ہیپناسس

ظہورات ہپنا ٹزم

اب ہم ان ظہورات خاص پر غور کرتے ہیں جو ہپناٹک نیند کے دوران دیکھے جاتے ہیں اس کے بعد ہم برن ہیم کے اصولوں پر چل کر ان کا تعلق ان ظہورات سے قائم کرنے کی کوشش کریں گے جو ان سے ملتے جلتے اور روز مرہ کی زندگی میں دیکھے جاتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہپناٹک نیند بجائے خود ایک جداگانہ چیز ہے جو ہر چند کے بعض باتوں میں معمولی نیند سے ملتی جلتی ہے تا ہم بعض باتوں میں اس کا اختلاف یعنی اہم ہے اس کی اطمینان بخش تو زی میں کوئی متفقہ بات ابھی تک پیش نہیں کی جا سکتی لیکن یہ بات محسوس کرنا مفید اور دلچسپ ہے کہ ہیپناٹک نیند کی اکثر ظہورات کی نظیر روزانہ زندگی میں بھی ملتی ہے اس طرح ہپناٹزم اس قدر پراسرار چیز نظر نہیں آتی جیسی کہ بادی النظر میں معلوم ہوتی ہے زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ حالت بیداری میں ہی ترغیب سے کام لیا جائے اور مریض کے دل کو مضبوط کیا جائے ہیپناٹک نیند کے ذریعے علاج کرنے کے طریقے کو صرف خاص ضروری حالتوں کے لیے رکھا جائے لیکن یہ مسائل اس قسم کے ہیں جن پر ہم مشورات اور تعلیم کے باب میں زیادہ وضاحت سے بحث کر سکیں گے catalepsy جمود یعنی بدن کا اکڑ جانا گہری ہیپناٹک نیند کا ایک خاص ظہور ہے جس شخص پر ہپنا ٹزم کیا گیا ہو اس کا بازو اگر اٹھا کر کھڑا کر دیا جائے تو اسے چھوڑ دینے پر بھی وہ بدستور کھڑا رہتا ہے اگر ایک بار ایسا نہ ہو تو عامل کے لیے فقط اس قدر کافی ہوتا ہے کہ وہ بازو کو مضبوط پکڑ کر پھر ایک بار اسے اٹھائے اور مشورہ دے کہ یہ اسی طرح کھڑا رہے اس پر یقینا وہ کھڑا رہے گا اس بات کا ثبوت کہ معمول اپنی مرضی سے اسے نیچے نہیں لا سکتا اس طرح ملتا ہے کہ اگر 25 20 منٹ تک بھی ہاتھ اسی حالت میں رہے اور معمول کوئی تھکان یا کوشیدگی محسوس نہ کرے اس کے بازو کو نہایت آہستگی کے ساتھ نیچا لا کر چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے مریض کو خوف غصہ یا اغراض نفسانی کی کسی اور حالت میں اسی طرح رکھا جا سکتا ہے جیسا مشورہ دے دیا ویسا ہی وہ رہے گا بازو یا ٹانگوں کو مسلسل تھوڑی دیر تک گھمایا جا سکتا ہے ان حرکات میں سے ہر ایک کو عامل اپنے اشارے سے روک سکتا ہے مگر معمول اپنی مرضی نہیں روک سکتا جتنی زیادہ مرتبہ کسی معمول پر عمل کیا گیا ہو اسی قدر زیادہ جلد وہ عامل کے مشورات سے متاثر ہو کر ان کے مطابق عمل کرنے لگتا ہے اختناق الرحم کہ مریضوں میں عضاء کے اکڑاؤ کی یہ حالت بسا اوقات بغیر کسی خارجی ہپناٹک مداخلت کے خود اپنے ہی تاثر سے پیدا کی جا سکتی ہے کیونکہ مریض اختناق الرحم میں دل کی حالت کسی وقت خاص وہمی ہوتی ہے اس وقت مشورات اس پر بھی اثر کرتے ہیں اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روزمرہ کی زندگی کے کن حالات میں جمود کا ایسا ظہور دیکھا جا سکتا ہے یہ بات عام طور پر دیکھی گئی ہے کہ معمولی گفتگو کرتے وقت اگر کسی مریض کا ہاتھ یا بازو کھڑا ہو جائے تو بسا اوقات وہ اس وقت بھی اسی طرح کھڑا رہتا ہے جب سہارا ہٹا لیا جائے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مریض