ی۔دینیات, جنازہ کا بیان

مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا

مسئله : ہمارے یہاں سالہا سال سے نماز جنازہ مسجد کے صحن میں ہوتی تھی جیسا کہ آج بھی احمد آباد وغیرہ کے ائمہ مساجد ہی میں نماز جنازہ پڑھتے ہیں مگر ایک صاحب نے کہا کہ مسجد میں نماز جنازہ جائز نہیں تو ہمارے یہاں کے امام لوگ مسجد کے باہر نماز جنازہ پڑھانے لگے مگر باہر نماز جنازہ پڑھانے کی صورت میں درمیان صف سے کتا وغیر ناپاک جانوروں کے گزرنے کا اندیشہ ہوتا ہے اس کے علاوہ سخت سردی تیز دھوپ اور بارش میں جنازہ پڑھنے والوں کو اور میت کو تکلیف ہوتی ہے تو ان وجوہات کی بنا پر مسجد میں جنازہ پڑھنا پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: بیشک مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ تحریمی ناجائز اور گناہ ہے۔آئمہ مساجد کے پڑھانے سے مسجد میں جنازہ جائز نہ ہوگا بلکہ ناجائز ہی رہے گا یہاں تک کہ پڑھنے والوں کو اس صورت میں ثواب بھی نہیں ملنا۔حدیث شریف اور فقہ حنفی کی معتبر کتابوں سے یہی ثابت ہے جیسا کہ ہدایہ اولین ص161 میں ہے لا یصلی علی میت في المسجد جماعة لقوله علیه السلام من صلی علی جنازۃ فی المسجد فلا اجر له .
یعنی جماعت کی مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اس لئے کہ حضور صلی الله تعالیٰ علیه وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھے اس کے لئے کوئی ثواب نہیں۔ اور بحرالرائق جلد دوم ص186میں ہے ولا في مسجد لحديث ابي داود مرفوعاً من صلى على ميت في المسجد فلا اجرى له وفي رواية فلا شيء له. کہ مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اس لئے کہ ابوداؤد شریف کی حدیث مرفوع ہے کہ جس نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی اس کے لئے کوئی ثواب نہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے لئے کچھ نہیں۔ اور فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص 155 میں ہے صلوة الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة مكروهة . یعنی جس مسجد میں جماعت قائم کی جاتی ہے اس میں نماز جنازہ مکروہ ہے۔اور عنایہ مع فتح القدیر جلد دوم ص 90 میں ہے لا يصلي على ميت في مسجد جماعه اذ كانت الجنازه في المسجد فالصلاة عليها مكروهة باتفاق اصحابنا . یعنی جماعت کی مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھی جائے جبکہ جنازہ مسجد میں ہو تو نماز مکروہ ہے یہ ہمارے اصحاب کا متفقہ مسئلہ ہے۔شامی جلد اول ص593 میں ہے كما تكره الصلاه عليها في المسجد يكره ادخالها فيه. نماز جنازہ مسجد میں مکروہ ہے جنازہ کا مسجد میں داخل کرنا بھی مکروہ ہے۔ اسی طرح فتاوی قاضی خان ، فناوی صغری، فتاوی بزازیہ ، فتح القدير ، شرح وقایه عمدة الرعايه مراقی الفلاح طحطاوی علی مراقی اور در مختار وغیرہ تمام کتب معتبر میں تصریح ہے کہ نماز جنازہ مسجد میں مکروہ و منع ہے اور مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے۔ اور مکروہ تحریمی کا گناہ مثل حرام کے ہے جیسا کہ درمختار میں ہے کہ . كل مكروه اي كراهة تحريمة حرام اي كالحرام في العقوبة بالنار.ہر مکروہ تحریمی استحقاق جہنم کا سبب ہونے میں حرام کے مثل ہے۔ بلکہ اعلحضرت عظیم البرکت امام احمد رضا بریلوی علیه الرحمة والرضوان نے نماز جنازہ کے مسجد میں مکروہ تحریمی ہونے کی تصریح فرمائی ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ جلد چہارم ص57 میں ہے کہ جنازہ مسجد میں رکھ کر اسپر نماز مذہب حنفی میں مکروہ تحریمی ہے۔ اور صدر الشریعه رحمة الله علیہ نے بھی مکروہ تحریمی لکھا ہے
جیسا کہ بہار شریعت حصہ چہارم 158میں ہے مسجد میں جنازہ مطلقا مکروہ تحریمی ہے۔ خواہ مسجد کے اندر ہو یا باہر سب نمازی مسجد میں ہوں یا بعض کہ احادیث میں نماز جنازہ مسجد میں پڑھنے کی ممانعت آئی ہے۔ان تمام کتب معتبرہ کے حوالے سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ مسجد میں نمازجنازہ پڑھنا مکروہ تحریمی ہے جو حرام کے مثل ہے۔لہذا بغیر عذر شرعی مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا ہرگز جائز نہیں۔ اور سخت سردی اور تیز دھوپ کے سبب بھی مسجد میں جنازہ پڑھنے کا حکم نہ دیا جائے گا کہ جس طرح سردی اور دھوپ میں لوگ اپنے کاموں کے لئے نکلتے ہیں جنازہ کے لئے بھی تھوڑی دیر سردی اور دھوپ برداشت کر سکتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیه الرحمة والرضوان تحریر فرماتے ہیں نماز جنازہ بہت ہلکی اور جلد ہونے والی چیز ہے اتنی دیر دھوپ کی تکلیف ایسی نہیں کہ اس کے لئے مکروہ تحریمی گوارہ کیا جاۓ اور مسجد کی بے حرمتی روا رکھی جائے(فتاوی رضویہ جلد چہارم ص 57 ) رہی تیز بارش تو جس طرح بارش میں جنازہ لے کر گھر سے مسجد اور مسجد سے قبرستان تک جائیں گے اسی طرح بارش میں مسجد کے باہر جنازہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور اگر بارش میں جنازہ لے کر نکلنا اور دفن کرنا تو ممکن ہو مگر نماز جنازہ پڑھنا کسی طرح ممکن نہ ہو تو اس صورت میں ضرور مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کی رخصت دیدی جائے گی بشرطیکہ شہرمیں کہیں مدرسہ مسافرخانہ اور جماعت خانہ وغیرہ میں پڑھنا ممکن نہ ہو ۔مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کے عذر عمومآ لوگ دھوپ ، سردی اور بارش ہی کو بیان کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ کے عذر کے بغیر بھی لوگ مسجدوں میں نماز جنازہ بلا کھٹک پڑھتے ہیں۔معلوم ہوا کہ یہ سب بہانہ اور وجہ صرف آرام طلبی ،سہل پسندی ہے جس کے مقابلہ میں ان کے نزدیک حکم شرع کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔العیاذ بالله اور کتا وغیرہ کے صفوں میں گھسنے کا عذر بھی عند الشرع مسموع نہیں اس لئے کہ نمازہ جنازہ مدرسہ یا عید گاہ کےاحاطہ وغیرہ میں بھی پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ سید العلماء علامہ سید احمد طحطاوی رحمة الله تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں لا تکرہ فی مسجد اعدلھا وکذا فی مدرسة و مصلی عید .طحطاوی علی مراقی مطبوعہ قسطنطنیہ ص326اوراگر عیدگاہ ومدرسہ نہ ہو تو میدان میں جانوروں سے حفاظت کے لئے آدمی کھڑے کیے جا سکتے ہیں اور بہتر یہ ہے کہ صرف جنازہ کے لئے الگ سے مسجد بنالیں پھر اسی میں دھوپ،سردی اور بارش وغیرہ ہر حال میں نماز جنازہ پڑھیں اس طرح میت اور جنازہ پڑھنے والوں کو کوئی تکلیف بھی نہ ہوگی ۔ اور ناپاک جانوروں کا اندیشہ بھی نہ رہے گا وہ مسلمان جو غیر ضروری صرف جائز و مباح کاموں کے لئے ہزاروں اور لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہیں اگر مسجد کی حرمت باقی رکھنے اور ناجائز کام سے بچنے کے لئے نماز جنازہ کی مسجدوں کو نہ بنائیں گے اور بارش وغیرہ کا بہانہ بنا کر عام مسجدوں میں نماز جنازہ پڑھیں گے تو ضرور گنہگار ہوں گے ۔
وھوتعالی عالم
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:444 جلد 1 ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *