مسئلہ ۴۶:۱۰ شوال ۱۳۱۲ ہجریہ قدسیہ : اس مسئلہ میں علمائے دین کیا فرماتے ہیں کہ ایک اہلِ اسلام اور ایک ہنود کو حاجت غسلِ جنابت ہے اُن دونوں کا آبِ غسل پاک ہے یا کچھ فرق ہے؟ ایک اہلِ اسلام نے اپنی بی بی سے صحبت کی اور غسل کیا وہ پانی پاک ہے یانہیں؟ اور ہنود نے بھی ایسا ہی کیا ہے اُس کے غسل کا پانی جو مستعمل ہو کر گرا ہے پاک ہے یا ناپاک؟اور ان دونوں کے پانی میں فرق ہے یا نہیں؟ بینّوا توجّروا۔
الجواب: اگر شرعی طور پر نہائے کہ سر سے پاؤں تک تمام بدن ظاہر پر پانی بَہ جائے اور حلق کی جڑ تک سارامنہ اور ناک کے نرم بانسے تک ساری ناک دُھل جائے تو کافر کی جنابت اُتر جائے گی ورنہ نہیں،
فی التنویر والدر والشامی یجب علی من اسلم جنبا اوحائضاوالابان اسلم طاھرا ۱؎ (ای من الجنابۃ والحیض والنفاس ای بان کان اغتسل) فمندوب انتھی ۲؎ ملخصا۔
تنویر، در اور شامی میں ہے کہ واجب ہے اس شخص پر جو اسلام لایاجنابت کی حالت میں یا عورت اسلام لائی حیض کی حالت میں، ورنہ اگر پاکی کی حالت میں اسلام لایا (یعنی جنابت، حیض اور نفاس سے پاک ہونے کی حالت میں، اگر ناپاک تھا تو غسل کرلیا) تو مندوب ہے انتہی ملخصا۔ (ت(
(۱؎ الدرالمختار موجبات الغسل مجتبائی دہلی ۱/۳۲)
(۲؎ ردالمحتار موجبات الغسل مصطفی البابی مصر ۱/۱۲۴)
اکثر جسم(۱) پر پانی بہ جانا اگرچہ کفّار کے نہانے میں ہوتا ہو اور بے تمیزی سے منہ بھر کر پانی پینے میں سارا مُنہ بھی حلق تک دُھل جاتا ہو مگر ناک میں پانی بے چڑھائے ہرگز نہیں جاتااور خود ایسا کیوں کرتے کہ پانی سُونگھ کر چڑھائیں لہٰذا اس چھپ چھپ کرلینے سے جو کفار کرلیا کرتے ہیں اُن کا غسل نہیں اُترتا۔
ع: ہرچہ شوئی پلید تر باشد
فی الحلیۃ عن السیر الکبیر للامام محمد ینبغی للکافر اذا اسلم ان یغتسل غسل الجنابۃ ولا یدرون کیفیۃ الغسل ۳؎ اھ وفیھاعن الذخیرۃ الاتری ان فرضیۃ المضمضۃ والاستنشاق خفیت علی کثیر من العلماء فکیف علی الکفار ۱؎۔
حلیہ میں امام محمد کی سیر کبیر سے منقول ہے کہ اگر کافر اسلام لائے تو اس پر لازم ہے کہ غسلِ جنابت کرے، اور وہ غسل کی کیفیت نہیں جانتے اھ اور اس میں ذخیرہ سے منقول ہے کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کی فرضیت بہت سے علماء پر مخفی رہی تو کافروں کا کیا کہنا۔ (ت(
(۳؎ حلیہ) (۱؎ حلیہ)
نمازی محتاط مسلمانوں کے غسل کا پانی پاک ہے اگرچہ دوبارہ اُس سے غسل یا وضو نہیں ہوسکتا مگر وہ خود پاک ہے کپڑے وغیرہ کو لگ جائے تو نمازجائز ہے اور دھونے کی حاجت نہیں اور جس کے بدن پر نجاست لگی ہونا تحقیق ہو اس کے بدن کا پانی نجس ہے اور تحقیق نہ ہو تو بے نمازی بے احتیاط کے آب وغسل میں شُبہ ہے اُس سے بچنااولیٰ ہے نہ کہ کافر کہ اُن کے تو پاجاموں رانوں میں چھٹنکیوں پیشاب ہوتا ہے ان کا آبِ غسل مکروہ ہے پھر بھی ناپاکی کا حکم نہ دیں گے جب تک تحقیق نہ ہو کما حققناہ فی الاحلی من السکر واللّٰہ تعالی اعلم (جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ احلی من السکر میں اس کی تحقیق کی ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ ت(