آزاد نگاری
ان خیالات کے علاوہ آزاد گوئی اور آزادنگاری میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے اور اسے بھی تحلیل نفسی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یعنی ایک مرض کو ایک ماہر نفسیات اپنے کسی خاموش کمرے میں لے جاتا ہے، اور وہاں اسے ایک آرام کرسی پر بٹھا کر اس کے سامنے قلم اور کاغذ رکھ دیتا ہے اور پھر اس سے طرح طرح کے سوالات کرتا ہے بعض سوالات مریض کے نازک مزاج کو ٹھیس پہنچانے والے بھی ہوتے ہیں۔ جب ماہر نفسیات یہ دیکھتا ہے کہ اس کے کسی سوال پر مریض کا چہرہ غصہ سے تمتما اٹھا ہے تو پھر اس سے کہتا ہے کہ اس کے سوال کے جواب میں اپنے دلی خیالات و جذبات کا اظہار کاغذ پر لکھ کر کیجیئے اور جو کچھ جی میں آئے لکھتے چلے جائیے یہ بات بالکل نہ سوچنے کہ آپ کو کیا لکھنا چاہیئے اور کیا نہیں اس آزاد نگاری میں سمجھ بوجھ ، منطق، فلسفہ، عقل اور دلیل کسی کو دخل انداز نہ ہونے دیجئے ، نہایت بے باکی اور آزادی سے بلا شرط و پابندی جو کچھ جی میں آئے لکھتے چلے جائیے۔ ایسے موقع پر ماہر نفسیات مریض کو کمرے میں اکیلے چھوڑکر باہر نکل آتا ہے اور مریض اپنے جسم کو کرسی پر ڈھیلا کر کے کے کاغذ پر بے تکان لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ بے روک بلا جھجک اس کا قلم کا غذ پر تیزی سے چلنے لگتا ہے وہ کاغذ پر طرح طرح کی گالیاں بھی لکھے گا اور بے ڈھنگے جملے بھی اس آڑی ترچھی لکیریں بھی ہوں گی اور مذہبی یادداشتیں بھی اپنی “انا” کو تسکین دینے کے لئے بعض ڈینگیں بھی ہوں گی اور اپنی برتری کے قصے بھی ۔
آزاد نگاری کے لئے کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے۔ آپ کے دل میں جو کچھ آئے اسے کاغذ پر لکھتے جاہیے۔ اور پھر جب کبھی موقع ہے فرصت کے وقت بیٹھ کر اپنی ان تحریروں کو پڑھ ڈالیں۔ اپنے بعض جملوں پر غور کریں۔ ایسا کرتے وقت آپ دیکھیں گے کہ اس کا غذ پر آپ کی ایسی بہت سی خواہشات بکھری پڑی ہیں جو ہنوز نا تمام ہیں۔ آپ نے کبھی کسی شخص کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔ یہ اندرونی نفرت کا اظہار ہے۔ فخش گالیاں آپ کی دبی ہوئی خواہشات اور بھوک کی ترجمان ہیں۔ غرضیکہ آپ کے لاشعور کی تہہ میں جتنی بھی گند گیاں اور فساد کے مادے بھی جمع ہیں۔ وہ سب کا غذ پر ابھر آئے ہیں آپ کو بعض اوقات اس کا غذ کی کچھ تحریریں پڑھ کر ہنسی بھی آئے گی کیونکہ وہاں کو سنے گالیاں، مہمل تحر یر یں آڑ ترحھپی لکیریں اور دستخطوں کے نمو نے وغیرہ سب کچھ موجود ہوں گے ۔ انہی بے ربط جملوں اور مہل تحریروں میں کہیں م آپ کے جذبات کا بھوت بھی چھپا بیٹھا ہوگا۔ اگر آزاد نگاری یا آزاد گوئی کی مشقیں اسی طرح روزانہ ہوتی رہیں، اور یہ سلسلہ کم از کم دو ہفتوں تک مسلسل جاری رکھا جائے تو آپ یقین کیجئے ۔ انتقال افکار کی دوسری مشقوں کو قبول کرنے کے لئے آپ کی تربیت مکمل ہو جائے گی۔ جس طرح زمین میں خس و خاشاک دُور کرنے کے بعد کوئی پودا لگانے پر وہ جلد بڑھنے لگتا ہے اور جوان ہو کر اچھا پھل بھی دیتا ہے۔ اسی طرح ذہن کو پوری طرح صفائی کے بعد جب کسی نئے خیال کا پودا اس میں لگایا جائے گا تو وہ بہت جلد برگ و بار لائے گا اور بہت جلد سرسبز و شاداب ہو جائے گا۔