ایصال ثواب, حیات انبیاء و اولیاء, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

مختلف معمولات اہل سنت

مسئلہ ۵۶ تا ۶۲ : از فورٹ سنڈیمن بلوچستان رسالہ زوپ ملیشیہ مرسلہ مستری احمد الدین ۳۰ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
(۱) مولود شریف کرنا کیسا ہے اور بوقتِ بیانِ ولادت شریف قیام کرنا کیسا ہے؟
(۲)گیارھویں حضرت پیرانِ پیر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کرنی کیسی ہے؟
(۳)کھانا آگے رکھ کر ہاتھ اٹھا کر ختم دینا جائز ہے یا ناجائز ؟
(۴) اٹھتے بیٹھتے یارسول اللہ کہنا، آپ کو حاضر ناظر جاننا اور عالم الغیب ماننا کیسا ہے؟
(۵) بزرگوں کی قبروں کی زیارت کے لیے دور دراز سے سفر کرنا عرس اور قبروں کا طواف اور بوسہ دینا جائز ہے یا نہیں؟
(۶) ہر دو طریق پر میت کا اسقاط کرنا جائز ہے یا نہیں؟
(۷) جمعہ کی نماز کے بعد احتیاط الظہر ۱۲ رکعت پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب ہمر شتہ سوال

(۱) مولود شریف یعنی خاص بیان ولادت آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خالی از منکراتِ شرعیہ می باشد جائز ہست مگر قیام کر دن و دست برناف بستن بریں اعتقاد کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حاضر میشوذ مجلس مولود راغیر صحیح و خلاف عقیدہ ہست۔

(۱) مولود شریف یعنی خاص بیان ولادت سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو کہ منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو جائز ہے مگر اس کے لیے قیام کرنا اور اس اعتقاد کے ساتھ ناف پر ہاتھ باندھنا کہ جناب رسالمتآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم محفلِ میلاد میں حاضر ہوتے ہیں صحیح نہیں اور عقیدہ کے خلاف ہے۔

(۲) نذردادن بررُوح غوثِ اعظم علیہ الرحمہ اگر خالصاً لوجہ اﷲ ازبرائے ایصال الثواب بروحِ مقدس شان مے باشد جائز بلکہ حسن ست لکن اگر دروقت نذر کردن خاص نام پیرانِ پیر علیہ الرحمۃ ذکر کندو نام خداوند تعالٰی ترک کند چنانچہ عادت جہال ست پس ناجائز بلکہ خوفِ کفر ہست۔

(۲) غوث اعظم علیہ الرحمہ کی روح پاک کی نذر دینی اگر خالصاً اﷲ تعالٰی کی ذات کے لیے ہو اور سرکارغوث پاک کی روح مقدس کو ثواب پہنچانا مقصود ہو تو جائز بلکہ مستحسن کو ثواب پہنچانا مقصود ہو تو جائز بلکہ مستحسن ہے ، لیکن اگر نذر کرتے وقت خاص پیران پیر علیہ الرحمہ کا نام ذکر کرے اور اللہ تبارک و تعالٰی کا ذکر چھوڑ دے تو جیسا کہ جاہلوں کی عادت ہے ناجائز ہے بلکہ کفر کا خوف ہے۔

(۳) و دُعا کردن دروقت حضور طعام جائز ہست لیکن بہترآن ہست کہ بعد فراغ از تناول طعام کردہ شود زیرا کہ حق طعام سابق ہست لکن آنکہ دربعضے شہر ہامعروف ہست کہ طلبہ و ملایان راجمع می کنند و برایشاں ختم قرآن شریف و تسبیح و تہلیل می کنند و بعوض آں ایشاں رانان وپیر ہامی د ہند ناجائز ہست ختم کنندگان را گر فتن فلوس و خوردن طعام حرام ہست و صاحبِ طعام را ثوابِ خیرات نمی شود چنانچہ در طریقہ محمدیہ در فصل آخرو دربحرالرائق و در شامی مذکور ہست ۔

(٣)کھانا سامنے رکھ کر دعا کرنا جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ کھانا کھا کر فارغ ہونے کے بعد دعا کی جائے کیونکہ کھانے کا حق مقدم ہے لیکن جو بعض شہروں میں مروج ہے کہ طلباء اور ملاؤں کو جمع کرتے ہیں وہ قرآن مجید ختم کرتے ہیں اور تسبیح و تہلیل کرتے ہیں جس کے بدلے میں انہیں روٹی اور پیسے دیئے جاتے ہیں یہ ناجائز ہے ختم کرنے والوں کو پیسے لینا اور کھانا کھانا حرام ہے اور کھانا کھلانے والے کو خیرات کا ثواب حاصل نہیں ہوتا، جیسا کہ طریقہ محمد یہ کی فصل آخر بحرالرائق اور شامی میں مذکور ہے۔

(۴) یارسول اللہ گفتن ماسوائے از مواضع بے ادبی در ہر وقت جائز ہست مگر حاضر دانستن جناب سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مخالف عقیدہ اہلسنت و جماعت ہست صحیح نیست بلکہ درود شریف یا سلام بخود پیش کردہ مے شود برروح پاک آنجناب علیہ السلام در مدینہ منورہ نہ آنکہ سیدالانبیاء ازبرائے او حاضر مے شود، چنانچہ در حدیث نسائی شریف (ف) وارد شدہ ہست قال علیہ السلام ان صلوتکم تبلغنی حیث کنتم ۔۱؂

(۴) یارسول اللہ کہنا بے ادبی کی جگہوں کے سوا ہر وقت جائز ہے مگر سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حاضر جاننا عقیدہ اہلسنت و جماعت کے خلاف ہے اور صحیح نہیں ہے بلکہ درود شریف یا سلام نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح پاک کو خود مدینہ منورہ میں پیش کیا جاتا ہے ، یوں نہیں کہ سیدالانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے خود حاضر ہوتے ہیں جیسا کہ نسائی شریف کی حدیث میں وارد ہوا ہے ، نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔

( ۱ ؎ المعجم الکبیر حدیث ۲۷۲۹ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۳/ ۸۲)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرہ المکتب الاسلامی ۲/ ۳۶۷)

ف : انتہائی کوشش کے بعد بھی نسائی شریف میں ان الفاظ کے ساتھ حدیث نہیں مل سکی البتہ ان الفاظ کے قریب قریب معجم کبیرو مسند احمد بن حنبل میں ان الفاظ کے ساتھ حدیث ملی ہے۔ حیثما کنتم فصلوّ ا علی فان صلوتکم تبلغنی ۔ نذیر احمد سعیدی

نیز جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم را عالم الغیب گفتن ناجائز ہست، چنانچہ ملا علی قاری در شرح فقہ اکبر تصریح میکند ثم اعلم ان الانبیاء علیہم السلام لم یعلمواالمغیبات من الاشیاء الاما علمھم اﷲ احیانا وذکر الحنفیۃ صریحاً بالتکفیر باعتقادہ ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یعلم الغیب لمعارضۃ قولہ تعالٰی قل لا یعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الا اﷲ۱؂ ۔

نیز رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنا ناجائز ہے، چنانچہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ شرح فقہ اکبر میں تصریح کرتے ہیں پھر تو جان لے کہ بے شک انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام غیب اشیاء کو نہیں جانتے سوائے ان چیزوں کے جن کا علم انہیں اللہ تعالٰی کبھی کبھار عطا فرماتا ہے ، اور حنفیہ نے اس کی تکفیر کا ذکر اس وجہ سے کیا ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غیب جانتے ہیں اس لیے کہ ان کایہ اعتقاد اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد کے مخالف ہے: اے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آپ فرمادیں کہ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے۔وہ غیب نہیں جانتا سوائے اللہ تعالٰی کے ۔

( ۱ ؎منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر حکم تصدیق الکاہن بما یخبر بہ من الغیب مصطفٰی البابی مصر ص ۱۵۱)

(۵) سفر کردن از برائے زیارتِ قبور جائز ہست از جہت اطلاق قولہ علیہ السلام کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا ۔۲؂ و انچہ بعض علماء مثل ابن تیمیہ وغیرہ استدلال بر منع سفر کردہ اند بایں حدیث لاتشدوالرحال الا الٰی ثلثۃ مساجد ۳؂ الخ ۔غلط ہست ، چنانچہ امام غزالی علیہ الرحمہ دراحیاء می فرماید وذہب بعض العلماء الی الاستدلال بھذا الحدیث فی المنع من الرحلۃ لزیارۃ المشاہد وقبور العلماء والصلحاء و ماتبین لی ان الامر لیس کذلک بل الزیارۃ مامور ۃ بھا قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور الخ ۔۱؂ لکن بوسہ دادن وطواف کردن قبر و عرس وغیرہ ہمہ ناجائز و حرام ہست و نیز مخالف ہست از آداب وطریقہ زیارت کردن ، چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ دراحیا می فرمودند وآداب الزیارۃ ان لایقوم مستقبل القبر مستدبر القبلۃ و لایقبلہ ولا ینحنی لہ۲؂ الخ بلکہ در انحناء و سجدہ کردن خوفِ کفر ست۔

