امامت کا بیان, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ, نجدیت

دیوبندی کو امام مسجد مقرر کرنا

بخدمت اقدس حضرت مولانا صاحب دامت برکاتہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ ، استفتاء ہذا ارسال خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں ، یہ مولوی صاحب جنہوں نے جواب استفتاء ہذا تحریر فرمایا ہے تعلیم یافتہ مدرسہ دیوبند ہیں لیکن ان کے خیالات یہ ہیں جو انہوں نے ارقام فرمائے ہیں اب یہ تحریر فرمائیں کہ ان مولوی صاحب کو امام مسجد مقرر کرنا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے، آیا اس شخص کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔

الجواب
بعد مراسم سُنّت ، وہ سوال جواب جوابات میں بہت چالاکی برتی گئی ہے پھر بھی ان سے تو ہب کی جھلک پیدا ہے آپ نے مجیب کا دیوبند میں تعلیم پانا لکھا ہے وہاں یہ سوالات کرنے نہ تھے کہ انمیں غلط جواب دے جب بھی کافر تو نہ ہوگا دیوبندیوں کے عقائد تو وہ ہیں جن کی نسبت علمائے حرمین شریفین نے بالاتفاق تحریر فرمایا ہے کہ۔ من شک فی عذابہ و کفرہ فقد کفر ۔۱؂ جوان کے اقوال پر مطلع ہو کر ان کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

(۱؂ حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳)

ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ:

من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔۲؂ جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔(ت) اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل کا اس کے سامنے ذکر کیا ہے ، فقط۔

(۲؂حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳)