ہیپناٹزم
ہپناٹزم مجموعہ ہے اس طاقت کا جو مذکورہ چار قوتوں کو حاصل کر لینے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اس قوت کا غیر ارادی طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس کے نتائج بھی دیکھتے ہیں مگر ہم میں سے اکثر کو یہ علم نہی ہوتا کہ ہم نے اس قوت کو جزوی طور پر استعمال کیا ہے۔ مثلاً جب کبھی کوئی بچہ گر جائے اور چوٹ کی شدت سے تلملانے لگے تو ہم فوراً اسے اٹھا کراس کو سہلا کر درد سے اس کی توجہ کو منتقل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس سے کہتے ہیں کہ وہ دیکھو موٹر جارہی ہے یا پرندہ اڑ رہا ہے یا پھر اسے مٹھائی وغیرہ کا لالچ دیتے ہیں اور بچہ چپ ہو جاتا ہے۔
کیا اس طرح بچے کی چوٹ کی نوعیت بدل جاتی ہے؟ یا مٹھائی کا لالچ اس کے درد کی شدت پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے؟ آپ نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ چوٹ لگی، بچہ رویا بھی مگر اتنی جلدی چوٹ کا احساس کیونکر ختم ہوگیا ؟شاید آپ نے یہ بھی سوچا ہو کہ چوٹ ووٹ نہیں لگی ہوگی، بچہ محض یونہی چلا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ بچے کو چوٹ لگی تھی۔ درد بھی اپنی جگہ موجود تھا لیکن آپ نے بچے کی توجہ درد کی طرف سے ہٹا کر کسی اور طرف مبذول کرادی اور اس طرح وہ درد کے احساس سے بے بہرہ ہو گیا۔اس طرح آپ کو یہ تجربہ بھی کبھی نہ کبھی ضرور ہوا ہو گا کہ رات کے وقت کسی سے سانپوں کی کہانی سنی یا کوئی کتاب پڑھی جس میں سانپوں کے زہر یلے پن کا ذکر ہوا۔ پھر آپ اس جگہ سے اٹھ کر کسی دوسرے تاریک کمرے میں گئے۔ آپ کو یکایک محسوس ہوا کہ یہاں پر سانپ ہے اور آپ ٹھٹھک کر سہم گئے ہوں۔ آپ کا سانس تیز ہو گیا ہو اور ممکن ہے ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آگیا ہو، پھر آپ نے فورا روشنی کر کے دیکھا ہو تو وہاں بجائے سانپ کےرسی کا ٹکڑا پڑا ہوا پایا ہو اور اگر خدانخواستہ اسی رسی کے ٹکڑے کے ساتھ کوئی سوئی یا پن لگی ہوتی اور آپ کو چبھ جاتی تو پھر ظاہر ہے کیا ہوتا۔مجھے ایک دوست نے بڑا پر لطف قصہ سنایا ایک بار رات گئے وہ یکا یک جاگا اور اسے محسوس ہوا کہ ساتھ والے کمرے میں چور گھسا ہوا ہے اس نے فورا اپنا پستول نکال لیا اور چوکنا ہو کر لیٹ گیا کہ جیسے ہی چور کمرے میں داخل ہوگا فورا گولی داغ دے گا مگر جب کافی انتظار کے بعد چور کمرے میں داخل نہ ہوا تو وہ مجبورا اہستہ سے اٹھا اور دوسرے کمرے میں جا کر بتی جلائی اور دیکھا مگر کوئی چور وہاں نہ تھا۔ اس طرح اس نے یکے بعد دیگرے تمام کمروں کی بتیاں جلا ڈالی چور نہ ملنا تھا نہ ملا تھا ہم اس کا دل دھڑکے جا رہا تھا کہ چور کہیں چھپ گیا ہے لہذا وہ کافی رات تک جاگتا رہا مگر صبح اس کو معلوم ہوا کہ کچھ بھی نہیں تھا محض واہمہ (امیجی نیشن)تھا. یعنی اس امیجی نیشن کے سہارے اس نے خود کو یقین د** لیا کہ چور وہاں موجود ہے اس طرح اس نے وقتی طور پر خود کو ہپنا ٹائز کر لیا۔اپنے اپ کو ہیپناٹائز self hypnotize کرنے کی سب سے زیادہ اجاگر اور اہم مثال محبت اور نفرت نہیں ملتی ہے اپ نے ایسے کئی لوگ دیکھے ہوں گے جو محبت میں اس طرح کھوئے کہ دنیا بھلا بیٹھے اور ایسے بھی دیکھے ہوں گے جو کسی سے نفرت کرنے لگے اور باوجود کوشش کے وہ اس نفرت کے بیچ کو دل سے نہ نکال سکے میں یہاں محبت کے اس افلاطونی فلسفے میں الجھنا نہیں چاہتا جس پر فلسفیوں نے سینکڑوں کتابیں لکھ ماری ہیں میں صرف یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ بڑی وجہ کیا ہوتی ہے؟نفسیاتی طور پر محبت نام ہے پیاس کا تجسس کا جبلت جنسی کا مگر وہ لوگ جو محبت میں دیوانگی کی حد تک بڑھ جاتے ہیں درحقیقت ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں دوسرے معنوں میں وہ اپنے اپ کو ہپنا ٹائز کر لیتے ہیں۔انہوں نے ایک شخصیت کو دیکھا اور پسند کیا اس کے بعد اس کے حصول کے لیے کوشاں ہو گئے اور دن رات اسی کے بارے میں سوچنے لگے ان کے لاشعور نے ان سے مسلسل تکرار کی کہ وہ بے انتہا حسین ہے تم اس کو حاصل کرو تم اس سے محبت کرتے ہو وہ تم کو نہ مل سکی تو تم پاگل ہو جاؤ گے تمہارا زندہ رہنا دشوار ہو جائے گا وہ اٹھتے بیٹھتے اپنی محبت کا ذکر کرتے ہیں اپنے دوستوں سے اپنے عزیزوں سے اور رات کی تنہائیوں میں اس کا تصور کیے رات انکھوں میں کاٹ دیتے ہیں اگر وہ شخصیت ان کی دسترس سے باہر ہے تو پھر ان کی محبت اشتیاق کی حدود سے گزر کر شکست کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے کیونکہ جبلی طور پر انسان شکست کا عادی نہیں ہے اس لیے ان کے لیے اس کے حصول کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے اس کا حصول ان کی فتح اور اس کا نہ ملنا ان کی شکست ہو جاتی ہے چنانچہ ان کا ذہن ان سے مسلسل یہ کہتا رہتا ہے کہ اس کو حاصل کرو ورنہ زندگی تباہ ہو جائے گی اس کا حصول تمہاری زندگی ہے اگر اس کو نہ پا سکے تو پاگل ہو جاؤ گے ان کے ذہن کی یہ مسلسل تکرار ان کے لیے وبال جان بن جاتی ہے بسا اوقات ایسے لوگ شکست کھا کر شعوری طور پر بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کا لاشعور یہ شکست برداشت نہیں کرتا وہ ان سے مسلسل یہ تقاضا کرتا ہے اور ان کو پاگل ہونے کی دھمکی دیتا رہتا ہے آخر کار ذہن کی یہ تکرار ان کو دیوانگی کی حدود میں لے جاتی ہے اس طرح نفرت کے جذبے میں بھی ذہن میں مسلسل تکرار موجود ہوتی ہے ذہن مقابل شخص کے خلاف مسلسل اکساتا رہتا ہے اس شخص کا ہر فعل برا ہر بات ناقابل برداشت اور نفرت انگیز نظر اتی ہے یہ تمہارا دشمن ہے اس نے تمہارے حق میں کانٹے بوئے ہیں یہ تکرار ان کے دماغ کو اس قدر متاثر کرتی ہے کہ باوجود چاہنے کی یہ تصور ان کے ذہن سے نہیں اترتا ذہن کی مسلسل تکرار سے اپنے ذہن کو اس حد تک متاثر کر لینے کو ہی خود کو ہپنا ٹائز کرنا کہتے ہیں۔یہ ہپناٹزم جزوی ہوتا ہے لیکن اگر دیوانگی کی حد تک پہنچ جائے تو پھر میں اس کو مکمل ہپناٹزم ہی کہوں گا کیونکہ اس کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ ان کو دوبارہ ہپنا ٹائز Re-hypnotize کیا جائے اور محبت کے ماروں کے لیے ہپناٹزم کا عمل ایک آب حیات ہوتا ہے ان تمام مثالوں سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ ذہن کی مسلسل تکرار و ہدایت suggestion کی وجہ سے جو حالات رونما ہوئے ان کو ہپناٹزم سے تشبیہ دی جا سکتی ہے سانپ کی جو مثال پیش کی گئی ہے اس پر غور کریں تو مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں۔کوئی شخص ایک ایسا واقعہ پڑھتا ہے جس سے اس کا ذہن متاثر ہوتا ہے اور پھر اس واقعے کے متعلق لاشعوری طور پر سوچنے لگتا ہے اس مسلسل سوچ سے اس کے ذہن میں تخیلات کا ایک مسلسل چکر چلنے لگتا ہے کیونکہ اس کا ذہن سانپوں سے متاثر ہوا تھا اس لیے ذہنی طور پر وہ رسی کو سانپ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے چنانچہ ایک دفعہ اگر اس نے رسی کو سانپ سمجھ لیا توپھر اس سانپ کا نقشہ اس کے ذہن پر مسلط ہو جاتا ہے ہم اس کو imagination کے نام سے پکارتے ہیں چنانچہ وہ اپنے تخیل کی مدد سے سانپ کو دیکھتا ہے اور پھر اس کی پھنکار بھی سن سکتا ہے یہ وہم اس کو پسینہ پسینہ کر دیتا ہے کیونکہ وقتی طور پر اس نے اپنے آپ کو ہپنا ٹائز کر لیا ہوتا ہے اس طرح دوسرا واقعہ چور سے تعلق رکھتا ہے میرے دوست نے نیند سے جاگتے ہی کچھ آہٹ سنی معا اس کے ذہن میں چور کا خیال پیدا ہوا اور ایک دفعہ جب یہ تصور ذہن میں تقویت پکڑ گیا تو پھر چوروں کے ساتھ وابستہ ہر تصور اس کے ذہن میں ایک فلم کی طرح چکر لگانے لگا یہاں تک کہ صبح تک اس کا ذہن اس خیال سے متاثر رہا کیوں کہ وقتی طور پر اس نے خوف زدہ ہو کر اپنے ذہن کو مفلوج کر لیا تھا اس کے بعد ذہن نے مسلسل تکرار شروع کر دی کہ چور موجود ہے ذہن کی اس تکرار نے تخیل کو اور تقویت دی جو یقین کی حد تک بڑھ گئی اس طرح اس نے اپنے آپ کو غیر ارادی طور پر ہپناٹائز کر لیا۔
ہپناٹزم کا عمل زمانہ قدیم سے کیا جا رہا ہے لیکن اس کی حقیقی ابتدا ڈاکٹر مسمائر سے ہوئی (انہیں کے نام پر اس کو مسمریزم بھی کہا جاتا ہے)مسمائر سے پہلے اس طریقہ علاج کو روحانی علاج کہا جاتا تھا یا جادو اور شیطانی علاج کے نام سے یاد کیا جاتا تھا witch doctor کم و بیش اسی قسم کے علاج کرنے والے گروپ سے تعلق رکھتے تھے چونکہ حکومت کی جانب سے اس قسم کے معالج کو سزا کا مستحق قرار دیا جاتا تھا اس لیے ڈاکٹر مسمار سے پہلے کسی ڈاکٹر نے اس پر عمل کیا بھی ہوگا تو پوشیدہ تور پر اعلانیہ طور پر کسی میں بھی جرآت نہ تھی شعبدے بازی میں چونکہ اس کا استعمال محض تفریحا تھا اس لیے ان لوگوں کو محض شعبدہ باز کہا جاتا تھا ڈاکٹر مسمار کی تحقیقات کی ابتدا 1846 میں ان کے مطالعے سے ہوئی جس کا عنوان”سیاروں کا اثر انسانی جسم پر”تھا اس مقالے پر طبی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور ڈاکٹر موصوف کو اس پر اعزازی سند بھی دی گئی یہ تحقیقاتی مقالہ ڈاکٹر مسمار کی حیوانی مقناطیسی قوت animal magnetism کی ابتدا تھی اور یہیں سے موجودہ تجزیہ نفسی کا اغاز ہوا۔چونکہ اس زمانے میں شعور تحت شعور اور لاشعور کا سائنسی انداز میں وجود نہ تھا اس لیے مسمائر کو اپنی تھیوری پیش کرنے میں دقت ہوئی لیکن جس طرح ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ کے لیے نظریات پر ملامتوں کی بوچھاڑ کی گئی۔اسی طرح ڈاکٹر مسمائر بھی نشانہ ملامت بنائے گئے اگر مسمائر ڈاکٹر نہ ہوتے تو کوئی بات نہ ہوتی ان کو بھی شعبدہ باز کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا مگر وہ اپنے نظریے کے وجود کو دنیا سے منوانا چاہتے تھے اس لیے ان کے خلاف ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ وہ ایک بیکے ہوئے ڈاکٹر ہیں جنہوں نے ایک بلند مرتبہ پیشے سے ہٹ کر ایک ناقابل اعتماد جادوگری پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا ہے اس طرح کونسل اف میڈیکل فیکلٹی medical faculty ہم نے ان کی سند ضبط کرنے کی دھمکی بھی دی ان کے خیال میں ڈاکٹر اپنے اصل پیشے سے ہٹ کر کوئی دوسرا طریقہ علاج شروع کر دے تو اس کا حق نہیں کہ وہ ڈاکٹری سند بھی اپنے پاس رکھے۔مگر ڈاکٹر مسمائر کے طریقہ علاج ہے جب مریض صحت یاب ہونے لگے تو لوگ حیران رہ گئے اس طرح ان کے مسلسل تجربات نے ڈاکٹروں کے اندر بھی دو گروہ پیدا کر دیے ایک گروہ ان کا سخت مخالف تھا جبکہ دوسرا گروہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادہ تھا اور ان کا حمایتی تھا مگر طبی بورڈ میں کچھ ذاتی رنجشیں بھی تھیں جن کی وجہ سے میڈیکل فیکلٹی نے مسمائر کو ملامتوں کا شکار بنائے رکھا انہوں نے کونسل سے کئی بار استدعا کی کہ وہ ان کے تجربات کو بغور دیکھے اور اگر اس کو یقین ہو جائے کہ ان کے تجربات سے مفید اثرات ہو رہے ہیں تو انہیں نہ صرف تجربات کرنے کی اجازت دی جائے بلکہ ان کے لیے تحقیقات جاری رکھنے کی راہ بھی ہموار کر دی جائے لیکن کونسل کے ممبران اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود ان کے تجربات مفید ہیں ان پر جادوگری اور ضعیف الاعتقادی کا الزام لگاتے رہے چونکہ وہ اپنے نظریوں کو سائنسی اصولوں کی روشنی میں بیان نہیں کر سکتے تھے اس لیے ان کو ماننے سے انکار کر دیا گیا جب انہوں نے “قوت مقناطیسی حیوانی”پر مقالہ لکھا تو مسمائر کو اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنی تھیوری کو سائنسی اصولوں پر بیان کرنے سے قاصر ہیں مگر وقت بتائے گا کہ یہ نظریہ قطعی طور پر اصولی ہے چونکہ وہ اپنے پہلے مقالے میں ستاروں کا ذکر بیان کر چکے تھے جس میں چاند کے اتار چڑھاؤ کا اثر سمندر کی جولانی اور نظام انسانی پر ثابت کیا تھا اسی بنیاد پر انہوں نے لکھا کہ اگر چاند اپنی کشش سے سمندر اور انسان پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو پھر یہ حیوانی مقناطیسیت انسانی جسم پر ضرور اثر انداز ہو سکتی ہے انہوں نے کہا کہ یہ مقناطیسی قوت فولاد میں موجود ہے اور اسی قسم کی قوت انسان میں بھی موجود ہے اس لیے جب یہ دونوں قوتیں ایک مخصوص طریقے سے استعمال کی جائے تو بہت سی لاعلاج بیماریوں سے چھٹکارا حاصل ہو سکتا ہے ان کا خیال تھا کہ انسانی جسم میں خاص قسم کا سیال liquid موجود ہے جو اپنے اندر حیوانی مقناطیسی قوت رکھتا ہے لیکن اگر اس سیال کو مقناطیس سے متاثر کر کے اس کے بہاؤ کو متوازن regulate کیا جائے تو وہ مرض جاتا رہتا ہے انہوں نے کہا بہت سی بیماریاں جو ادویات کے دائرہ عمل سے باہر ہیں وہ قوت مقناطیس سے درست کی جا سکتی ہیں۔