صحابہ و اہل بیت علیہم الرضوان, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

کیا سادات کو عذاب ہوگا؟

مسئلہ ۱۹۹و۲۰۰: مرسلہ حکیم عبدالجبار خان دہام پور ضلع بجنور ۲۹ ربیع الاول شریف ۱۳۳۵ھ
(۱) کیا سید پر دوزخ کی آنچ قطع حرام ہے، اور وہ کسی بداعمالی کی پاداش میں دوزخ میں جاہی نہ سکے گا؟
(۲) آل فاطمہ کا مخصوص اعزاز و امتیاز کیا حضرت فاطمہ خاتونِ جنت کے ذریعہ سے ہے کیونکہ جناب سیدہ موصوفہ سید کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں یا حضرت علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ کی ذات خاص کی بدولت یہ رُتبہ سادات ہے فقط۔

 

 

الجواب :
(۱) ساداتِ کرام جوواقعی علمِ الہٰی میں سادات ہوں ان کے بارے میں رب عزوجل سے امید واثق یہی ہے کہ آخرت میں اُن کو کسی گناہ پر عذاب نہ دیا جائے گا۔ حدیث میں ہے : انما سیت فاطمۃ لان اﷲ تعالٰی حرمھا وذریتہا علی النار ۱ ؎۔ ان کا فاطمہ نام اس لیے ہوا کہ اﷲ نے ان کو اور ان کی تمام ذریت کو نار پر حرام فرمادیا۔

( ۱ ؎الجامع الصغیرحدیث ۲۳۰۹دارالکتب العلمیۃ بیروت۱ /۱۳۹)
المواہب الدنیۃ المقصد الثانیالفصل الثانی المکتب الاسلامی بیروت۲ /۶۴)

دوسری حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بتول زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا : ان اﷲ غیر معذبک ولا ولدک اوکما قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۲ ؎۔ اے فاطمہ ! اﷲ نہ تجھے عذاب کرے گا نہ تیری اولاد میں کسی کو، مگر حکم قطعی بے نص قطعی ناممکن ہے۔

( ۲ ؎المعجم الکبیر حدیث ۱۱۶۸۵المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱ /۲۶۳)

(۲) امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ کی اولاد امجاد اور بھی ہیں قریشی ہاشمی علوی ہونے سے ان کا دامان فضائل مالا مال ہے مگر یہ شرفِ اعظم حضرت سادات کرام کو ہے، اُن کے لیے نہیں یہ شرفِ حضرت بتول زہرا کی طرف سے ہے کہ۔ فاطمۃ بضعۃ منّی ۱ ؎۔ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔

( ۱ ؎صحیح البخاری کتاب المناقب مناقبِ فاطمۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۳۲)
( صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب قرابت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۲۶)
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فضائل من فاطمہ رضی اللہ عنہما قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۹۰)

کل بنی اٰدم ینتمون الی عصبۃ ابیھم الابنی فاطمۃ فانا ابوھم۲؂ ۔ سب کی اولادیں اپنے باپ کی طرف نسبت کی جاتی ہیں سوائے اولادِ فاطمہ کے کہ میں ان کا باپ ہوں ۔واﷲ تعالٰی اعلم

( ۲ ؎الاسرار المرفوعۃ فی اخبار الموضوعۃ حرف الکاف حدیث ۶۷۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت ص ۱۷۶)