کا ہاتھ اٹھانے کے فعل کا اس کے لاشعور پر اثر پڑا ہے کہ گویا اس کو اس کے اٹھائے رکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے اس کے علاوہ سارے ہپناٹزم کے ماہروں کا تجربہ ہے کہ 90 فیصد ادمی جو اپنے بدن کو ڈھیلا کرنا جانتے ہوں شاید ہی کبھی وہ اپنے بدن کو ڈھیلا کر کے ارام پہنچاتے ہیں نیند میں البتہ بدن ڈھیلا پڑ جاتا ہے مگر وہ لوگ اس بات سے اس تک واقف نہیں ہوتے جب تک کہ عامل اس کے بدن کو ڈھیلا کر کے اسے تجربہ قرار دے پھر بھی وہ خود سے ڈھیلا نہیں کرتے ہیں ڈھیلے پن کی علامت یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا ہاتھ اور بازو پکڑ کر اس سے کہو کہ تم اپنی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہ کرو اور میں اسے جس طرح موڑوں کھڑا کروں یا حرکت دوں کرنے دو اوسط درجے کا آدمی کبھی ایسا نہیں کرنے دے گا اگر وہ خود ایسا کرنا چاہے گا تو بھی بازو کی طرف سے خود بخود مزاحمت پیدا ہو جائے گی اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب آپ نے بازو اونچا اٹھایا ہوا ہو تو اپنا ہاتھ یکا یک ہٹا لینے سے وہ ذرا سے وقت کے واسطے وہیں کا وہیں کھڑا رہے گا یا اگر وہ کھڑا ہو اور اپ اسے نیچا کریں تو بازو کی طرف سے کچھ نہ کچھ مزاحمت ضرور ہوگی اکڑاؤ کی علامت روزانہ زندگی میں اس وقت دیکھی جاتی ہیں جب انسان کسی شدید جذباتی حالت میں ہو چاہے اس وقت یہ حالت چند ہی سیکنڈ کے لیے قائم رہے مثلا کوئی شخص کوئی فعل کر رہا ہو تو کسی تیز جذبہ کا اثر پڑنے سے وہ اسی حالت میں بے حس و حرکت کھڑے کا کھڑا اور بیٹھے کا بیٹھا رہ جاتا ہے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نہایت نازک موقع درپیش ہے مگر انسان پر خوف کی بدولت ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ اسے کچھ کرتے دھرتے بن نہیں پڑتا جس طرح ہیپناٹک اثر سے اکڑاؤ پیدا کیا جا سکتا ہے ویسے ہی کسی خاص عضو پر فالج کا اثر طاری کرنا بھی ممکن ہے چنانچہ وہ بازو یا ٹانگ جس پر اس قسم کا اثر ڈالا گیا ہو عامل کا حکم پا کر بے حس و حرکت کھڑی رہ جاتی ہے اور کوئی فعل سرانجام نہیں دے سکتی ایسے ہی اگر چاہو تو مریض کو مجبور کر سکتے ہو کہ وہ انکھیں بند رکھے کیونکہ وہ اس حالت میں انہیں بالکل کھول نہ سکے گا ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ جتلا دیا جائے کہ وہ ایسا کرنے کے ناقابل ہے پھر جب تک عامل حکم نہ دے گا وہ انکھوں کو بند ہی رکھے گا یعنی جب اس کو مشورہ مل گیا کہ فلاں کام نہیں کر سکتا تو وہ نہیں کر سکے گا ہیپناٹک نیند کی زیادہ گہری حالتوں میں معمول بیرونی دنیا سے بالکل بے خبر ہو جاتا ہے وہ صرف عامل کی بات سنتا اور اس پر عمل کرتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو اسے نیند کی باتیں جزوی و کلی طور پر بھول چکی ہوتی ہے اس گہری نیند کو Sabnamboulism خواب گراں کہتے ہیں ممکن ہے معمول بے خبر ہو مگر اس کی انکھیں کھلی رہیں اٹھ کر کھڑا ہو جائے چلے پھرے اور عامل کے تمام احکام پر عمل کریں اس کی باتوں کا جواب بھی دے مگر جب