مقدمہ, خوابوں کی تعبیر

مقدمہ

اللہ تعالی فرماتے ہیں: ولهم البشرى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرة ) ترجمہ : “دنیا اور آخرت میں انکے لئے خوشخبری ہے۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ  لَهُم البُشرى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا میں بُشْرِى فِي الدُّنْيَا سے وہ مبشرات مراد ہیں جو دنیا میں انسان خوابوں کی صورت میں دیکھتا ہے یا اس کیلئے دیکھے جاتے ہیں اور فی الآخرۃ سےمراد قیامت کے دن اللہ تعالی کا دیدار ہے۔اور حضور ﷺ نے فرمایا ہے”کہ جس شخص کا رویائے صالحہ پر یقین نہیں تو اس کا اللہ تعالی اور یوم آخرت پر بھی یقین نہیں ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ پر وحی کی ابتدا رویائے صالحہ سے ہوئی ہے آپ کے خواب روز روشن کی طرح واضح اور صریح ہوا کرتے تھے۔ اور اسی طرح آپ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے حضرت ابوبکرصدیق سے فرمایا ترجمہ اے ابوبکر گویا میں نے تمہیں اور اپنے آپ کو ایک سیڑھی چڑھتے ہوئے دیکھا اور میں دو سیٹرھیاں تم سے آگے نکل گیا تو حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا ” یا رسول اللہ ! اللہ تعالی آپکو اپنے جوار رحمت میں لے لیں گے اور میں آپ کے بعد ڈھائی سال تک زندہ رہوں گا۔اور یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ گویا کالی بکریاں میرے پیچھے آرہی ہیں اور ان کے پیچھے سفید رنگ کی بکریاں ہیں تو حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا عرب آپکا تابع ہوگا اور عجم عرب کے تابع ہوگا۔اور اسی طرح اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا وکذلک یجیكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيل الاحا دیث ترجمہ اور اس طرح برگزیدہ کر دیگاتیرارب تجھ کواور سکھلا ئیگا تجھ کو ٹھکانے پر لگانا باتوں پر ” اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے ربِّ قَدْ اتيَتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَى مِنْ تأويل الاحاديث اے رب تو نے دی مجھ کو کچھ حکومت اور سکھایا مجھ کو کچھ پھیرانا باتوں کو دونوں جگہ تاویل الاحادیث سے مراد علم خواب ہی ہے۔ یہی وہ علم ہے جو ابتدائے عالم سے چلا آرہا ہے اور حضرات انبیا کرام علیہم السلام اس علم پر عمل کرتے رہے ہیں اور ان کی نبوت کی دلیل بذریعہ رویائے صالح ہوا کرتی تھی۔آپ کی تشریف آوری سے پہلے علم تعبیر تمام علوم میں اشرف اور ارفع شمار ہوتا تھا۔ ان تمام دلائل کے باجود ملحدین کی ایک جماعت نے یہ کہتے ہوئے رویاۓ صالحہ کا انکار کیا ہے کہ خواب کا تعلق صرف طبائع انسانی کے غلبہ پر ہےچنانچہ اگر مزاج پر سودا ء کا غلبہ ہوتو خواب میں قبور خوفناک احوال واحوال دیکھے گا۔ اور اگر صفراء کا غلبہ ہوتو آگ سفیدی روشنی اور خون کا نظارہ کرے گا۔ اور اگر مزاج پر بلغم کا غلبہ ہوتو پانی انہار اور امواج کا مشاہدہ کرے گا اگر نفس پر دم ( خون ) کا غلبہ ہو تو پینے والی چیزیں ہوائیں، لہو ولعب کی اشیا ڈھول باجےوغیرہ نظر آئیں گے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ بس یہی خواب ہے خواب کی اس کے علاوہ کوئی اور حقیقت نہیں حالانکہ ان سب کے علاوہ خواب کے اور بھی اسباب ہیں۔ بعض خواب شیطان کی تلبیس سے دیکھے جاتے ہیں اور بعض حدیث نفس کی وجہ سے نظر آتے ہیں ان سب کو آپس میں اختلاف کی وجہ سے اضغاث احلام کہتے ہیں۔جو مشابہ میں اضعاث نبات کے اضغاث نبات اس گٹھڑی کو کہتے ہیں جس میں زمین سے اٹھائی گئی چھوٹی بڑی سرخ سفید پیلی خشک وتر مختلف قسم کی لکڑیاں موجود ہوتی ہیں اللہ تعالی کےفرمان و وخذ بيدك ضِعْنثا فَاضْرِبُ بِهِ وَلَا تَحنث میں ضغنا سے یہی مراد ہے بعض علماء کا کہنا ہے کہ

 خواب کی تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم مبشرات ہے جو اللہ کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں یہی وہ رویائے صالحہ ہیں جن کا تذکرہ حدیث پاک میں آیا ہے۔
دوسری قسم وہ ڈراؤنے خواب ہیں جو شیطان کے تصرف سے دیکھے جاتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جس میں انسان اپنے نفس سے ہمکلام ہوتا ہے یعنی نفس انسان کی وجہ سے دیکھے جاتے ہیں۔جہاں تک ان ڈراؤنے خوابوں کا تعلق ہے جو شیطان کی طرف منسوب ہیں ان کی کوئی تعبیر نہیں ہے اور نہ ہی ان کی کوئی حقیقت ہے چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا کہ میرا سرکٹ کر میرے آگے آگے جا رہا ہے اور میں اس کے پیچھے چل رہا ہوں تو نبی کریم نے فرمایا ” ایسی بات کو بیان نہ کر جو شیطان تیرے ساتھ اٹھکھیلیاں کرے نیند میں“۔ اور خواب کی وہ قسم جو نفس کی طرف منسوب ہے یہ ہے کہ مثلا ایک آدمی کسی سے شدید محبت کرتا ہے یا کسی سے شدید خوف رکھتا ہے اور اسی کا خیال جمایا ہوا ہے تو خواب میں اسی شخص کو دیکھے گا یا بھوک کی حالت میں سو گیا تو کچھ خواب میں اپنے آپ کو کچھ کھاتا ہوا دیکھے گا یا پیٹ بھر کر کھایا ہو تو خواب میں اپنے آپ کو قے کرتا ہوا د دیکھے گا۔ یا تیز دھوپ میں سو جائے تو خواب میں اپنے آپ کو آگ میں جلتا ہوا دیکھے گا یا اس کے کسی عضو میں درد ہو تو خواب میں خود کو کسی عذاب میں مبتلا دیکھے گا۔