پہلی قسم : حدیث النفس، وھم تمنی اور اضغاث ۔
دوسری قسم : احتلام ہے جس کی وجہ سے انسان پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔
تیسری قسم : شیطان کی طرف سے دکھائے جانے والے ڈراؤنے خواب ہیں جو انسان کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتے۔ چوتھی قسم وہ ہے جو ساحر لوگ جنات اور انسانوں میں سے شیطان کی طرح تصرف کر کے دکھلاتے ہیں۔
پانچویں قسم: وہ جھوٹے خواب جو شیطانی تصرف سے ہوتے ہیں وہ رویا خوابوں میں شمار ہی نہیں کئےجاتے۔
چھٹی قسم : وہ خواب ہیں جو طبائع کے ایک دوسرے پر غلبہ کی صورت دیکھے جاتے ہیں۔
ساتویں قسم : بدن انسان میں درد کی صورت میں دیکھے جانے والے خواب ہیں۔تمام خوابوں میں صحیح ترین خواب بشریٰ ہیں جو طبیعت میں سکون لباس پوشاک اور خوراک کے معیاری ہونےاور صحت مند ہونے کی صورت میں دیکھے جاتے ہیں یہ خواب اکثر سچے ہوتے ہیں اور اضغاث کم ہوتے ہیں۔
پہلی قسم وہ رویائے صادقہ ہیں جو روز روشن کی طرح واضح اور صریح ہوا کرتے ہیں۔ خوابوں کی یہ قسم جزء نبوت کہلاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ﴿لَقَدْ صَدَقَ اللهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلَنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامِ إِنْ شَاءَ الله امین) اللہ نے ہی دکھلا یا اپنے رسول کو خواب تحقیقی کہ تم داخل ہو رہو گے مسجد حرام میں اگر اللہ نے چاہا آرام سے”
تفسیر :اس کی یہ ہے کہ جب حضور اقدس حدیبیہ تشریف لے جانے لگے تو آپ نے خواب دیکھا کہ آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ امن کے ساتھ بلاخوف مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں اور قربانی کررہے ہیں،بعض حلق اور بعض قصر کر رہے ہیں۔اس خواب میں رسول اللہ ﷺ کو براہ راست بغیر اس فرشتہ کے جو خوابوں پر مامور ہیں بشارت دی گئی۔ یہ خواب اتنا واضح ہے کہ اس کی تعبیر و تفسیر کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ یہ خواب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس خواب کی طرح صریح ہے جسمیں آپ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے تھے جسکا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں بیان کیا ہے (یبني اني ارى فِي الْمَنَامِ أَنِّي اذْبَحُک اے بیٹے میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ تجھ کو ذبح کرتا ہوں بعض علماءنے کہا ہے طوبی لمن رئى الرویا الصريحة یعنی خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئے جن کے خواب صریح ہوتے ہیں۔خوشخبری کی وجہ یہ ہے کہ واضح خواب بلا واسطہ ملائکہ مقررہ کے صرف اللہ کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں۔درمیان میں کسی فرشتہ و غیرہ کا واسطہ نہیں دوسری قسم : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” تم میں سے ہر کسی کا وہ خواب سب سے بہتر ہے جو اپنے آپ کو یا اپنے نبی کو دیکھے یا اپنے والدین کوحالت اسلام میں دیکھے ۔حضرات صحابہ نے عرض کیا کیا کوئی محض اپنے رب کو دیکھ سکتا ہے؟ تو آپ ﷺ نےفرمایا:( ہاں بادشاد اور بادشاہ کی تعبیر اللہ تعالی ہے۔ تیسری قسم رویائے صادقہ ہے خوابوں کی وہ ہے جوخوابوں پر اور رشتہ جس کا نام صدیقون اپنے اس علم کے ذریعے جو اللہ تعالی نے لوح محفوظ کے نسخہ سے انہیں سکھایا ہے لوگوں کو دکھاتا ہے اور اللہ تعالی نے ان پر ہر چیز کی متعین صورت مثالیہ القاء کی ہے۔
چوتھی قسم: خواب از قبیل رموز ( اشارات ) ہیں مثلاً ایک انسان خواب دیکھتا ہے کہ کوئی فرشتہ اس سے کہہ رہا ہےتمہاری بیوی تمہارے فلاں دوست کے ہاتھوں سے نہیں زہر پلانا چاہتی ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس کا وہ دوست جس کے ہاتھوں اسے زہر پلا رہی تھی اس کی بیوی کے ساتھ زنا کرتا ہے۔ زہر کی تعبیر زنا سے اس لئے کی جاتی ہے کہ دونوں عمل پوشیدہ کئے جاتے ہیں۔
پانچویں قسم، خوابوں کی وہ ہے جو کسی شاہد کی وجہ سے درست مسیح ہو سکتے ہیں اور جب شاہد اس پر غالب آجاتا ہے تو شر کو خیر اور خیر کوثر میں تبدیل کر دیتا ہے مثلا کسی نے دیکھا گویا وہ مسجد میں ڈھول بجارہا ہے۔ تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ منکرات اور فواحش سے تائب ہوگا اور اس کا تذکرہ پھیل جائے گا۔ دوسری مثال یہ ہے کہ کسی نے دیکھا کہ وہ تمام میں قرآن پڑھ رہا ہے یا وہاں ناچ رہا ہے تو تعبیر اس کی یہ ہے کہ وہ کوئی پھر فاحش اور غلط کام کریگا اور اس میں مشہور ہوگا۔ اس لئے حمام پردہ کھل جانے کے مقامات میں سے ہے جہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے اور مسجد ان مقامات میں سے ہے کہ جس میں فرشتے داخل ہوتے ہیں۔
کافر ,بچے ,حائضہ عورت اور جنبی کے خواب بھی صحیح ہو سکتے ہیں اس لئے یہ قرآن سے ثابت ہے کہ کفار اور مجوس بھی سچے خواب دیکھتے ہیں ۔ حالانکہ ان کے ہاں غسل جنابت وغیرہ کا تصور ہی نہیں ہے ۔ کفار کے خواب سچے ہونے کی دلیل حضرت یوسف کا وہ واقعہ ہے جس میں آپ نے عزیز مصر ( جو کافر تھا )کے خواب کی تعبیر دی تھی کیونکہ وہ خواب سچا تھا۔ اسی طرح بچوں کے خواب بھی سچے ہو سکتے ہیں جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے سات سال کی عمر میں خواب دیکھا تھا اور سچا ہوا ۔
حضرت دانیال علیہ السلام نے فرمایا اس فرشتے کا نام جو امور رویا پر مقر ر ہے صدیقون”ہے۔( اس کی قوت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ )اس کے کانوں کے لو سے گردن تک سات سو سال کی مسافت ہے۔ وہی اشیاء کی صورت مثالیہ خیر ہو یا شرلوح محفوظ سے حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے نور کے ذریعے لوگوں کو دکھاتا ہے اس سلسلے میں اس سے کوئی غلطی نہیں ہوتی اس فرشتے کی مثال سورج کی سی ہے کہ جب سورج کی روشنی کسی چیز پر پڑتی ہے تو انسان اس چیز کو دیکھ پاتا ہے اس طرح یہ فرشتہ اللہ تعالی کے نور کے ذریعے ہر چیز کی معرفت کراتا ہے تمہاری رہنمائی کرتا ہے اور اس چیز کی تمہیں تعلیم دیتا ہے جو دنیا و آخرت میں خیر و شر کی صورت میں تمہیں پیش آنے والی ہے ۔اور اس چیز کی خوشخبری دیتا ہے جو پہلے کر چکے ہو یا آئندہ تم سے صادر ہونے والی ہے۔ اور تمہیں اس مصیبت سے ڈراتا اور تنبیہ کرتا ہے جس کے تم مرتکب ہو چکے ہو یا آئندہ ارتکاب کا ارادہ رکھتے ہو۔
خواب دکھانے کی حکمت یہ ہے کہ تعبیر کا ظہور اپنے وقت میں ہوگا لیکن اس کے متعلق پہلے ہی معلوم ہونے سے اگر ڈرانے والا خواب ہو تو کوئی غم نہ ہوگا اور اگر از قبیل مبشرات ہو تو بار بار خوشی ہوگی۔
زیادہ تر رات کے آخری پہر میں دیکھے جانے والے خواب سچے ہوتے ہیں اور دن میں دیکھے جانے والےخواب بھی سچے ہوتے ہیں۔حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں ( اصدقها قيلولة ) یعنی قیلولہ میں دیکھے جانے والے خواب زیادہ تر سچے ہوتے ہیں۔
بعض علما تعبیر نے کہا ہے کہ انسان خوابوں کو روح کے ذریعے دیکھتا ہے اور عقل سے سمجھتا ہے۔ روح کا مستقر وسط قلب ہے اور قلب کا تعلق دماغ سے ہے روح نفس کے ساتھ معلق ہے چنانچہ انسان جب سو جاتا ہے تو روح چراغ یا آفتاب کی طرح ممتد ہوتی ہے۔ اور اللہ کے نور اور ضیاء کی مدد سے فرشتے کی جانب سے دکھائے جانے والے خواب کودیکھتی ہے اور واپس اپنے نفس کی طرف آنا ایسا ہے جیسا کہ سورج سے بادل چھٹ جائے اور بیداری کی صورت میں خواب میں دیکھا جانے والا واقعہ اسے یادرہتا ہے۔ اور بعض کی رائے ہے کہ حس روحانی حس جسمانی کے مقابلے میں ارفع اور اشرف ہے اس لئے کہ حس روحانی سےانسان آئندہ ہونے والی اشیاء کو دیکھتا ہے اور حس جسمانی سے جو سامنے موجود ہوں اسے دیکھتا ہے۔
علاقے کی تبدیلی سے تعبیر بھی بدل جاتی ہے :ایک علاقے کی مٹی دوسری علاقے کی مٹی سے مختلف ہوتی ہے۔ ہوا پانی اور مکان کے اختلاف سے بھی تعبیر بدل جاتی ہے۔ تمام معتبرین علاقے اور طبائع کے مختلف ہونے کی صورت میں ایک ہی خواب کی تعبیر مختلف دیتے ہیں۔مثلا ایک آدمی کسی گرم علاقے میں برف تیز ہوا یا سخت سردی دیکھتا ہے تو دلیل ہے گرانی اور قحط سالی کی ۔پھر اگریہی شخص اس خواب کو کسی ٹھنڈے علاقے میں دیکھے تو دلیل ہے خوشحالی اور وسعت مالی کی اسی طرح خواب میں مٹی کیچڑ وغیرہ دیکھنا اہل ہند کے لئے ماں اور غیر اہل ہند کے لئے محنت و مصیبت کی دلیل ہے۔اسی طرح خروج ریح کی تعبیر اہل ہند کے لئے سرور و خوشی اور ان کے غیر کے لئے کلام قبیح سے کی جاتی ہے۔ اسی طرح مچھلی دیکھنے کی تعبیر بعض علاقوں میں عفونت سے اور بعض علاقوں میں ایک سے چار تک نکاح کرنے سے کی جاتی ہے اور یہود کے لئے مصیبت سے معبر ہے۔
انسان بعض دفعہ دوسروں کے لئے بھی خواب دیکھتا ہے.مثلا اپنے رشتہ داروں اقارب بھائی والد وہم شکل ہم نام ہم پیشہ بیوی اور غلام وغیرہ کے لئے خواب دیکھتا ہے یعنی اس کی تعبیر دوسروں کے لئے دی جاتی ہے۔جیسا کہ ابو جہل بن ہشام نے خواب دیکھا کہ گویا وہ اسلام میں داخل ہوا اور حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ تو یہ خواب اس کے بیٹے کے لئے تھا یعنی اس کا بیٹا بعد میں اس صفت سے متصف ہوا.اور اس طرح ہم فضل نے آپ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا یا رسول اللہ میں نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا ہےتو آپ ﷺ نے فرمایا “خیر دیکھا؟تو ام فضل کہنے لگیں یارسول اللہ میرے بدن کا کچھ حصہ جدا ہوا اور میں نے اس کو اپنی گود میں لے لیا۔ تو آپ ﷺ نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا (ترجمہ حضرت فاطمہ کے ہاں لڑکا ہوگا تم اس کواپنی گود میں لوگی. چنانچہ ایساہی ہوا ان کے چچازاد بھائی ( علی ) سے فاطمہ کے ہاں حسن پیدا ہوئے حضرت ام فضل نے اس کو گود میں لیا ) ۔
جس کی یہ خواہش ہو کہ اس کے خواب سچے ہوں تو اس کو چاہیے کہ سچ بولنے کی عادت ڈالے ہمیشہ سچ بولے جھوٹ ۔ غیبت اور چغلخوری سے اپنے آپ کو بچائے رکھے۔لیکن اگر صاحب خواب خود تو جھوٹ بولتا ہے لیکن دوسروں کے جھوٹ بولنے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کے خواب بھی سچے ہو سکتے ہیں لیکن جو شخص خود جھوٹ بولنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے جھوٹ کو بھی ناپسند نہیں کرتا تو اس کے خواب بھی سچے نہیں ہو سکتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ با وضو سونے سے بھی خواب سچے ہوتے ہیں۔ اگر خواب دیکھنے والا پاکدامن و عفیف نہیں ہے تو ایسا شخص خواب تو دیکھے گا مگر یاد نہیں رکھ سکے گا۔ نیت کی کمزوری کثرت گناہ و غیبت اور چغلی کی وجہ سے خواب یاد نہیں رہتے۔