ہیپناسس

جنسی بیماریاں اور انکا علاج

ہمارے ہاں کے 40 فیصد عوام جنسی علالتوں میں مبتلا ہیں۔ یہ علامتیں حقیقی معنوں میں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں بلکہ محض ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں یا حکیموں کے اشتہارات پڑھ کر نوجوان اپنے آپ کو علیل سمجھنے لگتے ہیں۔جس قدر جلد اور بہتر اثرات پناٹزم سے جنسی علالتوں کے علاج کی صورت میں ہوتے ہیں۔اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ یہ علامتیں قطعی طور پر ذہنی ہوتی ہیں اور چونکہ ان بیماریوں کے ساتھ کسی خطرے کا تعلق نہیں ہوتا اس لئے ہپناٹسٹ فراخ دلی کے ساتھ علاج کر سکتا ہے۔ مردوں میں مندرجہ ذیل جنسی بیماریاں پائی جاتی ہیں۔

(1) جنسی نا مردی 

(2) جنسی کمزوری 

(3) جریان احتلام 

(4) خودلزتی

(5) جنسی کجروی۔ ان سب کا علاج بہت آسان ہے البتہ کبھی کبھی جنسی کجروی کے مریض سے قدرےدشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ جنسی کجروی بعض اوقات کسی بہت ہی گہری الجھ الجھن کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔ عام طور پر اسے علالت کہا بھی نہیں جاتا تاوقتیکہ مریض خود اس عادت کی وجہ سے کسی الجھن کا شکار نہ ہو جائے۔ اس لئے کجروی کے بہت کم مریض براہ راست اس مرض کے تحت آتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھی جنسی نامردی کے مریض کے علاج کے دوران انکشاف ہوتا ہے کہ مریض کجرو ہے اور اس کی نامردی اس کجروی کے احساس جرم کی وجہ سے ہے۔ ایسی صورت میں بھی علاج قدرے مشکل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات تحلیل نفسی کی ضرورت پڑتی ہے۔جنسی کجروی بھی عام طور پر خیالی مرض ہوتا ہے یا اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی خوف وابستہ ہوتا ہے۔عام طور پر مریض اگر سمجھ دار ہو تو وہ محض عام ہدایت سے ہی درست ہو جاتا ہے۔ اسے اگر یہ سمجھا دیا جائے کہ جس مرض میں تم خود کو مبتلا سمجھتے ہو وہ دراصل مرض نہیں بلکہ محض ایک وہم ہے تو عموما ہپناٹزم کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جریان اور احتلام تو محض سو فیصدی خیالی چیزیں ہیں۔ ان کو پیدا کرنے کا سہرا نام نہاد حکما کے سر ہے۔ ڈاکٹری نقطہ نظر سے یہ سرے سے کوئی بیماری ہی نہیں ہے۔ عام طور پر جس چیز کو لوگ جریان سمجھ بیٹھے ہیں وہ منی کا اخراج ہے جو عموما خراش یا قبض کی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔ وہ لوگ جو جنسی طور پر کنوارے ہوتے ہیں ان میں جب مادے کی کثرت ہوجاتی ہے تو اس کا اخراج احتلام اور جریان کی صورت میں ہوتا ہے۔ جب ایسے لوگ نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں یعنی جنسی اختلاط کرنے لگتے ہیں تو یہ مرض غائب ہو جاتا ہے۔حقیقی جنسی نا مردی شاذ و نادر ہی ہوا کرتی ہے اور جب انسان پیدائشی نامرد ہوتا ہے تو علاج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن جب یہ نامردی جوانی میں اگر نمودار ہو تو اس کی وجہ کوئی خوف یا احساس جرم ہوتا ہے جس کا علاج آسان ہے۔ خود لذتی ایک عادت ہے مرض نہیں۔ بذات خود یہ کوئی برا اثر نہیں رکھتی لیکن اس کے ساتھ جو وہم اور خوف وابستہ ہے اس کی وجہ سے عام طور پر نوجوان گھبرائے رہتے ہیں ہپناٹسٹ کے پاس جب کوئی مریض اس عادت کو چھڑوانے کے لئے آئے تو سب سے پہلے صاف صاف الفاظ میں اسے یہ بتا دیا جائے کہ اگر وہ اعتدال کی حد تک اس عادت میں مبتلا ہے تو کوئی بری چیز نہیں بلکہ یہ اس کے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ کسی بڑے جنسی جرم یعنی زنا سے بچا ہوا ہے۔اگر اس کے باوجود بھی وہ اصرار کرے تو اسے ہپناٹائز کرکے محض یہ سجیشن دیں کہ وہ خود لذتی کی عادت ترک کردے۔ لیکن ایک بات کا خیال رکھیں۔ سجیشن ایسی نہ ہو کہ وہ جنسی طور پر سرد پڑ جائے یا خود لذتی چھوڑ کر زنا کی طرف مائل ہو جائے۔ اسے اپنی اس عادت سے نفرت نہ دلا ئیں۔ آپ کے کہنے سے اگر وہ اس سے نفرت کرنے لگے گا تو پھر یہ نفرت اس کی جنسی زندگی میں الجھن ڈال دے گی۔ اسے صرف یہ عادت ترک کرنے کی سجیشن دیں۔ بالکل صاف اور سیدھی ہدایت جس کے ساتھ نہ نفرت نہ برائی اور نہ خوف وابستہ ہو۔ عام طور پر جب کوئی مریض جنسی کجروی کی شکایت لے کر آتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ وہ بچپن میں خود لذتی کا شکار رہا تھا اس لیے علیل ہو گیا کیونکہ حکیموں کی کتابیں اور اشتہارات پڑھ کر اسے ہیں احساس ہوتا ہے اور اس کی ساری جنسی کمزوری بھی انھی کتابوں اور اشتہارات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ میں اپنے ہاں کے حکما کو اس قدر غلط اور گمراہ کن پبلسٹی کی بنا پر مجرم تصور کرتا ہوں۔ بعض اوقات خیالی نامردی کسی خاص بات یا کسی خاص عورت سے نفرت کی بناپر بھی پیدا ہو جاتی ہے۔میرے پاس ایک مریض علاج کے لئے آیا جب اس کی ہسٹری لی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کی نامردی کا آغاز اس دن ہوا جب وہ ایک طوائف کے پاس گیا۔ اس نے حسب معمول جنسی ملاپ کیا تو طوائف کے منہ سے نکل گیا “کیا بس” یہ طعنہ وہ قبول نہ کر سکا چنانچہ اس کے بعد جب بھی وہ کسی عورت سے ملاپ کرتا تو اس کے ذہن میں میں دو لفظ ابھر آتے۔ نتیجے کے طور پر وہ قطعی سرد ہو جاتا۔ بد قسمتی سے اس قسم کے مریض پے در پے تجربات کرنے لگتے ہیں اور وہ جتنے تجربات کرتے ہیں ناکامی ہوتی ہے ایسے مریضوں کا علاج حکما کی ہزاروں ادویات بھی نہیں کر سکتیں۔

