امامت کا بیان, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ, نجدیت

وہابیوں کے پیچھے نماز کا حکم

مسئلہ ۵۵: از بریسال ڈاکخانہ مہر گنج محلہ چڑ لکھی مکان منشی عبدالکریم ۔ مرسلہ محمد حسن صاحب ۱۶ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
آناں بملک مابرائے چند کلام نزع برفع اند اولاً مابین علمائے چند فریق شدہ اند یک دیگرے راوہابی گویند و درپیش آں صلوۃ خوانی مکروہ تحریمی و عقائد قوم و جماعت وہابیہ اینکہ مولود خوانی و زیارتِ قبور و فاتحہ و تسبیح و تہلیل وعرس کردن ایں سب امور راحرام گویندو انجا افعال کنندہ را بدعتی گویند درپیش ایں جماعت رانمازنمی خواند وایں ہر دو جماعت ہمیچال فساد می کنند لکن کیفیت وہابی و سنی چیست نہ معلوم اند۔

ہمارے ملک میں چند اختلافی باتیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں جن میں سے پہلی یہ کہ علماء کے درمیان کچھ گروہ ہیں جو ایک دوسرے کو وہابی کہتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ تحریمی قرار دیتے ہیں۔ وہابی قوم کے عقائد یہ ہیں کہ وہ میلاد خوانی زیارتِ قبور، فاتحہ ، تسبیح و تہلیل اور عرس کرنے کو حرام کہتے ہیں، اور ایسے افعال کرنے والے کو بدعتی کہتے ہیں ، اور انکی جماعت میں نماز نہیں پڑھتے ۔ یہ دونوں جماعتیں اس طرح فساد کرتی ہیں لیکن وہابی اور سنی کی کیفیت کیا ہے یہ معلوم نہیں(ت)

الجواب :
دریں دیار منکراں میلاد خوانی و زیارتِ قبور و فاتحہ و تسبیح و تہلیل جزو ہابیہ نہ باشند وہمچناں منکران نفس عرس، اما عرسیکہ مشتمل بر رقص باشد خود نارواست نماز پس وہابیہ جائز نیست ، درفتح قدر است روی محمد عن ابی حنیفۃ وابی یوسف رضی اللہ تعالٰی عنہم ان الصلوۃ خلف اھل الاھواء لاتجوز۔۲؂ انکار امور مذکورہ شعار وہابیہ است ہمچناں استمداد از انبیاء و اولیاء علیہم الصلوۃ والسلام و یارسول اللہ ویا علی گفتن راشرک می گویند وخلاصہ مذہب ایشاں آنست کہ امام آنہا در تقویۃ الایمان ۱؂گفت کہ جز خدا ہچ کس را قائل مباش و مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم را خود ہمیں بزرگی داشت چنانکہ برادر کلاں رابر برادر خورد و ازیں قسم بسیار سخنہائے گستاخی بانبیاء و اولیاء خود حضور سیدالانبیاء علیہم الصلوۃ والثناء چادیدہ است حاصل مذہب ایں خبثا آنست کہ حضرت مولوی قدس سرہ در منثوی شریف فرمود
ہمسری با انبیاء برداشتند اولیاء راہمچو خود پندا شند ۲؎

اس ملک میں میلاد خوانی ، زیارتِ قبور ، فاتحہ اور تسبیح و تہلیل کا منکر وہابیوں کے سوا کوئی نہیں، یونہی نفس عرس کا منکر بھی ان کے علاوہ کوئی نہیں، رہا قص پر مشتمل عرس تو وہ خود ناجائز ہے، وہابیوں کے پیچھے نماز جائز نہیں، فتح القدیر میں ہے: امام محمد نے امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کی کہ بے شک بدمذہبوں کے پیچھے نماز جائز نہیں۔امور مذکور کا انکار وہابیوں شعار ہے، اسی طرح اولیاء اللہ اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے مدد مانگنے اور یارسول اللہ اور یا علی کہنے کو شرک قرار دیتے ہیں، ان کے مذہب کا خلاصہ وہ ہے جو ان کے امام نے تقویۃ الایمان میں کہا کہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی کا قائل مت ہو، اور محمد مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خود پر صرف اتنی بڑائی دیتے ہیں جتنی بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر۔ اس قسم کی بہت سی گستاخانہ باتیں نبیوں، ولیوں اور خود حضور سید الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ پر چسپاں کرتے ہیں۔ان خبیثوں کے مذہب کاحاصل وہ ہے جوحضرت مولوی (مولانا روم) قدس سرہ نے مثنوی شریف میں فرمایا ہے انہوں نے نبیوں کے ساتھ برابری کا دعوٰی کھڑا کردیا اور اولیاء اﷲ کو اپنے جیسا سمجھ لیا ہے۔(ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔

( ۲ ؎ فتح القدیر کتاب الصلوۃ باب الامامۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۳۰۴)
(۱ ؎ تقویۃ الایمان الفصل الخامس مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص ۴۱)
(۲؂ مثنوی معنوی حکایت مردبقال الخ موسسۃ انتشارات اسلامی لاہور دفتراول ص ۵۸)