فوائدِ فقہیہ وافتاء ورسم المفتی
مسئلہ۱۷ : ۱۷ ربیع الثانی ۱۳۳۲ھ
الجواب : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہمارا ایمان ہے کہ آئمہ اربعہ برحق ہیں۔ پھر ایک چیز معین پر انہی اماموں نے فرمایا ہے کہ حلال ہے اور حرام ہے۔مثلاً کچھوا کہ ہمارے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ حرام ہے ، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حلال ہے، اور یہ محال ہے کہ ایک ہی چیز حرام بھی ہو اور حلال بھی ہو، اور ہم دونوں کو برحق کہیں۔ بیّنوا بالدلیل وتوجروا من الجلیل (دلیل کے ساتھ بیان کرو، جلالت والے اللہ کی بارگاہ سے اجر پاؤ گے۔ت)
الجواب : سائل نے کچھوے کی مثال صحیح نہیں لکھی۔کچھوا امام شافعی کے صحیح مذہب میں بھی حرام ہے۔ ہاں اور اشیاء ہیں کہ ان کے نزدیک حلال ہمارے نزدیک حرام ہیں۔ جیسے متروک التسمیہ عمداً اور ضب، اور بعض شافعیہ کے نزدیک کچھوا بھی۔ بہرحال دونوں برحق ہونے کی یہ معنی ہیں کہ ہر امام مجتہد کا اجتہاد جس طرف مودی ہو اس کے اور اس کے مقلدوں کے حق میں اللہ تعالٰی کا وہی حکم ہے۔ شافعی المذہب اگر متروک التسمیہ عمداً کھائے گا اس کی عدالت میں فرق نہ آئے گا نہ دنیا میں اسے تعزیر دی جائے نہ آخرت میں اس سے اس کا مواخذہ ہو۔ اور حنفی المذہب کہ اسے حرام جانتا ہے اور اس کا ارتکاب کرے گا تو اس کی عدالت بھی ساقط ہوگی اور دنیا میں مستحق تعزیر اور آخرت میں قابل مواخذہ ہوگا۔ یونہی بالعکس جو چیز ہمارے نزدیک حلال ہے اور ان کے نزدیک حرام، سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: کل مجتھد مصیب والحق عندا للہ واحد وقد یصیبہ وقدلا۱ ؎. ہر مجتہدمصیب ہے، لیکن عنداﷲ حق ایک ہی ہے جس کو مجتہد کبھی پہنچتا ہے اور کبھی نہیں پہنچتا۔
( ۱ ؎۔ فواتح الرحموت بذیل المستصفٰی فصل فی آداب المناظرۃ منشورات الرضی قم مصر ۲/ ۳۸۱)
امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: احدبہ واقبل شہادتہ یرید شارب المثلث نقلہما فی فواتح الرحموت ۔۲ واﷲ تعالٰی اعلم۔ میں مثلث پینے والے پر حد بھی جاری کروں گا اور گواہی دے تو اس کی گواہی بھی قبول کروں گا اسے فواتح الرحموت میں نقل کیا گیا۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
( ۲ ؎ ۔فواتح الرحموت بذیل المستصفٰی الاصل الثانی السنۃ مسئلہ مجہول الحال الخ الرضی قم مصر ۲/ ۱۴۸ )