شرح کلام علماء و صوفیاء

حیات الحیوان کا مشکل مسئلہ

مسئلہ ۵: از جزیرہ کلمبو، مرسلہ حاجی محمد رئیس بوساطت سید حسین ابن سید عبداللہ بغدادی قادری ۔۱۲رمضان المبارک ۱۳۲۵ھ

فی حیاۃ الحیوان الکبری للعلامۃ الدمیری رحمہ اللہ تعالٰی الجزء الثانی ص۱۳۱باب العلق ، اذا ذکر العبدربہ او حمدہ فماذکر اللہ الا اللہ ولاحمداللہ الا اللہ۵؂۔ علامہ دمیری علیہ الرحمہ کی کتاب ”حیوٰۃ الحیوان الکبرٰی ”کے جزء ثانی باب العلق میں ہے ۔ت)جب بندہ اپنے رب کا ذکر یا حمد کرتاہے تو اللہ کا ذکر نہیں کرتا مگر اللہ اوراس کی حمد نہیں کرتا مگر وہی ۔

(۵؂ حیٰوۃ الحیوان الکبرٰی تحت اللفظ ”العلق” مصطفی البابی مصر ۲ /۷۱)

الجواب :
اللھم لک الحمد لا یحصی احد ثناء علیک انت کما اثنیت نفسک فان حق الثناء بحق المعرفۃ ولا یحیط بکنہ اللہ وصفات اللہ وکمال اللہ وجمال اللہ و جلال اللہ الا اللہ و لذٰلک لما امرنا ان تصلی علٰی نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رددنا الامر الیہ وکان امتثال امرہ بقولنا اللھم صل وسلم علیہ اذلا تضی بقدرہ العظیم الا صلوٰۃ ربہ الکریم۔اعلم ان لکل فعل یصدر من العبد و جہتین و جہتہ الی خالقہ عز وجل اذلا وجود لہ الا بہ و لیس للعبد من خلقہ شیئ ۔ ووجہتہ الٰی کاسبہ اذمنہ ظہر باظھار المولٰی سبحانہ و تعالٰی وھٰذہ الاخری ھی مناط الاستناد العام لغۃ و عرفا و شرعا۔ فلا یقال قام الا لمن قام بہ القیام لا لمن خلقہ لکن من الافعال مایصح صدورہ من الخالق عز وجل فیسوغ اسنادھا الیہ لارتفاع الایھام و الی العبد علٰی وجھہ العام و ذٰلک کحمد و شکر و وحد و ذکر لا کصلی و سجد و صام و عبد و قام وقعد لما تقدم و الاول الحقیقۃ والاخر الصورۃ فاذا صحت الحقیقۃ غلبت واضمحلت عندہ الصورۃ فصح نفیہ عن کاسبہ و قصر اسنادہ علی خالقہ و ذٰلک قولہ تعالٰی فلم تقتلوھم و لکن اللہ قتلہم۱؂، وما رمیت اذرمیت و لکن اللہ رمٰی ۲؂، فاثبت و نفی صورۃ ومعنی و ما توفیقی الا باللہ و ما تشاؤن الا ان یشاء اللہ۔ بل اذا نظرت بعین الحقیقۃ فلا وجود الا لہ عز جلا لہ کل شیئ ھالک الا وجھہ ھو الاول ھو الاٰخر و الظاھر و الباطن۔ وھذا سیدنا سواد ابن قارب رضی اللہ تعالٰی عنہ قائلا فیما عرضہ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم؂
فاشھد ان اللہ لا رب غیرہ وانت مامون علٰی کل غائب۳؂
وصار کلمۃ التوحید لا وجود فلا الہ الا اللہ للناسکین لا معبود الا اللہ وللسالکین لا مقصود الا اللہ و للواصلین لا مشھود الا اللہ و للکاملین لا موجود الا اللہ و الکل سدید و الکل توحید من دون اتحاد فانہ الحاد نسئل اللہ سبیل الرشاد فافھم۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ اے اللہ : تیرے لئے تعریف ہے کوئی تیری تعریف کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ تو ایسا ہی ہے جیسا تو نے اپنی تعریف کی۔ تعریف کا حق معرفت کے بعد ادا ہوتا ہے اور اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کی کنہ اور اس کے کمال ،جلال کے سوائے خدا کے اور کون جان سکتا ہے اسی لئے تو جب اللہ تعالٰی نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ تعالےٰ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کو کہا تو ہم نے بات اسی کی طرف لوٹا دی اورحکم کی بجا آوری یوں کی کہ یا اللہ! تو ہی اپنے رسول پر درود بھیج ، اس لئے کہ ان کے شایان درود تو ان کا رب کریم ہی بھیج سکتاہے ۔ جان لو کہ جو کام بھی بندے سے صادر ہوتاہے اس کی دو وجہیں ہیں : ایک رب تبارک وتعالٰی کی طرف کہ ہر شیئ کا خالق وہی ہے بندے کو خلق سے کوئی حصہ نہیں او رایک رخ کاسب کی طرف کیونکہ وہ فعل خدا کی قدرت سے اسی بندہ سے ظاہر ہوا۔ عام طور پر افعال کی نسبت کی بنیاد شریعت، نعت اورعرف عا م میں یہی آخری وجہ یعنی اکتساب کی ہے ۔ توقیام کے خالق کے لیے قام نہیں کہا جائے گا اس کے مباشر کے لیے کہا جائے گا لیکن بعض افعال ایسے ہیں کہ ان کا صدور رب تبارک وتعالٰی سے بھی ہوتاہے تو اس کی نسبت رب اوربندے دونوں کی طرف ہوسکتی ہے جس کو ہم نے اسناد عام سے تعبیر کیاکیونکہ یہاں کسی قسم کا ایہام پیدانہیں ہوتا اس کی مثال حمد ، شکر ، توحید بیان کرنا، ذکر کرنا ،ہدایت کرنا اوریاددلانا۔ صلوٰۃ ، سجدہ ، روزہ ، عبادت ، قیام وقعود ان افعال سے نہیں ۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ۔ پہلی نسبت حقیقی اوردوسری صوری ہے ۔ تو جب اسناد حقیقی صحیح ہوتو وہی غالب ہوجاتی ہے اوراسناد صوری مغلوب مضمحل ۔ ایسی صورت میں کاسب سے اس فعل کی نفی کر کے خالق کی طرف نسبت کردیجاتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن عظیم میں اللہ تعالٰی نے فرمایا : ”کافروں کو تم نے قتل نہیں کی اہم نے قتل کیا ۔”یا رسول اللہ !آپ نے کنکری نہیں پھینکی ہم نے پھینکی”پس نفی ازروئے صورت ہے اوراثبات ازروئے حقیقت ہے ۔ اسی طرح ماتوفیقی الا باللہ وماتشاؤون الا ان یشاء اللہ ہے ۔بلکہ نگاہ حقیقت بیں سے دیکھو گے تو اللہ کے علاوہ کسی کا وجود ہی نہیں ۔ ”اللہ کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے ۔”وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن ۔”ہمارے سردار سواد ابن قارب رضی اللہ تعالٰی عنہ سرکار(صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم )کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: اللہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں اورآپ ہر غائب پر مامو ن ہیں۔
غورکیجئے کلمہ کا نام کلمہ توحید ہے نہ کلمہ وجود ، تو اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے ہی نہیں تو عبادت کرنے والے کہتے ہیں لا معبود الا اللہ اورسالکین کہتے ہیں لامشھود الا اللہ اورکاملین کہتے ہیں کہ لاموجود الا اللہ سب درست ہے اورسب توحید ہے اتحاد کے بغیر کیونکہ وہ توالحاد ہے ہم اللہ سے ہدایت کا راستہ چاہتے ہیں ، پس غور کرو ۔واللہ تعالٰی اعلم

(۱؂ القرآن الکریم ۸/ ۱۷) (۲؂ القرآن الکریم ۸/ ۱۷)
(۲؂ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ترجمہ سواد بن قارب الدوسی ۱۱۱۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/ ۲۳۴)