ہپناٹزم میں مشورہ یا سجیشن کی تعریف مختلف ماہرین فن نے مختلف کی ہے۔ میں ایف ڈی بلو، ایک مائرز کا قول ہے کہ یہ انسان کی ذات رفیع سے ایک قسم کی کامیاب اپیل ہیں” ہالینڈر کا بیان ہے کہ یہ کسی خیال کو بلا مداخلت سب کاشس یا تحت الشور میں پہنچانے کا ایک عمل ہوتا ہے۔ یہ خیال اسی صورت میں معمول کے اندر جا گزیں ہوجاتا ہے۔جب کہ شعوری طور پر اس کے اندراسے قبول کرنے کا رجحان نہیں تھا نہ ایسا کرنے کی آرزوئے منطق معقول وجوہ تھیں ۔ برن ہیم صاحب کا بیان ہے کہ اس سے مراد دماغ کے خیالات کو لینے یا تحریک کرنے کی قابلیت اور اس کا رجحان جس سے
کام لے کر وہ انہیں محسوس کرتا اور انہیں افعال کی صورت میں لاتا ہے۔ ان تمام تعریفوں سے واضح ہوتا ہے کہ مشورہ کا تعلق تحت الشعور سے ہوتا ہے۔چونکہ ہماری زندگی کا بہت بڑاحصہ تحت الشعور کے ماتحت ہے۔ اس لیے دن کے قریب قریب ہر حصہ میں مشورات سے مختلف طریقوں پر کام لیا جاتا ہے ہمیں اپنی زندگی میں ہروقت مشورات حاصل ہوتے رہتے ہیں جن میں سے بعض ممکن ہے تحت الشعور میں چھپے اور دیے پڑے ہوں ۔وہ روزانہ اور ہر ساعت ہمارے کیریکیٹر کی تیاری میں حصہ لیا کرتے ہیں۔لیکن ممکن ہے کہ آگےچل کر یہ نہایت اہم افعال کی سرانجام دہی کا موجب ثابت ہوں کہ آگے بل کہ کی موجب ثابت ہوں۔ اس کا ثبوت یوں ملتا ہے کہ بعض باتیں جو آج ہماری زندگی پر اثر غالب رکھتی ہیں۔ ان کا سراغ پیچھے کی طرف لگایا جائے ہم اس زمانے تک پہنچ جاتے ہیں جب کہ بچپن میں کوئی ایسی بات ہمارے دل میں پیدا ہوئی تھی جسے بظاہر ہم بالکل بھول چکے تھے چونکہ مشورات کا سب سے زیادہ اثر بچپن میں پتا ہے اس سے جو باتیں ہمارے ذہن میں نشین ہو جائیں۔ وہ بعد کی زندگی میں نہایت اہم ثابت ہوتی ہیں لیکن اس کا ذکرہم آگے چل کر تعلیم کے باب میں کریں گے۔ آئیے اب ہر تھوڑی دیر کے لیے شعور اور تحت الشعور کے طریق عمل پر بحث کریں۔ایک کتاب کے مصنف نے تو اول الذکر کو OVER MIND یعنی بالائی اور دوسرے کو UNDER MIND یعنی تختی دل قرار دیا ہے بالائی دل سے ہماری مراد ہر ایسی چیز سے ہے جسے ہم با اختیار یا با خبرانہ خیال یا فعل قرار دیا تحتی دل سے مراد ہر ایک چیزسے ہے جو نیم افعال یا خیالات کے سارےحلقے پر حاوی ہے۔اپنی ذات کو باخبر یا نیم خبر دکھوں میں منقسم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کا بہت سا حصہ درجہء بے خبری سے نیچے ہی گزر جاتا ہے۔ بہت سے احساسات خیالات اور جذبات جو کہ ہماری روزمرہ کی زندگی کے عمل میں شامل نہیں ہوتے تاہم اس پر اس قدر اثر ڈالتے ہیں کہ اس کی ہمیں خبر تک نہیں ہوتی۔ خواب ، خفقان اور دیوانگی کی حالتوں میں یہ تحت الشعور بعض اوقات اپنے
آپ کو حیرت انگیر طریقوں پر ظاہر کرتا ہے۔اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ جو کچھ ہمارے دل میں موجود ہے اور جو ہم نے اپنے اسلاف سے ورثہ میں پایا ہے۔ اس کا بہت سا حصہ اس وقت باخبری کے دروازے سے بلند تھا اور یہ کہ اس دروازے کی پوزیشن میں ہمیشہ فرق آتارہتا ہے۔ تحت الشعور ان افعال پر اقتدار رکھتا ہے جنہیں ہم عادتاً کرتے ہیں۔ ان عادتوں میں سے بعض تو پیدائش کے بعد حاصل کردہ ہوتی ہیں جیسے چلنا گفتگو کرنا وغیرہ اور بعض نسلا ہمیں اپنے اسلاف سے ورثہ میں ملتی ہیں۔ مثلاً قوت ہاضمہ ،سانس لینا وغیرہ تحتی دل بالائی دل سے بالکل آزاد رہ کر کام کرتا ہے جس کی نظیر دل یا معدہ کی حرکت کی صورت میں نظر آتی ہے جس کا ہمیں کوئی شعوری علم نہیں ہوتا۔ بالائی دل مختلف خیالات کے اثر سے اس بار ے میں مداخلت کیا کرتا ہے چنانچہ غم وغصہ ہی کو لیجیۓ اس سے عروق ہاضمہ کی تیاری میں فرق آتا ہے۔ہاضمہ کا فعل بگڑ جاتا ہے۔ ایسا ہونے کی سب سے پہلی علامت درد ہوتی ہے۔خوف کے خیالات جب اعصاب کے ذریعے دل تک پہنچتےہیں تو اس کی معمولی نیم خبرانہ حرکت میں اختلاج پیدا کر کے فتور لاسکتے ہیں اور بعض حالتوں میں اس کی حرکت کو بالکل روک کر موت کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔ اس جگہ مناسب معلوم ہونا ہے کہ نظام عصبی کوخون کی نالیوں اور اعضا اسے اس کے تعلقات پر ایک سرسری نظرڈالی جائے۔ بدن انسانی میں اعصاب کا ایک جال پھیلا ہوا ہے۔ یہ اعصاب ہر ایک عضو اور بدن کے ہر ایک لحمی ریشہ سے تعلق رکھتے ہیں اور آخر نچلے دماغ میں جا کر مل جاتے ہیں۔ اور وہاں سے ان کا تعلق CORTEX یا دماغ کی بیرونی سطح سے ہوتا ہے دماغ – بجائے خود کروڑوں کوٹھریوں سے مرکب ہوتا ہے جن میں ہمارے خیالات اور یادداشتیں رجسٹر ہوتی رہتی ہیں اور وہیں سے مختلف پیغامات ہمیشہ اعصاب کے راستے جا کر دل اور بدن کو صحیح طریقے پر کام کرنے کے احکام صادر کرتے ہیں تحتی دل یا نیم خبر دل نچلے دماغ میں ہوتا ہے اور بالائی دل یا باخبردل کورٹکس یا دماغ کے بیرونی حصہ میں ہوتا ہے۔
اور اول الذکر کوزیر اقتدار رکھنے کی طاقت رکھتا ہے گو بڑی حد تک تحتی دل آزادانہ طور پربھی کام کر سکتا ہے۔اس نظام عصبی کو مرکزی نظام عصبی کہتے ہیں کیوں کہ اس کا تعلق دماغ اور نخاع سے ہوتا ہے۔ اس سے ملا ہوا ایک اور عصبی نظام ہوتا ہے جو اس کے ساتھ مل کر ہی کام کرتاہے۔ اس آخرالذکر کو عمل نظام ہمدردی کہتے ہیں۔اس کا خاص اثرخون کی نالیوں اور بدن کی مختلف رطوبتوں پر ہوتا ہے۔ ازروئے کو
فریالوجی اس دوہرے نظام عصبی کے دماغ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی پوری کیفیت بیان کرنا بہت آسان ہے کیونکہ اس کی بدولت دوران خون میں متواتر تبدیلی ہوتی دہی ہے۔ یعنی کبھی تو خون کسی عضلہ یا عضلات کے مجموعہ میں جمع ہو کر عضلاتی حرکات کا موجب بنتا ہے کبھی معدے میں جا کر ان عروق کو پیدا کرنےمیں مدد دیتا ہے جن سے غذا ہضم ہوتی ہے اور کبھی دماغ میں جاکر کسی دقیق مسئلے کو حل کرنے میں ساتھ دیتا ہے لیکن اگر ہم فزیالوجی کو چھوڑ کر معمولی طور سے اس طرف توجہ دیں تو حیران و ششدر رہ جاتے ہیں کہ یہ معجزات کیوں کرظہورمیں آسکتے ہیں ہم سوچ نہیں سکتے کہ یہ خیال عصب کے ساتھ ساتھ کیونکر چلتا ہے اور اس میں دوران خون کی تبدیلی
پیدا کرنے کی تاثیر کیونکر پائی جاتی ہے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ شرم و حیا کا خیال دل میں پیدا ہوتے ہی خون دورہ کے ساتھ رخساروں پر پھیل جاتا ہے۔ ان سوالوں کا ہمارے پاس بجز فزیالوجی کے اور کوئی جواب نہیں. ہم سوچتے ہیں کہ یہ لاکھوں دماغی کوٹھریاں کس طرح خیال کے عمل میں حصہ لیتی ہیں کیا بات ہے کہ ہمیں کوئی بات بھولتی نہیں بلکہ تحت الشعور میں جمع ہو جاتی ہے اور ہم اسے قوت ارادی کے ذریعے یا نیم خبر ہیپناٹک حالت میں کسی اور کی مدد سے اس ذخیرہ سےنکال لیتے ہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ جو خیالات ہم سوچتے ہیں یا جن یادداشتوں کو ہم اپنے سب کاشس دل میں جمع رکھتے ہیں ۔ وہ ہمارے چہرے کے خدوخال، آنکھوں کی چمک دمک اور آواز کے لہجے میں عظیم تبدیلی پیدا کر سکتی ہیں۔کیا یہ بات صحیح نہیں ہےکہ خیالات انسان کی چال ڈھال پر بے حداثرانداز ہوتے ہیں۔ہر انسان کے کیریکٹ کی قابل ذکر باتیں اس کے پس پشت کھڑے ہو کر یا اس کی چال دیکھ کر یا چہرے کو دیکھے بغیرمعلوم کی جاسکتی ہیں۔ صرف بڑھاپا ہی انسان کو کوزہ پشت نہیں بناتا۔ غم اور شرم کے
خیالات بھی اس کی بدنی ساخت اور عام صورت پر اس قدر اثر انداز ہوتے ہیں کہ صورت میں کامل تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے.
ص:42
مشورات
01
Apr