اسلام اور سائنس

معجزہ شق القمر اور جدید سائنسی تحقیقات

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے قرآن پاک کے بعد یہی عظیم الشان معجزہ ایسا ہے جس کا ذکر کتاب حق میں بالوضاحت آیا ہے۔ جس کی تفصیل ہم ذیل میں درج کرتے ہیں، جو بخاری شریف صحیح مسلم اور جامع ترمندی میں مفصل مذکور ہے۔ ہجرت سے پانچ برس پہلے مکہ شریف میں جب کہ حج کا زمانہ تھا اور مقام منی میں کفار عرب جمع تھے اور عہد جاہلیت ہی سے اس زمانہ میں یہاں جمع ہوا کرتے تھے حضور انور عليه الصلوۃ والسلام ان کے پاس تبلیغ دین حنیف کے لیے تشریف لے گئے اور ان کو سمجھاتے تھے آدھی رات کا وقت ہوگا۔ کافروں نے آپ سے نبوت کی نشانی طلب کی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو اس واقعہ کے وقت موجود تھے اور اپنی آنکھوں سے یہاں کا حال دیکھا تھا۔ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے شق القمر کا معجزہ دکھایا۔ چاند پھٹ گیا۔ ایک ٹکڑا جبل ابو قیس پر تھا تو دوسرا کوہ قیعقان یا سویدا پر ۔ یعنی ایک مشرق کی طرف تو دوسرا مغرب کے رخ پر اور حرا ان دونوں ٹکڑوں کے درمیان تھا۔ جب مجمع نے اچھی طرح یہ نظارہ کر لیا تو اس کے بعد دونوں مکڑے مل گئے ۔ یہ دیکھ کر کفار نے کہا کہ محمد نے ہم پر جادو کر دیا ہے۔ تو ان میں سے بعض نے یہ کہا کہ اگر ہم پر جادو کر دیا ہے تو دوسرے اور لوگ جو یہاں نہیں ہیں ان پر تو وہ جادو نہیں کر سکتے اور مقامات سے لوگوں کو آنے دو کہ وہ کیا کہتے ہیں چنانچہ جب دور دور کے لوگ مکہ پہنچے تو ان سے اس واقعہ کی تصدیق حاصل ہوئی۔ اوراس کے ساتھ ہی جبرئیل امین علیہ السلام آیتیں لے کر نازل ہوئے۔

اقتربت الساعته و انسق القمر و ان يروا اية يعرضوا ويقولو سحر مستمره (پاره 27 سوره تمر آیت (1.2)

ترجمہ قیامت نزدیک آگئی اور چاند شق ہو گیا اور اگر کافر ( کوئی سا بھی ) نشانہ دیکھیں ( تو ) اس سے منہ ہی پھریں اور نہیں کہ یہ تو جادو ہے جو پہلے سے ہوتا آیا ہے۔

جاننے والوں کو معلوم ہے کہ آسمانی چیزوں پر جاو و محال ہے۔ بعض نادان ان آیتوں میں شیخ القمر کے تذکرہ کو قرب قیامت کا واقعہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس میں انشق ماضی کا صیغہ نہ ہے جس کے معنی “پھٹ گیا” کے ہیں، نہ کہ مستقبل کا صیغہ ( پھٹ جائے گا ) بقول امام شوکانی صاحب فتح القدیر کے کہ بعد کے ٹکڑے میں یہ الفاظ کہ یہ کافر اگر کوئی نشانی دیکھ لیں تو منہ پھیر لیں اور کہیں کہ یہ تو جادو ہے۔ جو سدا سے ہوتا آیا ہے اس کا کیا مطلب ہوگا ۔ قیامت سامنے آجانے کے بعد اس کے انکار کے کیا معنیٰ وہاں تو دم زدن کی مہات بھی نہ ہوگی اور واقعہ قیامت کو پہلے سے ہوتا چلا آیا جادو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے۔ صحابہ کرام تابعین و تبع تابعین تک اس معجزے کے بارے میں کہیں کوئی اختلاف نہ تھا۔ لیکن مولانا امیر علی صاحب تغییر مواہب الرحمن نے یہ سچ فرمایا ہے کہ جب مسلمانوں نے یونانی فلسفہ وحمیت کی کتا بیں ترجمہ کیں اور ان کو پڑھنا شروع کیا تو ان سے متاثر ہو کر بعض بد نصیب اور کچے لوگوں مانے ان آیات میں بھی تاویل کی جرات کی جیسا کہ ہم اپنے اس دور میں مغربی علوم کے سبب بعضوں کا یہی حال پاتے ہیں۔ اگر نعوذ باللہ یہ معجزہ رونما نہ ہوتا تو کفار عرب کے منہ ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ فتنہ بھی گزرے کہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی معجزہ شق القمر کیوں نہیں دیکھا گیا تو اس کا جواب علماء نے بہت تفصیل سے دیا ہے مختصر پر اس طرح (آیتوں کا جھوٹا دعوی کیسے کیا جاسکتا تھا۔ اتنا سمجھ لیجئے کہ آپ جانتے ہیں کہ کتنے چاند گرہن اور سورج گرہن ہوتے رہتے ہیں جو ہر جگہ دکھائی نہیں دیتے، رمضان اور عید کے چاند کے موقوں پر بھی ممالک کے فرق سے جو اختلافات رونما ہوتے رہتے ہیں ہم اس سے بھی بے خبر نہیں ہیں۔

