ی۔دینیات, امامت کا بیان, باب الصلوۃ

مسافر امام کے پیچھے مقیم کی نماز کے مسائل

مسئله (1) زید مسافر ہے بکر مقیم نے زید کی اقتدا کیا زید پر سجدہ سہو لازم ہوا زید نے سجدہ سہو کیا بکر نے سجدہ سہو نہیں کیا بکر کی اقتدا صحیح رہی یا غلط؟
( ب) زید مسافر عشاء کی نماز پڑھا رہا تھا کہ بکر آخری رکعت میں شامل ہوا بکر اپنی تین رکعتیں کس طرح ادا کرے تینوں رکعتوں میں کیا کیا پڑھے؟
(ج) زید مسافر کی اقتدا بکر نے کیا بکر آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھے یا نہیں؟کس طرح آخری دو رکعتیں ادا کرے ؟
(د) مچھلی کب سے حلال ہوئی کس طرح حلال ہوئی مفصل تحریر فرمائیں کتب معتبرہ سے مدل جواب مرحمت فرماکر ممنون و مشکور فرمائیں۔ بینوا توجروا .
الجواب (1) مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی کے لئے سجدۂ سہو کے بارے میں وہی حکم ہےجو مسبوق کا ہے یعنی امام کے ساتھ بغیر سلام کے سجدۂ سہو کرے اگر امام کے ساتھ نہ کیا تو اقتدا باطل نہ ہوئی آخر میں سجدہ سہو کرے اگر آخر میں بھی نہ کیا تو نماز کا اعادہ کرے فتاوی عالمگیری میں ہے المقيم خلف المسافر حکمه حکم المسبوق في سجدة السهو اھ اور مسبوق کے متعلق رد المحتار میں بحر وغیرہ سے ہے لو لم یتابعه فی السجو و قام إلى قضاء ما سبق به فانه يسجد في آخر صلاته، استحسانا لان التحريمة متحدة فجعل ) كانها صلوة واحدة اھ وهو تعالى ورسوله الاعلیٰ اعلم
(ب۔ج) بکر لاحق مسبوق ہے امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب کھڑا ہو تو قیام میں کچھ نہ پڑهے بلکہ سورہ فاتحہ پڑھنے کی مقدار خاموش کھڑا رہے پھر رکوع و سجدہ سے فارغ ہو کہ التحیات پڑھے کہ یہ اس کی دوسری رکعت ہوئی پھر کھڑا ہو کر ایک رکعت اور ویسی ہی بلا قرآت پڑھے اور پھر التحیات کے لئے بیٹھے کہ یہ رکعت اگرچہ اس کی تیسری ہے مگر امام کے حساب سے چوتھی ہے اور پھر کھڑا ہو کر ثناء پڑھے اگر پہلے نہیں پڑھی اور تعوذ و تسمیه سورۃ فاتحہ اور سورت پڑھے پھر رکوع سجدہ اور تشہد کے بعد نماز پوری کرے.
در مختار ورد المحتار جلد اول ص 399 میں ہے مقیم انتم بمسافر فهو لاحق بالنظر للأخيرتين وقد يكون مسبوقا ايضا كما اذا فاته اول صلاۃ امامہ المسافر اھ۔ در مختار میں ہے اللاحق يبدأ بقضاء ما فاته بلا قراءة ثم ما سبق به بها ان كان مسبوقا ايضا اھ تلخيصا اور رد المحتار جلد اول ص 400 میں ہے.
صلی اللاحق ما سبق به بقراءة ان كان مسبوقا ايضا في شرح المنيه وشرح المجمع انه لو سبق بركعة من ذوات الاربع ونام في ركعتين يصلي اولا ما نام فيه ثم ما ادركه مع الامام ثم ما سبق به فيصلي ركعة مما نام فيه مع الامام ويقعد متابعة له لانها ثانية امامه ثم يصلي الاخرى مما نام فيه ويقعد لانها ثانيته ثم يصلي الذي انتبه فيها ويقعد متابعة لامامه لانها رابعة وكل ذلك بغير قراءة لانهم مقتد ثم يصلي الركعة التي سبق بها بقراءة الفاتحة وسورة. والاصل ان اللاحق يصلي على ترتيب صلاة الامام والمسبوق يقضي ما سبق به بعد فراغ الامام انتهى
(2)دار الافتاء سے احکام شرعیہ حلال و حرام بتائے جاتے ہیں حرام و حلال کی تاریخ کا تعلق دارالافتاء سے نہیں ہے.
۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:396 جلد 1 ۔
ضروری وضاحت و نوٹ۔ادا و قضا دونوں میں مقیم مسافر کی اقتدا کر سکتا ہے اور امام کے سلام کے بعد جب اپنی بقیہ پڑھنے کھڑا ھو تو ان رکعتوں میں قرات بالکل نہیں کرے گا بلکہ بقدر فاتحہ چپ کھڑا رہے گا۔نیز مسافر امام کے پیچھے جب مقیم مقتدی کی ایک یا دو رکعت رہ جائیں تو بقیہ ادا کرنے کے لیے جب کھڑا ہوگا تو پہلے وہ دو رکعت ادا کرے گا جو امام کے ساتھ اس نے ادا کرنی تھی مگر امام کے مسافر ہونے کی وجہ سے اپنی علیحدہ پڑھنے کے لیے کھڑا ہوا ہے اور ان دونوں رکعتوں میں قرات نہیں کرے گا اب اخر میں وہ دو رکعتیں پڑھے گا جو اس کی مسبوق ھونے کی وجہ سے رہ گئیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *