مسئله: کیا احادیث کریمہ، صحابۂ کرام اور جمہور علماء کے اقوال سے بیس رکعت تراویح کا ہونا ثابت ہے؟
اگر ہے تو کتاب کے حوالوں کے ساتھ تحریر فرمائیں۔
الجواب: بیشک احادیث کریمہ اجماع صحابہ اور جمہور علماء کے اقوال سے ثابت ہے کہ تراویح بیس رکعت ہے۔
1۔ جیسا کہ بیہقی نے معرفہ میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، قال كنا نقوم في زمن عمر بن الخطاب بعشرين ركعة والوتر ۔ یعنی صحابہ اکرام حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بیس رکعت (تراویح) اور وتر پڑھتے تھے ۔
2۔اور مرقاۃ شرح مشکوة جلد دوم ص 175 میں بے قال النووى في الخلاصة اسناده صحيح – یعنی امام نووی نے خلاصہ میں فرمایا کہ اس روایت کی اسنادصحیح ہے۔
3۔اور حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت یزید بن رومان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کان الناس يقومون في زمن عمر بن الخطاب في رمضان بثلث وعشرين رکعة. یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں لوگ تئیس رکعت پڑھتے تھے۔ (یعنی بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر).
4۔اور مشکوۃ میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا یعنی تین رکعت وتر اور آٹھ رکعت تراویح۔تو اس روایت کے بارے میں علامہ ابن البر نے فرمایا کہ وہم ہے اور صحیح یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کےزمانہ میں صحابہ کرام بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے(مرقاۃ جلد دوم ص 174 )
5۔اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتح القدیر سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں جمع بینھما بانه وقع اولاً ثم استقر الامر على العشرين فانه المتوارث۔ یعنی ان دو روایتوں کو اس طرح جمع کیا گیا ہے کہ عہد فاروقی میں لوگ پہلے تو آٹھ رکعت پڑھتے تھے پھر بیس رکعت پر قرار ہوا جیسا کہ مسلمانوں میں رائج ہے (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد دوم (175)
6۔ اور بیس رکعت تراویح پر صحابہ کرام کا اجماع ہے جیسا کہ ملک العلماء حضرت علامہ علاؤالدین ابوبکر بن مسعود کاسانی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں روی ان عمر رضی اللہ تعالى عنه جمع اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في شهر رمضان على ابى بن كعب فصلى بهم في كل ليلة عشرين ركعة ولم ينكر عليه احد فيكون اجماعا منهم على ذلك – يعنی مروی ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے رمضان کے مہینے میں صحابہ کرام کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ پیچھے جمع فرمایا تو وہ روزانہ صحابہ کرام کو بیس رکعت پڑھاتے تھے اور ان میں سے کسی نے انکار نہیں کیا تو بیس رکعت پر صحابہ کا اجماع ہو گیا (بدائع الصنائع جلد اول (135)
7. اور عمدۃ القاری شرح بخاری جلد پنجم 355 میں ہے قال ابن عبد البر وهو قول جمهور العلماء وبه قال الكوفيون والشافعي وأكثر الفقهاء وهو الصحيح عن ابی بن كعب من غير خلاف من الصحابة. یعنی علامه ابن عبد البر نے فرمایا کہ وہ (یعنی بیس رکعت تراویح) جمہور علماء کا قول ہے علمائے کوفہ، امام شافعی اور اکثر فقہاء یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے ابی ابن کعب سےمنقول ہے اس میں صحابہ کا اختلاف نہیں۔
8۔اور علامہ ابن حجرنے فرمایا اجماع الصحابة على ان التراويح عشرون ركعة ۔یعنی صحابہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعت ہیں
9۔ اور مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے وهی عشرون ركعة باجماع الصحابة. یعنی تراویح بیس رکعت ہے اس لئے کہ اس پر صحابه کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا اتفاق ہے۔
10۔ اور مولانا عبد الحی صاحب فرنگی محلی عمدة الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ جلد اول ص 175 میں لکھتے ہیں ثبت اهتمام الصحابة على عشرين في عهد عمر و عثمان وعلىٍ فمن بعدهم اخرجه مالك وابن سعد والبيهقي وغيرهم . یعنی حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ تعالی علیہم کے زمانہ میں اور ان کے بعد بھی صحابہ کرام کا بیس رکعت پر اہتمام ثابت ہے ۔
11۔اس مضمون کی حدیث کو امام مالک، ابن سعد اور امام بیہقی وغیرہم نے تخریج کی ہے ۔
12۔اور ملا علی قاری رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں اجمع الصحابة على ان التراويح عشرون رکعة. یعنی صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعت ہے (مرقاۃ جلد دوم ص 175) بلکہ بیس رکعت جمہور کا قول ہے اور اسی پر عمل ہے .
13۔جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں اکثر اهل العلم على ما روى عن علىٍ و عمر وغيرهما من اصحاب النبي صلى الله تعالى عليه وسلم عشرين ركعة وهو قول سفيان الثورى وابن المبارک والشافعي وقال الشافعي هكذا ادركت ببلدنا مكة يصلون عشرين ركعة- یعنی کثیر علماء کا اسی پر عمل ہے جو حضرت مولا علی اور حضرت فاروق اعظم اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم سے بیس رکعت تراویح منقول ہے اور سفیان ثوری،ابن مبارک اور امام شافعی رحمتہ اللہ تعالی علیہم بھی یہی فرماتے ہیں کہ (تراویح بیس رکعت ہے) اور امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے شہر مکہ معظمہ میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھتے ہوئے پایا ہے (ترمذی شریف باب قیام شہر رمضان ص 99)۔
14۔اور ملا علی قاری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ شرح نقایہ میں تحریر فرماتے ہیں فصار اجماعا لما روى البيهقی باسناد صحیح كانوا يقيمون على عهد عمر بعشرين ركعة وعلى عهد عثمان وعلى يعنی بیس رکعت تراویح پر مسلمانوں کا اتفاق ہے اس لئے کہ امام بیہقی نے صحیح اسناد سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم،حضرت عثمان غنی اور حضرت مولی علی رضوان اللہ تعالی علیہم کے زمانوں میں صحابہ کرام اور تابعین عظام بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔
15۔اور طحطاوی علی مراقی الفلاح ص 224 میں ہے ۔ثبت العشرون بمواظبة الخلفاء
الراشدين ما عدا الصديق رضى الله تعالى عنهم ۔ يعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ دیگر خلفاۓ راشدین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی مداومت سے بیس رکعت تراویح ثابت ہے۔
16۔ اور علامہ این عابدین شامی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں وہی عشرون ركعة هو قول الجمهور وعليه عمل الناس شرقا وغربا۔ یعنی تراویح بیس رکعت ہے ۔ یہی جمہور علماء کا قول ہے اور مشرق و مغرب ساری دنیا کے مسلمانوں کا اسی پر عمل ہے (شامی جلد اول 474).
17۔اور شیخ زین الدین ابن نجیم مصری رحمة اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں ھو قول الجمهور لما في المؤطا عن يزيد بن رومان قال كان الناس يقومون في زمن عمر بن الخطاب بثلاث وعشرين ركعة وعليه عمل الناس شرقا وغربا- یعنی بیس رکعت تراویح جمہور علماء کا قول ہے اس لئے کہ موطا امام مالک میں حضرت یزید ابن رومان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام تئیس رکعت پڑھتے تھے (یعنی بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر) اور اسی پر ساری دنیا کے مسلمانوں کا عمل ہے۔بحر الرائق جلد دوم 22) .
18۔اور عنایہ شرح ہدایہ میں ہے کان الناس يصلونها فرادى الى زمن عمر رضی الله تعالى عنه فقال عمر انی ارى ان اجمع الناس على امام واحد فجمعه على ابي بن کعب فصلی بهم خمس ترويحات عشرين رکعة – یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ شروع زمانه خلافت تک صحابہ کرام تراویح الگ الگ پڑھتے تھے بعدہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں ایک امام پر صحابہ کرام کو جمع کرنا بہتر سمجھتا ہوں پھر انھوں نے ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر صحابہ کرام کوجمع فرمایا حضرت ابی نے لوگوں کو پانچ ترویحہ بیس رکعت پڑھائی ۔
19۔اور کفایہ میں ہے كانت جملتها عشرین رکعة وهذا عندنا وعند الشافعی یعنی تراویح کل بیس رکعت ہے اور یہ ہمارا مسلک ہے اور یہی مسلک امام شافعی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی ہے۔
20۔ اور بدائع الصنائع جلد اول ص288 میں ہے واما قدرها فعشرون ركعة فی عشر تسليمات فی خمس ترويحات كل تسلمتين ترويحة وهذا قول عامة العلماء ۔یعنی تراویح کی تعداد بیس رکعت ہے پانچ ترویحہ دس سلام کے ساتھ ، ہر دو سلام ایک ترویحہ ہے اور یہی عام علماء کا قول ہے ۔
21۔اور امام غزالی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں وهی عشرون رکعۃ یعنی تراویح بیس رکعت ہے (احیاء العلوم جلد اول ص 201).
22۔ اور شرح وقایہ جلد اول ص 175میں ہے۔ سن التراویح عشرون رکعة یعنی بیس رکعت تراویح مسنون ہے.
23۔ اور فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص108 میں ہے وهي خمس ترويحات كل ترويحة اربع ركعات بتسليمتين كذا في السراجية یعنی تراويح پانچ ترویحہ ہے ہر ترویحہ چار رکعت کا دو سلام کے ساتھ۔ ایسا ہی سراجیہ میں ہے۔
24۔ اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں عددہ عشرون رکعۃ یعنی تراویح کی تعداد بیس رکعت ہے (حجۃ اللہ البالغہ جلد دوم ص 18)
بیس 20 رکعت نماز تراویح؟
27
Dec