مسئلہ ۷۹: مرسلہ عبدالجبار خاں طیب دھام پور ضلع بجنور ۲۷ ربیع الاول شریف ۱۳۳۵ھ۔
(۱) جو شخص کہ خلیفہ برحق سے برسرِ بغاوت و برسر پیکار ہو کیا وہ شخص قابلِ عزت و لائق احترام ہے اور اس کے نام کو لفظ حصرت و رحمۃ اﷲ علیہ یا رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ یاد کرنا لازم ہے خواہ صحابی ہوں یا غیر صحابی؟
(۲) کیا حضرت امیر معاویہ بمقابلہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ، باغی اور خطا کار تھے یا بطور اجتہاد ان کی رائے مختلف تھی جس میں ان پر بدنیتی اور عصیان کا الزام عائد نہ ہوگا۔ تفصیل واضح مطلوب ۔
(۳) کیا حضرت رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد کوئی انسان کسی نبی کے مرتبہ کے برابر ہوسکتا ہے یا زیادہ ؟ یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مرتبہ انبیاء بنی اسرائیل کے برابر یا ان سے بالاتر ماننا واجب ہے؟ ایک شخص یہ دلیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے ایسے ہی سوال کے جواب میں یہ فرمایا کہ تم یہ سمجھ لو کہ حضرت آدم ایک بار گندم کھانے سے مورد عقاب ہوئے اور میں نے اس قدر کھایا ہے و غیرہ ، کیا یہ حدیث صحیح اور متواتر ہے اور کیا اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے جو شخص مذکور نکلتا ہے؟
(۴) کیا ہم کو اس بحث میں پڑنا زیبا ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا رتبہ خلفائے ثٰلثہ سے بالاتر اور ان کا کمتر ہے اور کیا یہ حنفیوں کے عقائد ضروریہ میں سے ہے؟ فقط۔
الجواب :
(۱) اہلسنت کے عقیدہ میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی تعظیم فرض ہے اور ان میں سے کسی پر طعن حرام اور انکے مشاجر ت میں خوض ممنوع،
حدیث میں ارشاد: اذا ذکر اصحابی فامسکوا ۱ ؎ جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے،(بحث و خوض سے) رُک جاؤ۔(ت)
( ۱ ؎ المعجم الکبیر حدیث ۱۴۲۷ المکتبۃ الفیصیلہ بیروت ۲/ ۹۶)
رب عزوجل کہ عالم الغیب والشہادہ ہے اس نے صحابہ سیّد عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دو قسمیں فرمائیں ، مومنین قبل الفتح جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے راہِ خدا میں خرچ و جہاد کیا اور مومنین بعد الفتح جنہوں نے بعد کو، فریق اول کو دوم پر تفضیل عطا فرمائی کہ: لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولٰئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا ۲ تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا ، وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا۔(ت)
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)
اورساتھ ہی فرمادیا۔ وکلا وعد اﷲ الحسنی ۔۳ دونوں فریق سے اﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرمالیا۔ اور ان کے افعال پر جاہلانہ نکتہ چینی کا دروازہ بھی بند فرمادیا کہ ساتھ ہی ارشادہوا۔ واﷲ بما تعملون خبیر ۔۴ اللہ کو تمہارے اعمال کی خوب خبر ہے، یعنی جو کچھ تم کرنے والے ہو وہ سب جانتا ہے بااینہہ تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا خواہ سابقین ہوں یا لاحقین ،
( ۳ ؎ القرآن الکریم ۵۷/۱۰) ( ۴ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)
اور یہ بھی قرآن عظیم سے ہی پوچھ دیکھئے کہ مولٰی عزوجل جس سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا اُس کے لیے کیا فرماتا ہے: ان الذین سبقت لھم منّا الحسنٰی اولئک عنہا مبعدون لایسمعون حسیسہا وھم فیما اشتھت انفسھم خٰلدون لایحزنہم الفزع الاکبرو تتلقٰھم الملئٰکِۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون ۔۱ بے شک جن سے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دُور رکھے گئے ہیں اس کی بھِنک تک نہ سُنیں گے اور وہ اپنی من مانتی مرادوں میں ہمیشہ رہیں گے، اُنہیں غم میں نہ ڈالے گی بڑی گھبراہٹ، فرشتے ان کی پیشوائی کوآئیں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲۱/۱۰۱ و ۱۰۳)
سچا اسلامی دل اپنے رب عزوجل کا یہ ارشاد عام سن کر کبھی کسی صحابی پر نہ سوءِ ظن کرسکتا ہے نہ اس کے اعمال کی تفتیش ، بفرض غلط کچھ بھی کیا تم حاکم ہو یا اللہ ، تم زیادہ جانو یا اﷲ، ء انتم اعلم ام اﷲ ۔۲ ( کیا تمہیں علم زیادہ ہے یا اﷲ تعالے کو ،ت) دلوں کی جاننے والا سچا حاکم یہ فیصلہ فرماچکا کہ مجھے تمہارے سب اعمال کی خبر ہے میں تم سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا۔ اس کے بعد مسلمان کو اس کے خلاف کی گنجائش کیا ہے، ضرور ہر صحابی کے ساتھ حضرت کہا جائے گا، ضرور رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا جائے گا، ضرور اس کا اعزاز و احترام فرض ہے۔
ولوکرہ المجرمون ۳ ؎ (اگرچہ مجرم بُرا مانیں۔ ت)
( ۲؎ القرآن الکریم ۲/۱۴۰)( ۳ ؎ القرآن الکریم ۸/۸)
(۲) اُس کا جواب بھی جواب اوّل سے واضح ہوچکا، بلاشبہہ اُن کی خطا خطائے اجتہادی تھی اور اس پر الزامِ معصیت عائد کرنا اس ارشاد الہی کے صریح خلاف ہے۔
(۳) مسلمانوں کا اجماع ہے کہ کوئی غیر نبی کسی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا ، جو کسی غیر نبی کو کسی نبی کے ہمسر یا افضل جانے وہ بالاجماع کافر مرتد ہے۔ مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ کا مرتبہ انبیائے بنی اسرائیل یا کسی نبی سے بالا یا برابر ماننا واجب درکنار کفر خالص ہے اور ملعون افترائی حکایت عجب مضحکہ خیز ہے، گیہوں کھانا ہی اگر دلیل افضلیت ہو تو مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ نے اتنے گیہوں ہر گز نہیں کھائے جتنے زید و عمر و آج کل کھارہے ہیں، اُس بادشاہِ ملک ولایت کی اکثر غذا باتباعِ سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو تھی ، اور وہ بھی اکثر ایک وقت، اور وہ بھی پیٹ بھر کر نہیں۔ اور زید و عمر و رات دن میں دو دو وقت گیہوں کھاتے ہیں تو یہ معاذ اﷲ آدم علیہ السلام سے بھی اور مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ سے بھی افضل ہوئے ، ایں فساد خوردن گندم بود ( یہ گندم کھانے کا فساد ہے۔ت)
(۴) یہ نہ فقط حنفیہ بلکہ تمام اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہے۔ اہلسنت کے نزدیک بعد انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام تمام اولین و آخرین سے افضل امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ پھر امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں، واﷲ تعالٰی اعلم۔