نیز آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ آدھی دنیا میں رات اور آدھی دنیا میں دن رہتا ہے اور زمین کے کروی شکل ہونے سے ممالک کے لحاظ سے اس کے بہت سے افق نشیب و فراز میں بنتے ہیں اور جو ممالک افق مکہ میں داخل ہیں ان سب نے دیکھا ( جن کو کہ اس واقعہ کی آدھی رات کے وقت دیکھنے کی توفیق ہوئی ) اور ہندوستان کی تاریخوں میں تو بلیاں کے راجہ کا معجزہ شق القمر کو دیکھ کر اسلام لانے کا واقعہ کافی مشہور ہے۔ 

مدت سے ہے آوارہ افلاک مرا فکر 

کردے اسے اب چاند کے غاروں میں نظر بند

 کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق 

 نہ آبلہ مسجد ہو نہ تہذیب کا فرزند

 (اقبال) 

 

جاننے والوں کو معلوم ہے کہ آسمانی چیزوں پر جاو و محال ہے۔ بعض نادان ان آیتوں میں شیخ القمر کے تذکرہ کو قرب قیامت کا واقعہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس میں انشق ماضی کا صیغہ نہ ہے جس کے معنی “پھٹ گیا” کے ہیں، نہ کہ مستقبل کا صیغہ ( پھٹ جائے گا ) بقول امام شوکانی صاحب فتح القدیر کے کہ بعد کے ٹکڑے میں یہ الفاظ کہ یہ کافر اگر کوئی نشانی دیکھ لیں تو منہ پھیر لیں اور کہیں کہ یہ تو جادو ہے۔ جو سدا سے ہوتا آیا ہے اس کا کیا مطلب ہوگا ۔ قیامت سامنے آجانے کے بعد اس کے انکار کے کیا معنیٰ وہاں تو دم زدن کی مہات بھی نہ ہوگی اور واقعہ قیامت کو پہلے سے ہوتا چلا آیا جادو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے۔ صحابہ کرام تابعین و تبع تابعین تک اس معجزے کے بارے میں کہیں کوئی اختلاف نہ تھا۔ لیکن مولانا امیر علی صاحب تغییر مواہب الرحمن نے یہ سچ فرمایا ہے کہ جب مسلمانوں نے یونانی فلسفہ وحمیت کی کتا بیں ترجمہ کیں اور ان کو پڑھنا شروع کیا تو ان سے متاثر ہو کر بعض بد نصیب اور کچے لوگوں مانے ان آیات میں بھی تاویل کی جرات کی جیسا کہ ہم اپنے اس دور میں مغربی علوم کے سبب بعضوں کا یہی حال پاتے ہیں۔ اگر نعوذ باللہ یہ معجزہ رونما نہ ہوتا تو کفار عرب کے منہ ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ فتنہ بھی گزرے کہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی معجزہ شق القمر کیوں نہیں دیکھا گیا تو اس کا جواب علماء نے بہت تفصیل سے دیا ہے مختصر پر اس طرح (لقمر اور جدیتحقیقات

