ہیپناسس

ہپناٹزم کی ابتدا

ہپناٹزم کا عمل زمانہ قدیم سے کیا جا رہا ہے لیکن اس کی حقیقی ابتدا ڈاکٹر مسمائر سے ہوئی (انہیں کے نام پر اس کو مسمریزم بھی کہا جاتا ہے)مسمائر سے پہلے اس طریقہ علاج کو روحانی علاج کہا جاتا تھا یا جادو اور شیطانی علاج کے نام سے یاد کیا جاتا تھا witch doctor کم و بیش اسی قسم کے علاج کرنے والے گروپ سے تعلق رکھتے تھے چونکہ حکومت کی جانب سے اس قسم کے معالج کو سزا کا مستحق قرار دیا جاتا تھا اس لیے ڈاکٹر مسمار سے پہلے کسی ڈاکٹر نے اس پر عمل کیا بھی ہوگا تو پوشیدہ تور پر اعلانیہ طور پر کسی میں بھی جرآت نہ تھی شعبدے بازی میں چونکہ اس کا استعمال محض تفریحا تھا اس لیے ان لوگوں کو محض شعبدہ باز کہا جاتا تھا ڈاکٹر مسمار کی تحقیقات کی ابتدا 1846 میں ان کے مطالعے سے ہوئی جس کا عنوان”سیاروں کا اثر انسانی جسم پر”تھا اس مقالے پر طبی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور ڈاکٹر موصوف کو اس پر اعزازی سند بھی دی گئی یہ تحقیقاتی مقالہ ڈاکٹر مسمار کی حیوانی مقناطیسی قوت animal magnetism کی ابتدا تھی اور یہیں سے موجودہ تجزیہ نفسی کا اغاز ہوا۔چونکہ اس زمانے میں شعور تحت شعور اور لاشعور کا سائنسی انداز میں وجود نہ تھا اس لیے مسمائر کو اپنی تھیوری پیش کرنے میں دقت ہوئی لیکن جس طرح ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ کے لیے نظریات پر ملامتوں کی بوچھاڑ کی گئی۔اسی طرح ڈاکٹر مسمائر بھی نشانہ ملامت بنائے گئے اگر مسمائر ڈاکٹر نہ ہوتے تو کوئی بات نہ ہوتی ان کو بھی شعبدہ باز کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا مگر وہ اپنے نظریے کے وجود کو دنیا سے منوانا چاہتے تھے اس لیے ان کے خلاف ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ وہ ایک بیکے ہوئے ڈاکٹر ہیں جنہوں نے ایک بلند مرتبہ پیشے سے ہٹ کر ایک ناقابل اعتماد جادوگری پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا ہے اس طرح کونسل اف میڈیکل فیکلٹی medical faculty ہم نے ان کی سند ضبط کرنے کی دھمکی بھی دی ان کے خیال میں ڈاکٹر اپنے اصل پیشے سے ہٹ کر کوئی دوسرا طریقہ علاج شروع کر دے تو اس کا حق نہیں کہ وہ ڈاکٹری سند بھی اپنے پاس رکھے۔مگر ڈاکٹر مسمائر کے طریقہ علاج ہے جب مریض صحت یاب ہونے لگے تو لوگ حیران رہ گئے اس طرح ان کے مسلسل تجربات نے ڈاکٹروں کے اندر بھی دو گروہ پیدا کر دیے ایک گروہ ان کا سخت مخالف تھا جبکہ دوسرا گروہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادہ تھا اور ان کا حمایتی تھا مگر طبی بورڈ میں کچھ ذاتی رنجشیں بھی تھیں جن کی وجہ سے میڈیکل فیکلٹی نے مسمائر کو ملامتوں کا شکار بنائے رکھا انہوں نے کونسل سے کئی بار استدعا کی کہ وہ ان کے تجربات کو بغور دیکھے اور اگر اس کو یقین ہو جائے کہ ان کے تجربات سے مفید اثرات ہو رہے ہیں تو انہیں نہ صرف تجربات کرنے کی اجازت دی جائے بلکہ ان کے لیے تحقیقات جاری رکھنے کی راہ بھی ہموار کر دی جائے لیکن کونسل کے ممبران اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود ان کے تجربات مفید ہیں ان پر جادوگری اور ضعیف الاعتقادی کا الزام لگاتے رہے چونکہ وہ اپنے نظریوں کو سائنسی اصولوں کی روشنی میں بیان نہیں کر سکتے تھے اس لیے ان کو ماننے سے انکار کر دیا گیا جب انہوں نے “قوت مقناطیسی حیوانی”پر مقالہ لکھا تو مسمائر کو اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنی تھیوری کو سائنسی اصولوں پر بیان کرنے سے قاصر ہیں مگر وقت بتائے گا کہ یہ نظریہ قطعی طور پر اصولی ہے چونکہ وہ اپنے پہلے مقالے میں ستاروں کا ذکر بیان کر چکے تھے جس میں چاند کے اتار چڑھاؤ کا اثر سمندر کی جولانی اور نظام انسانی پر ثابت کیا تھا اسی بنیاد پر انہوں نے