کوئی اور شخص بلائے تو اسے جواب نہ دے یا نہ دے سکے اس حالت کو اصطلاح میں مہویت یا عامل کے ساتھEnrapport مل جانا کہتے ہیں اگر معمول پر علاج کی غرض سے ہپنا ٹزم کیا جا رہا ہو تو عامل عام طور پر یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ کوئی اور شخص اس وقت تک معمول پر ہپناٹزم نہ کر سکے گا جب تک کہ میری اپنی خواہش ایسا کرنے کی نہ ہو گہری نیند کی یہ حالت ابھی تک ہمارے لیے ایک معمہ ہے اور اس لحاظ سے بے حد دلچسپ بھی ہے مگر ہمارا علم اس قدر محدود ہے کہ ہم سر دست یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔گہری نیند کی حالت میں اکثر معمول عامل کے خیالات کے پابند ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کسی تماشہ میں وہ عامل ہر قسم کے مشورات پر چاہے وہ کتنے ہی مضحکہ خیز ہاں کمل کر کے پبلک میں سامان دل لگی پیدا کرتے ہیں مگر یہ بیان کرنا غالبا غیر ضروری ہوگا کہ اپنا ٹزم کے طبی استعمال میں مزہ کا خیز باتوں سے کام لینے کی کوئی اجازت نہیں ہے Somnabbulism خواب گراں کی حالت ان لوگوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جن کو نیند میں اٹھ کر چلنے کی بیماری ہو جاتی ہے ہم جانتے ہیں کہ ایسا شخص نہ صرف ایک کمرے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں جا اور ا سکتا ہے بلکہ بالکل بے خبری کی حالت میں کئی ایک عجیب اور بعض اوقات خطرناک افعال کا بھی مرتکب ہوتا ہے مگر جب دوسرے دن صبح کے وقت بیدار ہوتا ہے تو اسے یہ واقعات بالکل یاد نہیں ہوتے دیکھا گیا ہے کہ خواب گراں یا گہری نیند کی حالت میں معمول کسی بھی قسم کے درد کو محسوس نہیں کرتے اسی بے حسی کی حالت کو اصطلاح میں انستھیزیا کہتے ہیں یہ بے حسی ایسی کامل ہو جاتی ہے کہ معمول کے بازو میں اس وقت اگر پن چبھو دیں تو وہ کسی قسم کی حرکت نہیں کرے گا بیدار ہونے پر اس کو اس بات کا یقین نہ آئے گا کہ میرے بدن میں پن چبھو دی گئی اور مجھے اس کا علم تک نہ ہوا اس سے پہلے ہم اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ جس زمانے میں ابھی کلوروفارم دریافت نہیں ہوا تھا تو اسڈیل وغیرہ اسی طریقے کی مددسے چھوٹے بڑے عملے جراہی کیا کرتے تھے زمانہ حال میں ایک سے زیادہ موقعوں پر ہیپنا ٹک نیند کہ یہ حالت میں بغیر کسی تکلیف کے دانت نکالے گئے ہیں بے حسی کی یہ حالت ہپناٹزم کی ہلکی نیند میں بھی مشورے کے ذریعے پیدا کی جا سکتی ہے چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ مریض ہوش میں ہے مگر دانت نکالتے وقت اسے ذرا بھی تکلیف نہیں ہوئی تھی یہاں تک کہ نکلا ہوا دان دیکھ کر ہی اسے یقین ہوا ہے کہ میرا دانت نکالا گیا ہے یہ بات مشہور ہے کہ بے حسی کی ایسی مکمل حالت شدید حادثات میں ہمیشہ دیکھی جاتی ہے ایسے موقعوں پر باخبری پورے طور پر زائل نہیں ہوتی زخمی شخص سے پوچھو تو وہ بتائے گا کہ حادثہ کے وقت مجھے کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہوئی تھی سب سے پہلے جب خون بہنے لگا تو معلوم ہوا کہ مجھے زخم ایا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی حالتوں میں فوری صدمہ قوت احساس میں ایک قسم کا فالج پیدا کر دیتا ہے ورنہ اگر ایسی تکالیف معمولی طور پر پیش ائیں تو شدت کا درد محسوس ہو یقین دیا جا سکتا ہے کہ جو لوگ شہید ہوا کرتے ہیں وہ شہید ہونے کے خیال سے اپنی وقعت کا اس قدر احساس کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں بدنی تکالیف یا درد کا مطلق احساس نہیں ہوتا ہر شمیدس کی ہی مثال لے لیں کہ برج میں بیٹھا ایک گہرے مسئلے کو حل کر رہا تھا اس کے انہماک کا یہ عالم تھا کہ اسے معلوم تک نہ ہوا کہ مجھے ایک گولی ا کر لگی ہے جس سے زندگی خون کے راستے بہے چلی جا رہی ہے مریضان ہسٹیریا اختناق الرحم میں چونکہ متاثر ہونے کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے اس سے وہ مشورہ کے ذریعے جسم میں بے حسی کہ رقبات پیدا کر سکتے ہیں یہاں تک کہ ان حصوں میں اگر سوئیاں بھی چبھوئی جائیں تو کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی باقی ہوا سے خمسہ کے متعلق یہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ہیپناٹک حالت میں انسان کو ایسا بنا دیا جا سکتا ہے کہ وہ عارضی طور پر دیکھنے سننے چکنے یا سونگھنے کے قوی سے محروم ہو جائے یا اس کے اندر یہ قوی صرف اسی درجے تک محدود رہیں جتنی عامل اجازت دے ہو سکتا ہے کہ عامل کے حکم پر معمول تیز امونیا کو سونگھ کر یہ کہہ دے کہ اس میں بو نہیں ہے کڑوی چیز کو پی کر کہہ دے کہ یہ بے ذائقہ ہے یا کمرے میں کوئی اسباب یا شخص موجود ہو اور وہ اسے نظر نہ ائے مریضان ہسٹیریا میں بھی اس قسم کی بہت سی بعید از عقل علامات ذاتی مشورات کی بدولت پیدا ہو جاتی ہیں کوئی بڑا ہی ہوشیار ذی فہم ڈاکٹر ہو تو وہ اس بارے میں امتیاز کر سکتا ہے کہ یہ علامات بدنی وجود سے تعلق رکھتی ہیں یا ہیپناٹک ہیں اس مطلب کے لیے بعض اوقات مریض سے صحیح حالات اس وقت معلوم کر لیے جاتے ہیں جب وہ چنداں محتاط نہ ہو اس کے بعد اسے یقین دلا کر اس کی ذاتی تکالیف کو رفع کیا جا سکتا ہے۔گہری ہیپناٹک نیند کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بعض اشخاص میں illusion خیالات دھوکہ دہی مایا جال hallucination( سودائیت) بہت بڑھ جاتی ہے مایا جال یا خیالات دھوکہ دہی سے مطلب ہے کہ جو چیز ہو اس کے برعکس سمجھا جائے ایسی حالت میں پانی کا گلاس شراب کا گلاس کہہ کر دے سکتے ہیں اور معمول اسے اسی طرح گھونٹ گھونٹ پیے گا جیسے حقیقت میں شراب ہی ہو سودا اس حالت کا نام ہے کہ جو چیز موجود نہ ہو اس کو سمجھا جائے چنانچہ معمول کو شراب کا ایک ورزی گلاس پیش کیا جائے تو وہ اسے بڑی سنجیدہ مزاجی کے ساتھ پینے لگے گا اور ایسا محسوس کرے گا کہ وہ اعلی درجہ کی حقیقی شراب ہے کسی ہوشیار قسم کے معمول کو اس بات پر امادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے کریکٹر کو ایک کریکٹر کی سی ہوشیاری اور قابلیت کے ساتھ ادا کرے ایک وقت وہ اپنے اپ کو چھ سال کا بچہ سمجھ کر اپنے ہم عمر بچوں سے کھیلنے لگتا ہے پھر عامل کے کہنے پر وہ اپنے اپ کو 16 سالہ حیا دار لڑکی سمجھتا ہے اس کے بعد یکا یک فوج کا جرنیل بن