علاج:

چونکہ یہ علامتیں تقریبا ایک ہی نوعیت کی ہوتی ہیں اس لئے ان کی سجیشن میں معمولی سا فرق ہوتا ہے۔حسب معمول مریض کو ہپناٹائز کریں اور کہیں۔تم ایک نارمل انسان ہو۔آج کے بعد سے تم جنسی طور پر بالکل نارمل ہو جاؤ گے تم قطعی طور پر تندرست ہو چکے ہو۔تم جنسی ملاپ بلا خوف سر انجام دو گے۔تم بالکل صحت مند ہو چکے ہو۔تم اب ہرگز ہرگز خوف نہیں کھاؤ گے۔تم ایک جوان مرد ہو۔تم جب جاگو گے تو اپنے آپ کو مکمل مرد پاؤ گے وغیرہ وغیرہ۔ حسب معمول مریض کو سجیشن دے کر جگا دیں۔ عام طور پر ایک بار ہی کا عمل کرنے سے مریض صحت یاب ہو جاتا ہے۔آخر میں ایک ضروری بات کہنی ہے اگر آپ کے پاس نامردی کا کوئی مریض آئے، اس کی ہسٹری ضرور لیں۔اگر اس کی ہسٹری سے اس بات کا علم ہو جائے کہ وہ اپنی اہلیہ سےنفرت کرتا ہے تو پھر نامردی کے بجائے اس کی نفرت کا علاج کافی ہوتا ہے۔کیونکہ اگر کوئی مرد کسی خاص عورت سے نفرت کرتا ہے تو پھر وہ اس وقت تک اس عورت سے جنسی ملاپ میں ناکام رہے گا جب تک اس کے ذہن سے یہ نفرت نہ نکلے گی۔ اگر اس کو سجیشن دےدی گئی کہ وہ تندرست ہو چکا ہے مگر جب وہ مخصوص عورت سے ملاپ کرے گا تو آپ کی سجیشن بے کار ہو جائے گی کیونکہ اس کے دل کی نفرت اس کو کبھی مرد نہیں بننے دے گی۔