لکھا کہ اگر چاند اپنی کشش سے سمندر اور انسان پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو پھر یہ حیوانی مقناطیسیت انسانی جسم پر ضرور اثر انداز ہو سکتی ہے انہوں نے کہا کہ یہ مقناطیسی قوت فولاد میں موجود ہے اور اسی قسم کی قوت انسان میں بھی موجود ہے اس لیے جب یہ دونوں قوتیں ایک مخصوص طریقے سے استعمال کی جائے تو بہت سی لاعلاج بیماریوں سے چھٹکارا حاصل ہو سکتا ہے ان کا خیال تھا کہ انسانی جسم میں خاص قسم کا سیال liquid موجود ہے جو اپنے اندر حیوانی مقناطیسی قوت رکھتا ہے لیکن اگر اس سیال کو مقناطیس سے متاثر کر کے اس کے بہاؤ کو متوازن regulate کیا جائے تو وہ مرض جاتا رہتا ہے انہوں نے کہا بہت سی بیماریاں جو ادویات کے دائرہ عمل سے باہر ہیں وہ قوت مقناطیس سے درست کی جا سکتی ہیں۔چنانچہ انہوں نے ایک ایسی علاج گاہ بنائی جس میں فولادی مقناطیس اس کے ٹکڑوں سے علاج کرنا شروع کیا وہ مریض کو سیدھا لٹا کر فولادی ٹکڑوں کو اس کے قریب سے گزارتے آہستہ آہستہ مریض پر ایک ہلکی سی نیند طاری ہو جاتی اس طرح وہ یہ عمل مہینوں دہراتے اور آخر کار مریض صحت یاب ہو جاتا اس کے بعد انہوں نے اپنی علاج گاہ میں چمکدار آئینے اور ہلکی موسیقی کا انتظام کیا ہمارے یہاں بھی جب کسی قسم کے معالج (جادوگر) کو طلب کیا جاتا تھا تو وہ ساتھ میں ڈھول لاتے تھے اور مریض کے سامنے لوبان وغیرہ سلگا کر ڈھول پیٹنے شروع کر دیتے اور مریض پر ایک خاص قسم کی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی پنجاب اور کم و بیش ہر جگہ کے دیہاتوں میں یہ جن بھوت اتارنے والے عام طور پر پائے جاتے ہیں ان کے خیال میں یہ آئینے اور موسیقی اس قوت حیوانی کو تقویت پہنچاتے ہیں جو مریض کے علاج کے لیے لازمی ہے لیکن وہ اپنے طریق علاج کو زیادہ عرصے جاری نہ رکھ سکے کیونکہ میڈیکل کونسل ہے ان کو مطلع کیا گیا اگر انہوں نے اپنا طریقہ علاج فورا ترک نہ کیا تو ان کی سند ضبط کر لی جائے گی چنانچہ ان کو ویانہviana چھوڑ کر پیرس جانا پڑا پیرس میں انہوں نے بڑے پیمانے پر علاج شروع کیا انہوں نے خاص موسیقی اور ائینوں کا استعمال کیا وہ مریض کے ہاتھ میں فولاد کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھما دیتے اس طرح انہوں نے اجتماعی معالجہ شروع کر دیا اور ان کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی وہاں ان کے ایک ساتھی ڈاکٹرایلسنElson بھی تھے دونوں مل کر کام کرتے تھے مگر کچھ عرصہ بعد ایلسن اور مسمائر میں جھگڑا ہو گیا اور دوسری چند وجوہ کی بنا پر مسمائر نے فرانس چھوڑ دیا مگر ایلسن وہی مقیم رہے مسمائر کے جانے کے بعد ایلسن نے اعلان کیا کہ درحقیقت مریض تو وہ تندرست کرتے تھے مسمار تو بالکل فراڈ تھا (کچھ اس قسم کا جھگڑا ڈاکٹر فرائیڈ اور ینگ میں ہوا تھا) جب مسمائر ایلسن کو چھوڑ کر چلے گئے تو یہ دور ایلسن کے لیے بڑا صبر آزما ثابت ہوا وہ پیرس میں رہ کر طبی بورڈ سے لڑتا رہا مگر اس کو جلد ہی یہ پریکٹس ترک کر کے معمول کی ڈاکٹری کرنا پڑی پھر ایک سال تک پوشیدہ طور پر وہ مسمائر کے طریقہ کار پر عمل کرتا رہا اور اس طرح کافی مریض اچھے کرنے کے بعد اس نے کونسل سے کہا کہ وہ اس کام کی تحقیق کرے۔جب مسمائر کو علم ہوا تو انہوں نے حکومت فرانس کو احتجاجا لکھا کہ ایلسن تو محض اس کا طالب علم ہے اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میرے طریقے کار پر عمل کرے یا کونسل سے تحقیقات کے لیے کہے تب یہ جھگڑا ایک خاصی لڑائی میں تبدیل ہو گیا اس لیے حکومت نے مارچ 1784 کو نو افراد پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی تاکہ دعوے کی تحقیقات کی جائے لیکن بعد میں طبی بورڈ کے اصرار پر یہ کونسل 13 افراد کی کر دی گئی مسمائر کہ مسلسل احتجاج کے باوجود اس کمیٹی