ہیپناسس

ہپناٹزم کے اصول اور عملی طریقے

انسانی ذہن کی طرح ہمارے افعال پر قادر ہو کر ہم سے بعض اوقات ایسی حرکات کراتا ہے جنہیں ہم کرنا نہیں چاہتے۔ اب عملی ہپناٹزم کی تفصیلات کی طرف آئیے۔ ان طریقوں پر عمل کرنے کے بعد ہر وہ شخص ہیپناٹزم سیکھ سکتا ہے جس کے اندر گزشتہ بیان کردہ قوتوں کو حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ قوتیں کیونکر حاصل کی جاسکتی ہیں، ان میں سے کچھ کا طریقہ عمل
اس باب میں بیان کیا جائے گا۔ لیکن اس سے قبل کہ اس موضوع پر اظہار خیال کیا جائے۔ میں ایک عام غلط فہمی کو دور کر دینا چاہتا ہوں۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہپنا ٹزم سے شعبدے باز کام لیتے ہیں نہ صرف کام لیتے ہیں بلکہ اس کی مدد سے جرائم بھی کروائے جاتے ہیں۔شعبدے بازی اور ہیپناٹزم عام طور پر لوگ بڑے بڑے تھیٹروں اور اسٹیج پر شعبدے بازی کے کرتب دکھاتے ہیں۔ ان میں سے شاید ایک فیصدی بھی ہپناٹزم نہیں جانتے۔ دراصل یہی لوگ ہپناٹزم کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ہیپناٹزم کا مقصد یہی ہے کہ اس سے ذہن انسانی کا علاج کیا جائے اور اس کوبیماریوں سے نجات دلائی جائے۔ یہی وہ سائنسی قوت ہے جس سے بنی نوع انسان کی بے انتہا خدمت کی جا سکتی ہے ، یہی وہ روحانی قوت ہے جس کے ذریعے انسانیت کی روح کی چیخوں کو قہقہوں میں بدلا جا سکتا ہے۔
ابھی حال ہی میں میرے چند دوستوں نے ایک صاحب سے اپنے گھر پر چند شعبدے دکھانے کی فرمائش کی اور مجھے بھی بلایا۔ ان صاحب نے سب سے پہلے ایک لمبا چوڑا لیکچر دیا کہ نہ صرف وہ ایک ماہر ہپناٹزم ہیں بلکہ روحوں کو بھی قبضے میں رکھتے ہیں۔ بعد میں انہوں نے وہی شعبدہ بازوں کے سے کرتب دکھائے یعنی تاش کے پتوں کے کھیل، بند لفافے میں لکھی ہوئی تحریر کو پڑھنا ،اور رسی وغیرہ کے کھیل میں خاموشی سے دیکھتا رہا اور مسکرا تا رہا۔ میری مسکراہٹ کچھ اتنی طنزیہ تھی کہ کھیل ختم کرنے کے بعد وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور سرگوشی کے انداز میں بولے ”ڈاکٹر صاحب، آپ سوئزرلینڈ کتنا عرصہ رہے ہیں ؟ میں نے کہا ” دو سال ” بولے کہ وہاں کوئی ہیپناٹزم کا اسکول ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ! تو فرمانے لگے اب آپ جائیں تو مجھے بھی لیتے جائیں، میری بڑی آرزو ہے کہ میں ہپناٹزم سیکھوں۔ میرے منہ سے نکل گیا کہ خدا کے لئے ہپناٹزم کو اس طرح بد نام تو نہ کرو۔ وہ کھسیانے ہو کر بولے کہ حضور یہ تو لوگوں کو یقین دلانے کے لئے کرنا ہی پڑتا ہے۔ (ان قبلہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ مجھے بھی ہیپناٹزم سے دلچسپی ہے۔)
ہیپناٹزم اور جرائم:یہ امر قطعی اور فیصلہ کن ہے کہ ہپناٹزم کے ذریعے انسان کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اس کے اپنے اخلاقی تصور کے تحت غلط ہو۔ یعنی آپ اسے کوئی ایسا فعل کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے جو اس کے نظریہ اخلاق اور خواہشات کے متضاد ہو اور جس پر عمل کرنے کے لئے اس کا ضمیر باعث ملامت بنے۔ اس غلط فہمی کی سب سے بڑی وجہ وہ ناول اور فلمیں ہیں جن میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہپناٹسٹ اپنے معمول کے ذریعے جرائم کرواتا ہے۔ یہ کہانیاں ان مصنفین کی ہوتی ہیں جنہوں نے ہپناٹزم کا مطالعہ ہی نہیں کیا اور کیا بھی تو اس کو سمجھا نہیں۔ 1937ء میں یہ افواہ عام تھی کہ ماسکو میں بالشویک لیڈروں پر مقدمات چلا کر ان سےہپناٹزم کے ذریعے اعتراف جرم کروایا گیا۔ ہپناٹزم دوسرے ملکوں کی بہ نسبت روس میں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ یہ افواہیں پھیلانا محض ایک سیاسی حربہ تھا اور نہ ہپنا ٹزم کے ذریعے کسی سے کوئی غلط اعتراف نہیں کرایا جا سکتا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی شخص کو جو اپنے آپ کو خود ہپناٹزم کے لئے پیش نہ کرے اس عمل سے اثر ڈالا ہی نہیں جا سکتا۔ لوگوں میں یہ بھی غلط فہمی ہے کہ ہپناٹسٹ جس کو چاہے اور جب چاہے ہپناٹائز کر سکتا ہے۔ ہپناٹائز یا تو لا علمی میں کیا جاتا ہے یعنی جس شخص پر عمل ہو رہا ہے اس کو اس بات کا علم نہ ہو کہ اس کو ہپناٹائز کیا جا رہا ہے اس طرح اس کا لاشعور مزاحمت نہیں کرے گا یا پھر معمول به رضا ور غبت اس کے لئے آمادہ و تیا ر ہو۔ یہ بصورت دیگر اس پر عمل کا کرنا ہی نا ممکن ہے تو پھر جرم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ اگر کوئی عادی مجرم یا کسی شخص کے ذہن میں پہلے ہی جرم کرنے کا ارادہ ہو تو اس کو ہپناٹزم کے ذریعے جرم کرنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے مگر اس صورت میں بھی ہپناٹزم کو قصور وار نہیں گردانا جا سکتا۔کچھ عرصہ ہوا امریکا میں ایک قاتل پر مقدمہ چلایا گیا۔اس کے وکیل نے یہ ثابت کیا کہ مجرم پر ہیپناٹزم کا اثر تھا۔عدالت نے ملزم کو بری کر دیا مگر جب وہ شخص مرنے لگا تو اس نے اعتراف کیا کہ وہ خود قاتل تھا اور یہ کہ ہپناٹزم کا بہانہ محض سزا سے بچنے کے لئے تراشا تھا۔مشکل یہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی یہی سمجھتا ہے کہ ہیپناٹزم کے ذریعے جرم کروایا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اتنے تعلیم یافتہ جج اس قاتل کو بخش نہ دیتے۔ کچھ عرصہ ہوا مجھے ایک شخص نے بتایا کہ ایک ہوٹل سے چند لوگ گرفتار کیے گئے ہیں کیونکہ انہوں نےایک لڑکی کو ہپنا ٹائز کر کے اس کو بد اخلاقی پر مجبور کیا۔ جب لڑکی اس اثر سے باہر نکلی تو اس نے ان لوگوں کو گرفتار کروا دیا ۔ یہ قصہ نہ جانے کیونکر پھیلاکیونکہ ہر ہوش مند انسان جس نے ہیپناٹزم کا مطالعہ کیا ہو جان سکتا ہے کہ اول تو کسی کو اس کی مرضی کے بغیر ہیپنا ٹائزنہیں کیا جا سکتا۔دوم اگر کسی طرح اس کو ہپناٹائز کر بھی لیا جائے تب بھی اس کی مرضی کے خلاف اس کے ساتھ بد اخلاقی کرنا ناممکن ہے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ایسا ہوا تو یہ بات قطعی نا ممکن ہے کہ معمول ہیپناٹزم کے دوران پیش آمدہ واقعات کو یاد رکھے۔ اس لئےاس کی نشان دہی ناممکن ہے۔عام طور پر اگر معمول سے دوران ہپناٹزم کوئی ایسا فعل کرنے کے لئے کہا جائے جو اس کے خلاف مرضی ہو تو وہ انکار کر دیتا ہے۔اگر زیادہ اصرار کیا جائے تو وہ غنودگی سے جاگ اٹھتا ہے چونکہ شعور اور لاشعور کے درمیان اگرچہ محتسب پیتا نوم کے ذریعے اپنی گرفت ڈھیلی کر دیتا ہے لیکن وہ بالکل ناکارہ نہیں ہوتا۔ اس لئے جب بھی کوئی ایسی بات ہو تو وہ محتسب فورا لا شعور کو چونکا کر شعور کو جگا دہتا ہے۔ یہ سوچتا بالکل غلط ہے کہ ہپناٹزم کا معمول عامل کے بالکل اختیار میں ہوتا ہے اور وہ اپنی قوت فیصلہ قطعی طور پر کھو بیٹھا ہے۔ سب سے زیادہ غلطی پوسٹ ہیپناٹک POST HYPNOTIC سجیشن سے پیدا ہوتی ہے۔ پوسٹ ہیپناٹک سجیشن سے مراد وہ ہدایت ہے جو عامل، معمول کو دیتا ہے۔ یعنی دوران غنودگی اگر عامل معمول سے کہے کہ کل تم ٹھیک گیارہ بجے سو جاؤ گے اور اس کے بعد معمول کو جگا دیا جائے تو معمول دوسرے دن ٹھیک گیارہ بجے سو جائے گا اس عمل کو پوسٹ ہیپناٹک سجیشن کہا جاتا ہے)کیونکہ بری عادت کو چھڑانے کے لئے پوسٹ ہپناٹک سجیشن لازمی ہوتی ہے اور اس کے بغیر علاج ممکن نہیں ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شرابی سے شراب چھڑانے کے لئے لازمی ہے کہ اس کو پوسٹ ہینا تک سجیشن دی جائے یعنی اس سے کہا جائے کہ تم اب شراب نہیں پیو گے، اس میں پیٹرول کی بو آئے گی۔ تمہیں شراب کے رنگ سے نفرت ہو جائے گی۔ اب تم شراب ہر گز نہ پی سکو گے۔ اس قسم کے سجیشن کے بعد معمول کو جگا دیا جاتا ہے اور معمول کو عمومآ شراب سے نفرت ہو جاتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ معمول خود بھی اس بات پر راضی ہو۔ اگر وہ راضی نہیں تو پھر عام طور پر پوسٹ ہیپناٹک سجیشن بے کار ثابت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی شخص علاج کرانے کے لئے آتا ہے تو وہ خود بھی چاہتا ہے کہ اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ ہپناٹسٹ تو محض اس کی اس خواہش کو تقویت دیتا ہے اور لاشعور کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ شراب سے نفرت کرنے لگے۔ ہپناٹزم کا سب سے بڑا اور پہلا اصول یہی ہے اور اس کے لئے معمول کی خود سپردگی ” لازم و ملزوم ہے۔ جب تک وہ خود کو بہ رضا ور غبت پیش نہ
کرے ہپناٹزم بے کار ثابت ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص کسی پیپٹائٹ کے پاس آکر کہتا ہے کہ میں فلاں گھر میں چوری کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے وہاں کے کتے سے خوف آتا ہے ،تم مجھے ہپناٹائز کر کے میرے اس خوف کو دور کردو تاکہ میں چوری کر سکوں۔ اول تو کوئی معقول ہپناٹسٹ اس عمل کے لئے راضی ہی نہ ہوگا اور اگر کوئی رضا مند ہو کر اس پر عمل کردے تو اس کا قصور صرف اتنا ہی ہو گا کہ اس نے معمول کے ذہن سے کتے کا خوف دور کر دیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح عامل نے بہرحال جرم کرنے میں مدد کی مگر اس طرح تو دنیا کے مہذب سے مہذب پیشے اور علم کے ذریعےINDIRECT طور پر جرائم کرائے جاسکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ڈاکٹر سے نیند آور گولیوں کا نسخہ لکھوا لائے اور گولیاں کسی کو مارنے کے لئے کھلاوے تو بھلا اس میں ڈاکٹر کا کیا قصور۔ جس طرح اصولی طور پر ایک دوا فروش یہ جان لینے کے بعد کہ دوا کو جرم کے لئے استعمال کیا جائے گا دوا دینے سے انکار کر دیتا ہے اس طرح ایک اصولی ہپناٹسٹ یہ جان لینے کے بعد کہ کتے کا خوف دور ہو جانے کے بعد یہ شخص چوری کرے گا تو وہ بھی عمل کرنے سے انکار کر دے گا۔ ویسے جس طرح ایک ڈاکٹر غیر قانونی طور پر کسی کا حمل
گراسکتا ہے اس طرح کوئی بھی ہپناٹسٹ کوئی جرم کرانے میں بالواسطہ INDIRECT مدد کر سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کے جرم کرنے پر ڈاکٹری کی تعلیم کو اور ڈاکٹروں کو مجرم کیسے ٹھرایا جا سکتا ہے اسی طرح محض اس خیال سے کہ ہپناٹزم سے جرم میں مدد دی جاسکتی ہے اس پیشے کو کیونکر مجرم ٹھرایا جا سکتا ہے جب کہ اس کا مقصد لاکھوں انسانوں کی بھلائی ہے۔
ص:50