جاتا ہے لیکن یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تجربات سے اس صورت میں کرنے چاہیے جب ہیپناٹک نیند کے ظہورات کو پورے طور پر سمجھنا مطلوب ہو ان ظہورات سے متشابہ حالتیں جو روزانہ زندگی اور نیند کے وقت دیکھی جاتی ہے نہایت دلچسپ ہے اور ان کے نظائر باسانی پیش کیے جا سکتے ہیں اگر ہم ایک خاص قسم کی اعلی درجہ کی چائے پینے کے عادی ہوں اور یکایک کسی موقع پر کوئی ادنی قسم کی چائے اعلی قسم کی کہہ کر ہمارے روبرو پیش کر دی جائے تو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم اس کے دھوکہ میں اس ادنی درجہ کی چائے کو اعلی درجہ کی ہی سمجھنے لگتے ہیں ویسا ہی ذائقہ حاصل کرتے ہیں اگر کسی مریضہ کو اس بات کا یقین ہو گیا ہو کہ کیلو مل میری طبیعت کے نام موافق ہوتی ہے تو بعض حالتوں میں اس کا نام صرف کلورائڈ اف مرکری رکھ لینے سے اس کے تمام ناخوشگوار اثرات وہ رنزائل ہو جاتے ہیں اور مریض کو اس بات کا پورے طور پر یقین ہو جاتا ہے کہ اسے کوئی اور ہی دوا دی گئی ہے بازار میں بہت سی پیٹینٹ مقوی بالکل دوائیاں فروخت ہوتی ہیں ان میں اکثر میں صرف ایک دھیلے کی دوا ہوتی ہے پھر کیا بات ہے کہ لوگ ان کے استعمال سے طاقت حاصل کر سکتے ہیں سچ پوچھو تو جو شخص ان معمولی دواؤں سے صحت حاصل کر لے اس کی حالت اس شخص سے کچھ بھی مختلف نہیں جس پر ہپناٹزم کیا گیا ہو اور وہ بے خبری کے عالم میں پانی کا گلاس یہ سمجھ کر پینے لگے کہ یہ نادر شراب کا جام ہے حالت خواب میں انسان بہت سے فرضی نظاروں سے گزرتا ہے وہ بہت سے فرضی کام کرتا ہے وہ ان کاموں میں بعض اوقات ایسے انہماک سے حصہ لیتا ہے کہ کبھی تو کسی بھیانک نظارہ کو دیکھ کر چلا اٹھتا ہے کبھی کسی مذاقیہ معاملہ پر خواب ہی میں کہکا مار کر ہنستا ہے اور کبھی کسی فرضی سانحہ پر حقیقی آنسو بہانے لگ جاتا ہے رات کے خواب کا کیا ذکر ہے دن کے خوابوں میں بھی ہم زمانہ ماضی و مستقبل کے نظاروں سے گزرتے ہیں اور بہت سے مقامات اور لوگوں کو جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا اس طرح دیکھتے ہیں کہ گویا وہ حقیقی ہوں بعض اوقات یہ نظارے ایسی صفائی سے ہماری نظروں سے گزرتے ہیں کہ ہم اچانک بیدار ہو کر بھونچکے رہ جاتے ہیں اور بے اختیار منہ سے نکلتا ہے°خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔اب ہم سودا بعیدی یعنی ہپناٹزم کے بعد کے خیالات post hipotics hallucinations اور مشورات سجیشن کے اس پہلو پر بحث کرتے ہیں جس کا تعلق طب قانونی سے ہے سودا بعیدی ہپناٹزم سے مراد ایسے قیاسات ہیں جو معمول پر حالت بیداری کے بعد بھی اثر انداز رہتے ہیں اور انہیں صرف اس طرح دور کیا جا سکتا ہے کہ معمول پر اثر نوح ہپناٹزم کر کے اس کے اندر اس سے مخالف خیالات جاگزیں کیے جائیں جو پہلے اس کے دل میں بیٹھ چکے ہیں اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص پر ہپناٹزم کر کے اسے یقین دلا دیا جاتا ہے کہ اس کا مال کھو گیا ہے یا یہ کہ اس نے کوئی بھیانک واردات بچشم خود دیکھی ہے بیداری کے بعد اگر اس سے اس بارے میں سوالات پوچھے جائیں تو وہ ان