مسئلہ ۹: (ماخوذ از ”مہر درخشاں ”تصنیف مولانا مظفر احمد قادری )
اعتراض :
یہ کہ حضرت میر عبدالواحد بلگرامی قدس سرہ السامی نے اپنی کتاب”سبع سنابل”سنبلہ دوم ص۶۱ میں حکایت لکھی ہے کہ : مردے بودازسلطان المشائخ منکر وازراہ وروش ایشاں متنفر واعتقاد بدرویتے دیگر داشت روزے ازاں درویش پر سید کہ مرا آرزوئے ملاقات خضر پیغامبر علیہ السلام بسیار است اگر بعنایت شما ملاقات میسر شودغایت بندہ نوازی وسرفرازی باشد آں درویش گفت روزے کہ درخا نقاہ سلطان المشائخ سرودوسماع درمیدہند آں روز خضر علیہ السلام آنجاحاضر می شود نگاہبانی نعلین وکفشہائے مردم می کند آں مردازانکار خودپشیماں گشت درروز سماع درخانقاہ ایشاں آمد وباخضر علیہ السلام ملاقات کردازوے فائد ہا گرفت۲۔ ایک شخص حضرت سلطان المشائخ کے احوال کا منکر آپ کی راہ وروش سے متنفر اورایک دوسرے درویش کا معتقد تھا، ایک روز اس درویش سے کہنے لگا کہ میری یہ آرزو ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کروں اگر سرکار کے کرم سے ملاقات ہوجائے توانتہائی بندہ نوازی اورسرفرازی ہو۔ درویش نے جواب دیا کہ جس روز حضرت سلطان المشائخ کے یہاں مجلس سرود وسماع ہوتی ہے اس روز حضرت خضر علیہ السلام تشریف لاتے ہیں او رلوگوں کے جوتوں کی نگہبانی فرماتے ہیں۔ وہ شخص اب اپنے انکار پر پریشان ہوا اورقوالی والے دن آپ کی خانقاہ میں حاضرہوگیا، حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کی اوران سے خوب فیض حاصل کیا۔ (ت)
(۲سبع سنابل سنبلہ دوئم دربیان پیری مریدی مکتبہ قادریہ رضویہ اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۶۱)
توحاصل اعتراض یہ کہ اس حکایت میں حضرت خضر کی (جو ایک قول پر نبی تک ہیں) توہین کی کہ انہیں حضرت سلطان المشائخ کا خدمت گار اوروہ بھی ایسا کہ ان کی مجلس سماع کے حاضرین کی نعلین (جوتیوں )کا نگہبان بتایا۔
اس اعتراض پر بحکم شریعت وبپاس حمایت جانب محبوبان خدا جو جوابات حضور سیدی اعلٰی حضرت امام اہلسنت علامہ الحاج مولانا الشاہ مفتی عبدالمصطفٰی احمد رضا خاں صاحب فاضل بریلوی قدس سرہ نے تحریر فرمائے ملاحظہ ہوں۔
جواب اول
اولیائے کرام قدست اسرارہم کو اس میں اختلاف ہے کہ یہ حضرت خضر جو اکثر اکابر سے ملاقی ہوتے ہیں آیا وہ خضر موسٰی علیہما الصلوۃ والسلام ہیں جن کی نبوت میں اختلاف ہے اورصحابیت میں شبہہ نہیں یا ہر دورے میں ایک ولی بنام خضر ہوتاہے یعنی مناصب ولایت سے ایک عہدے کا نام”خضر ”ہے کہ جو اس عہدے پر قائم ہوگا اسی نام سے پکاراجائے گا ، جیسے غوث کا نام عبداللہ وعبدالجامع اوراس کے دونوں ویزر دست چپ وراست کا نام عبدالملک وعبدالرب جن کو امامین کہتے ہیں اوراوتاد اربعہ کا نام عبدالرحیم وعبدالکریم وعبدالرشید وعبدالجلیل ، یونہی جو عہدہ نقابت پر ہو اسے ”خضر ”کہا جائے گااس کا اپنا نام کچھ ہو۔ ایک جماعت عظیم صوفیہ کرام اسی قول پر ہے اوربہت حکایات سے اس کا پتہ ملتاہے ۔ حافظ الحدیث امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کی تائید کی ،
اصابہ فی تمییز الصحابہ”میں فرماتے ہیں : قول بعضھم ان لکل زمان خضرا وانہ نقیب الاولیاء وکلما مات نقیب اقیم نقیب بعدہ مکانہ ویسمّی الخضر وھذا قول تداولتہ جماعۃ من الصوفیۃ من غیر نکیر بینھم ولا یقطع مع ھذا بان الذی ینقل عنہ انہ الخضر ھو صاحب موسٰی علیھما الصلوٰۃ والسلام بل ھو خضر ذٰلک الزمان ویؤیدہ اختلافھم فی صفتہ فمنھم من یراہ شیخا اوکھلااو شابا وھو محمول علی تغایر المرئی وزمانہ ۱واللہ تعالٰی اعلم ۔ بعض اولیاء کا قول کہ ہرزمانے کے لیے ایک خضر ہوتاہے اوروہ نقیب اولیاء ہوتاہے ، جب ایک نقیب کا وصال ہوجائے تو اس کی جگہ کوئی اورنقیب مقررکردیا جاتاہے جس کو خضر کہا جاتاہے ۔ میں نےیہ قول صوفیاء کی ایک جماعت سے حاصل کیا۔ ا س کے بارے میں ان سے کوئی اختلاف نہیں اس قول کی موجودگی میں اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ اعتراض میں منقول خضر سے مراد وہی خضر ہیں جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھی ہیں بلکہ اس سے مراد اس زمانے کا خضر ہے اورصفت خضر کے بارے میں دیکھنے والوں کا اختلاف بھی اس قول کا مؤید ہے ۔ چنانچہ کسی نے انکو بوڑھا ، کسی نے ادھیڑ عمر والا اورکسی نے جوان دیکھا یہ دکھائی دینے والے اوراس کے زمانے کے تغایر پر محمول ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم(ت)
(۱ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ذکر خضر صاحب موسٰی علیہ السلام دارصادر بیروت ۱ /۴۳۳)
اس ولی مسمّٰی بخضر کا جمیع اولیاء درکنار اپنے دورے کے اولیاء سے بھی افضل ہونا ضرور نہیں بلکہ افضل نہ ہونا ضرور ہے ۔ غوث بالیقین اس سے افضل ہوتا ہے کہ وہ اپنے دورے میں سلطان کل اولیاء ہے ۔ یونہی امامین ، یونہی افراد، یونہی اوتاد، یونہی بُدلا ، یونہی ابدال کہ یہ سب یکے بعد دیگرے باقی اولیائے دورہ سے افضل ہوتے ہیں ۔ امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر میں فرماتے ہیں : ان اکبر الاولیاء بعد الصحابۃ رضی ا للہ تعالٰی عنہم القطب ثم الافراد علی خلاف فی ذٰلک ثم الامامان ثم الاوتاد ثم الابدال ۲اھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے بعد سب سے بڑا ولی قطب ہوتاہے ، پھر افراد، اس میں اختلاف ہے ، پھر امامان ، پھر اوتاد ، پھر ابدال اھ۔
(۲ الیواقیت والجواہر المبحث الخامس والاربعون داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۴۴۶)