چنانچہ انہوں نے ایک ایسی علاج گاہ بنائی جس میں فولادی مقناطیس اس کے ٹکڑوں سے علاج کرنا شروع کیا وہ مریض کو سیدھا لٹا کر فولادی ٹکڑوں کو اس کے قریب سے گزارتے آہستہ آہستہ مریض پر ایک ہلکی سی نیند طاری ہو جاتی اس طرح وہ یہ عمل مہینوں دہراتے اور آخر کار مریض صحت یاب ہو جاتا اس کے بعد انہوں نے اپنی علاج گاہ میں چمکدار آئینے اور ہلکی موسیقی کا انتظام کیا ہمارے یہاں بھی جب کسی قسم کے معالج (جادوگر) کو طلب کیا جاتا تھا تو وہ ساتھ میں ڈھول لاتے تھے اور مریض کے سامنے لوبان وغیرہ سلگا کر ڈھول پیٹنے شروع کر دیتے اور مریض پر ایک خاص قسم کی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی پنجاب اور کم و بیش ہر جگہ کے دیہاتوں میں یہ جن بھوت اتارنے والے عام طور پر پائے جاتے ہیں ان کے خیال میں یہ آئینے اور موسیقی اس قوت حیوانی کو تقویت پہنچاتے ہیں جو مریض کے علاج کے لیے لازمی ہے لیکن وہ اپنے طریق علاج کو زیادہ عرصے جاری نہ رکھ سکے کیونکہ میڈیکل کونسل ہے ان کو مطلع کیا گیا اگر انہوں نے اپنا طریقہ علاج فورا ترک نہ کیا تو ان کی سند ضبط کر لی جائے گی چنانچہ ان کو ویانہviana چھوڑ کر پیرس جانا پڑا پیرس میں انہوں نے بڑے پیمانے پر علاج شروع کیا انہوں نے خاص موسیقی اور ائینوں کا استعمال کیا وہ مریض کے ہاتھ میں فولاد کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھما دیتے اس طرح انہوں نے اجتماعی معالجہ شروع کر دیا اور ان کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی وہاں ان کے ایک ساتھی ڈاکٹرایلسنElson بھی تھے دونوں مل کر کام کرتے تھے مگر کچھ عرصہ بعد ایلسن اور مسمائر میں جھگڑا ہو گیا اور دوسری چند وجوہ کی بنا پر مسمائر نے فرانس چھوڑ دیا مگر ایلسن وہی مقیم رہے مسمائر کے جانے کے بعد ایلسن نے اعلان کیا کہ درحقیقت مریض تو وہ تندرست کرتے تھے مسمار تو بالکل فراڈ تھا (کچھ اس قسم کا جھگڑا ڈاکٹر فرائیڈ اور ینگ میں ہوا تھا) جب مسمائر ایلسن کو چھوڑ کر چلے گئے تو یہ دور ایلسن کے لیے بڑا صبر آزما ثابت ہوا وہ پیرس میں رہ کر طبی بورڈ سے لڑتا رہا مگر اس کو جلد ہی یہ پریکٹس ترک کر کے معمول کی ڈاکٹری کرنا پڑی پھر ایک سال تک پوشیدہ طور پر وہ مسمائر کے طریقہ کار پر عمل کرتا رہا اور اس طرح کافی مریض اچھے کرنے کے بعد اس نے کونسل سے کہا کہ وہ اس کام کی تحقیق کرے۔جب مسمائر کو علم ہوا تو انہوں نے حکومت فرانس کو احتجاجا لکھا کہ ایلسن تو محض اس کا طالب علم ہے اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میرے طریقے کار پر عمل کرے یا کونسل سے تحقیقات کے لیے کہے تب یہ جھگڑا ایک خاصی لڑائی میں تبدیل ہو گیا اس لیے حکومت نے مارچ 1784 کو نو افراد پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی تاکہ دعوے کی تحقیقات کی جائے لیکن بعد میں طبی بورڈ کے اصرار پر یہ کونسل 13 افراد کی کر دی گئی مسمائر کہ مسلسل احتجاج کے باوجود اس کمیٹی نے ایلسن کی علاج گاہ کا معائنہ کیا اور بعد میں مکمل رپورٹ لکھ کر پیش کر دی اس کے ایک ممبر نے صاف طور پر لکھا کہ یہ تمام اثرات تخیل سے پیدا ہوتے ہیں مقناطیس سے کچھ نہیں ہوتا یعنی اس کا مشاہدہ تھا کہ مریض پر جو کچھ رد عمل ہوتا ہے وہ تمام واہمہ یا اس کا اپنا خیال ہوتا ہے اور قوت مقناطیس سے اس کا کوئی تعلق نہیں کچھ عرصے کے بعد مسمائر میں بھی مقناطیسی فولاد کا استعمال چھوڑ دیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ انسان اپنے اندر قوت مقناطیس پیدا کر کے اس سے وہی کام لے سکتا ہے جو فولاد کے ٹکڑے سرانجام دیتے ہیں اس طرح انہوں نے اپنی انکھوں اور انگلیوں سے کام لینا شروع کیا۔اس تمام عرصہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ اور پھر تیسری جگہ بھاگتے پھرےجس جگہ بھی وہ جاتے باوجود کامیاب علاج کی حکومت ان کے خلاف اقدام کرتی اس لیے انہیں مسلسل فرار اختیار کرنا پڑا اور اخر کار وہ پھر ویانہVIANA لوٹ ائے یہ کہانی تو بڑی طویل ہے مختصر یہ کہ آخری دور میں ان کا طریقہ کار موجودہ ہپنا ٹزم سے ملتا جلتا تھا یعنی وہ مریض کو سامنے بٹھا کر کہا کرتے تھے کہ وہ ان کی آنکھوں میں جھانکے اس طرح وہ مریض پر غنودگی طاری کر کے اس کا علاج کرتے تھے مگر اب وہ اس کو حیوانی مقناطیسیت ہی کہتے رہے اور کوئی نیا نظریہ پیش نہ کر سکے۔ مسمائر کی انتہائی کوشش کے باوجود بھی طبی بورڈ نے مسمریزم کو ماننے سے انکار کر دیا اگرچہ انہوں نے اپنے تجربے کو مختلف ڈاکٹروں کے سامنے کئی بار دہرایا اور بیسیوں ڈاکٹر ان کے ہم خیال بن گئے پھر بھی طبی بورڈ نے اس تجربے کی سائنسی حیثیت قبول نہ کی آخری عمر میں ان کا چرچہ عام ہو گیا ان کی علاج گاہ مریضوں سے بھری رہتی مگر مسمار کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ میڈیکل سائنس اس کے وجود کو تسلیم کر لے ان کی وفات کے بعد سے کڑو ڈاکٹر ان کے نقشے قدم پر چلتے رہے کچھ ڈاکٹر ان کے طریقے کار میں بعض تبدیلیوں کے ساتھ مسبراعظم پر عمل کرتے رہے اس طرح 1848 میں ڈاکٹر اسٹرائیل کلکتہ میں آکر پریکٹس کرنے لگا۔وقت کے ساتھ ساتھ تحقیقات بڑھتی چلی گئی اور آخر کار ماہرین نفسیات نے مسمریزم کی اس گتھی کو سلجھا لیا اور اس کا نام ہپنا ٹزم رکھا یہ لاطینی لفظ ہے جس کے معنی نیند کے ہیں اس طرح ماہرین نفسیات نے ہپنا ٹزم کی حقیقی صورت متعین کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دی آج دنیا ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ اور ڈاکٹر ینگ کی احسان مند ہے کیونکہ انہی لوگوں نے انتھک کوشش اور محنت سے شعور اور لاشعور کے سربستہ راز فاش کیے تھے اور انہی کی تحقیقات نے ہم کو بتایا کہ ہپناٹزم نہ کوئی جادو ہے اور نہ ہی کوئی قوت مقناطیس ہے بلکہ یہ انسان کو اپنے رجحانات کو ایک مخصوص طریقے سے منتقل کرنے کا نام ہے اس کے باوجود اج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہپناٹزم کو جادو اور شعبدہ بازی تصور کرتے ہیں یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہپناٹزم کو میڈیکل سائنس میں اب بھی وہ درجہ حاصل نہیں ہوا کہ جو اسے ہونا چاہیے تھا مگر وہ دن دور رہی جب میڈیکل سائنس میں حقنہٹزم کو باقاعدہ طور پر نصاب کی شکل میں اختیار کر لیا جائے گا۔حال ہی میں امریکہ اور روس میں ہپناٹزم کے تحت ایسے اپریشن کیے گئے ہیں جو اس کے بغیر مشکل تھے ہپناٹزم کے تحت بچہ جننے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ درد نہیں ہوتا بلکہ مریضہ اور بچے بے ہوش کرنے والی دوائیوں کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہتے ہیں میرا مقصد بھی یہی بتانا ہے کہ سینکڑوں ایسی بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہے جو ادویات سے ممکن نہیں۔
قوت ارادی:WILLPOWERجیسا کہ نام سے ظاہر ہے قوت ارادی ‘ارادے کے استحکام کا نام ہے ۔بظاہر یہ چیز معمولی دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقتا یہی وہ چیز ہے جس میں شکست و فتح کا راز مضمر ہے انسان بے انتہا کمزوریوں کا مجموعہ ہے وہ ایسی ایسی جبلتیں لے کر پیدا ہوا ہے جو اگر اس پر بلااحتساب مکمل طور پر مسلط اور قابض ہو جائیں تو پھر وہ حیوانیت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے مگر انسان اپنے ارادے سے اپنے اپ کو بہیمیت کی طرف لوٹنے سے روکتا ہے۔کمزور قوت ارادہ رکھنے والے لوگ قوی ارادے کے مالکوں کے آگے غلام بنے رہتے ہیں اگر جسمانی اعتبار سے وہ غلامی سے نکل بھی جائے تو ذہنی طور پر وہ چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے زندگی میں ہر ہر قدم پر ہمیں اپنے ارادے کے قوی اور کمزور ہونے کی بدولت ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارے ہر فعل کا انجام ہمارے ارادے ہی پر منحصر ہے تاریخ اٹھا کر دیکھیے تو آپ کو ایسی شخصیتیں نظر آئیں گی جو جسمانی اعتبار سے تو بالکل کمزور تھی مگر انہوں نے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے جو قوی ہیکل انسان ہی کر سکتے تھے آمروں کی آمریت شہنشاہوں کی شہنشاہیت اور جرنیلوں کی جرنیلی ہمیشہ اس وقت ختم ہو گئی جب ان کے ارادوں میں کمزوری پیدا ہوئی میدان جنگ میں جب بھی کسی فوج کا ارادہ متزلزل ہوا وہ میدان ہار گئی جب قوت ارادی کمزور ہو جائے تو انسان بزدل ہو جاتا ہے اس کی قوت فیصلہ جواب دے دیتی ہے جب قوت فیصلہ سلب ہو جائے تو ظاہر ہے سارا نقشہ ہی بدل جائے گا یہی قوت فیصلہ ہمارے کاموں پر اثر انداز ہوتی ہے خواہ وہ کسی شہنشاہ کی حکومت کا سوال ہو یا اپ کا کوئی معمولی کام تمام کاموں کا انحصار صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے پر ہے اسی قوت سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور اسی سے قوت یقین یا قوت ایمان پیدا ہوتی ہے۔قوت یقین اور قوت ارادی کا اس قدر گہرا رشتہ ہے کہ بعض اوقات ان دونوں کو الگ الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہا جا سکتا ہے کہ جب تک قوت یقین نہ ہو قوت ارادی کا پیدا ہونا دشوار ہے یعنی جب تک کسی کام کے نتائج کا یقین نہ ہو اس کام کے کرنے کے لیے ارادے کا استحکام ناممکن ہے مگر اس طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک کسی کام کو سر انجام دینے کا ارادہ نہ ہو تو پھر یقین کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا جب تک ارادہ نہ پیدا ہو فعل سرزد ہی نہ ہو سکے گا بہرحال بیان کردہ چاروں قوتوں کی کڑیاں اس طرح آپس میں ملی جلی اور باہم مربوط ہیں کہ بسا اوقات ان کو ایک دوسرے سے جدا کرنا دشوار ہو جاتا ہے اس لیے قوت ارادی کے عنوان کو اولیت دینے سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ فوقیت اسی عنوان کو حاصل ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان قوتوں کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا جائے اور سمجھا جائے۔ہاں تو میں ذکر کر رہا تھا کہ ہماری زندگی کے ہر ہر قدم پر قوت ارادی اثرانداز ہوتی ہے ایک چھوٹی سی مصال یوں لے لیجئے کہ آپ کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں پہلے آپ ارادہ کرتے ہیں پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ چیز خرید نہ ضروری ہے اور ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کرتے ہیں کہ اس کی اتنی قیمت ادا کرنا ہے اگر آپ کا ارادہ قوی نہیں تو آپ دکاندار کے پاس متزلز ل ارادے کے ساتھ جاتے ہیں اور آپ کو اپنی پسند کی چیز خری نے میں نہ صرف وقت ہوتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ غلط چیز غلط ڈیمو پر لے ائیی۔میرے پاس ایک سیلز میں آیااس نے پوچھا کہ ایک اچھے سیلرز مین میں کیا خصوصیات ہونا چاہئیں میں نے کہا کہ کامیاب سیلز مین وہ ہوتا ہے جو کسی خریدار کو وہ چیز بیچ سکے جو وہ قطعی خریدنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو آپ کو اکثر تجربہ ہوا ہوگا کہ آپ گھر سے یہ ارادہ کر کے نکلتے ہیں کہ آپ اپنے لیے کاٹن کا سوٹ خریدیں گے اور مختلف دکانیں دیکھتے ہیں یکا یک آپ ایک دکان پر بجائے کاٹن کے نائلون کا سوٹ خرید لیتے ہیں دراصل اپ نائلون لینا نہیں چاہتے تھے یہ تو اس دکاندار کی قوت ارادی تھی کہ اس نے آپ کے ہاتھ وہ چیز فروخت کر ڈالی جو اپ لینا نہیں چاہتے تھے اپ کے ارادے پر اس کے ارادے نے قبضہ کر لیا اور اپ کو ایک قوی ارادے کا شکار ہونا پڑا بعض لوگ قوت ارادی کو ہٹ دہرمی ہی ہوئی لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قوت ارادی اور ہٹ دھرمی میں بہت فرق ہے بلکہ یہ دونوں متضاد چیزیں ہیں جس شخص کی گود ارادی مضبوط ہوگی اس کی کود فکر بھی دوسروں سے بہتر ہوگی وہ قوت فکر سے کسی مخصوص فعل کے بارے میں اچھی طرح اگاہ ہوگا اور جب وہ کسی فیصلے پر پہنچے گا تو وہ فیصلہ نہ صرف یہ کہ پختہ ہوگا بلکہ صحیح بھی ہوگا اس کے برخلاف ایک ہٹ دھرم انسان بہت ہی محدود قوت فکر کا عامل ہوتا ہے اور محدود تخیل کا انسان کبھی اچھی قوت ارادی کا حامل نہیں ہوتا قوت فکر رکھنے والا انسان ایک صحیح دماغ رکھتا ہے اسے اس کی قوت فکر زندگی کا گہرا مشاہدہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اس کے مشاہدات کی وسعت اسے ہر فیصلے سے پہلے سوچنے کا عادی بنا دیتی ہے اس طرح وہ خود بخود ذہین ہوتا جاتا ہے وہ جب اچھی طرح سوچ چکا ہے تو پھر مکمل اعتماد اور مستحکم ارادے کے ساتھ عمل کرتا ہے اس کا فیصلہ بہت کم غلط ہوتا ہے چونکہ ایک طرف مستحکم قوت ارادی کا مالک کوئی کام کرنے سے پہلے اس کا مکمل ارادہ کرتا ہے دوسری طرف اس کا ذہن اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اگر اسے اپنے فیصلے پر ذرا بھی شک ہو تو فورا اس پر نظر ثانی کرتا ہے بلکہ شک کی صورت میں وہ کوئی فیصلہ ہی نہیں کرتا ہے اس کے بر خلاف ہٹ دھرم انسان نظر ثانی کا قائل نہیں ہوتا اس کی ہٹ دھرمی بذات خود اس کی کم فہمی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت ہوتی ہے۔جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں متذکرہ چاروں قوتوں کا ایک دوسرے سے گرا تعلق ہے پڑے گا قوت ارادی کو مستحکم بنانے کے لیے آپ قوت ہدایت سے کام لیتے ہیں اس کے ساتھ ہی اپ تصور کرتے ہیں کہ یہ کام ضرور ہوگا اور اس کو ضرور ہونا ہے اس کے ساتھ ہی اپ کے اندر قوت یقین بھی پیدا ہوتی ہے کیونکہ جب تک یقین نہ پیدا ہوگا ارادے کا مستحکم ہونا ناممکن ہوگا اگر ان چاروں قوتوں میں سے کوئی بھی کمزور ہو گئی تو اپ کے ذہن میں شاید جنم لے گا یعنی شاید فلاں کام ہو جائے شاید کا لفظ ہی شک کی ابتدا ہے اور جب شک پیدا ہو جائے تو ارادے کا استحکام یعنی قوت ارادی کمزور ہو جاتی ہے آپ نے اکثر تجربہ کیا ہوگا کہ اگر آپ کسی خاص وقت پر اٹھنا چاہتے ہیں اور اپ کے پاس الارم والی گھڑی نہیں ہے تو پھر آپ ارادہ کرتے ہیں کہ آپ فلاں وقت اٹھیں گے آپ خود سے کہتے ہیں کہ مجھے فلاں وقت اٹھنا ہے مجھے ضرور اٹھنا پڑے گا اس طرح آپ اپنے آپ کو ہدایت دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یقین رکھتے ہیں کہ آپ وقت مقررہ پر ضرور اٹھیں گے اپ کا ارادہ تو پہلے ہی تھا مگر اپ ان قوتوں کی مدد سے اپنے اس ارادے کو مستحکم کرتے ہیں پھر آپ نے دیکھا ہوگا کہ اپ اس مخصوص وقت پر جاگ اٹھے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اپ جا کر دوبارہ سو جائیں اس وقت معینہ پر اٹھانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے ارادے کے استحکام میں اپ کے لاشعور کو متاثر کیا اور اس نے جواباً کارروائی کی جو اپ چاہتے تھے۔