تفصیلات کو پورے اعتماد کے ساتھ بیان کرے گا یہاں تک کہ اگر موقع پیش ائے تو وہ قانونی عدالت میں اس کے متعلق شہادت بھی دے سکے گا یہ بات بارہا دیکھنے میں ائی ہے کہ بعض لوگ افسوس ناک واقعے کو لے کر اس کی فرضی تفصیلات کس ہوشیاری سے تیار کر لیتے ہیں وہ اپنے سوداوی خیالات سے کام لے کر اس واقعہ کو ایسا پھیلاتے ہیں کہ انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ ہم نے اس کی ہر ایک تفصیل خود دیکھی ہے فقط اتنا کافی ہے کہ کسی شخص پر خفیف سا شبہ ہو یا ذرا سی افواہ پھیل جائے پھر یہ لوگ ضروری تفصیلات خود پیدا کر لیتے ہیں یہ اپنے دل میں اس بات کا پختہ یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ ہے امر واقعہ ہی ہے اس کی بہترین نظیر عدالتوں میں اس وقت دیکھی جاتی ہے جب سوالات جرح کے ذریعے شہادت کی چھان بین کی کوشش کی جاتی ہے یہ ایک مشہور بات ہے کہ وکیل ہوشیار ہو تو وہ کسی گواہ کی زبانی مخالف کی تردید میں بیانات کہلوا سکتا ہے وہ اس قسم کے اعتمادی لہجے میں اسے سمجھا دیتا ہے کہ اس نے فلاں فلاں واقعات کو دیکھا تھا یا فلاں فلاں کو نہیں دیکھا تھا اس بارے میں تجربہ اس طرح کر کے دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگوں کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کہ انہوں نے خاص خاص باتیں کی یا دیکھی ہیں ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ پورے اعتماد کے ساتھ اصرار کرتے جائیں کہ ایسا ہوا تھا پھر یقینا اس کے منوانے میں کامیابی ہو جاتی ہے بارہا ایسے مواقع پیش آئے ہیں کہ اصرار کے ساتھ کسی شخص سے کہا جاتا رہا ہے کہ اس نے فلاں کام کیا تھا ممکن ہے پہلے وہ ایسا کرنے سے کانوں پر ہاتھ دھرے مگر آخر کار اسے تامل اور شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ شاید میں نے ایسا ضرور کیا تھا اور اب اسے فراموش کر چکا ہوں۔اس جگہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گہری ہیپناٹک حالت کے ایک اور ظہور پر بحث کی جائے جس سے علاج بذریعہ ہپناٹزم میں عملی مدد ملتی ہے ہمارا اشارہ مشورات ما بعد ہپناٹزم یعنی post hypnotic suggestion کی طرف ہے یہ مشورات اس قسم کے ہوتے ہیں جو مریض کو ہیپناٹک نیند کی حالت میں دیے جاتے ہیں جن کا اثر ایک مدت کے بعد جو ممکن ہے چند گھنٹے ہو یا تمام دن یا چند ہفتے ظہور پذیر ہوتا ہے تجربہ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بعض معمولوں کو جو احکام دیے گئے انہوں نے اس کو کامل صحت کے ساتھ پورا کیا یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک معمول ایسا تھا یا نہیں اسی ظہور کی دلچسپ مثالیں ہمیں ان خوابوں کی بدولت مل سکتی ہیں جو بعض موقعوں پر دیکھے گئے ہیں ایسے بے شمار واقعات مشہور ہیں کہ نیند کی حالت میں لوگوں نے ایسے کام کیے ہیں جو بحالت بیداری بعید از امکان تھے اور بیداری کے بعد ایسے کاموں کا پتہ بھی نہیں چلتا لیکن ان کا ثبوت ان کاموں کے وجود ہی سے مل سکتا ہے چنانچہ پگا نینی کے متعلق مشہور ہے کہ ایک روز جب وہ علی الصبح بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ بستر کے پاس اس کے مشہور گیت کے صفحے کے صفحے لکھے دھرے ہیں اس نے خواب میں ایسا کیا تھا لیکن اس نے شیطان ہی سے منسوب کیا بعض اوقات ایسا ہوا ہے کہ لوگ حالت بیداری میں پیچیدہ مسائل کو حل نہیں کر سکے مگر نیند کی حالت میں وہ خود بخود حل ہو گئے چاہے یہ مسائل ریاضی کے ہوں یا روزانہ زندگی کے متعلق وہ لوگ حالات کی اس حالت سے یہاں تک واقف ہو چکے ہیں کہ بعض اوقات جب کوئی دشوار معاملہ درپیش ہوتا ہے تو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اسے ذہن میں رکھ کر سو جائے تاکہ بوقت بیداری اس سوال کا کوئی نہ کوئی حل سمجھ میں ا جائے اور پھر اس وقت اس حل کے مطابق عمل کیا جائے تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کا حافظہ یکا یک زائل ہو جانے کی بہت سی پراسرار اور دلچسپ نظیریں دیکھی گئی ہیں اس ازالہ حافظہ کے ساتھ ہی اشخاص مذکور کو اس وقت تک اپنی زندگی کا بھی کوئی خیال نہیں رہتا یہاں تک کہ اس کے نزدیک ان کی سابقہ شخصیت بھی محو ہو جاتی ہے ایسی حالت میں ممکن ہے کہ وہ کسی دور روزانہ مقام تک سفر کر جائے وہاں کوئی فرضی نام اختیار کر کے اباد ہوں مہینوں یا برسوں کو معمولی حالات میں پوری سمجھداری سے کاروبار کرتے رہیں اس کے ایک دن بعد ان کی قوت حافظہ ویسی ہی تیزی سے لوٹ ائے جس طرح کے زائل ہوئی تھی وہ بدنصیب شخص بیان نہیں کر سکے گا کہ وہ کس طرح ان عجیب حالات میں آنکلا ایک اور قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ قوت حافظہ زائل ہونے کے ساتھ ساتھ ہی اکثر اوقات شخص مذکور کا کریکٹر بھی بدل جاتا ہے واپسی حافظہ کے ساتھ ساتھ پرانا کریکٹر پھر عود کر آتا ہے اس عمل کو شخصیت سے علیحدگی کہا کرتے ہیں اور اس کی بہت سی مثالیں مریضان اختناق الرحم اور کسی قدر ترمیم شدہ صورت میں روزانہ زندگی میں دیکھی جاتی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ شخص مذکور کے خیالات ایسا ساتھ اور ذہنی حالتوں میں مجموعی طور پر کوئی تبدیلی واقعہ نہ ہو صرف ایک خیال احساس یا ذہنی حالت کچھ عرصے تک نامناسب اور خلاف فطرت طریقے پر اس شخص کی زندگی پر حاوی ہو مریضان اختناق الرحم میں یہ تبدیلی کسی جذبہ کی وجہ سے ظہور میں آتی ہے اس قسم کی جداگانہ شخصیت کی نہایت مشہور مثال فلیڈا کی ہے جو بورڈ کے ڈاکٹر آزم نے لکھی ہے 13 سال کی عمر میں فیلڈ ایک روشن خیال پھرتیلی لڑکی تھی پھر وہ یکا یک چپ چاپ رہنے والی اداس اور تکلیف زدہ لڑکی کی صورت میں بدل گئی اس حالت میں اسے تین سال گزر چکے تھے یہ امر ڈاکٹر آزم کی نظروں میں لایا گیا گاہ بگاہ ایک ہلکی سی غشی کے بعد وہ مختصر عرصے کے لیے اپنی اصلی حالت میں ا جاتی تھی لیکن اس عرصے میں وہ اپنی ثانی کریکٹر کو بھی نہ بھولتی تھی مگر جب وہ پھر اداس اور تکلیف د حالت میں اتی تو اسے وہ وقت ضرور بھول جاتا تھا جب وہ ایک خوش مزاج لڑکی ہوتی تھی لیکن خوش نصیبی سے جوں جوں عمر گزرتی گئی فلیڈا کی پہلی حالت جو معمولی قرار دی جا سکتی ہے اس پر غالب اتی گئی یہاں تک کہ عملی طور پر وہی اس کی زندگی پر حاوی ہو گئی کم تر درجے میں ہمیں روزانہ زندگی میں اس طرح تبدیل ہونے والی شخصیت کی بہت سی مثالیں نظر آتی ہیں۔