مسئلہ۲۱: ازبنارس محلہ کندی گڈھ ٹولہ مسجد بی بی راجی شفاخانہ مرسلہ مولوی حکیم عبدالغفور صاحب ۱۴رجب ۱۳۱۲ھ
ماقولکم ایھا العلماء ابقاکم اللہ تعالٰی الٰی یوم الجزء فی المسئلۃ التی نرسل الیکم۔ اے علماء کرام اللہ تعالٰی یوم جزا تک آ پ کو باقی رکھے آپ اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں جو ہم آپ کی طرف بھیج رہے ہیں۔(ت)
زید کہتاہے چونکہ علی مرتضٰی نے آٹھ دس برس کی عمر میں اسلام قبول کیا اوراس سے پہلے کبھی دامن پاک آپ کا نجاست شرک وکفر سے آلودہ نہیں ہوا اورحدیث شریف : کل مولود یولد علی الفطرۃ۱ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیداہوتاہے (ت)
دلالت کرتی ہے کہ کل بچے کا دین اسلام ہے ۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جناب علی مرتضٰی ہمیشہ سے مسلمان تھے ۔ عمر وکہتا ہے کہ جب علی مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ نےآٹھ دس برس کی عمر میں اسلام قبول کیا تو یہ کہنا کہ آپ ہمیشہ سے مسلمان تھے محض غلط ہے ۔
بینواتوجروا (بیان کرو اجر دیے جاؤگے۔ت)
(۱صحیح البخاری کتاب الجنائزباب ما قیل فی اولاد المشرکین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۸۵)
(سنن ابی داودکتاب السنۃ باب فی ذراری المشرکین آفتاب عالم پریس لاہور۲/۲۹۲، جامع الترمذی ابواب القدر باب ماجاء کل مولود یولد علی الملۃ امین کمپنی دہلی ۲/۳۶)
( مسندا حمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ المکتب الاسلامی بیروت۲/۲۳۲)
الجواب
قول زیدحق ومقبول وزعم عمر وباطل ومخذول ہے۔
کما حققنا بتوفیق اللہ تعالٰی فی “تنزیۃ المکانۃ الحیدریہ عن وصمۃ عھد الجاھلیۃ ۔” جیسا کہ ہم نے “تنزیہ المکانۃ الحیدریۃ عن وصمۃ عھد الجاھلیۃ”میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے اس کی تحقیق کردی ہے ۔(ت)
ہاں عبارت زید میں یہ لفظ قابل گرفت ہے کہ “ہم کہہ سکتے ہیں “اس سے بوئے ضعف آتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں ، ہم بالیقین کہتےہیں:
الحمدللہ الذی ھدانالھٰذاوماکنا لنھتدی لولا ان ھدانا اللہ۲ سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی اورہم راہ نہ پاتے اگر اللہ ہمیں راہ نہ دکھاتا۔(ت)
(۲القرآن الکریم ۷/ ۴۳)
بیشک حضرت مولاعلی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الاسنٰی ہمیشہ سےمسلمان صحیح الایمان تھے اوربیشک انہوں نے آٹھ دس برس کی عمر میں اسلام قبول کیا، ان دونوں باتوں میں اصلاً تنافی نہیں۔ یہ اسلام متاخر وہ ہے جس کاذکر اللھم صل علی علم الایمان اصل الایمان عین الایمان وٰلہ وسلم۔ اے اللہ درود وسلام نازل فرما علامت ایمان ، اصل ایمان، عین ایمان پر اورآپ کی آل پر۔ (ت)
آیۂ کریمہ: ماکنت تدری ما الکتٰب ولا الایمان ولٰکن جعلنٰہ نورًا ۱ الاٰیۃ ۔ اس سے پہلے نہ تم کتاب جانتے تھے نہ احکام شرع کی تفصیل ، ہاں ہم نے اسے نور کیا۔ (ت)
