اب آپ ہپناٹزم کرنے کے لئے تیار ہیں مگر ابھی آپ کو مشق کرنے کی ضرورت ہےکیونکہ مشق ہی آپ کو ماہر بنا سکتی ہے اور ایک نو مشق کے لئے یہ ضروری ہے کہ معمول بہ آسانی اس کےسجیشن کو قبول کرلے۔عام طور پر انسانوں میں تین قسم کے ذہن ہوتے ہیں۔
1: وہ لوگ جو بہت ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں۔ یعنی جن پر معمولی بات جلد اثر کرتی ہے
اور ان کی قوت ارادی بہت کمزور ہوتی ہے۔2: وہ لوگ جو درمیانی قسم کے ہوتے ہیں۔
3:وہ لوگ جو سجیشن کو قبول نہیں کرتے جن کے اندر قوت مزاحمت ہوتی ہے۔ اس آخری قسم کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
(الف) وہ لوگ جو دماغی طور پر بالکل کند ہوتے ہیں ، جن کے اندر امیجی نیشن کا فقدان ہوتا ہے۔ جو نہ صرف جاہل ہوتے ہیں بلکہ کند ذہن بھی ایسے لوگ اکثر بے وقوف ہوتے ہیں۔
(ب) وہ لوگ جو ذہین اور اعلیٰ دماغ کے ہوتے ہیں۔ جن کی قوت ارادی قوی ہوتی ہے۔ یہ لوگ دانستہ طور پر مزاحمت کرتے ہیں یعنی خود کو کسی سجیشن کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ایسے لوگ صرف اسی صورت میں معمول بن سکتے ہیں جبکہ ان کو راضی کر لیا جائے۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں آپ کسی ایسے شخص کو ہپناٹائز نہیں کر سکتے جو اس کے لیے آمادہ نہ ہو لہذا سب سے اول شرط آمادگی ہے۔اس کے بعد معمول پر آزمائش ہے۔آپ کسی ایسے شخص کو معمول نہ بنائیں جو آپ کا قریبی عزیز یا دوست ہو جس کو آپ کی باتوں پر یقین نہ ہو کیونکہ معمول کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ آپ کے اندر ایسی قوت ہے کہ آپ اسے ہپناٹائزکر سکتے ہیں۔ دوم معمول کو یہ خبر نہ ہو کہ آپ نو مشق ہیں ورنہ وہ آپ کے عمل سے پہلے ہی
بدک جائے گا۔آپ کا پہلا فرض یہ ہے کہ آپ معمول کو یہ سمجھائیں کہ آپ اسے ہپناٹائز کرنا چاہتے ہیں اور اس سے پوچھیں کہ وہ اس کے لیے راضی ہے۔اگر وہ راضی ہو جائے تو آپ اس سے کہیں کہ یہ کوئی ایسا عمل نہیں ہے جو صرف میری قوت سے ہو گا اس لئے ضروری ہے کہ تم بھی وہی کچھ سوچو جو میں تمہیں سوچنے کے لئے کہوں۔ اس کے بعد معمول کو ایک آرام کرسی پر بٹھا دیں۔ اس سے کہیں کہ وہ اپنا جسم بالکل ڈھیلا چھوڑ دے۔قطعی ڈھیلا چھوڑ دے۔اس سے کہیں کہ دیکھو میں تمہارا بازو اٹھاؤں گا اور اٹھا کر چھوڑ دوں گا۔اگر تم نے اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا ہے تو بازو با لکل بے جان ہو کر گرپڑے گا۔اگر تم نے جسم ڈھیلا نہ چھوڑا ہوگا تو پھر بازو بے جان ہو کر نہ گرے گا۔ اچھا اب تم لمبے لمبے سانس لو۔اب اپنا دایاں ہاتھ بالکل بے جان چھوڑ دو بالکل ڈھیلا ۔جب میں بازو اٹھاؤں تو بالکل بے جان ہونا چاہئے۔اس کے بعد آپ اس کا بازو آہستہ سے اٹھا ئیں۔ آپ دیکھیں گے کہ معمول بازو اٹھانے میں آپ کی مدد کر رہا ہے کیونکہ ابھی اس کو بے جان بنانے میں وقت لگے گا۔ آپ اس سے کہیں کہ تم نے بازو بالکل ڈھیلا نہیں چھوڑا ہے اسے بھاری نہیں ہونا چاہئے۔تم اس بازو کو اٹھانے میں میری مدد کر رہے ہو۔ تم اس کو بالکل ہی ڈھیلا چھوڑ دو۔سوچو کہ بازو میں بالکل جان نہیں ہے۔یہ بالکل مردہ ہو چکا ہے۔ اس کے بعد آپ بازو اٹھائیں۔اب وہ بالکل ڈھیلا ہوگا۔ مگر جب آپ اس کو اٹھا رہے ہوں گے تو معمول کی توجہ اس کی طرف ہو جائے گی اس لئے اس کے اندر پھر ہلکی سی حرکت ہوگی۔جب آپ اسے چھوڑیں گے تو وہ بے جان ہو کر نہیں گرے گا بلکہ تھوڑا رک کر۔ اب آپ کہیں ہاں تم نے ہاتھ کو کافی ڈھیلا چھوڑا تھا مگر جب میں تمہارا ہاتھ چھوڑنے لگا تو تم نے پھر اس کی طرف اپنی توجہ کرلی۔ اب میں پھر عمل کرتا ہوں بازو ڈھیلا چھوڑ دو۔ بالکل بے جان مردے کی طرح جیسے یہ تمہارے جسم کا حصہ ہی نہیں ہے۔ بالکل ہی ڈھیلا۔ اب آپ بازو کو اٹھائیں تو وہ بالکل بے جان ہوگا۔ اور جب آپ اسے چھوڑیں گے تو وہ دھڑام سے گر پڑے گا۔معمول کا بازو اگر اب بھی ڈھیلا نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معمول مزاحمت کر رہا ہے اور وہ آپ کی سجیشن پر عمل نہیں کر رہا ہے اس لئے آپ کو چاہیے کہ آپ معمول بدل دیں۔کیونکہ زیادہ عمل کرنے سے نہ صرف معمول اکتا جائے گا بلکہ آپ خود بھی مایوس ہو جائیں گے۔اب کسی اور آدمی کو منتخب کر کے اس پر تجربہ کریں۔اگر پہلا تجربہ کامیاب ہو جائے تو دو سرا تجربہ شروع کردیں۔
مشق نمبر 2:معمول کو کھڑا کر دیں اور خود اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ اس سے کہیں کہ وہ آنکھیں بند کرلے۔ پھر اس سے کہیں کہ تم سوچو کہ تم ایک کشتی پر سوار ہو کشتی کھلے سمندر میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ دائیں سے بائیں کشتی ہل رہی ہے۔کچھ دیر بعد آپ دیکھیں گے کہ آپ کا معمول کشتی میں بیٹھے ہوئے سوار کی مانند دائیں بائیں ہلنے لگا ہے۔ جب وہ خاصے ہچکولے کھانے لگے تو اس سے کہیں آنکھیں کھول دو۔ آپ دیکھیں گے کہ کسی طرح انسان خود اپنے ذہن سے سوچے ہوئے تصور کے تحت حقیقت کا آئینہ بن جاتا ہےاب آپ کا معمول آپ کی سجیشن قبول کرنے پر آمادہ ہو چکا ہے۔
مشق نمبر 3:
معمول سے کہیں کہ اب میں تمہارے تخیل کو آزمانا چاہتا ہوں۔ عام طور پر کسی گرم چیز کو دیکھو تو حرارت کا احساس ہوتا ہے۔اسے چھونے سے گرمی محسوس ہوتی ہے۔ اگر وہ چیز زیادہ گرم ہے تو تم اسے چھو بھی نہیں سکتے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے تصور میں یہ سوچو
کہ میری انگلی ایک گرم سلاخ ہے بہت گرم۔ اگر میں اپنی انگلی سے تمہارے جسم کو چھوؤں گا تو تم اس کی حرارت کو شدت سے محسوس کرو گے۔ اب میں یہ انگلی تمہارے ماتھے پر رکھتا ہوں۔تم اس کی گرمی محسوس کرو گے، شدید گرمی۔ اس کے بعد آہستہ سے انگلی اس کے ماتھے پر رکھیں۔دیکھو میں نے یہ گرم انگلی تمہارے ماتھے پر رکھی ہے۔عام طور پر معمول آپ کے پوچھے بغیر ہی کہہ دے گا کہ وہ اس کی گرمی محسوس کر رہا ہے۔ اگر وہ کچھ نہ بولے تو آپ خود پوچھ لیں۔ یہ گرم ہے نا؟” وہ فورا کہے گا ”ہاں ” آپ انگلی اٹھا کر کہیں کہ اب سوچو کہ یہ انگی برف کی طرح سرد ہے، بالکل یخ بستہ ہے۔ تمہارے ماتھے پر لگاتا ہوں۔ اگر یہ سرد ہو تو مجھے بتادینا۔ آپ انگلی آہستہ سے ماتھے پر رکھ دیں معمول فورا اس کے سرد ہونے کا اعتراف کرلے گا۔
مشق نمبر 4: معمول کو کھڑا کر دیں۔ اس سے کہیں کہ آنکھیں بند کرلے پھر اس سے کہیں کہ میں تمہارے پیچھے کھڑا ہوں۔ جب میں کہوں گا اس وقت تم پیچھے کی طرف کو جھکنے لگو گے۔ فکر نہ کرو میں پیچھے ہی کھڑا ہوں۔ تم کو گرنے نہیں دوں گا۔ ہاں تیار ہو جاؤ۔ یہ کہہ کر خود معمول کے پیچھے کھڑے ہو جائیں۔ ہاں تم پیچھے جھک رہے ہو۔ معمول پیچھے کی طرف کھنچا چلا آئے گا۔ جب وہ کافی حد تک جھک جائے تو اسے پکڑ کر سیدھا کر دیں اور اس سے کہیں کہ اب وہ آنکھیں کھول دے۔ان مشقوں پر عمل کرنے سے آپ معمول کے ذہن کو مکمل طور پر قابو میں کرلیں گے۔اگر یہ مشقیں کامیاب رہیں تو آپ ہپناٹائز کرنے میں با آسانی کامیاب ہو جائیں گے۔مقصود یہ ہے کہ معمول اپنے تصور سے وہ سب کچھ کرے جو آپ کرانا چاہتے تھے۔ جب اس کا تصور آپ کے سامنے ہتھیار ڈال دے گا تو آپ آگے بڑھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ حقیقی ہپناٹزم وہی ہے جس سے معمول مکمل طور پر غنودگی میں چلا جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ گزشتہ مشقوں میں کامیاب ہونے کے بعد معمول کو گہری نیند سلالیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کامعمول پہلے ہی تجربے میں گہری نیند سو جائے لیکن اگر وہ ایک طریقے سے گہری نیند میں نہ جائے تو دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ بعض اوقات تو نو مشق کیا اچھے ہپناٹسٹ بھی معمول کو گہری نیند سلانے میں کامیاب نہیں ہوتے اور انہیں مجبورا معمول کو دوسرے ماہر کے پاس بھجوانا پڑتا ہے۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بعض معمول کسی خاص شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتے۔عام طور پر گہری نیند سلانے کے لئے آپ معمول کا کوئی عزیز اپنے ساتھ رکھیں۔البتہ اگر آپ کا معمول آپ کے سجیشن کو فراخ دلی سے قبول کر رہا ہے تو پھر تنہائی میں عمل کریں مگر سب سے پہلے اس کے ذہن میں ہپناٹزم کا صحیح تصور پیدا کریں، اس کے اندر سے خوف دور کریں ورنہ ممکن ہے وہ آپ کی مشقوں پر تو عمل کرے مگر گہری نیند میں جانے سے لاشعوری طور پر مزاحمت کرے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کے لاشعور میں یا تو خوف ہے یا وہ آپ پر اعتماد نہیں رکھتا۔ اس لئے سب سے