اسی طرح جب اپ کوئی کام کرنے جائیں تو یہ ضروری ہے کہ اپ کا ارادہ مکمل اور پختہ ہو کسی کام کو اس وقت تک شروع نہ کریں جب تک کہ ارادے کی قوت اپ کو اس بات کا یقین نہ دلا دے کہ وہ کام اپ بخوبی سر انجام دے سکتے ہیں چنانچہ اگر اپ نے کوئی کام شروع کر لیا ہے تو پھر اس کو پایا تکمیل تک پہنچائے کسی کام کو ادھورا چھوڑنا قوت ارادی کی کمزوری کی نشانی ہے اپنی زندگی کا یہ نصب العین بنا لیں اور کوئی کام کرنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر غور کر لیں اور پھر فیصلہ کریں جب فیصلہ کر چکے تو پھر قدم پیچھے نہ ہٹائیں صبح شام اپنے آپ قوم مسلسل ہدایت دیں کہ آپ قوی ارادے کے مالک ہیں جو چاہیں کر سکتے ہیں جو کچھ شروع کریں گے اسے مکمل کریں گے جب تک آپ کے اندر یہ قوت پیدا نہ ہو جائے اس وقت تک آپ کسی کام کو مکمل طور پر نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کا تسلی بخش نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں یا در گھیے کمزوریاں ہر شخص میں ہوتی ہیں مگر ان کمزوریوں پر قابو پانے کی بھی قوت قدرت نے ہر انسان میں بدرجہ اتم پیدا کر دی ہے کوئی وجہ نہیں کہ آپ بھی اس قوت کے مالک نہ بن سکیں یہی وہ قوت ہے جو آپ کی زندگی کی تقدیر بدل سکتی ہے اس کی بدولت دنیا آپ کے سامنے سرنگوں ہو سکتی ہے آپ کا ارادہ ایک ایسے فولادی ستون کی مانند ہونا چاہیے جسے دنیا کی کوئی قوت نہ توڑ سکے اور نہ متزلزل کر سکے۔
SELF CONFIDENCE
قوت یقین وہ چیز ہے جو ہمیں زندگی کے اس زینے تک لے جاتی ہے جہاں سے یہ دنیا ایک حقیر شے نظر آنے لگتی ہے۔ آپ دنیا کے تمام مذاہب کی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ ان میں صرف ایک ہی چیز نظر آئے گی۔ یقین ، یقین اور یقین۔ یہ یقین خواہ اپنی ذات پر ہو یا اس برتر ذات پر جسے آپ اپنے جسم کا مالک تصور کرتے ہیں۔ بات ایک ہی ہے اور نتیجہ بھی ایک ہی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں پھر ایک چھوٹی سی مذہبی بحث میں الجھنے پر مجبور ہوا ۔ میرا مقصد کسی کی دلازاری کرنا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں محض ایک بات کو سائنسی طور پر پیش کرتا ہے۔خدا نے کہا ہے کہ میں بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ میں تمہارے اندر ہوں۔ تم مجھے پکارو میں سنوں گا ۔ اگر ان تمام باتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قدرت نے انسان کی اس قوت کی طرف اشارہ کیا ہے جو خود اس کے اندر پوشیدہ ہے جب خدا کے ایک بندے نے”انا الحق” کا نعرہ لگایا تھا تو اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ در حقیقت خدا ہے بلکہ اس نے خدا کی اس قوت کو پالیا تھا جو خدا نے ہر بندے کو بخشی ہے۔ ہمارا مذہب ہی نہیں دنیا کا ہر مذہب کہتا ہے کہ خدا پر اس حد تک یقین رکھو کہ دنیا کی کوئی طاقت تمہارا یقین متزلزل نہ کر سکے۔درحقیقت مذہب نے انسان کی اس قوت کو بروئے کار لانے کا ایک طریقہ بتایا ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں کہ یہ طریقہ بہت ہی مستحسن ہے۔ انسان کی جبلت اس کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ کسی ایسی شخصیت کی اجارہ داری قبول کرے جو تمام کائنات پر حاوی ہو۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انسان جو کام خود نہیں کر سکتا اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسے کسی ایسی قوت سے رجوع کرنا پڑتا ہے جو اس کے خیال میں اس سے برتر ہے۔ ایک طرف مذہب نے انسان کو یہ یقین دلایا کہ تم اپنے پرماتما،اپنے دیوتا اپنے خدا کو خوش کرو۔ اتنا خوش کہ وہ تمہارے حق میں ہو جائے۔پھر تم اس سے جو چاہو گےکروالو گے یعنی جو چاہو گے پالوگے۔
دوسری طرف مذہب نے اس کی کمزوریوں کے پیش نظر اس کو ایک راہ فرار بھی دے دی۔کیونکہ انسان اپنی بعض خواہشات کو پورا نہیں کر سکتا اس لئے اپنی ناکامی کا ذمے دار خود کو نہیں بلکہ اس پر ماتما، اس خدا کو قرار دے لے جس نے اس کی وہ خواہشات پوری نہیں ہونے دیں۔
خود آپ کی زندگی میں ایسے مواقع ہزاروں بار آئے ہوں گے جب آپ نے کوئی منزل سر کی ہوگی اور فورا کہہ اٹھے ہوں گے ” یہ میں نے کیا ہے” میں نے فلاں کام کیا ہے ؟ میں نے امتحان پاس کر لیا ہے “میں نے ہمالہ کی چوٹی سر کرلی ہے۔ لیکن جب آپ کی خواہش تکمیل نہیں پاتی تو آپ کی زبان سے نکل جاتا ہے “قدرت کو یہ منظور نہیں تھا ” اس طرح آپ اپنی ناکامیوں سے فرار حاصل کرنے کے لئے خدا کا سہارا لے لیتے ہیں حالانکہ مذہب اعلانیہ کہتا ہے کہ مجھے اپنی کوتاہیوں کا نشانہ نہ بناؤ۔ تمہارے نتیجے، تمہارے اعمال کی بدولت ہیں۔ یہ کہاں ممکن ہے کہ تم “جو” بو اور آرزو کرو گندم کاٹنے کی۔ ساتھ ہی مذہب نے یہ بھی کہا کہ تم اپنی ہر خواہش پوری نہیں کر سکتے۔ تم وہی کر سکتے ہو جو خدا چاہتا ہے صرف وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ اس طرح مذہب نے ایک طرف تو صاف صاف کہہ دیا کہ تمہارے عمل سے بہتر نتائج پیدا ہوں گے مگر دو سری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ بس وہی ہو گا جو خدا چاہے گا۔یہ موضوع کافی زیر بحث رہ چکا ہے کہ کیا انسان مجبور محض ہے؟یا اس کے اندر کچھ طاقت بھی ہے؟میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میرا موضوع دوسری نوعیت کا ہے تاہم ان باتوں کی وضاحت نیاز فتح پوری کی زبانی سنئے۔
