کا نورانی پپکرہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ جو لوگ ادراک ماورائے حواس کی مشقیں کرتے ہیں۔ ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اس نورانی پیکر کی توانائیوں کو اپنے خاکی جسم میں جذب کر لیں ۔ اس کے لئے دو تین قسم کی مشقیں ر کھی گئی ہیں۔ اعصاب اور لاشعور کو قابو میں رکھنے کی غرض سے سانس کی مشقیں کرنا ہوتی ہیں جو دراصل یوگ کا حصہ ہیں، دوسری طرف اس نورانی پیکر کی توانائی کنڈالنی شکستی سے تعلق رکھتی ہے جسے انگریزی میں سدنپٹ پاور کہتے ہیں سر نپٹ پاور کی بیداری کے لیے شمع بینی کی مشق کی جاتی ہے
شمع بینی کی مشق سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ توجہ ایک نقطے پر جم جاتی ہے اور تمام قوت سمٹ کر یکجا ہو جاتی ہے دوسرے اس مشق سے سر نپٹ پاور یعنی اعصابی گچھوں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور یہ قوت جو ریڈھ کی ہڈیوں کی تہ میں پوشیدہ ہے رفتہ رفتہ اوپر کی طرف کھسکنے لگتی ہے اور جب اس کا لاشعوری قوتوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو پھر انسان اپنی سطح سے بلند و بالا ہونے لگتا ہے