مسئلہ ۹۶: از نصیر آباد راجپوتانہ مرسلہ شیخ عمر ۵ ربیع الاول شریف ۱۳۳۷ھ
اگر کسی کتاب میں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے قول یا فعل سے کھانے پر فاتحہ ہاتھ اٹھا کر پڑھنے کا ثبوت ہو تو برائے مہربانی اُس کتاب کا نام اور صفحہ سے بہت جلد اطلاع دیں کیونکہ ایسا دعوٰی مولوی عبدالحکیم غیر مقلد کرتا ہے جس کے پرچہ کی نقل جو میرے پاس آیا ہوا ہے کرکے خدمت میں روانہ کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں۔
( نقل رقعہ یہ ہے) میں عبدالحکیم اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ اگر کوئی عالم امام اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے یہ ثابت کردے کہ انہوں نے کھانا آگے رکھ کر ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا ہے تو میں اس کام کو کروں گا، اور علانیہ لوگوں میں توبہ کروں گا اور سو روپیہ کی مٹھائی اس کے شکریہ میں تقسیم کروں گا۔
الجواب : امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مذہب وہ ہے جو ان کی کتاب عقائد فقہ اکبر کی شرح میں ہے کہ : ان دعاء الاحیاء للاموات و صدقتھم عنھم نفع لھم، خلافا للمعتزلۃ، الاصل فی ذلک عنداھل السنۃ ان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ اوصوما اوحجا اوصدقۃ اوغیرھا، وعندابی حنیفۃ رحمۃ اﷲ واصحابہ یجوز ذلک و ثوابہ الی المیت ملخصاً ۔۱
بے شک زندوں کا مُردوں کے لیے دُعا کرنا اور ان کی طرف سے صدقہ دینا مردوں کو نفع دیتا ہے، معتزلہ گمراہ فرقہ اس میں مخالف ہے ، اور اصل اس میں یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک آدمی اپنے ہر عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچا سکتا ہے نماز ہو یا روزہ یا حج یا صدقہ یا کچھ ، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ سب جائز ہے اور میت کو اس کا ثواب پہنچتا ہے۔(ت)
( ۱ ؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر الدعاء للمیت ینفع خلافاللمعتزلۃ مصطفی البابی مصر ص ۱۳۰۔۱۲۹)
یہ مذہب ہے امام اعظم کا، اگر اس میں کوئی ثبوت دے دے کہ امام نے قرآن مجید اور کھانے کا ثواب پہنچانا جائز تو فرمایا لیکن کھانا آگے رکھنے کو منع فرمایا ہے، میت کے لیے دعا تو جائز فرمائی ہے لیکن اس میں ہاتھ اُٹھانا منع فرمایا ہے، تو اسے دوسو روپے انعام دیئے جائیں گے، نیز دیوبند وغیرہ وہابی مدارس میں جو انصافِ تعلیم ہے اور سالانہ جلسے، طرز معلوم کے لیے امتحان اور ان کے نمبر اور رودادیں چھاپنا اور کتابیں چھاپ کر بیچنا اور ان پر کمیشن کا ٹنا، اگر کوئی عالم اس کا ثبوت دے کہ امام اعظم نے ان باتوں کا حکم دیا ہے تو سو روپیہ انعام پائے گا۔