ی۔دینیات, زکاۃ کا بیان

چند سالوں کی اکٹھی زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ

بلوغت کے بعد میں نے اپنے مال سے چند سالوں کی زکوۃ ادا نہیں کی ۔ اب اس زکوۃ کی ادائیگی کا کیا طریقہ ہوگا۔
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بِعَونِ المَلِكِ الوَهَّابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّورَ وَالصَّوَابُ۔
آپ پر ضروری ہے کہ فورا سے پہلے جس قدر زکوٰۃ آپ کے ذمہ ہے، اس کو ادا کریں۔ اب تک جو تاخیر کی ہے اس سے سچے دل سے توبہ کریں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کریں۔پچھلے سالوں کی زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس پہلے سال کی آپ نے زکوۃ نہیں دی اُس سال جتنا مال آپ کے پاس تھا ، اس سارے مال یعنی مال تجارت ، سونا چاندی کی اُس وقت کی قیمت کو یا روپے پیسوں کو 40 پر تقسیم کر دیں جو جواب آئے وہ اُس سال کی زکوۃ ہوگی ۔ پھر جس قدر زکوۃ پہلے سال میں ادا کر دی ہے دوسرے سال کی زکوۃ ادا کرتے وقت اس رقم کو منھا کریں گے یعنی اسے نکال کر اگر وہ صاحب نصاب ہے تو جتنا مال باقی بچے اگر وہ روپے پیسوں کی شکل میں ہے تو بنفسہ اس کو اور اگر سونا چاندی کی شکل میں ہے تو اس کی قیمت کو 40 پر تقسیم کریں گے جو جواب آئے وہ اس دوسرے سال کی زکوۃ ہو گی ۔ اسی طرح دیگر سالوں کی زکوۃ ادا کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کے ذمہ کچھ بھی زکوۃ باقی نہ رہے۔ ہر سال کی زکوۃ ادا کرتے وقت نصاب مکمل ہونے کے بعد جو مال نصاب سے زائد ہو جائے تو اگر وہ خمس یعنی پانچویں حصہ سے کم ہے تو معاف ہے یعنی اس کی زکوۃ دینا لازم نہیں۔ چالیس پر تقسیم کا اس لیے کہا کیونکہ مال کا چالیسواں حصہ زکوۃ کے طور پر فرض ہوتا ہے۔
جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے: فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ .جب دوسو درہم ہو جائیں تو ان میں زکوۃ پانچ درہم ہیں ۔ [ سنن الترمذی باب ما جاء في زكاة الذهب و الورق حدیث نمبر 1620] پانچ درهم دوسو کا چالیسواں حصہ ہی ہوتے ہیں۔اور سیدی اعلی حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان علیه رحمة الرحمن ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر سال زکوۃ واجب ہو گی جب تک نصاب سے کم نہ رہ جائے ، یہ اس لیے کہ جب پہلے سال کی زکوۃ نہ دی دوسرے سال اس قدر کا مدیون ہے تو اتنا کم کر کے باقی پر زکوۃ ہوگی ، تیسرے سال اگلے دونوں برسوں کی زکوۃ اس پر دین ہے تو مجموع کم کر کے باقی پر ہوگی ، یوں اگلے سب برسوں کی زکوۃ منہا کر کے جو بچے اگر خود یا اس کے اور مال زکوۃ سے مل کر نصاب ہے تو زکوۃ ہوگی ورنہ نہیں۔ | فتاوی رضویہ ج ۱۰ ص ۱۴۴] اور فتح القدیر میں ہے کہ يلزم بتأخيره من غير ضرورة الاثم كما صرح به الكرخي والحاكم الشهيد في المنتقى وهو عين ما ذكره الفقية ابو جعفر عن ابي حنيفة رضى الله تعالى عنه انه يكره ان يؤخرها من غير عذر فانّ كراهة التحريم هى المحمل عند اطلاق اسمها عنهم وكذا عن ابي يوسف وعن محمد ترد شهادته بتأخير الزكوة حق الفقراء فقد ثبت عن الثلث فورية الزكوة مخلصا –
وجوب بغیر مجبوری کے تاخیر سے گناہ لازم آتا ہے جیسا کہ امام کرخی اور حاکم شہید نے المنتقی میں تصریح کی ہے۔ یہ بعینہ وہی بات ہے جس کا تذکرہ فقیہ ابوجعفر نے امام ابو حنیفہ رحمه الله سے کیا ہے کہ بغیر عذر ادائیگی کو مؤخر کرنا مکروہ تحریمی ہے کیونکہ جب کراہت کا ذکر مطلقاً ہو تو اس وقت وہ مکروہ تحریمی پر محمول ہوتی ہے ،  امام ابو یوسف رحمه الله تعالى سے بھی اسی  طرح مروی ہے۔

امام محمد  رحمه الله تعالى فرماتے ہیں کہ تاخیر زکوۃ کی وجہ سے گواہی مردود ہو جائیگی کیونکہ زکوٰۃ فقراء کا حق ہے، تو تینوں بزرگوں سے یہ ثابت ہوا کہ زکوۃ کی ادائیگی فی الفور لازم ہوتی ہے۔ [فتح القدير كتاب الزكوة
اور سیدی اعلی حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان علیه رحمة الرحمن اسی مذہب کو صحیح فرماتے ہیں۔ فتاوی رضویہ میں ہے کہ مذہب صحیح و معتمد پر زکوۃ کا وجوب فوری ہے تو جو اس سال کی زکوۃ نہ دے یہاں تک کہ دوسرا سال گزر جائےگنہگار ہے، یونہی قول اصح وارجح پر حج کا وجوب، تو جس سال استطاعت ہو اسی سال جائے ورنہ گنہ گار ہوگا ۔
فتاوی رضویه ج ۱۶ ص ۵۵۹]
اور یہ بھی یاد رہے کہ نصاب کے پہلے سال تاریخ مہینے اور دن و وقت کا تعین کر کے پھر اسلامی سال کے اعتبار سے زکوۃ کا سارا حساب کریں ۔ کیونکہ زکوۃ میں اسلامی سال معتبر ہے۔
وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم.
فتاوی یورپ و برطانیہ ص271