نے ایلسن کی علاج گاہ کا معائنہ کیا اور بعد میں مکمل رپورٹ لکھ کر پیش کر دی اس کے ایک ممبر نے صاف طور پر لکھا کہ یہ تمام اثرات تخیل سے پیدا ہوتے ہیں مقناطیس سے کچھ نہیں ہوتا یعنی اس کا مشاہدہ تھا کہ مریض پر جو کچھ رد عمل ہوتا ہے وہ تمام واہمہ یا اس کا اپنا خیال ہوتا ہے اور قوت مقناطیس سے اس کا کوئی تعلق نہیں کچھ عرصے کے بعد مسمائر میں بھی مقناطیسی فولاد کا استعمال چھوڑ دیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ انسان اپنے اندر قوت مقناطیس پیدا کر کے اس سے وہی کام لے سکتا ہے جو فولاد کے ٹکڑے سرانجام دیتے ہیں اس طرح انہوں نے اپنی انکھوں اور انگلیوں سے کام لینا شروع کیا۔اس تمام عرصہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ اور پھر تیسری جگہ بھاگتے پھرےجس جگہ بھی وہ جاتے باوجود کامیاب علاج کی حکومت ان کے خلاف اقدام کرتی اس لیے انہیں مسلسل فرار اختیار کرنا پڑا اور اخر کار وہ پھر ویانہVIANA لوٹ ائے یہ کہانی تو بڑی طویل ہے مختصر یہ کہ آخری دور میں ان کا طریقہ کار موجودہ ہپنا ٹزم سے ملتا جلتا تھا یعنی وہ مریض کو سامنے بٹھا کر کہا کرتے تھے کہ وہ ان کی آنکھوں میں جھانکے اس طرح وہ مریض پر غنودگی طاری کر کے اس کا علاج کرتے تھے مگر اب وہ اس کو حیوانی مقناطیسیت ہی کہتے رہے اور کوئی نیا نظریہ پیش نہ کر سکے۔ مسمائر کی انتہائی کوشش کے باوجود بھی طبی بورڈ نے مسمریزم کو ماننے سے انکار کر دیا اگرچہ انہوں نے اپنے تجربے کو مختلف ڈاکٹروں کے سامنے کئی بار دہرایا اور بیسیوں ڈاکٹر ان کے ہم خیال بن گئے پھر بھی طبی بورڈ نے اس تجربے کی سائنسی حیثیت قبول نہ کی آخری عمر میں ان کا چرچہ عام ہو گیا ان کی علاج گاہ مریضوں سے بھری رہتی مگر مسمار کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ میڈیکل سائنس اس کے وجود کو تسلیم کر لے ان کی وفات کے بعد سے کڑو ڈاکٹر ان کے نقشے قدم پر چلتے رہے کچھ ڈاکٹر ان کے طریقے کار میں بعض تبدیلیوں کے ساتھ مسبراعظم پر عمل کرتے رہے اس طرح 1848 میں ڈاکٹر اسٹرائیل کلکتہ میں آکر پریکٹس کرنے لگا۔وقت کے ساتھ ساتھ تحقیقات بڑھتی چلی گئی اور آخر کار ماہرین نفسیات نے مسمریزم کی اس گتھی کو سلجھا لیا اور اس کا نام ہپنا ٹزم رکھا یہ لاطینی لفظ ہے جس کے معنی نیند کے ہیں اس طرح ماہرین نفسیات نے ہپنا ٹزم کی حقیقی صورت متعین کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دی آج دنیا ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ اور ڈاکٹر ینگ کی احسان مند ہے کیونکہ انہی لوگوں نے انتھک کوشش اور محنت سے شعور اور لاشعور کے سربستہ راز فاش کیے تھے اور انہی کی تحقیقات نے ہم کو بتایا کہ ہپناٹزم نہ کوئی جادو ہے اور نہ ہی کوئی قوت مقناطیس ہے بلکہ یہ انسان کو اپنے رجحانات کو ایک مخصوص طریقے سے منتقل کرنے کا نام ہے اس کے باوجود اج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہپناٹزم کو جادو اور شعبدہ بازی تصور کرتے ہیں یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہپناٹزم کو میڈیکل سائنس میں اب بھی وہ درجہ حاصل نہیں ہوا کہ جو اسے ہونا چاہیے تھا مگر وہ دن دور رہی جب میڈیکل سائنس میں حقنہٹزم کو باقاعدہ طور پر نصاب کی شکل میں اختیار کر لیا جائے گا۔حال ہی میں امریکہ اور روس میں ہپناٹزم کے تحت ایسے اپریشن کیے گئے ہیں جو اس کے بغیر مشکل تھے ہپناٹزم کے تحت بچہ جننے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ درد نہیں ہوتا بلکہ مریضہ اور بچے بے ہوش کرنے والی دوائیوں کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہتے ہیں میرا مقصد بھی یہی بتانا ہے کہ سینکڑوں ایسی بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہے جو ادویات سے ممکن نہیں۔
ص:18