انسان میں تجس ایک فطری اکائی ہے۔ انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ دیوار کے پیچھے کیا ہے؟ انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ جو مر گیا اس کے ساتھ حق تعالی نے کیا سلوک کیا ؟ یہ وظیفہ کشف قبور حاصل کرنے کے لیے بعد از نماز تہجد اول و آخر 7 مرتبہ درود پاک کے ساتھ اس اسم پاک(یا نور) کو 7000 مرتبہ 110 دن پڑھے۔ عمل پورا ہو جائے تو دو نفل شکرانہ ادا کر کے حسب توفیق غربا میں کھانا تقسیم کرے۔ ان شاء اللہ پڑھنے والے کے دل کی آنکھ کھل جائے گی اور وہ جس قبر پر جائے گا اسے اس کا احوال معلوم ہو جائے گا۔ اس میں صرف ایک احتیاط کرنا ضروری ہے کہ جس شخص کو کشف قبور حاصل ہوا سے ہر کس و ناکس کی قبر پر بیٹھ کر اس کے حالات معلوم نہیں کرنے نے چاہئیں کیونکہ بعض اوقات کسی قبر میں ایسا معاملہ بھی پیش آسکتا ہے اور نظر آ سکتا ہے جسے انسانی عقل قبول کرنے سے انکار کر دے اور انسان کا دماغ کام کرنا بند کر دے۔ ہمیشہ کشف قبور کے لیے بزرگان دین کے مزارات پر حاضری دے کر اسے استعمال کرنا چاہیے تا کہ ان کے حالات دیکھ کر انسان کا ایمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔ کشف قبور حاصل ہو جائے تو انسان کو بہت سے آنے والے معاملات کے بارے میں خبر ہو جاتی ہے۔ مستقبل میں پیش آنے والے معاملات کے بارے میں اسے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی خطر ناک یا جان لیوا حادثہ مستقبل میں پیش آ رہا ہو تو انسان چونکہ ایسے کسی بھی واقعہ کو ختم نہیں کر سکتا البتہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق صدقہ دے کر آنے والے حادثے کی شدت کو کم کر سکتا ہے۔ واقعہ تو ظہور پذیر ہونا ہوتا ہے لیکن اس کی شدت میں یقینی طور پر کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اگر کسی شخص کی قسمت میں لکھا ہے کہ حاکم وقت اسے کسی شبے میں گرفتار کرنے کا حکم دے گا اور اس کے آدمی اس شخص کو مارتے ہوئے گرفتار کر کے لیے جائیں گے اور بعد ازاں تحقیق پر بے گناہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیں گے۔ اب یوں ہونے سے محلے میں بدنامی اور عزت نفس مجروح ہوگی ۔ لیکن کشف قبور کی وجہ سے اسے اس واقعے کی پہلے سے خبر ہو اور وہ صدقہ دے دے تو واقعہ کچھ یوں پیش آئے گا کہ حاکم وقت کے لوگ اسے عزت و احترام سے لے کر جائیں گے اور بے گناہ ثابت ہونے پر با عزت گھر چھوڑ جائیں گے۔ اب واقعہ تو ہوا لیکن دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