یقینا قرآن میں ایسی آیات موجود ہیں جن میں باہم تناقص و تضاد نظر آتا ہے یعنی بعض آیات سے انسان کا مجبور ہونا اور بعض سے خود مختار ہونا ظاہر ہوتا ہے لیکن میرے نزدیک ذرا غور سے کام لیا جائے تو یہ تضاد باقی نہیں رہتا اور حقیقت واشگاف ہو جاتی ہے اس کے بعد قرآنی آیات سے اس تضاد کا اظہار کرنے کے بعد فرماتے ہیں جس وقت فطرت انسانی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے انسان جمادات کی طرح ہے حس نہیں ہے بلکہ وہ ارادہ کرتا ہے۔ ارادے کے تحت اپنے حواس سے کام لیتا ہے۔ جس کام کو چاہتا ہے کرتا ہے جس کو چاہتا ہے نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ یہ قوت ارادی اسے کس نے عطا کی؟ ظاہر ہے خدا نے اس کی فطرت و پیدائش میں یہ صلاحیت یا قوت رکھ دی ہے اور وہ اس قوت سے کام لے کر کوئی ارادہ کرتا ہے یا اس سے باز رہ سکتا ہے۔ ہر انسان میں دو متضاد خواہشوں کے پیدا ہونے کا مادہ ودیعت کیا گیا ہے اور انہی خواہشوں کی مطابق وہ کبھی اچھے کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے اور کبھی برے کاموں کی طرف چنانچہ خدا خود ارشاد فرماتاہے۔ یعنی کامیاب ہوا وہ جس نے نفس کو پاک کیا اور خسارے میں رہا جس نے اسے آلودہ کیا۔چونکہ ان قوتوں کا پیدا کرنے والا خدا ہے اس لئے اگر کوئی شخص تمام درمیانی واسطوں اور اسباب کو قطع نظر کر کے یوں کہے کہ جو کچھ کرتا ہوں میں ہی کرتا ہوں یا بغیر میرے اذن وارادے کے کچھ نہیں ہو سکتا تو یہ غلط ہو گا کیونکہ اگر وہ ہمارے اندر کسی کام کی
قوت نہ پیدا کرتا توہم سے وہ کام کسی طرح بھی نہ ہو سکتا۔ اس مسئلہ میں سب سے بڑی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ تقدیر کے مفہوم پر غور نہیں کیاجاتا عام طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہر کام ہر واقعے ،ہر حادثے اور ہر بات کے لئے جداگانہ مشیت ہوتی ہے یعنی اس وقت ہم کہیں اٹھ کر چلے جائیں تو یہ خدا کی مشیت ہوگی یا یہ کہ خدا نے پہلے ہی معین کر دیا تھا کہ فلاں فلاں وقت فلاں فلاں انسان سے یہ بات سرزد ہوگی۔ لیکن ایسا سمجھنا درست نہیں ہے۔ مشیت ایزدی کا ظہور حقیقتاً اس فطرت سے ہوتا ہے جس پر دیگر موجودات عالم پیش کیے گئے ہیں جس طرح پتھر کا بھاری ہونا مقناطیس کی قوت کشش لوہے کا انجذاب یہ سب مشیت ایزدی ہیں۔اس طرح انسانی ارادہ بھی ایک مشیعت ہے جس کی بنا پر ہم ایک کام کرتے ہیں اور دوسرے سے بچتے ہیں۔ ہاں اللہ کو اس کا علم ضرور ہے کہ اس کے بندوں سے یہ حرکات سرزد ہوں گی لیکن اس کا علم مجبورکرنے والا نہیں۔اس باب میں جناب عبد اللہ بن عمر کا قول قابل ذکر ہے۔ ایک شخص عبداللہ بن عمرؓ کے پاس آیا اور کہا اے عبد اللہ بعض لوگ زنا کرتے ہیں ،شراب پیتے ہیں،چوری کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خدا کے علم میں تھا ،ہم اس پر
مجبور تھے” آپ یہ سن کر برہم ہوئے اور فرمایا ۔”بے شک خدا کے علم میں تھا کہ وہ ایسا کام کریں گے لیکن خدا کے علم نے انہیں ان کاموں کے کرنے پر مجبور تو نہیں کیا تھا اور اس کے بعد متعدد احادیث اس سلسلے میں بطورثبوت پیش کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں۔
کہ آج کل عام طور پر جو عقیدہ مجبوری کا پایا جاتا ہے وہ حد درجہ مخرب امن و انتظام ہے اور وہی لوگ اس کے قائل ہیں جو دنیا میں کاہلی اور مکرو فریب کے سہارے پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔انسان نظام تمدن کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہے اور اسے عقل و ہوش اسی لئے عطا کیے ہیں کہ وہ سوچ سمجھ کر کام کرے۔اگر ایسا نہ ہوتا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔”مندرجہ بالا سطور پڑھنے کے بعد، آپ غور کریں گے تو بات وہیں آجائے گی یعنی اس کے باوجود کہ انسان کو مذہب نے اپنے اعمال اور کردار کا مالک اور اس کے نتائج کا بھگتنے والابنایا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے لئے راہ فرار بھی پیدا کر دی ہے۔ یعنی خدا کو مالک کلی ظاہر کر کے انسان کو کبھی محض مجبور بھی بنا دیا۔آخر ایسا کیوں ہوا؟ مذہب نے یہ دورخی پالیسی کیوں اختیار کی؟کیا اس طرح ہمیں مذہب کے کمزور ہونے کا احساس نہیں ہوتا؟جی نہیں! اس کی وجہ وہ نفسیاتی حقیقت ہے جس کو عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یعنی اگر مذہب اس قسم کی راہ اختیار نہ کرتا تو نفسیاتی طور پر مذہب غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ میں زیادہ طوالت میں جائے بغیر ایک چھوٹی سی مثال سے یہ بات واضح کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ فرض کیجئے کہ دو بڑے ہی عبادت گزار انسان ہیں۔ دونوں کا رتبہ مذہب کی نگاہ میں مساوی ہے۔خدا کی نگاہ میں مساوی ہے۔ کسی بنا پر ان دونوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے اور نوبت مقدمہ بازی تک آجاتی ہے۔دونوں ہی پروردگار کے حضور میں اس مقدمے کو جیتنے کی استدعا کرتے ہیں۔ دونوں کو یقین ہے ان کا خدا مقدمہ کا فیصلہ ان کے حق میں کردے گا کیونکہ دونوں کو اپنے خدا پر نہ صرف بھروسہ ہے بلکہ اپنی عبادت کی بنا پر یقین بھی ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے۔ ظاہر ہے کہ مقدمہ تو بہر حال ایک ہی فریق کے حق میں ہو گا۔ مقدمے کا فیصلہ ہو جانے کے بعد خدا اور ان عبادت گزاروں کی پوزیشن کیا رہ جاتی ہے؟ کیا وہ فریق جو مقدمہ ہار گیا ہے اپنے خدا کو چھوڑ دے گا؟ اپنے مذہب کو خیر باد کہہ دے گا ؟ محض اس بنا پر کہ اس نے خدا کی بڑی عبادت کی تھی اس کا بڑا ایمان تھا مگر اس کی دعا قبول نہ ہوئی اور فریق مخالف مقدمہ جیت گیا۔ ایسے ہی حالات کے لئے خدا نے کہا ہے کہ میں جو کرتا ہوں اس میں بہتری ہوتی ہے۔ لہذا ہو شخص یہ کہہ کر صبر کر لیتا ہے کہ خدا کی مشیت اس میں ہے اور دوسرا شخص اپنے خدا کی اور زیادہ عبادت میں مصروف ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے کامیابی حاصل کی۔اگر مذہب صرف یہ کہتا کہ خدا ہی ہر چیز پر قادر ہے اور تم کچھ نہیں۔ وہی سب کچھ کرتا ہے تمہارا کوئی دخل نہیں۔ تو پھر انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جاتے تاکہ روٹی کے نوالے تک خدا ان کے منہ میں ڈال جائے اور وہ صرف عبادت کرتے رہیں۔ یوں دنیا میں ایک ایسا المناک ٹھہراؤ پیدا جاتا جس کا تصور مشکل ہے۔اگر مذہب یہ کہہ دیتا کہ جو کچھ کرنا ہے تمہی کو کرنا ہے میں کچھ نہیں کر سکتا، مجھ میں کوئی طاقت نہیں تو پھر مذہب سرے سے نابود ہو جاتا خدا اور خدا کی کتاب سب کچھ بے معنی ہو کر رہ جاتی کیونکہ جب خدا کی کوئی طاقت نہ ہوئی تو پھر اس کی عبادت سے کیا حاصل؟مذہب نے اپنے فلسفہ زندگی کو جاری و ساری کرنے کے لئے ایسی راہ اختیار کی ہے جس سے انسان نہ تو قطعی طور پر بے کار ہو کر بیٹھا رہے اور نہ ہی خود کو ہر چیز کا مالک و مختار
سمجھ کر دن بھر شراب ، چوری اور زنا میں ڈوبا رہے کیونکہ اس طرح مذہب کے وہ اخلاقی بندھن ٹوٹ جاتے جن کی وجہ سے آج دنیا حیوانیت سے بچی ہوتی ہے۔ چنانچہ مذہب کا مقصد یہ نہیں کہ انسان کے اپنے اندر کوئی قدرت نہیں ہے بلکہ مذہب نے انسان کی اس پوشیدہ قوت کو اجاگر کرنے کے لئے اپنے اصول پیش کیے ہیں تاکہ اس کو اپنی ذات پر ایک ایسا یقین ،ایک ایسا ایمان پیدا ہو جائے جو اٹل ہے۔ *اس یقین کو میں سائنسی طور پر آپ کے اندر ابھارنے کا خواہش مند ہوں تاکہ آپ کا ہر قدم اپنے اندر چھپے ہوئے یقین پر بھروسہ کرتا رہے۔*ہم یہ یقین کہ آپ جو کام کریں گے، پورا ہو گا۔*یہ یقین کہ اپ جو کام کریں گے پورا ہوگا
*یہ یقین کہ آپ کی ذات قوی اور روحانی طور پر طاقتور ذات ہے۔ *یہ یقین کہ آپ اپنی چھپی ہوئی روحانی اور مقناطیسی قوتوں کو بروئے کار لا کرنوع انسانی کی خدمت کر سکتے ہیں۔
* یہ یقین کہ آپ اپنے آدرش IDEAL تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دن رات آپ اپنی ذات پر بھروسہ کریں۔ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے شرمسار ہونے کے بجائے ان کی اصلاح کرکے قوت اعتماد پیدا کریں اور یہ نہ بھولیں کہ کوئی انسان کمزوریوں سے پاک نہیں۔ اگر آپ وزیر اعظم سے ملنے جا رہے ہیں تو یقین رکھیے وہ بھی آپ ہی طرح کا انسان ہے ممکن ہے اس میں آپ سے کہیں زیادہ کمزوریاں ہوں۔ وہ بھی آپ ہی کی طرح محبت اور نفرت کا پیکر ہے۔ اس لئے اس کی پوزیشن سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اپنے اوپر اعتماد رکھ کر اس سے ملاقات کیجئے۔ یقین رکھیے وہ آپ سے اس طرح ملاقات کرے گا جس طرح آپ ملنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ نے اعتماد کھو دیا تو آپ کی زبان لڑکھڑا جائے گی، آپ کا گلا خشک ہو جائے گا اور اپنا مقصد بیان کرنے کے بجائے بھٹک جائیں گے۔ یہ بے یقینی ہر انسان کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ آپ انسانوں سے خوف زدہ ہونے کے بجائے ان پر حکومت کا یقین پیدا کریں۔ ایسی حکومت جس میں خلوص ہو یاد رکھیے آپ کا ہر عضو آپ کے مخفی احساسات کا مظہر ہوتا ہے۔آپ کی آنکھیں آپ کا چہرہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا آپ کی بے اعتمادی یا اعتماد کی چغلی کھاتا ہے۔ اگر آپ کے اندر اعتماد ہے، قوت یقین ہے تو آپ کی تمام حرکتیں، تمام افعال، تمام باتیں بدل جاتی ہیں اور دیکھنے والا فوراً ان سے متاثر ہو جاتا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ مفرور ملزم پولیس والے کو دیکھتے ہی پیلا پڑجاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ مجرم ہے اپنا اعتماد اپنا یقین کھو چکا ہے۔ ایک بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے کو ٹکٹ چیکر فورا بھانپ جاتا ہے کیونکہ اس کا چہرہ اس کی آنکھیں ، اس کے فعل کی چغلی کھاتے ہیں کہ اس نے بے ایمانی کی ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر بے یقینی اور بے اعتمادی کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اپنی ذات پر بھروسہ اور اعتمادحاصل کرنے کا پہلا زریں اصول بھی یہ ہی ہے کہ آپ اپنے ضمیر کو کسی جرم سے آلودہ نہ ہونے دیں ، مجرم ضمیر کبھی خود اعتمادی پیدا نہیں کر سکتا۔خواہ آپ ماہر تنویم بننا چاہیں یا نہ بنا چاہیں۔ خود اعتمادی زندگی کے ہر دور میں آپ کے لئے راہیں ہموار کرتی ہے اور خود اعتمادی کے لئےضمیر کی صفائی لازمی ہے۔ ایک ماہر تنویم کے لئے اعتماد اور یقین اول چیز ہے۔ اگر آپ بے اعتمادی سے ڈرتے ڈرتے کسی کو ہپنا ٹائز کرنے کی سعی کریں گے تو آپ اپنے تجربے میں ناکام رہیں گے۔ اس لئے یہ اعتماد رکھیےکہ آپ کامیاب ہوں گے اور یقین مانئے آپ واقعی کامیاب ہوں گے۔ ایک عبادت گزار اور مذہبی انسان کو اپنی ذات پر بھروسہ ہوتا ہے۔اس کا ضمیر پاک ہوتا ہے اس کی روح پاک ہوتی ہے اور اس کو اپنے خدا پر (جو آپ کی ذات کا مالک ہے)اعتماد ہوتا ہے۔ اس طرح اس کو اپنی ذات پر بھروسہ ہوتا ہے۔ کیا کبھی پتھر کے بت بھی کسی کی مرادیں پوری کر سکتے ہیں؟مگر کروڑوں انسان ان ہی مورتیوں کو پوج کر اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔کیوں؟یقین یقین اور ایمان ” ایسا ایمان ایسا یقین کہ ”خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔”
IMMAGINATION
اب میں قوت فکر کے بارے میں لکھتا ہوں جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ لاشعور سے کسی واقعے کو شعور میں لاکر IMAGINE کیا جاتا ہے (بد قسمتی سے اردو کا کوئی لفظ اس انگریزی لفظ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا بلکہ انگریزی زبان میں بھی اس لفظ کو ہر موقع پر الگ معنوی شکل دی جاتی ہے تاہم چونکہ وہ زبان اردو سے کہیں زیادہ وسیع ہے اس لئے میں اس لفظ کو جوں کا توں استعمال کر رہا ہوں تاکہ ہر بار مجھے الگ ترجمہ نہ پیش کرنا پڑے) لیکن امیجی نیشن کا دائرہ عمل بہت وسیع ہے۔ ایک امیجی نیشن وہ ہے جو ہم گزرے ہوئے واقعات کو سامنے لا کر دیکھتے ہیں۔ ایک امیجی نیشن وہ ہے جو ہم کسی واقعے کے کسی حصے کو صحیح دیکھتے ہیں مگر اس کے ساتھ خود اپنے ذہن سے اپنی خواہشات کے مطابق واقعات گڑھ کر اس میں شامل کر دیتے ہیں۔ اسے انگریزی میں DAY DREAM (جاگتے خواب) کہا جاتا ہے۔ ایک امیجی نیشن وہ ہوتا ہے جس کا کسی واقعے سے تعلق نہیں ہو تا بلکہ ہم اپنے ذہن کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایسا تصور باندھے جو حقیقت میں موجود نہیں۔ ہیپناٹزم کا تعلق زیادہ تر اسی امیجی نیشن سے ہے۔ وہ واقعات جو گزر چکے ہیں ان کو امیحن IMAGINE کرنے کا ذکر تو میں لاشعور کے سلسلے میں کر چکا ہوں۔ اب ان واقعات کا تھوڑا سا تذکرہ بھیکیے دیتا ہوں جن کا تعلق DAY DREAMINGے ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی لڑکی سے محبت کرتا ہے اس کا حاصل کرنا اس کے لئے دشوار ہے یا اس سے شادی کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اب وہ شخص تنہائی میں بیٹھ کر اپنی محبوبہ کا تصور کرتا ہے۔ ذہن ہی ذہن میں بارات آتی ہے، باجے بجتے ہیں اور شادی ہو جاتی ہے۔ یہ تمام باتیں وہ امیجی نیشن میں دیکھ کر مسرور ہوتا ہے جو اس کی خواہش ہیں۔ اس طرح وہ گھنٹوں پڑا کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ بعض اوقات امیجی نیشن اتنا عمیق ہوتا ہے کہ شعور بالکل بے حس ہو جاتا ہے اور آدمی کو اپنے گردو پیش تک کا ہوش نہیں رہتا۔ اسے یہ احساس نہیں رہتا کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے یعنی پاس سے گزرنے والی موٹر کی آواز یا کسی دوست کی پکار تک نہیں سکتا۔ بسا اوقات اسی طرح وہ جنسی آسودگی بھی حاصل کر لیتا ہے اور اس کو ہوش اس وقت آتا ہے جب اس کی ہیجانی کیفیت ختم ہو جاتی ہے.