(۵) زیارتِ قبور کے لیے سفر کرنا جائز ہے اس واسطے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ ارشاد مطلق ہے میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا تو اب ان کی زیارت کیا کرو۔ ابن تیمیہ وغیرہ بعض علماء کا منع سفر پر اس حدیث سے استدلال کرنا غلط ہے کجاوے مت باندھو مگر صرف تین مسجدوں کی طرف چنانچہ امام غزالی علیہ الرحمہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں: بعض علماء نے اس حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ علماء و صلحاء کی قبور اور مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے لیے سفر کرنا منع ہے اور میرے لیے جو کچھ ظاہر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ معاملہ اس طرح نہیں بلکہ زیارتِ قبور کا حکم دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا تو اب ان کی زیارت کیا کرو لیکن قبر کو بوسہ دینا طواف کرنا اور عرس وغیرہ سب ناجائز و حرام ہے اور ایسا کرنا زیارت کرنے کے طریقہ اور آداب کے خلاف ہے، چنانچہ امام غزالی علیہ الرحمہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں : زیارت کے آداب یہ ہیں کہ قبر کی طرف منہ کرکے اور قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے مت کھڑا ہو اور نہ قبر کو چومے اور نہ ہی اس کے لیے جھکے الخ بلکہ قبر کے لیے جھکنے اور سجدہ کرنے میں کفر کا خوف ہے۔

( ۲ ؎ صحیح مسلم کتاب الجنائز فصل فی الذھاب الٰی زیارۃ القبور قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۱۴)
( ۳ ؎ صحیح مسلم کتاب المساجد باب فضل المساجد الثلاثہ قدیمی کتب خانہ کراچی ا/۴۴۷)
(۱ ؎ احیاء العلوم کتاب ذکر اسرارالحج فضیلۃ المدینۃ الشریفہ الخ مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ ۱/ ۲۴۴)
(۲ ؎ احیاء العلوم کتاب ذکرالموت الباب السادس مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ ۴/ ۴۹۱)

(۶) اسقاط کردن برطریق معروف اگرچہ در قرونِ ثلثہ بریں طریق جاری نبود لیکن علماء فقہ در کتب ہائے خود نقل کردہ ہست واز نصوص و آثار صحابہ ایں حکم رامستنبط کردہ اندچنا نچہ علامہ ابن العابدین شامی دریں مسئلہ رسالہ مستقبل چاپ کردہ ہست وثابت کردہ ہست کہ اسقاطِ میت جائز ہست ودرنقل عبارت آں رسالہ بسیار طول لازم می شود ازیں وجہ ترک کردم۔

(۶) مروج طریقے پر حیلہ اسقاط کرنا اگرچہ قرون ثلٰثہ میں اس طو ر پر جاری نہ تھا مگر علماء فقہ نے اپنی کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے اور نصوص و آثارِ صحابہ سے اس حکم کو مستنبط کیا ہے چنانچہ علامہ ابن العابدین صاحب شامی نے اس مسئلہ میں ایک مستقل رسالہ شائع کیا ہے ا ور ثابت کیا ہے کہ میت کے لیے حیلہ اسقاط جائز ہے چونکہ اس رسالہ کی عبارات کو نقل کرنے میں بہت زیادہ طوالت لازم آتی ہے ۔ اس لیے میں نے ان عبارات کو ترک کردیا ہے۔

(۷) در عدد رکعات نمازِ جمعہ اختلاف علماء ہست بعضے میگویند کہ بعد از فرضِ جمعہ شش رکعات سنت ہست و چہار رکعت فرض احتیاطی رامنع می کند چنانچہ صاحب بحرالرائق درکتاب خود تصریح کردہ ہست بر منع و میگوید و منشاء جھلھم صلوۃ الاربع بعد الجمعۃ بنیۃ الظھروانما وضعہا بعض المتاخرین عند الشک فی صحۃ الجمعۃ بسبب روایۃ عدم تعددھا فی مصرواحد ولیست ھذہ الروایۃ بالمختارۃ ولیس ھذا القول اعنی اختیار صلوۃ الاربع بعدھا مرویاعن ابی حنیفۃ و صاحبیہ حتی وقع لی انی افتیت مراراً بعدم صلوتھا خوفا علی اعتقاد الجھلۃ بانہا الفرض وان الجمعۃ لیست بفرض ۔۱؂ الخ، پس از قول صاحب بحرالرائق مطلقاً منع کردن معلوم میشود و بعض علماء میگوید کہ بہتر ایں ہست کہ بعد از جمعہ دوازدہ رکعات گزاردہ شود چہار رکعت احتیاطی چنانچہ معروف ہست چنانچہ صاحب شامی نوشتہ ہست ونقل المقدسی عن المحیط کل موضع وقع الشک فی کونہ مصراً ینبغی لھم ان یصلوا بعد الجمعۃ اربعاً بنیۃ الظھر احتیاطا ۔۱؂ الخ

لکن نزدبندہ مختارایں ہست کہ قول صاحب بحرالرائق حمل کردہ شود بر عوام الناس و عوام الناس رافتوی دادہ نہ شود برگزاردن فرض احتیاطی زیرا کہ ایشاں راضرور تردد واقع میشود ودر فرضیت جمعہ و قول صاحبِ شامی محمول ہست بر خواص ازیں وجہ کہ ایشاں واقف ہست از احوال نیت واصل خلاف پس واقع نمی شود ایشاں راتردد در فرضیت جمعہ و و دلیل گرفتہ ام بقول مقدسی حیث قال نحن لا نامربذلک المثال ھذہ العوام بل ندل علیہ الخواص ۔ ۲؎ الخ حاصل آنکہ فرض احتیاطی در حق عوام الناس امر نکردہ شود بلکہ خواص رابہتر ہست فقط السلام علیکم وعلی من لد یکم ھذا ما وضع لی واﷲ تعالٰی اعلم بالصواب۔

(۷) نمازِ جمعہ کی رکعتوں کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ فرض جمعہ کے بعد چھ رکعتیں سنت ہیں اور چار رکعت فرض احتیاطی ( احتیاط الظہر) سے منع کرتے ہیں۔ چنانچہ صاحب بحرالرائق اپنی کتاب میں ممانعت پر تصریح فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرضیت جمعہ کے منکرین کی جہالت کا منشاء جمعہ کے بعد ظہر کی نیت سے چار رکعتیں نماز پڑھنا ہے جس کو بعض متاخرین نے صحتِ جمعہ میں شک کی بنیاد پر وضع کیا ہے اور اس شک کا سبب ایک شہر میں تعدد جمعات کے عدمِ جواز والی روایت ہے حالانکہ یہ روایت مختار نہیں اور نہ ہی یہ قول یعنی جمعہ کے بعد چار رکعتیں احتیاط الظہر پڑھنے کا مختار ہونا امام ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین سے مروی ہے۔ حتی کہ میرے لیے ایسے واقع ہوا کہ میں نے بارہا ان چار رکعتوں کے عدمِ جواز کا فتوٰی دیا اس بات کا خوف کرتے ہوئے کہ جاہل لوگ ان چار رکعتوں کو فرض سمجھ لیں گے اور جمعہ کو فرض نہیں سمجھیں گے۔ الخ
صاحب بحرالرائق کے قول سے تو مطلقاً ممانعت معلوم ہوتی ہے، بعض علماء کہتے ہیں بہتر یہ ہے کہ جمعہ کے بعد بارہ رکعتیں ادا کی جائیں چار رکعتیں احتیاطی فرض ہیں جیسا کہ معروف ہے، چنانچہ صاحبِ شامی نے لکھا ہے کہ مقدسی نے محیط سے نقل کیا جس جگہ کے شہر ہونے میں شک ہو وہاں لوگوں کو چاہیے کہ جمعہ کے بعد چار رکعتیں فرض احتیاطی بنیت ظہر پڑھیں الخ لیکن بندہ کے نزدیک مختاریہ ہے کہ صاحب بحرالرائق کے قول کو عوام الناس پر محمول کیا جائے گا چنانچہ عوام الناس کو فرض احتیاطی پڑھنے کا فتوٰی نہیں دیا جائے گا کیونکہ ان کو ضرور جمعہ کی فرضیت میں تردد واقع ہوگا اور صاحب شامی کے قول کو خواص پر محمول کیا جائے گا۔اس لیے کہ وہ نیت کے احوال اور اصل خلاف سے واقف ہیں لہذا ان کی فرضیت جمعہ میں کوئی تردد نہ ہوگا۔ میں نے مقدسی کے قول سے دلیل پکڑی ہے جہاں انہوں نے فرمایا کہ ہم ایسے احکام کا عوام کو حکم نہیں دیتے بلکہ ان پر خواص کی رہنمائی کرتے ہیں الخ۔

خلاصہ یہ کہ فرض احتیاطی کا عوام کو حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ یہ خواص کے لیے بہتر ہے، فقط تم پر اور ان پر جو تمہارے پاس ہیں سلام ہو۔ یہ وہ ہے جو مجھے مہیا ہوا، اور اللہ تعالٰی درست بات کو خوب جانتا ہے۔(ت)
محررہ فقیر مولوی سید بادشاہ ابن مولوی سید محمد صدیق احسن زادہ ساکن ریوزی مورخہ ۳ رمضان

( ۱ ؎ بحرالرائق کتاب الصلوۃ باب الجمعۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/ ۱۳۹)
( ۱ ؎ ردالمحتار کتاب الصلوۃ باب الجمعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۵۴۲)
( ۲ ؎ ردالمحتار کتاب الصلوۃ باب الجمعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۵۴۲)