سٹیونسن نے اپنی کتاب ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈ (جس کا ترجمہ اردو میں ڈاکٹر جے کشن اور میاں حمید کے نام سے ہو چکا ہے) اس قسم کی دو گنا شخصیت کا ایک دلچسپ خاکہ کھینچا ہے یعنی اس میں ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائیڈ کو دراصل ایک ہی شخص دکھایا گیا ہے تا ہم اول الذکر تو لندن کے حصے میں ویسٹ اینڈ کا ایک معزز اور قابل تعظیم ڈاکٹر ہے اور اخر الذکر جو انسان کی نسبت حیوان سے زیادہ مشابہ ہے ایک دوائی کے اثر سے بدتر حالت میں پڑھ کر اپنی لیبارٹری میں افعال قبیحہ کا مرتکب ہوتا وہ اپنی اس حالت کی طرف اسی طرح کھینچا چلا جاتا ہے جیسے شرابی شراب کی طرف جو لوگ شراب یا نشے کے عادی ہیں ان کی بھی یہی حالت عام طور پر پائی جاتی ہے جب ایک ادمی شراب کے اثر سے باہر سنجیدہ مزاج ہوتا ہے تو وہ معزز کاروباری اور قابل نظیر شوہر یا باب نظر اتا ہے مگر وہی شخص سراب کے نشے میں پڑ کر مسٹر ہائیڈ کی طرح انسان بن جاتا ہے خود ہمارے اندر یہ دو گنا شخصیتیں نظر اتی ہیں گو باز میں ان کا اثر کم اور بعض میں زیادہ ہوتا ہے چنانچہ ہر شخص کی بہتر اور بدتر حالتیں ہوتی ہیں ہم میں سے بعض کے کریکٹر کے کئی پہلو ہوتے ہیں گو عام طور پر ہم انہیں ایک ہم اہنگ مجموعہ کی صورت میں دیکھتے ہیں تا ہم اگر کسی شخص کا مزاج عصبی اور غیر معین ہو تو کوئی فوری صدمہ یا جوش کسی ایک پہلو کو کم اور کسی کو غالب بنا سکتا ہے خوش قسمتی سے اس قسم کی دہری ذہنی حالتیں اکثر عارضی ہوتی ہیں ایک شخصی کریکٹر کے یکا یک تبدیل ہونے سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ دور دراز ملکوں میں نکل جاتے ہیں ایک مدت کے بعد جب انہیں ہوش اتا ہے تو وہ بیان نہیں کر سکتے کہ ہم کیوں کر اس جگہ پہنچ گئے ہپناٹزم نے سب سے کارآمد خدمات ان دو گونا یا کئی گنا شخصیتوں اور حافظہ کے پراسرار ازالہ کی تحقیقات کے معاملے میں سرانجام دی ہیں جن لوگوں کا حافظہ زائل ہو گیا تھا انہیں ہیپناٹک نیند کے اثر میں لا کر سب کا زندگی کی تفصیلات بتا کر ان کے حافظہ کو بیدار کیا گیا اور ان کی دوسری شخصیت کو ان کے ذہن سے محو کر دیا گیا اور انہوں نے پھر اپنا سابقہ کاروبار شروع کر دیا دوہری شخصیتیں رکھنے والے یا اس سے متعلقہ حالات کے اشخاص کے بارے میں ہپناٹزم سیم عدد لی گئی ہے کہ ہپناٹک نیند کی حالت میں ان سے اس صدمہ یا جذبہ کی تفصیلات معلوم کی گئی جس کی بدولت ان کی اصلی شخصیت میں فرق آیا تھا کیونکہ یہ باتیں عام بیداری کی حالت میں معلوم نہ کی جا سکتی تھیں ایسے موقعوں پر معلوم ہوا ہے کہ اصلی سبب کا تعلق لاشعوری زندگی اور بچپن کی کسی ناخوشگوار یاد سے تھا جب ایک بار ان باتوں کو ان کی اصلی روشنی میں لایا گیا ان پر بحث کی گئی نیز ان مختلف پہلوؤں کو سمجھایا گیا اور موجودہ حالت سے ان کا تعلق قائم کیا گیا تو پھر اکثر حالتوں میں اس جداگانہ شخصیت کو اصلی شخصیت سے ملا کر زندگی کو اس کی معمولی اور عام حالت میں لے آیا گیا
ص:26