امامت کا بیان

وکیل کے محرر کے پیچھے نماز کا حکم؟

مسئله:زید حافظ قرآن ہیں ۔ چالیس سال سے امامت بھی کر رہے ہیں۔امامت اس طرح کرتے ہیں کہ عید و بقر عید کی نماز اور جب بھی وہ باہر سے آتے ہیں پابندی سے نماز پڑھاتے ہیں۔زید چونکہ کچہری میں وکیل کے محرر ہیں اور گاؤں سے دور شہر میں محرری کرتے ہیں۔لہذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے محرر جو کہ وکیل کے محرر ہوں ان کے پیچھے نماز ازروئے شرع جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: محرر اگر سودی لین دین اور جھوٹے مقدمات کے کاغذات لکھتا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اس لئے کہ سودی دستاویز اور جھوٹ لکھنے والا ملعون و فاسق ہے ۔حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث شریف میں بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سود لینے والوں،سود دینے والوں،سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں(مسلم ۔مشکوۃص244)۔ اور اگر محرر ناجائز امور کے کاغذات نہ لکھتا ہو اور نہ اس میں کوئی دوسری شرعی خرابی ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے کہ اس پرفتن دورمیں اگرچہ ناجائز امور کے کاغذات لکھنا عام طور پر رائج ہے لیکن اللہ کے بعض نیک بندے ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو وکیل کے محرر ہونے کے باوجود ناجائز کاغذات نہ لکھتے ہوں بلکہ اس قسم کے کاغذات وکیل کے دوسرے محرر لکھتے ہوں جیسے کہ بعض لوگ بال بنانے کا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں مگر داڑھی نہیں مونڈتے حالانکہ اس پیشہ میں آجکل حلق لحیہ غالب ہے۔لہذا تا وقتیکہ ثابت نہ ہو جائے کہ محرر مذکورہ ناجائز اور جھوٹے مقدمات کے کاغذات لکھتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز نہیں قرار دیا جاسکتا کہ مطلقا ہر محرر کی امامت کو ناجائز ٹھہرانا غلط ہے۔ هذا ما ظهرلی والعلم بالحق عندالله تعالى ورسولہ جل جلالہ وصلی اللہ تعالی عليه وسلم.
بحوالہ-فتاوی فیض الرسول