مسئلہ ۔مجھے ایسے وسوسے آتے ہیں کہ اگر میں ان پر یقین کرلوں تو میں اسلام کے دائرہ سے خارج ہو جاؤں گا یعنی کفریہ وسوسے۔ میں ان کو نہایت برا سمجھتا ہوں اسی وجہ سے اپنی زبان پر بھی نہیں لانا چاہتا۔ کیا میں ان وسوسوں کی وجہ سے اسلام سے خارج ہو کر کافر ہوں جاؤں گا ۔ اگر نہیں تو میں ان وسوسوں سے جان چھڑانا چاہتا ہوں تو میں کیا پڑھوں جس سے مجھ سے یہ وسوسے دور ہو جائیں گے۔ پلیز میری رہنمائی فرمائیں۔
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بعون المَلِكِ الوَهَّابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّورَ وَالصَّوَابُ ذہن میں کفریہ خیالات کا آنا اور انہیں بیان کرنے کو برا سمجھنا عین ایمان کی علامت ہے کفر نہیں اور نہ اس سے کوئی بندہ کافر ہوگا کیونکہ کفریہ وساوس شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اگر بندے کی جانب سے ہوتے تو وہ انہیں برا کیوں سمجھتا۔ مومن کو وسوسے آنا اس کے ایمان کی علامت ہے کہ چور وہیں آتا ہے جہاں خزانہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بعض صحابہ کرام علیھم الرضوان نےحاضر ہو کر عرض کی : إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ قَالَ : وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ قَالُوا : نَعَمْ قَالَ : ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِھمیں ایسے خیالات آتے ہیں کہ جنہیں بیان کرنا ہم بہت ہی برا سمجھتے ہیں ۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ اُنہوں نے عرض کی : جی ہاں ۔ ارشاد فرمایا : یہ تو صریح ایمان ( کی نشانی ) ہے۔” الصحيح المسلم باب بيان الوسوسة في الايمان ص 80 حديث (132)
اور بہار شریعت میں صدر الشریعہ ، بدر الطریقہ ، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی بھی فرماتے ہیں : کفریہ بات کا دل میں خیال پیدا ہوا اور زبان سے بولنا برا جانتا ہے تو یہ کفر نہیں بلکہ خالص ایمان کی علامت ہے کہ دل میں ایمان نہ ہوتا تو اسے برا کیوں جانتا ۔ ”
بہار شریعت حصہ 9 ص (174)وسوسوں سے بچنے کے تین بڑے ہی مجرب علاج عرض کرتا ہوں(1) وسوسوں کا شکار شخص آمنتُ بِاللهِ وَرَسُولِهِ هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيم یعنی : میں اللہ ورسول پر ایمان لایا وہی اول و آخر ، وہی ظاہر و باطن ہے اور وہی ہر چیز کو جانتا ہے ) ۔
پڑھے ان شاء اللہ اس کے سارے وسو سے دور ہو جائیں گے بلکہ صرف ” آمَنْتُ بِالله وَرَسُولِهِ “ہی کہنے سے وسوسے جاتے رہیں گے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللهَ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ : آمَنْتُ بِاللهِ
لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو الله عَزَّوَجَلَّ نے پیدا فرمایا تو الله عَزَّوَجَلَّ کو کس نے پیدا کیا ؟ تو جس کے دل میں اس قسم کا خیال آئے وہ یوں کہے: امَنْتُ بِاللهِ یعنی میں اللہ عز وجل اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ )( صحیح مسلم صفحہ نمبر 81 حدیث نمبر 212۔ 134 ۔213 )
ایک روایت میں آمَنْتُ بِاللهِ وَرَسُولہ ہے لہذا یہ پورا پڑھا جائے۔ اور اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے ملفوظات شریف میں سوال ہوا کہ وسوسے کے دفع (یعنی دور کرنے ) کے لئے کیا پڑھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ “امنتُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُوَالظَّاهِرُ وَالبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيم (یعنی: میں اللہ ورسول پر ایمان لایا وہی اول و آخر ، وہی ظاہر و باطن ہے اور وہی ہر چیز کو جانتا ہے ۔ ) پڑھنے سے وسو سےدفع ہو جاتے ہیں بلکہ صرف آمَنْتُ بِالله وَرَسُولِهِ ہی کہنے سے دور ہو جاتے ہیں۔الملفوظات ص 138 مطبوعه المكتبة المدينه)
(2) مفسر شهیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ المنان لکھتے ہیں : صوفیائے کرام (رحمہم اللہ السلام ) فرماتے ہیں کہ : جو کوئی صبح و شام اکیس (21) بار لاحول شریف یعنی لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ العظيم ” پانی پر دم کر کے پی لیا کرے تو ان شاء الله (عزوجل ) وسوسہ شیطانی سے امن میں رہے گا۔مرأة المناجيح ج 1 ص (87) (3) اور اہم بات یہ ہے کہ وسوسے کی طرف توجہ نہ دے بلکہ فوراً سمجھ جائے کہ یہ کوئی دوسرا وجود ہے جو میرے ایمان کے درپئے ہے اور وسوسے ڈال رہا ہے تو فوراً لاحول پڑھے اور کہے مجھے تو بس میرے الله عزوجل سے کام ہے جو میرا خالق و رازق ہے۔ وسوسے کا جواب دینے میں نہ لگے ورنہ پھنس جائے گا۔
وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم۔
فتاوی یورپ و برطانیہ (صفحہ نمبر 82)
کفریہ اور غلط وساوس کا حکم۔
18
Feb