اقول: والمراد بالابدال البدلا ء السبعۃ لما ذکر بعدہ ان الابدال السبعۃ لایزیدون ولاینقصون وھٰؤلاء ھم البدلاء اما الابدال فاربعون بل سبعون کما فی الاحادیث۔ میں کہتاہوں ابدال سے مراد سا ت بدلا ء ہیں اس دلیل کی وجہ سے جو اس کے بعد مذکورہے کہ بے شک ابدال سات ہیں نہ زیادہ ہوتے ہیں نہ کم اوریہی بُدلا ء ہیں۔ رہے ابدال تو وہ چالیس ۴۰ بلکہ ستر ۷۰ہیں جیسا کہ احادیث میں ہے ۔ (ت)
توکیا ضرورہے کہ عہد کرامت مہد حضرت سلطان الاولیاء محبوب الہٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خضر حضور سے افضل ہو بلکہ ممکن ہے کہ حضورکا خادم ہو۔ حضور کا لقب ساقِ عرش پر”قطب الدین”لکھا ہے اوریہ قطب اورغوث شیئ واحد ہے نہ وہ قطب کہ ہر شہر ہر قریہ ہر لشکر کا جدا ہوتا ہے ۔ غالباً اس لئے حضور نام سلطان المشائخ ہوا کہ قطب سلطان اولیائے دورہ ہے ، واللہ تعالٰی اعلم۔
اورخادم کہ اپنے مخدوم کے مہمانوں کی خدمت کرے وہ درحقیقت مخدوم ہی کی خدمت ہے اوراس سے خادم کی کوئی اہانت نہیں ہوتی کہ ممکن ہے کہ اس دورے کا خضر خود حضرت سلطانی کا مرید ہو اورمرید توکوچہ شیخ(عہ) کے کتوں کی بھی تعظیم کرتاہے اوراس کی اہانت نہیں بلکہ اورترقی عزت وبلند ی مرتبت ہے ۔ من تواضع للہ رفعہ اللہ ۔ اللھم ارزقنا حسن الادب من اولیاء ک بجاھھم عندک اٰمین وانت محب السائلین ۔ جو اللہ تعالٰی کے لیے عاجزی کرے اللہ تعالٰی اس کو رفعت عطافرماتا ہے ۔ اے اللہ ہم کو اپنے ولیوں سے حسن ادب عطافرمااس مرتبے کے صدقے جو ان کا تیرے ہاں ہے ۔ ہماری دعا قبول فرما اورتومانگنے والوں سے محبت فرمانیوالا ہے ۔ (ت)
عہ: خودحضور سلطان المشائخ کی اس بارے میں حکایت ہے ۔ (تاج العلماء محمد میاں علیہ الرحمہ)
اس ولی مسمّٰی بخضر کا جمیع اولیاء درکنار اپنے دورے کے اولیاء سے بھی افضل ہونا ضرور نہیں بلکہ افضل نہ ہونا ضرور ہے ۔ غوث بالیقین اس سے افضل ہوتا ہے کہ وہ اپنے دورے میں سلطان کل اولیاء ہے ۔ یونہی امامین ، یونہی افراد، یونہی اوتاد، یونہی بُدلا ، یونہی ابدال کہ یہ سب یکے بعد دیگرے باقی اولیائے دورہ سے افضل ہوتے ہیں ۔ امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر میں فرماتے ہیں : ان اکبر الاولیاء بعد الصحابۃ رضی ا للہ تعالٰی عنہم القطب ثم الافراد علی خلاف فی ذٰلک ثم الامامان ثم الاوتاد ثم الابدال ۲اھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے بعد سب سے بڑا ولی قطب ہوتاہے ، پھر افراد، اس میں اختلاف ہے ، پھر امامان ، پھر اوتاد ، پھر ابدال اھ۔
(۲ الیواقیت والجواہر المبحث الخامس والاربعون داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۴۴۶)
اقول: والمراد بالابدال البدلا ء السبعۃ لما ذکر بعدہ ان الابدال السبعۃ لایزیدون ولاینقصون وھٰؤلاء ھم البدلاء اما الابدال فاربعون بل سبعون کما فی الاحادیث۔ میں کہتاہوں ابدال سے مراد سا ت بدلا ء ہیں اس دلیل کی وجہ سے جو اس کے بعد مذکورہے کہ بے شک ابدال سات ہیں نہ زیادہ ہوتے ہیں نہ کم اوریہی بُدلا ء ہیں۔ رہے ابدال تو وہ چالیس ۴۰ بلکہ ستر ۷۰ہیں جیسا کہ احادیث میں ہے ۔ (ت)
توکیا ضرورہے کہ عہد کرامت مہد حضرت سلطان الاولیاء محبوب الہٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خضر حضور سے افضل ہو بلکہ ممکن ہے کہ حضورکا خادم ہو۔ حضور کا لقب ساقِ عرش پر”قطب الدین”لکھا ہے اوریہ قطب اورغوث شیئ واحد ہے نہ وہ قطب کہ ہر شہر ہر قریہ ہر لشکر کا جدا ہوتا ہے ۔ غالباً اس لئے حضور نام سلطان المشائخ ہوا کہ قطب سلطان اولیائے دورہ ہے ، واللہ تعالٰی اعلم۔
اورخادم کہ اپنے مخدوم کے مہمانوں کی خدمت کرے وہ درحقیقت مخدوم ہی کی خدمت ہے اوراس سے خادم کی کوئی اہانت نہیں ہوتی کہ ممکن ہے کہ اس دورے کا خضر خود حضرت سلطانی کا مرید ہو اورمرید توکوچہ شیخ(عہ) کے کتوں کی بھی تعظیم کرتاہے اوراس کی اہانت نہیں بلکہ اورترقی عزت وبلند ی مرتبت ہے ۔ من تواضع للہ رفعہ اللہ ۔ اللھم ارزقنا حسن الادب من اولیاء ک بجاھھم عندک اٰمین وانت محب السائلین ۔ جو اللہ تعالٰی کے لیے عاجزی کرے اللہ تعالٰی اس کو رفعت عطافرماتا ہے ۔ اے اللہ ہم کو اپنے ولیوں سے حسن ادب عطافرمااس مرتبے کے صدقے جو ان کا تیرے ہاں ہے ۔ ہماری دعا قبول فرما اورتومانگنے والوں سے محبت فرمانیوالا ہے ۔ (ت)
عہ: خودحضور سلطان المشائخ کی اس بارے میں حکایت ہے ۔ (تاج العلماء محمد میاں علیہ الرحمہ)
جواب دوم
حکایت مذکورہ میں صرف ذکر نگہبانی ہے یہ بیان نہیں کہ وہ حفاظت بطور خدمت تھی نہ حفاظت معنی خدمتگاری میں متعین ، باپ اپنے بچوں یا استاد اپنے شاگروں کو تعلیم شناوری کے لیے کہ سنت ہے اگر دریا میں بھیجے اورخود کنارے بیٹھا ان کے لباس ونعال کی حفاظت کرے کوئی عاقل اسے خدمتگار نہ کہے گابلکہ رحمت وشفقت ونوازش پرورش ۔ حکایت میں یہ صورت ہونا کس نے محال کیا
فان واقعۃ عین یتطرق الیھاکل احتمال کما نص علیہ العلماء فی غیر مامقال (کیونکہ معین واقعہ میں ہر احتمال راہ پاتاہے جیسا کہ علماء نے اس پر نص فرمائی ہے ۔ بغیر کسی قیل وقال کے ۔ ت)
جواب سوم
یہ دونوں جواب اہل ظاہر کے مدارک پر تھے ورنہ لسان حقائق کے طور پر معاملہ بالکل معکوس ہے ۔ وہم کرنے والا اصطلاح قوم سے ناواقفی کے باعث کمال عظمت کو معاذ اللہ موجب اہانت گمان کرتاہے اوراہل ظاہر پر انکار کلمات اہل اللہ میں اکثر بلا اسی دروازے سے آتی ہے ان کی اصطلاح کو اپنے مفہوم پر حمل کرتے اور خطا میں گرتے ہیں اورنہیں جانتے کہ ؎
