ی۔دینیات, میلاد پاک

کیا جشن عید میلاد النبی منانا بدعت ہے

ربیع الاول کے مہینے میں مسجدوں ، گھروں اور پر چراغاں کرنا اور جھنڈیاں لگانا کیسا ہے ؟ ۔ نیز اس کے لیے چندہ کرنا اور اس کو ثواب جاننا کیسا ہے ؟ بعض لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں ۔ حوالہ جات کے ساتھ تحریر کریں۔
الجواب:
ربیع الاول میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں جو چراغاں کیا جاتا ہے حقیقت اس میں سنت اللہ کی پیروی ہے ۔ حدیث کی کتابوں میں کثرت سے یہ بات منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت ایسی روشنی ظاہر ہوئی تھی کہ مکہ معظمہ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ ماجدہ کو بصرہ کی عمارتیں نظر آگئیں تھیں ۔ اللہ تعالی کے افعال میں بھی بندوں کو عمل کی تلقین ہوتی ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ قرآن میں بیان ہوا کہ اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا فرمایا “
پارہ اتل ما اوحی 21 سورة نمبر 32 السجدہ آیت نمبر 4۔
۔اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِؕ-مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا شَفِیْعٍؕ-اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ(4) ترجمه کنزالایمان
الله ہے جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استوا فرمایا اس سے چھوٹ کر تمہارا کوئی حمایتی نہ سفارشی تو کیا تم دھیان نہیں کرتے۔ جبکہ دوسرے مقام پر ارشاد ہوا
پارہ نمبر 21 ومالی سورة نمبر 36 یسین۔آیت نمبر 82۔
۔اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(82) ترجمه کنزالایمان
اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کو چاہے تو اس سے فرمائے ہو جا وہ فوراً ہوجاتی ہے۔ ۔ تو اس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں کیوں پیدا فرمایا ؟
اس کی وجہ یہ تھی کہ زمین پر انسان کو رہنا تھا اس لیے اللہ تعالی نے انسان کو یہ تعلیم دی کہ میں نے آہستہ آہستہ زمین و آسمان کو اس لیے پیدا فرمایا ہے کہ اس پر رہنے والے انسان کو بھی اپنے کام آہستہ آہستہ اطمینان سے کرنے چاہئیں جلدی نہیں کرنی چاہیے ۔ تو جس طرح یہاں حکم نہیں ہے بلکہ فعل باری تعالی میں تعلیم ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت بھی اللہ تعالی نے یہ اہتمام فرمایا اور تیز روشنی ظاہر فرمائی کہ مکہ معظمہ سے ملک شام تک کی عمار تیں ظاہر ہوگئیں ۔ حوران بہشت حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی خدمت کے لیے حاضر تھیں ۔ ملائکہ زمین سے آسمان تک صف بستہ کھڑے ہوئے تھے۔ عالم برزخ سے حضرت مریم اور حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کو حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس میں یہ تعلیم تھی وہ خالق و مالک ہو کر محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اظہار کرنے کا اہتمام فرماتا ہے تو بندے ولادت باسعادت کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اظہار کرنے کا اہتمام کریں ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ صرف ربیع الاول کے مہینے میں چراغاں کرنے اور جھنڈیوں کے لگانے پر یہ لوگ اعتراض کیوں کرتے ہیں ؟
شادیوں اور دیگر تقریبات کے مواقع پر جو چراغاں ہوتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔ اس کے لیے چندہ کرنا بھی جائز ہے اور مسلمان اس کام کو اچھا سمجھتے ہیں اور مسلمان جس کام کو اچھا سمجھیں
وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔ حدیث میں ہے
: فما رأى المسلمون حسنا فهو عندالله حسن۔
(مسند الامام احمد ابن خلیل ۱/۳۵۹ مکتبه احياء التراث العربي بيروت)
یعنی جس کام کو مسلمان اچھا سمجھتے ہیں وہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔ کیا حدیث میں یہ حکم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ میری امت وہ کام کرے جو علماء اربعہ نے کیا یا شریعت نے کوئی ایسا اصول مقرر کیا کہ مسلمان صرف وہ کام کریں جو چاروں آئمہ نے کیا ہو ؟
اگر ایسا ہے تو سب سے پہلے ان لوگوں پر لازم ہے کہ یہ وہ کام نہ کریں جو ان حضرات نے نہیں کیے ۔ مثلاً آج کل جو سواریاں ہیں ان پر سوار نہ ہوں ، انواع و اقسام کے کھانے ہیں وہ نہ کھائیں ، پکے مکانات میں نے رہیں ، احادیث اور فقہ کی تمام کتابیں نہ پڑھیں یہ تمام مدارس اور دیوبند کا مدرسہ جوبنا ہے یہ سب بدعت ہیں اسے بھی بند کردیں ۔ بلکہ چھپا ہوا قرآن بھی نہ پڑھیں اور اس پر اعراب بھی نہ لگائیں ۔ یہ تمام چیزیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے زمانہ میں نے تھیں ۔ اور اس طرح ان لوگوں پر لازم ہے کہ کم از کم اپنی مساجد میں جو مینارے بنے ہوئے ہیں ان کو ترجوا دیں اور آئندہ اپنی مساجد میں مینارے تعمیر نہ کرائیں کیونکہ یہ بدعت ہیں ۔
وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1 ص نمبر 155

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *