تقلید, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

اعتقادیات میں تقلید نہیں

مسئلہ ۶۶: مسئولہ شفیع احمد فقیر قادری رضوی طالب علم مدرسہ منظر اسلام ۲۱ جمادی الاخرٰی ۱۳۳۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شرح عقائد عضدیہ للمحقق الدوانی رحمۃ اللہ علیہ کے خطبہ میں ہے۔

یا من وفقنا لتحقیق العقائد الاسلامیۃ وعصمنا عن التقلید فی الاصول والفروع الکلامیۃ ۔۱؂ اے وہ ذات جس نے ہمیں عقائد اسلامیہ کی تحقیق کی توفیق عطا فرمائی اور ہمیں اصولِ کلامیہ اور فروع کلامیہ میں تقلید سے بچایا۔

(۱؂ الدوانی علی العقائد العضدیہ خطبۃ الکتاب مطبع مجتبائی دہلی ص ۲ )

اور یہ بھی مشہور ہے: لا تقلید فی الاعتقادیات ۔۲؂ اعتقادیات میں تقلید نہیں۔(ت)

حضور اگر ایسا ہے تو جاہل کے لیے یہ کیوں ہے کہ جب اس کے سامنے کوئی عقیدہ پیش کیا جائے اور یہ نہ جانتا ہو تو کہے میرا وہ عقیدہ ہے جو اہل سنت کا ہے بلکہ کوئی جاہل بلکہ اکثر معمولی عالم اکثر عقائد کے استدلال نہیں جانتے اور ہم اکثر ثبوت عقائد میں اقوال ائمہ پیش کرتے ہیں اور یہ طریق اثبات تصانیف علمائے عظام میں موجود یا اس کے معنٰی یہ ہیں کہ عقائد کا علم یقینی مثل علم امر محقق ہو، نہ علم ظنی مثل علم مرد مقلد۔

الجواب : جس طرح فقہ میں چار اصول ہیں، کتاب سنت ، اجماع ، قیاس ، عقائد میں چار اصول ہیں، کتاب ، سنت ، سواد اعظم ، عقل صحیح ، تو جو ان میں ایک کے ذریعہ سے کسی مسئلہ عقائد کو جانتا ہے دلیل سے جانتا ہے نہ کہ بے دلیل محض تقلیداً اہل سنت ہی سواد اعظم اسلام ہیں، تو ان پر حوالہ دلیل پر حوالہ ہے نہ کہ تقلید۔ یوں ہی اقوالِ ائمہ سے استناد اسی معنٰی پر ہے کہ یہ اہلسنت کا مذہب ہے ولہذا ایک دو دس بیس علماء کبا ر ہی سہی اگر جمہور و سواد اعظم کے خلاف لکھیں گے اس وقت ان کے اقوال پر نہ اعتماد جائز نہ استناد کہ اب یہ تقلید ہوگی اور وہ عقائد میں جائز نہیں، اس دلیل اعنی سواد اعظم کی طرف ہدایت اﷲ و رسول جل و علا وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی کمال رحمت ہے،ہر شخص کہاں قادر تھا کہ عقیدہ کتاب و سنت سے ثابت کرے، عقل تو خود ہی سمعیات میں کافی نہیں ناچار عوام کو عقائد میں تقلید کرنی ہوتی، لہذا یہ واضح روشن دلیل عطا فرمائی کہ سوادِ اعظم مسلمین جس عقیدہ پر ہو وہ حق ہے اس کی پہچان کچھ دشوار نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے وقت میں تو کوئی بدمذہب تھا ہی نہیں اور بعد کو اگرچہ پیدا ہوئے مگر دنیا بھر کے سب بدمذہب ملا کر کبھی اہلسنت کی گنتی کو نہیں پہنچ سکے، ﷲ الحمد فقہ میں جس طرح اجماع اقوی الاَدِلّہ ہے کہ اجماع کے خلاف کا مجتہد کو بھی اختیار نہیں اگرچہ وہ اپنی رائے میں کتاب و سنت سے اس کا خلاف پاتا ہو یقیناً سمجھا جائے گا کہ یا فہم کی خطا ہے یا یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اگرچہ مجتہد کو اس کا ناسخ نہ معلوم ہو، یونہی اجماع امت تو شے عظیم ہے سواد اعظم یعنی اہلسنت کا کسی مسئلہ عقائد پر اتفاق یہاں اقوی الادلہ ہے کتاب و سنت سے اس کا خلاف سمجھ میں آئے تو فہم کی غلطی ہے،حق سوادِ اعظم کے ساتھ ہے ، اور ایک معنی پر یہاں اقوی الادلہ عقل ہے کہ اور دلائل کی حجیت بھی اسی سے ظاہر ہوئی ہے مگر محال ہے کہ سواد اعظم کا اتفاق کسی برہان صحیح عقلی کے خلاف ہو، یہ گنتی کے جملے ہیں مگر بحمدہ تعالٰی بہت نافع و سود مند فعضوا علیہابالنوا جذ ( پس ان کو مضبوطی سے داڑھوں کے ساتھ پکڑلو ۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