ہندیاں رااصطلاح ہند مدح
سندیاں رااصطلاح سند مدح
درحق اومدح درحق توذم
درحق او شہد ودرحق توسم
درحق اودرد ودرحق توخار
درحق اونورودرحق تونار
توچہ دانی زیاں مرغاں را
کہ نہ دیدی گہِ سلیماں را
(ہندیوں کے ہند کی اصطلاح مدح ہے سندھیوں کے لیے سندھ کی اصطلاح مدح ہے اس کے حق میں مدح اورتیرے حق میں مذمت ، اس کے حق میں شہد اور تیرے حق میں زہر اس کے حق میں گلاب کا پھول اور تیرے حق میں کانٹا۔ اس کے حق میں نور اورتیرے حق میں نار ، تو کیا جانے پرندوں کے نقصان کو ، کہ تو نے سلیمان کے زمانے کو نہیں دیکھا۔(ت)
محمد شاہ بادشاہ دہلی کے حضور مجمع علماء تھا بعض کلمات منسوبہ باولیاء پر رائے زنی ہورہی تھی ، ہر ایک اپنی سی کہتا اور اعتراض کرتا ایک صاحب کہ اس جماعت میں سب سے اعلم تھے خاموش تھے ، بادشاہ نے عرض کی : آپ کچھ نہیں فرماتے ، فرمایا: یہ سب صاحب میرے ایک سوال کا جواب دیں تو میں کچھ کہوں ۔ سب ان عالم کی طرف متوجہ ہوئے ، انہوں نے فرمایا : آپ حضرات بولی کتے کی سمجھتے ہیں؟ سب نے کہا : نہ کہا بلی کی ؟کہا: نہ ۔کہا: سبحان اللہ تم مقرہو کہ ارذل خلق اللہ کی بولی تم نہیں سمجھتے اولیاء کہ افضل خلق ہیں ان کا کلام کیونکر سمجھ لو گے ۔
امام عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
علمائے مصر جمع ہوکر ایک مجذوب کی زیارت کو گئے انہوں نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا: مرحبا بعبید عبدی۔ مرحبا میرے بندے کے بندے کو۔
سب پریشان ہوکر لوٹ آئے ، ایک صاحب جامع ظاہر وباطن سے ملے اور شکایت کی ، انہوں نے فرمایا : ٹھیک تو ہے تم سمجھتے نہیں ، تم خواہش نفس کے بندے ہو رہے ہو اورانہوں نے خواہش نفس کو اپنا بندہ کرلیا ہے تو انکے بندے کے بندے ہوئے ۔
اب سنئے اصطلاح قوم میں ”نعلین””کونین”کو کہتے ہیں ، اللہ تعالٰی عزوجل نے اپنے بندے موسٰی علیہ السلام سے فرمایا: فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طوی۲۔ اپنے دونوں جوتے اتار ڈالو کہ تم پاکیزہ جنگل طوٰی میں ہو۔
(۲القرآن الکریم ۲۰ /۱۲)
مفسر علام نظام الدین حسن بن محمد قمی غرائب القرآن ورغائب الفرقان معروف بتفسیر نیشاپوری میں اس آیہ کریمہ کی تاویل یعنی بطور اہل اشارات و حقائق میں فرماتے ہیں : اترک الالتفات الی الکونین انک واصل الی جناب القدس ۱۔ یعنی نعلین سے ”دونوں جہان ”مراد ہیں انہیں اتار ڈالو یعنی ان کی طر ف التفات نہ کرو کہ تم بارگاہ قدس میں پہنچ گئے ۔
(۱غرائب القرآن تحت آیۃ ۲۰ /۱۲ مصطفی البابی مصر۱۶ /۱۱۹)
اقول: نعل قطع راہ میں معین ہوتی ہے اورمقصد اولیاء وصول بحضرت کبریا ہے اوردنیا آخرت دونوں اس راہ کی قطع میں معین ۔ دنیا یوں کہ اس میں اعمال سبب وصول جنت ہیں ، اور آخرت یوں کہ وہیں وعدہ دیدار ہے معہذا طالبانِ مولٰی لذات کونین کو زیر قدم رکھتے ہیں ، جو زیر قدم ہو اسے نعل کہنا مناسب ہے ۔