(۱القرآن الکریم ۵۲/۴۲)
یعنی اسلام خاصِّ زمان بعثت کہ کتاب ورسول پر ایمان وعقائدسمعیہ کے اذعان پر مشتمل ہو۔ یہ بے شک بعدبعثت حاصل ہوا۔ اس کا حدوث قدم اسلام توحیدی کا منافی نہیں ،
کما لا یخفٰی علٰی من کا ن لہ قلب اوالقی السمع وھو شہید۔ جیسا کہ یہ پوشیدہ نہیں اس شخص پر جو دل رکھتاہویا کان لگائے اورمتوجہ ہو۔(ت)
تفسیر کبیر میں زیر آیہ کریمہ منجملہ وجوہ تاویل مذکور : الرابع الایمان عبارۃ عن الاقراربجمیع ماکلف اللہ تعالٰی بہ وانہ قبل النبوۃ ماکان عارفابجمیع تکالیف اللہ تعالٰی ، بل انہ کان عارفا م باللہ تعالٰی وذٰلک لاینافی ماذکرناہ۔
الخامس صفات اللہ تعالٰی علی قسمین منھا مایمکن معرفتہ بمحض دلائل العقل ، ومنھا مالایمکن معرفتہ الا بالدلائل السمعیۃ ، فھذا القسم الثانی لم تکم معرفتہ حاصلۃ قبل النبوۃ۔ ۲ وجہ چہارم ، ایمان ان تمام چیزوں کے مان لینے کا نام ہے جن کااللہ تعالٰی نے بندوں کو مکلف بنایا ، اورحضور قبل نبوت اللہ تعالٰی کے عائدکردہ تمام احکام وتکالیف سے واقف نہ تھے بلکہ وہ خدا وند تعالٰی کے عارف تھےا وریہ اس کے منافی نہیں جو ہم نے ذکر کیا (کہ قبل وحی بھی انبیاء کا کفر سے منزہ ہونا اجماعی ہے)
وجہ پنجم ، صفات الہٰی کی دو قسمیں ہیں : (۱) وہ جن کی معرفت عقلی دلیلوں سے ہوسکتی ہے (۲)وہ جن کی معرفت سمعی دلیلوں کے بغیر ممکن نہیں ۔تواسی قسم دوم کی معرفت قبل نبوت نہ تھی۔(ت)
(۲ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)تحت الآیۃ ۵۲/۴۲المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر۱۹۱/۲۷)
تفسیر ارشادالعقل السلیم میں ہے : ای الایمان بتفاصیل مافی تضاعیف الکتاب من الامور التی لاتھتدی الیھا العقول ،لاالایمان بما یستقبل بہ العقل والنظر، فان درایتہ علیہ الصلٰوۃ والسلام لہ ممالاریب فیہ قطعا۔۱ اس آیت میں ایمان سے مراد ان امور کی تفصیلات پر ایمان ہے جو کتاب کے وسیع صفحات میں مندرج ہیں جن تک از خود عقلوں کی رسائی نہیں ، ان امور سے متعلق ایمان کی نفی مراد نہیں جن کو عقل وفکر خود جان لیتی ہے اورکتاب وغیرہ کی محتاج نہیں ہوتی ، قبل نبوت بھی اس سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے آشناہونے میں قطعاً کوئی شک وشبہ نہیں۔(ت)
(۱ارشادالعقل السلیم تحت الآیۃ۴۲/ ۵۲ داراحیاء التراث العربی بیروت ۸/ ۳۸ )
اسی کے قریب قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی نے شفاشریف میں نقل کر کے فرمایا : وھو احسن وجوھہ۲ (وجوہ تاویل میں یہ سب سے عمدہ ہے۔ت)واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
(۲الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل واما عصمتہم من ھذا الفن قبل النبوۃ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱۰۵/۲)
رسالہ
تنزیہ المکانۃ الحیدریہ عن وصمۃ عہد الجاھلیہ
ختم ہوا