فضائے عالم میں زمین کا سب سے قریبی پڑوسی (چاند) ان دونوں کا باہمی فاصلہ دولاکھ میل سے کچھ زائد بتایا جاتا ہے۔ پرانے فلکی اس کو سات سیاروں میں سے ایک اور سلسلے میں پہلا سجھتے تھے۔ نئے دور کی تحقیقات نے اسے سیاروں کی محفل سے نکال باہر کیا ہے اور اس کی بجائے زمین کو جگہ دی ہے۔ اس کرہ سے آگے انسانی راکٹوں کے پہنچ جانے کے دعوے کی بنیاد پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قدماء کا یہاں سے آسمان اول کا جو تصور تھا وہ غلط ہے۔ چاند کا قطر یا عرض دو ہزار دو سو میل ہے اس میں ہوا نام کی کوئی چیز نہیں اسی طرح نمی کبر یا بادل یا آتش فشانی کیفیت میں سے بھی کوئی چیز نہیں۔ ان ہی وجوہ سے سائنس دان کہتے ہیں کہ اپنی تخلیق کے وقت سے اس کے جو حالات و کیفیات ہیں وہ ویسے ہی غیر متغیر باقی ہیں اس کرہ پر سردی اتنی شدید کہ قطب شمالی کا تذکر ہی کیا۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ درجہ صفر پر کہ ( جہاں پانی جنے لگتا ہے ) اس سے کوئی دو سو درجے نیچے ہوگی ۔ سورج سے چار سو گنا اور زمین سے کوئی گیارہ گنا سے کچھ زاید ہی چھوٹا ہے اس کی کشش ثقل زمین سے 6 گھنٹے کم کبھی جاتی ہے۔

روس نے 13 ستمبر 1959ء کو دعوی کیا کہ لوتک نمبر 2 کے ذریعے روس کا پرچم چاند پر نصب کیا گیا ہے پھر 4 اکتوبر 1959 کو ایک اور دعویٰ کیا کہ اس کے اس دوسرے رخ کی تصویر لینے میں اس نے کامیابی حاصل کی ہے۔ جو زمین سے نظر نہیں آتا اور جسے دنیا

کے سامنے پیش بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سامنے کے رخ کے مقابلہ میں اس حصے میں بہت ہی کم پی باز و غیرہ ہیں۔ دیکھئے آگے کیا انکشافات ہوں گے۔ چاند کا کر وہی ایک ایسا ہے جس کے چپے چپے کو دور بیٹیوں کے ذریعے دیکھا جا چکا ہے۔ جس کے متعلق برطانیہ اور امریکہ کے ہلیت دانوں اور رصد گاہوں نے بڑی بڑی تختیم کتا بیں لکھی ہیں اور اس کے نقشے چھاپے ہیں ان میں سے دو کتابوں کے نام درج کیے جاتے ہیں آپ چاہیں تو ان کا مطالعہ فرما سکتے ہیں۔

 

(1) SUN, MOON AND STARS BY SKILLING AND

RECHARDSON.

 

(2) THE MOOND BY DR.H. PERCYWILLKINS AND PRICK MOOR (LONDON)

 

بہر حال ایک عرصہ سے اس کرو کی چھان بین برابر جاری ہے۔ شکاریوں کی معمولی دور بین سے 9-10 تاریخ کے چاند کو آپ بھی دیکھیں۔ تو مجیب تماشا پائیں گے اور آپ کو ایسا معلوم ہو گا کہ یہ ہماری دنیا سے ملتی جلتی سرزمین ہے جس میں نشیب و فراز پہاڑ اور میدان ہیں، سطح پر چیچک کے داغوں جیسی کیفیت ہے۔

چاند پر چند چیزیں ایسی پر اسرار مشاہدہ ہوتی ہیں کہ جن کو دیکھ کر اہل بلیت ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہیں۔ کئی مقامات پر درزیں (Rills) پائی جاتی ہیں، جن کے متعلق ان کا خیال ہے کہ جس وقت چاند ٹھنڈا ہو کر سکٹر رہا تھا اس زمانہ میں اس میں یہ شگاف پڑ گئے ہیں، جو ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے کہ سیلاب کے بعد زمین کے خشک و شفق ہو جانے سے نظر آیا کرتے ہیں۔ ان درزوں سے زیادہ عجیب و غریب چمکتی لکیریں ہیں جو چاند کے کوه و صحرا کو مسلسل طے کرتے ہوئے میلوں تک چلی گئی ہیں ساتویں شب کے بعد جیسے جیسے چاند بڑھتا جاتا ہے نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہیں، حتی کہ چودھویں رات کو ان کا بہت ہی واضح اور صاف مشاہدہ ہوتا ہے چاند کے جنوبی سرے پر ایک دہانہ ہے، جس کا نام Tycho ٹانگور کھا گیا ہے یہاں سے یہ لکیریں شروع ہو کر چاند کے کرہ پر بالکل اسی طرح پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں، جیسے کہ دنیا کے گلوب پر طول بلد کی لکیریں کھینچی ہوتی ہیں۔

ان باتوں کے علم کی وجہ سے ہمارا ذ من معجزہ شق القمر کی طرف منتقل ہوتا ہے اور خاص طور پر اس سبب سے بھی کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی تخلیق کے وقت سے چاند کے جو کیفیات و حالات ہیں وہ ویسے ہی غیر متغیر باتی ہیں غیر مسلم اقوام تو صرف ذوق جستجو میں کسی متعین مقصد کے بغیر ڈیڑھ سو سال سے اس کی تحقیقات و مشاہدات میں مصروف ہیں۔ لیکن کیا مسلم علماء ومحققین کی جماعت بھی اس دریافت کی طرف متوجہ ہوگی کہ معجزہ شق قمر کا جو وقوع عمل میں آیا تھا اس کے آثار اب بھی اس کرہ پر باقی ہیں ؟ اس قادر مطلق کو اتصال عنایت فرمایا تو ایسا جڑا ہو کہ اس کا کوئی نشان نہ ہو یا آثار و علامتیں باقی بھی رکھی ہوں اور یہ پر اسرار شگاف اور لکریں اس کی یادگار ونشان دہی کرتی ہوں ۔ دونوں امر ممکن ہیں ۔ آقائے نامدار کو اس معجزہ کی عطا میں بہت سے جہات لیے ہوئے قدرت نے کئی مصالح اور راز وابستہ رکھے ہوں کہ زمین کی سب سے قریبی کرہ سماوی یہی ہے اور انسان اس پر ہی پہنچنے کی توقعات میں مبتلا ہے وہ اندازہ کر رہا ہے کہ 5 دن میں اس پر اتر پڑے گا۔

روسی خلا بازوں کی بھیجی گئی تصویروں میں چاند پر دراڑوں کا واضح ثبوت روی امریکی خلائی جہازوں سے چاند کی لی گئی جو تصاویر شائع ہوئی ہیں ان سے یہ واضح ہے کہ چاند کی سطح پر ایک دراز ہے کہ جو پورے چاند کو محیط ہے اور یہ تصویر 127 اگست 1969 کو اخبار پاکستان ٹائمنز لاہور میں شائع ہو چکی ہے۔ واشنگٹن کے خلائی ریسرچ منسٹر میں ایک مصری سائنسدان فاروق الباز کام کر رہے تھے وہ ہندوستان میں انڈین اسپیس ریسرچ مسٹر کے خصوصی اجلاسوں میں شرکت کے لیے انہی ایام میں انڈیا آئے تھے۔ انہوں نے انڈیا آتے ہوئے کچھ دیر قاہرہ میں قیام کیا تھا اور صدر سادات کو مریخ کی وادی قاہرہ کا ایک ماڈل پیش کیا تھا۔ کیونکہ مریخ کی اس وادی کا وادی قاہرہ سے مشابہت کی بنا پر اس کا نام وادی قاہرہ رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے صدر سادات کو اس قرآن کا بھی ایک ورق پیش کیا جو اپالو 15 کے ذریعہ چاند پر بھیجا گیا اور جب خلا باز چاند پر پہنچے تھے تو انہوں نے اہل زمین کو سلام کرتے ہوئے یہ کلمات بھی کہے تھے ۔ ” مرحبا اصل الارض من ایندریو یعنی اہل زمین کو چاند گاڑی ایندر یو سے سلام۔ ان الفاظ کا عربی ریکارڈ بھی سادات کو دیا گیا اور چاند کی سح سے لی گئی عربی ممالک کی ایک رنگین تصویر بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر فاروق الباز نے صدر سادات کو چاند کی ایک تصویر بھی پیش کی کہ جس میں وہ طویل در از صاف دکھائی دیتی ہے کہ جو چاند کی پوری مسلح پر موجود ہے اور جس کا سائنسدانوں نے عرب وراز نام رکھا ہے یہ تصویر مصر کے خلا بازی کے ریسرچ میٹر میں رکھ دی گئی ہے۔