حدیث میں ہے : الدنیا حرام علی اھل الاٰخرۃ والاٰخرۃ حرام علی اھل الدنیا ، والدنیا والاٰخرۃ حرام علی اھل اللہ ۔ رواہ الدیلمی ۲عن ابن عباس رضی ا للہ تعالٰی عنہما۔ یعنی دنیا حرام ہے آخرت والوں پر اور آخرت حرام ہے دنیا والوں پر ، اوردنیا وآخرت دونوں حرام ہیں اللہ والوں پر ۔ (اسے دیلمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)
(۲الفردوس بما ثور الخطاب حدیث ۳۱۱۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۲۳۰)
نیز نعل ”زوجہ ”کو کہتے ہیں کما فی القاموس وغیرہ ۳ (جیسا کہ قاموس وغیر ہ میں ہے ۔ ت)
(۳ القاموس المحیط باب اللام فصل النون مصطفی البابی مصر ۴ /۵۹)
اور دنیا وآخرت دونوں سوتیں ہیں۔ ؎
فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم۴
(۴قصیدہ بردہ شریف مطبع انصار دہلی ص۷۹)
کیونکہ دنیااورآخرت آپ کی بخششوں میں سے ہے اورلوح وقلم آپ کے علموں میں سے ہیں ۔ ت)
اسی طرف اشارہ ہے ۔ حدیث نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں ہے فرماتے ہیں : من احب دنیاہ اضرباخرتہ ومن احب اخرتہ اضربدنیاہ فأثروامایبقی علی مایفنی رواہ احمد والحاکم عن ابی موسٰی الاشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند صحیح ۱۔ جو اپنی دنیا کو پیار کرے گا اس کی آخر ت کو نقصان ہوگا اور جو اپنی آخرت کو پیارا رکھے اس کی دنیا کو ضرر ہوگا تو باقی کو فانی پر ترجیح دو۔ (اس کو امام احمد وحاکم نے ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسندصحیح روایت کیا ۔ت)
(۱مسند احمد بن حنبل حدیث ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۴۱۲)
اورمداردنیا بنیہ بشری پر ہے اورمدار مثوبات آخرت عقل تکلیفی پراور وجد وسماع کے غلبے میں ان کے زوال کا اندیشہ ، خصوصاًجب قوت ضعف ہو اوربرکت صاحب مجلس سے تجلی اشد واقوٰی واقع ہو تو بدن فنایا عقل زائل ہوجانا کچھ بعید نہیں ۔
حضور پرنور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز پڑھا رہے تھے جب سجدے میں گئے مقتدیوں میں سے ایک مرید کا جسم گھلنا شروع ہوا یہاں تک کہ گوشت ، پوست ، استخواں کسی کا نام ونشان نہ رہا صرف ایک قطرہ پانی رہ گیا ۔ حضور نے بعد سلام روئی کے پھوئے میں اٹھا کر دفن فرمایا اورفرمایا : سبحان اللہ !ایک تجلی میں اپنی اصل کی طرف پلٹ گیا۔
لہذا سیدنا خضر علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی قوت ومددسے انکی دنیا وآخرت کی یعنی بنیہ بشری وعقل تکلیفی کی حفاظت فرماتے تھے ، کہئے یہ کمال عظمت ہے یا معاذ اللہ اہانت ! الخ، مختصراً ۔