ہیپناسس

ہیپناٹزم کی مزید تاریخ

سب سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہےکہ مختصر لفظ میں ہپناٹزم کا شجرہ نسب بیان کیا جائے اور ایسا کر تے ہو ئے بتایا جائے کہ مشورات ذہنی تمام جدید ذہنی طریق علاج سے جسے اصطلاح میں مانک چکتسا Phsyco therputicsکہتے ہیں۔ اس کاکیا تعلق ہے ۔ہپناٹزم یا میگنٹزم رقوت مقناطیسی) کی شہرت اول اول اٹھارہویں صدی کے اخیر میں لفظوں 1878 میں اس وقت ہوئی جب آسٹریا کا ایک طبیب اینٹن مسمر پیرس آکر ملکہ میری اینٹنٹMarie antentکے زیر سرپرستی مقناطیسی قوت کے اثرات سے علاج کر نے لگا۔ اسی میسمر سے کے نام پر مسمر بزم اور اس کے مقناطیسوں کے نام پر میگنیٹزم کی اصلاحات رائج ہوئیں میسمر کادعوی تھا کہ میں امراض کا علاج مقناطیسی پلیٹیوں ، تعویزوں، انگوٹھیوں اور کالروں کے استعمال کے ذریعے سے کرتا ہوں ۔ ان چیزوں کے اندر ایک قسم کا مقناطیسی عرق بھرا ہواہوتا ہے اور میرے اختیار میں ہے ہے کہ ہاتھ کی حرکت یا جھالوں کے ذریعہ اس مقناطیسی عرق کو بدن کے جس حصے میں چاہوں پہنچا دوں جس وقت میسیمر اسی قسم کا عمل کرتا تو ہر درجہ اور ہر طبقہ
کے لوگ اس نظارےکو دیکھنے جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لوئیس شانزدہم کے دربار کے امراءاور نامورعورتیں بھی وہاں پہنچتی تھیں۔ یہ عمل ایک دھندلی روشنی والے کمرہ میں کیا جاتا تھا۔ اس وقت ساتھ ساتھ باجہ بجتا رہتا تھا ۔ خود میسمر ذرد لباس پہن لیتا تھا اور ہاتھ میں ایک چھوٹی سی لکڑی رکھا کرتا تھا۔ چونکہ علاج کے خواہش مند تعداد کثیر میں جمع ہوا کرتے تھے۔ اس لیے سہولت کی غرض سے کمرہ کے وسط میں ایک بہت بڑا را مقناطیسی ٹب رکھ دیا جاتا تھا اور مریضوں کو اس ٹب کے گرد حلقہ وار بٹھا دیا جاتا تھا۔ اس ٹب کے ساتھ لوہے کے تار لگے ہوئے ہوتے تھے۔ جنہیں مریضوں کے مختلف حصوں میں باآسانی لگا دیا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ بہت سے مریضوں کا علاج ایک ساتھ ہوسکتا تھا میسمر کا عقیدہ تھا کہ انتہائی حالت یا تشنج شفاء کا ضروری حصہ ہے۔ ایک ایسی حالت میں جب کہ حاضرین میں ہے حد جوش پھیلا ہوتا تھا۔ اس کے ظہور پذیر ہونے میں کوئی خاص دقت بھی پیش نہ آتی۔ تھی لیکن رفتہ رفتہ میسم اور اس کا فن بد نام ہونے لگا خود اس کا تضحیکی نظموں اور گیتوں کے ذریعے تمسخر اڑایا جانے لگا اور جب سائنس دانوں کی ایک جماعت نے جسے رائل اکیڈمی آف میڈیسن کی طرف سے اس کے فن علاج کے متعلق تحقیقات کرنےکی غرض سے مقرر کیا گیا تھا۔اس کے خلاف رپوسٹ شائع کی تو وہ اس صدمہ جانکاہ کے ہے بعد دوبارہ سرنہ اٹھا سکا اور اس نے پیرس کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیا۔ لیکن جب اس کے تھوڑے عرصہ بعد انقلاب فرانس رونما ہوا اور اس کے مقلدوں کو بحالت مجبوری مختلف ممالک میں پناہ گزین ہونا پڑا تو وہ اس کی تعلیم کو ساتھ ہی لے گئے۔ آج ہر چند کہ بعض لوگ میسمر کو ایک دغا باز دھوکہ باز ٹھگ قرار دیتے ہیں تاہم اس میں کلام نہیں کہ باوجود اپنی تعلیمی غلطیوں کے زمانہ حال کے طریق علاج ذہنی کے بانیوں میں اول نمبر پر وہی ہے ہے۔ 1784 میں میسمر کے ایک چیلے مار کوئیس ڈی پولسی گر MARQUIS – D.POLSIGER نے اس علم کو پھر زندہ کیا۔ اس کا طریق علاج زیادہ صحیح اور تک سادہ طریق پر چپ چاپ کام کرتا رہا۔ اس کے شفا خانے میں ہر روز بہت ہے لوگ بغرض علاج جاتے تھے۔ مگر پیشہ طبابت کے لوگوں میں کوئی اس سے واقف تھا۔ نہایت غریب اور محتاج مریضوں کو لائی بالٹ سے بہت محبت تھی ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کا ان کے امراض پر حیرت انگیز اثر پڑتا تھا۔ وہ کسی سے فیس نہیں لیتا تھا تا کہ کوئی نہ کہے کہ روپیہ کمانے کے لیے ہپناٹزم کرتا ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مریضوں سے کہا کرتا تھا۔”اگر تم دوائی مانگتے ہو تو میں دے سکتا ہوں مگر تمہیں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی البتہ اگر تم مجھے ہپناٹائز کرنے دو تو میں اس کی کچھ فیس نہ لوں گا”.
لائی بالٹ کا عقیدہ تھا کہ ہپناٹزم کی مدد سے جو نیند پیدا کی جاتی ہے۔ اس دوران مختلف ظہورات عمل میں لائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ تو کسی مقناطیسی عرق کی ضرورت ہے۔ نہ ذہن کے خیالات ایک بات پر جمع کرنے یا آنکھوں کو کسی چمک دار چیز پر لگانے کی۔
ہم آگے چل کر بیان کریں گے کہ اس زمانے میں بریڈ نے اس آخر الذکر تھیوری کو پبلک کے روبرو پیش کیا تھا۔ ہپناٹک اثر پیدا کرنے کے لیے لائی بالٹ نہ تو جھالوں کی ضرورت سمجھتا تھا نہ کسی روشن چیز پر نظر جمانے کی بلکہ مریض سے کہتا تھا کہ ٹکٹکی باندھ کرمیری آنکھوں کی طرف دیکھتے جاؤ۔ اس اثنا میں مریضوں پر ظہور خواب کا تفصیلی یہ کہہ کر ڈالتا تھا۔”تمھارے پپوٹے بھاری ہو رہے ہیں۔ تم اب اپنی آنکھیں کھلی نہیں رکھ سکتے”.علی ہذالقیاس جب وہ مریض کو اس طرح سلا دیتا تو اسے معالجہ مشورات دیتا جود ذہنی یا جسمانی امراض کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتے تھے۔آخر کار لائی بالٹ کے ایک شاگرد بر نہیم1882ءمیں اس کام کی اہمیت کو محسوس کیا جو چپ چاپ لوگوں کی نظروں میں لائے بغیر نینس میں کیا جارہا تھا چنانچہ اس شخص کی کوششوں سے لائی بالٹ اور اس کے کام کی شہرت ہوئی پرنہیم نے لائی بالٹ کی تعلیم میں اور بھی ترمیم کی اور بتا یا کہ ANAESTHESIA اور مشورات دینے کے درمیان جن کے لیے لائی بالٹ کے خیال میں ہیپناٹک نیند ضروری ہے۔ نیند کی پہلی حالت میں یعنی اس وقت جب کہ معمول اونگھ یا خمارکی حالت میں ہو عمل میں لائے جا سکتے ہیں۔ برنیہم ہمیشہ یہی تعلیم دی کہ گہری ہپیناٹک نیند کے بغیر بھی مشورات کے ذریعے علاج ہو سکتا ہے اور بہتوں نے اس کی تقلید اختیار کر کے ذہنی علاج کا بھی طریقہ برتنا شروع کر دیا۔ ہے گر برن کے ڈاکٹر ڈوبائے نے اس میں اور بھی ترمیم کی ہے۔ اب نہ تو مریض کو گہری میں نیند اور نہ خمار کی حالت میں لانا ضروری ہے بلکہ ان کے خیال میں بموجب ہیپناٹزم کو عمل میں لاۓ بغیر ہی مریض کو حالت بیداری میں صاف اور اطمینان بخش دلائل کی مدد سےیقین دلایا جا سکتا ہے۔اس طریق علاج کو بھی زمانہ حال میں ذہنی علاج کی ایک شاخ سمجھاجاتا ہے ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم سمجھ سکتےہیں کہ ذہنی علاج PSYCHO THERPEUTICS سے مراد کئی قسم۔کے علاج سے ہے جس میں سےبعض حسب ذیل ہیں۔
(1)ہیپناٹک نیند کے دوران میں مریض پر مشوراتی اثر(سجیشن ) ڈالنا۔
(2)ہیپناٹک نیند سے پہلے خمار کی حالت میں اثر ڈالنا۔
(3)بیداری کی حالت میں ترغیبی اثر ڈالنا۔
(4)مختلف صورتوں میں مریض کی دوبارہ تعلیم
اب ہم انگلستان کے مختلف اطبا کے کام پر نظرڈالتے ہیں جو کہ اسی زمانے میں مرکوز کر دیا جائے تو معمول کے اندر ہیپناٹک نیند پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس شخص نے یہ بھی تحقیق کیا کہ مختلف لوگوں میں نیند کی میعاد مختلف ہوتی ہے یعنی بعض کو محض خمار یا اونگھ آئی ہے اور بعض بالکل بے خبر ہو جاتے ہیں۔ بریڈ کی رائے تھی کہ ہیپنا ٹک نیند کا لفظ صرف ان حالتوں میں استعمال کرنا چاہیئے جب کہ معمول تسلیم کرے کہ جو کچھ اثنائے نیند میں ہوا اس کا مجھے کچھ علم نہیں۔ اسی شخص نے اس اصول کی بنیاد قائم کر دی جن کی تشریح آگے چل کر مائیرز MYERS اور کار پینٹرCARPENTER نے کی۔ ہمارا اشارہ ان تھیوریوں کی طرف ہے جن کی روسے ظہور ہیپناٹزم کی توضیح ارفع باخبری کو تسلیم کرنے کے ذریعے کی گئی تھی۔ بریڈ کے پیروؤں کی طرح اس کی بھی اس ملک میں اطباء نے کچھ قدر نہ کی۔ البتہ جرمنی کے لوگ جو اس کام میں دلچسپی لیتے تھے۔ اس کا بے حد احترام کرنے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب جرمنوں نے طبابت میں اس فن سے کام لینا شروع کیاتھا۔ جرمنی میں اس کام کے بانیوں میں قابل ذکر نام بیڈن کے علاوہ جو بریڈ کا سمعسر تھا۔ کہ کرافٹ اینگ، پریر ، یولن برگ اور ویٹر بیڈن ہیں ان کے بعد زمانہ حال میں فورل اور مول دور مشہور شخص گزرے ہیں مگر اس مختصر کتاب میں ان کے کام کا چنداں وضاحت کے ساتھ ذکر نہیں کیا جا سکتا۔بحالات موجودہ براعظم یورپ میں ہیپنا ٹزم کے ذریعے علاج کرنے کے طریقے کو طبابت ہی کی ایک شاخ سمجھا جاتاہے۔ فرانس جرمنی اور سوئیزرلینڈ میں اس قسم کے شفا خانہ موجود ہیں جن میں تھوڑے خرچ سے اس طریق پر علاج کیا جا سکتا ہے ۔برطانیہ میں ابھی تک اس قسم کا کوئی شفاخانہ نہیں کھولا گیا۔ البتہ پرائیویٹ طور پر اس سے خاصہ کام لیا جاتا ہے اور انگلستان کے اکثر بڑے بڑے شہروں میں ایک دو ہپناٹسٹ ضرورپائے جاتے ہی ایک ادارہ PSYCHO MEDICAL سوسائٹی کے نام سے قائم ہے جس کا کام لوگوں کے عملی اور عملی پہلووں سے روشناس کروانا اور ان کی تربیت کرنا ہے۔
بحوالہ: ہپناٹزم کی تاریخ
ص:7