خالص امیجی نیشن
خالص یا قطعی امیجی نیشن اس کو کہتے ہیں کہ انسان تمام واقعہ یا تمام تفصیل خود اپنےذہن سے پیدا کر سکے۔ مثلاً آپ کی زندگی میں ہزاروں بار ایسا ہوا ہو گا کہ آپ بیٹھے ہوئےہیں یکا یک آپ کا دل چاہا کہ آپ ہوائی جہاز میں سفر کریں چنانچہ آپ اپنے آپ کو ہوائی جہاز میں بٹھا دیتے ہیں۔ اس کے بعد تصور ہی تصور میں دنیا بھر کی سیر کر آتے ہیں۔آپ نے ایسے لوگوں کے واقعات بھی سنے ہوں گے جو محض تصوراتی محبت ) imaginary loveمیں مبتلا ہو جاتے ہیں یعنی جن کے محبوب کا کوئی وجود نہیں ہوتا مگر وہ امیجی نیشن سے ایک محبوب تراش لیتے ہیں۔ پھر اس کے خدو خال بالکل ویسے ڈھال لیتےہیں جیسی کہ ان کو آرزو ہوتی ہے۔ وہ اس سے اپنے ذہن میں شادی رچاتے ہیں ذہن میں ہی اس سے لیلیٰ مجنوں کا سا کھیل کھیلتے ہیں اور کبھی کبھی تو وہمی محبت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ انسان مجنوں ہو جاتا ہے اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ واقعی اس کی ایک محبوبہ ہے اوروہ اس سے عشق کرتا ہے۔ ایسے لوگ دہری زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایسے ہی اشخاص دہری شخصیت SPLIT PERSONALTY پیدا کر لیتے ہیں۔ اس کو آپ ذاتی ہپناٹائز SELF HYPNOTIZEکہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنےآپ کو ذہن کی مسلسل ہدایت اورامیجی نیشن سے ہپناٹائز کر لیتے ہیں۔ ان کی اس دہری شخصیت کاعلم
اس وقت ہوتا ہےجب ان کو ہپناٹائز کیا جائے۔ بسا اوقات اس قسم کی MULTIPLE PERSONALITY رکھنے والے لوگ ایک نو آموز ماہر تقویم کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے زید ہوتے ہیں اور جب ان کو معمول بنا لیا جا ئے تو وہ بکر بن جاتے ہیں اور جب ان کو جگایا جاتا ہے تو وہ عمر ہوتے ہیں جس کو زید اور بکرے کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا اس لئے ہپناٹزم کا عمل کرتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس قسم کی دوہری شخصیت رکھنے والا کہیں کسی الجھن میں مبتلا نہ ہو جائے۔اسی طرح یہ تخیل ارادی اور غیر ارادی بھی ہوتا ہے یعنی شعوری تخیل تو وہ ہوا جو آپ کے ارادے سے آپ کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور لاشعوری تخیل وہ ہوتا ہے جو آپ کے شعور سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ قطعی طور پر آپ کے ارادے اور خواہش کے خلاف ظہور میں آتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ وہ ہزار چاہتا ہے کہ وہ اس لاشعوری تخیل سے چھٹکارا حاصل کرلے مگر اس کی کوشش بے کار ہو جاتی ہے اور وہ مجبور و خاموش ہو کر لاشعور کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ بسا اوقات آپ نے تجربہ کیا ہو گا کہ آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ یکایک آپ کا ذہن ادھر ادھر بھٹکنا شروع کر دیتا ہے۔ آپ کئی کئی صفحات پڑھ جاتے ہیں مگر ایک لفظ بھی پلے نہیں پڑتا۔آپ دوبارہ کتاب شروع کرتے ہیں مگر پھر وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ بالآخر آپ کتاب رکھ کر آنکھیں موند لیتے ہیں اور کچھ دیر ذہن کو آرام دینے کے بعد آپ دوبارہ کتاب با آسانی پڑھ لیتے ہیں لیکن کبھی کبھی اس کے باوجود بھی آپ کا ذہن صاف نہیں ہوتا۔ یہ وہی لا شعوری امیجی نیشن ہوتا ہے اس کا تعلق کسی ماضی قریب کے واقعے سے ہوتا ہے جس نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور یکایک وہ واقعہ آپ کے لاشعور سے ابھر کر شعور میں آنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر چونکہ آپ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں اس لیے آپ اسے دبانا چاہتے ہیں۔لیکن آپ جتنی کوشش کرتے ہیں کہ وہ واقعہ دبا رہے اتنا ہی زیادہ ابھرتا ہے۔آخر آپ کی کوشش سے وہ اتنا گڈمڈ ہو جاتا ہے کہ نہ تو واقعہ ہی شعور میں اصلی صورت میں ابھرتا ہے اور نہ ہی کتاب کے حروف سجھائی دیتے ہیں اور اسی الجھن میں آپ کتاب نہیں پڑھ سکتے اور اس واقعہ کو دبا رہنے دیتے ہیں۔جب کتاب رکھ کر لاشعور کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو گویا آپ نے اس تخیل کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان کر دیا، آپ کا یہ اعلان ہی آپ کے ذہن کو صاف کر دیتا ہے اور کچھ دیر بعد آپ با آسانی وہ کتاب پڑھ لیتے ہیں۔لیکن وہ واقعات جو ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہیں عموماً کبھی اپنی اصلی صورت میں ذہن میں نہیں ابھرتے۔ آپ کتاب پڑھ رہے ہیں پڑھتے پڑھتے آپ کے سامنے لفظ بکس” آتا ہے۔ بظاہر یہ لفظ”بکس” ایک معمولی لفظ ہے مگر اس کے اندر ماضی بعید سے متعلق کوئی واقعہ پوشیدہ ہے۔ یہ اشاریاتی لفظ ہی آپ کے شعور کو اکسانے کے لئے کافی ہوگا۔ اس طرح وہ پوشیدہ واقعہ جس کا اشاریہ SYMBOL یہ لفظ بکس ہے لاشعور سے ابھرنے کے لئے مجبور ہوتا ہے۔ مگر آپ کے سامنے وہ واقعہ بھی اشارتی طور پر ہی ابھرے گا۔ آپ نہ تو اس واقعے کا سر پیر سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی کتاب پڑھ سکتے ہیں۔ یہ بالکل ایساہی ہوتا ہے جیسے میں نے پتنگ والا واقعہ بیان کیا۔انہی اشاریاتی الفاظ سے محلل نفس،انسان کے شعور کو اکسا کر وہ واقعات باہر نکالتاہے جن کا تعلق بچپن کے کسی حادثے سے ہو۔ یہ علامات SYMBOL ہی انسان کو مختلف الجھنوں میں مبتلا رکھتی ہیں مثلاً بکس ہی کولیجئے۔ بکس عام طور پر ماں کے رحم کو پیش کرتا ہے۔ اکثر انسان اپنی ذمے داریوں سے اکتا کر بچپن کی طرف لوٹ جانا چاہتے ہیں جب وہ بالکل بے نیاز ہوا کرتے تھے۔وہ اپنی خوشی ہستے تھے اپنی خوشی روتے تھے۔ ماں باپ ان کا لاڈ پیار کیا کرتے تھے۔ اب جب کہ ان کو دنیا کی لا انتہاذمے داریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وہ اس بچپن کو یاد کرتے ہیں۔ ان کا لاشعور چاہتا ہے کہ وہ دوبارہ بچے بن جائیں۔ ماں کا رحم کوکھ)بچے کا بہترین سہارا ہے۔چنانچہ عین ممکن ہے کہ یہ بکس فراریت کی راہ دکھا کر بچپن کی طرف لوٹ جانے کے ارادے کی علامت ہو۔بہر حال اس قسم کے لاشعوری احساسات انسان کے اندر شعوری امیجی نیشن پیدا کرتے ہیں۔بسا اوقات انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر اس لاشعوری امیجی نیشن کا شکار بھی ہو جاتا ہے مثلاً آپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ کی دیرینہ خواہش ہے کہ آپ یورپ کا سفر کریں مگر یہ خواہش مالی یا دیگر مشکلات کی بنا پر پوری نہیں ہوتی۔لہٰذا آپ کا ذہن اس خواہش کی تکمیل کی خاطر طرح طرح کے طریقے اختیار کرتا ہے۔ کبھی آپ امیجی نیشن میں ہوائی جہاز پر بیٹھے ہوئے ہیں ،کبھی بحری جہاز اور کبھی ریل گاڑی پر۔اس طرح مختلف طریقوں سے ان خواہشات کی تکمیل ہوتی رہتی ہے اور ذہنی طور پر کسی حد تک آپ آسودگی حاصل کر لیتے ہیں۔دراصل ہم زندگی کی اکثر خواہشات کی تکمیل اسی طرح سے کرتے ہیں،کبھی رات کے خوابوں میں اور کبھی دن کے خوابوں میں۔ اگر قدرت نے انسان کے اندر یہ طریقہ پیدا نہ کیا ہوتا تو اس دنیا کی آدھی آبادی نا مکمل اور نا آسودہ خواہشات کی وجہ سے پاگل ہو جاتی۔انسان کے لئے یہ ایک بہت غنیمت سہارا ہے۔وہ لوگ جو ذہنی طور پر عیاشی کر کے آسودگی حاصل کر لیتے ہیں ان لوگوں سے بہت بلند ہوتےہیں جو ذہنی آسودگی کے بجائے عملی طور پر زنا بالجبر کے مرتکب ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جاہل طبقہ عملی جرائم میں زیادہ حصہ لیتا ہے کیونکہ ان کا ذہن اس حد تک استوار DEVELOP نہیں ہوتا کہ وہ ذہنی آسودگی حاصل کر سکے۔ کند ذہن لوگوں کا امیجی نیشن بھی کند ہوتا ہے۔اس لئے وہ ذہنی الجھنوں کا شکار بھی کم ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہر خواہش کی تکمیل عملی صورت میں کر لیتے ہیں یعنی اگر جبلی خواہشات انہیں مجبور کریں تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ ان جبلی خواہشات کی تکمیل بالخصوص بہیمانہ خواہشات کی آسودگی کے لئے معاشرے کو اپنا ہدف بنائیں۔