پہلے اس کا اعتماد حاصل کریں۔ ان ابتدائی مشقوں پر تجربہ کرنے کے بعد معمول کوسمجھائیں کہ اب میں تمہیں اس طرح سلا بھی سکتا ہوں مگر یہ نیند بہت ہی فرحت آمیز ہوگی اور تم جب جاگو گے تو خود کو بہت ہی ترو تازہ پاؤ گے۔ عام طور پر معمول پوچھے گا ” کیا آپ واقعی مجھے سلا سکتے ہیں۔” آپ فورا جواب دیں” یہ تو بہت معمولی بات ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ تم سونا چاہو تو کیونکہ اگر تم ذہنی طور پر تیار نہ ہو گے تو پھرنا ممکن ہے۔جیسے میں نے تم پر امیجی نیشن سےانگلی کا تجربہ کیا ہے۔اگر تم ذہنی طور پر اس کے گرم ہونے کا تصور پیدا نہ کر لیتے تو پھر اس کے گرم محسوس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح ذہنی طور پر اگر تم میرا ساتھ دو گے اور سونا چاہو گے تو سو سکو گے اور نہ چاہو گے تو پھر میری کوشش بیکار ہے” عام طور پر معمول فورا اپنے آپ کو پیش کردے گا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لاشعوری طور پربھی آمادہ ہے یہ تو آپ کو تجربہ کرنے سے پتا چلے گا۔خیال رہے کہ یہ تمہید صرف نو مشقوں کے لیے ضروری ہے۔ تجربہ حاصل کر لینے کے بعد اس تمہید کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ آپ کو خود بخود ہی معلوم ہو جائے گا کہ آپکا معمول کیسا ہے۔چنانچہ جب آپ کا معمول تیار ہو جائے تو اس پر عمل شروع کریں۔ لیکن تجربہ شروع کرنے سے پہلے ایک بار پھر نوٹ کرلیں کہ آپ کے اندر شک و شبہ قطعی نہیں ہونا چاہئے۔ نہ تو آپ کے ذہن میں اور نہ ہی آپ کے الفاظ میں۔ اگر آپ میں خود اعتمادی نہیں تو آپ کا تجربہ ناکام رہے گا۔ جب آپ سجیشن دیں تو آپ کے سجیشن میں محض کھوکھلے اور بے مطلب الفاظ نہ ہوں۔ نہ ہی ان کے اندر کمتری کا اظہار ہو مثلا آپ معمول سے کہہ رہے ہیں کہ اب تم کو نیند آرہی ہے اب تم سو جاؤ گے۔ بظاہر ان الفاظ کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ہر شخص یہ الفاظ استعمال کر کے کسی کو نہیں سلا سکتا۔ ان الفاظ میں اثر ہونا چاہئے۔ وہ پر زور ہوں تاکہ سننے والا یہ محسوس کرے کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ محض الفاظ نہیں بلکہ حقیقتاً ایسا ہی ہے۔ اگر معمول کے ذہن میں آپ کی سجیشن محض الفاظ تک ہی محدود رہے اور ان میں کوئی وزن کوئی اثر اور کوئی حکم نہ ہو تو پھر وہ سجیشن بے کار ہوگی۔ یہ تمام باتیں آپ کے ذہنی اعتماد سے پیدا ہوں گی۔اگر آپ کا ذہن مکمل طور پر اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ہو کر رہے گا تو پھر وہ لازمی طور پر ہو کر رہے گا۔ اس کے لئے آپ کو ایکٹر بھی بننا پڑے گا۔ایسا ایکٹر جس کا ہر لفظ ہر حرکت متاثر کرنے والی ہوتی ہے۔ اچھے ایکٹر وہی ہوتے ہیں جو اپنے کردار میں خود کو سمولیں۔ اگر وہ خود کو علیحدہ رکھیں اور ان کا کردار الگ رہے تو پھر ان کے مکالمے بھی بے جان ہوں گے۔ آپ اچھے ہپناٹسٹ اس وقت بن سکتے ہیں جبکہ خود کو پیپٹاٹسٹ تصور کر کے اس کردار کو نبھائیں۔ نہ تو آپ کی شخصیت الگ کھڑی رہے اور نہ ہیپٹاٹسٹ کی شخصیت الگ کھڑی رہے۔ امید ہے کہ آپ میرا مفہوم ذہن نشین کر چکے ہوں گے۔