مسئلہ ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان اور کافر میں فرق نماز ہے کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس کا کیا مطلب ہے کہ اگر کوئی نماز نہیں پڑھتا کافر ہو جائے گا؟
بسم الله الرحمن الرحيم الجواب بِعَونِ المَلِكِ الوَهَّابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّورَ وَالصَّوَاب جی ہاں یہ حدیث صحیح ہے اور یہ صحاح ستہ کی چار کتابوں میں مروی ہے جیسا کہ صحیح مسلم شریف میں . ” إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلاة ” مؤمن آدمی اور شرک وکفر کے درمیان فرق نماز چھوڑنا ہے۔الصحيح المسلم باب بيان اطلاق اسم الكفر على من ترك ج 1 ص 88 رقم 82) ۔
اس کے علاوہ اسے ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز چھوڑنے سے کوئی مومن کافر ہو جائے گا بلکہ معنی یہ ہے
1۔ نماز کے تارک کو مرتد کافر جیسی سزا ہو گی ۔
۔2۔یا یہ معنی ہے کہ جو شخص نماز کے ترک کو جائز و حلال سمجھتا ہو وہ کافر ہوگا۔
۔3۔ یا یہ معنی ہے کہ ترک نماز کفر کی طرف لے جانے والا ہے۔
۔4۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس کا فعل نماز کا ترک کفار کے فعل جیسا ہے۔
جیسا کہ امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں اسی حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے فرمایا: تَأَوَّلُوا قَوْلَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ عَلَى مَعْنَى أَنَّهُ يَسْتَحِقُ بِتَرْكِ الصَّلَاةِ عُقُوبَةَ الْكَافِرِ وَهِيَ الْقَتْلُ أَوْ أَنَّهُ مَحْمُولٌ عَلَى الْمُسْتَحِلِ أَوْ عَلَى أَنَّهُ قَد يؤول بِهِ إِلَى الْكُفْرِ أَوْ أَنَّ فِعْلَهُ فِعْلُ الْكُفَّارِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ ” علماء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ مومن اور کافر کے درمیان فرق نماز کا ترک ہے کی یہ تاویل کی ہے کہ نماز کا تارک مرتد جیسی سزا کا مستحق ہے اور مرتد کی سزا قتل ہے یا یہ حدیث نماز کے ترک کو جائز سمجھنے والے پر محمول ہو گی یااس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ ترک نماز کفر کی طرف لے جانے والا فعل ہے یا نماز کو چھوڑنا کفار کے فعل جیسا ہے۔
(شرح مسلم للنووی باب بیان اطلاق اسم الكفر على من ترك ج 2 ص 69)
وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم
فتاوی یورپ برطانیہ (صفحہ نمبر 85)
کیا نماز چھوڑنے سے بندہ کافر ھو جاتا ہے۔
18
Feb