ی۔دینیات, ایصال ثواب, شادی کی رسومات

میت کہ کھانے کے ناجائز ھونے کی صورتیں۔

مسئلہ:۔مندرجہ ذیل شقوق کی بنا پر میت کا کھانا جو عوام و خواص کو کھلایا جاتا ہے اس کا جواز ثابت ہوگا یا نہیں؟
1.جب دعوت دی جائے تو یہ نہ کہا جائے کہ میت کے کھانے کی دعوت ہے بلکہ صرف لفظ دعوت استعمال کیا جائے۔
2)ہم تعلقات کے بنا پر مجبور ہیں اور یہ تو بدلہ ہے۔
3)فقراء کا کھانا الگ فاتحہ کیا جائے اور بقیہ لوگوں کا کھانا الگ بغیر فاتحہ کے رکھا جائے ۔
4)کھلانے والے کو اپنے کھانے سے زیادہ غلہ دے دیا جائے۔ اور عدم جواز پر اطلاع کے باوجود اس کا مرتکب کیسا ہے ؟
الجواب:میت کے نام پر اہل میت کی طرف سے عوام وخواص کو دعوت دیکر کھلانا ناجائز اور بدعت سیئہ ہے .جیسا کہ محق علی الاطلاق فتح القدیر جلد دوم ص 102 میں تحریر فرماتے ہیں۔”میت والوں کی طرف سے کھانے کی دعوت کرنا ممنوع ہے کہ شرع نے دعوت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بدعت سیئہ ہے۔
اسی طرح حضرت علامہ حسن شرنبلالی رحمة الله تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں ۔ تکرہ الضيافة من اهل الميت لانها شرعت فى السرور لا فى الشرور وهي بدعة مستقبحة (مراقی الفلاح مع الطحطاوی 339) .
اور فتاوی عالمگیری جلد اول مطبوعہ مصرص157 میں ہے لا يباح اتخاذ الضيافة عند ثلاثة ايام كنا فى التتارخانية۔ غمی میں تیسرے دن دعوت کرنا جائز نہیں ہے ایسا ہی تاتارخانیہ میں ہے۔ اور اسی طرح شامی جلد اول ص469 میں بھی ہے۔ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمة والرضوان فتاوی رضویہ جلد چہارم ص 162 میں تحریر فرماتے ہیں مردے کا کھانا صرف فقراء کے لئے ہو عام دعوت کے طور پر جو کرتے ہیں یہ منع ہے۔ غنی نہ کھائے .كما في فتح القدير و مجمع البرکات اور اسی جلد چہارم ص177 میں تحریر فرماتےہیں۔ میت کے یہاں جو لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کی دعوت کی جاتی ہے اس کھانے کی تو ہر طرح ممانعت ہے اور اسی جلد 213 میں تحریر فرماتے ہیں میت کی دعوت برادری کے لئے منع ہے۔ اور اسی فتاوی رضویہ جلد چہارم ص223 میں تحریر فرماتے ہیں۔ سوم، دہم چہلم وغیرہ کا کھانا مساکین کو دیا جائے برادری کو تقسیم یا برادری کو جمع کرکے کھلانا بے معنی ہے کما في مجمع البركات موت میں دعوت ناجائز ہے فتح القدیر وغیرہ میں ہے انها بدعة مستقبحة لانها شرعت فی السرور لا فی الشرور ۔ تین دن تک اس کا معمول ہے لہذا ممنوع ہے۔اس کے بعد بھی موت کی نیت سے اگر دعوت کرے گا تو ممنوع ہے۔ اور مصنف بہار شریعت حضرت صدر الشریعہ علی الرحمة والرضوان تحریر فرماتے ہیں۔ عام میت کا کھانا صرف فقراء کو کھلائے اور اہل برادری میں کچھ لوگ محتاج ہوں تو انھیں بھی کھلائے اور اپنے رشتہ دار ایسے ہوں تو انھیں کھلانا اوروں سے بہتر ہے اور جو محتاج نہ ہوں انہیں نہ کھلائے بلکہ انہیں کھانا بھی نہ چاہئے( فتاوی امجدیہ جلد اول337) اور حضرت مفتی شریف الحق صاحب امجدی تحریر فرماتے ہیں بعض جگہ دستور ہے کہ میت کے کھانے کو برادری اپنا حق سمجھتی ہے اگر نہ کھلائیں تو عیب لگاتے ہیں یہ ضرور بدعت قبیحہ ہے لیکن میت کےایصال ثواب کے لئے کھانا پکوا کر مسلمانوں کو کھلائیں تو اس میں حرج نہیں یہ کھانا اگر عام مسلمین میں سے کسی کے ایصال ثواب کا ہے تو اغنیاء کو کھانا منع اور فقراء کو جائز اور اگر بزرگان دین کے ایصال ثواب کے لئے ہو تو غنی فقیر سب کو کھانا جائز ہے (حاشیہ فتاویٰ امجدیہ 337ج ا) لہذا جس صورت میں دعوت نا جائز ہے وہ نا جائز ہی رہے گی چاہے میت کے کھانے کی دعوت کہی جائے یا صرف لفظ دعوت استعمال کیا جائے اور تعلقات اور بدلہ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ ہوگا اور دعوت نہ کرنے کی صورت میں لوگ طعنہ دیں گے۔ اور عیب لگائیں گے تو اس سے جواز نہیں ثابت ہو گا بلکہ ممانعت میں اور شدت ہوگی۔ اور ممانعت کی بنیاد فاتحہ نہیں ہے . فقراء کا کھانا الگ فاتحہ کرنے اور بقیہ لوگوں کا کھانا الگ بغیر فاتحہ کے رکھنے سے خرابی دفع نہیں ہو جائے گی۔اور اس کے بدعت شنیعہ ہونے کی بنیاد کھلانے والے کی زیر باری بھی نہیں ہے کہ کھانے سے زیادہ غلہ دینے سے شناعت ختم ہو جائے گی بلکہ اس کی بنیاد میت والوں کی طرف سے کھانے کی دعوت ہے جس کو شرع نے خوشی میں رکھا ہے غمی میں نہیں رکھا ہے۔ اور دوسری وجہ نہ کھلانے کی صورت میں عیب لگانا ہے۔ لہذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس غلط رواج کو ختم کریں جس چیز کا ناجائز ہونا ثابت ہو اس کے باوجود اگر کوئی اس کا ارتکاب کرے تو وہ گنہگار ہے ۔

وهو تعالیٰ اعلم بالصواب۔
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول

ص:462 ۔ جلد 1 ۔