مسئلہ ۴۵: ۲ جمادی الآخرہ ۱۳۳۴ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وضو نہر سے افضل ہے یا حوض سے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: وضو نہر سے افضل ہے مگر کسی مصلحتِ خاصہ کے باعث۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کسی معتزلی کے سامنے اُسے غیظ پہنچانے کو حوض سے وضو افضل ہے کہ معتزلہ اسے ناجائز کہتے ہیں۔
فتح القدیر میں ہے:فی فوائد الرستغفنی التوضی بماء الحوض افضل من النھر لان المعتزلۃ عہ۱ لایجیزونہ من الحیاض فیرغمھم بالوضوء منھا اھ وھذا انما یفید الافضلیۃ لھذا العارض ففی مکان لایتحقق النھر افضل ۱؎ اھ
فوائد الرستغفنی میں ہے نہر کی بہ نسبت حوض سے وضو کرناافضل ہے کیونکہ معتزلہ حوضوں سے وضو کو جائز قرار نہیں دیتے ہیں اس طرح ان کی تذلیل ہوگی اھ اس سے افضل ہونے کی یہ عارضی وجہ معلوم ہوتی ہے جہاں یہ وجہ نہ ہو وہاں نہر سے وضو افضل ہوگا۔ (ت(
(۱؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء ومالایجوزبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۲)
عہ۱: فی المعراج بناء علی جزء لایتجزء فانہ عند اھل السنۃ موجود فتصل اجزاء النجاسۃ الی جزء لایمکن تجزئتہ فیکون باقی الحوض طاھراوعند المعتزلۃ معدوم فیکون کل الماء مجاورا للنجاسۃ فیکون الحوض نجسا عندھم وفی ھذا التقریر نظر اھ قال ش فی توضیحہ عند الفلاسفۃ کل جسم قابل لانقسامات غیر متناھیۃ فلا یوجد جزء من الطاھر الا ویقابلہ جزء من النجاسۃ فتصل اجزاء النجاسۃ بجمیع اجزاء الماء اھ
معراج میں ہے یہ جزء لایتجزی پر مبنی ہے، کیونکہ یہ اہل السنۃ کے نزدیک موجود ہے تو نجاست کے اجزاء ایسے جزء تک پہنچیں گے جو منقسم نہیں ہوتا ہے، تو باقی حوض طاہر رہے گا اور معتزلہ کے نزدیک جزء نہیں ہے اس لئے کل پانی نجاست کا پڑوسی ہوگا، تو ان کے نزدیک حوض نجس ہوگا،اس تقریر میں نظر ہے اھ “ش” نے اس کی توضیح میں فرمایا فلاسفہ کے نزدیک ہر جسم لامتناہی تقسیم کو قبول کرتا ہے تو پاک پانی کے ہر جزء کے مقابل ایک ناپاک جزء ہوگا تو اجزاء نجاست تمام اجزاء پانی کے ساتھ متصل ہوجائیں گے اھ
اقول اولا: این(۱) القابلیۃ من الفعلیۃ والجسم عندھم متصل بالفعل فلایلاقی الامالاقی وثانیالوقسم(۲) لم یلزم ایضااتصال اجزاء النجاسۃ بجمیع اجزاء الماء لان الانصاف علی نسبۃ الاضعاف فاذا کانت النجاسۃ قدر اصبع والماء الف ذراع فنصفھا نصف اصبع وشطرہ خمسمائۃ ذراع وھکذا الی مالایتناھی وتساوی التقسیم لایستلزم تساوی الاقسام فیما بینہما الاتری ان ایام الابد و سنیہ کلا غیر متناہ والیوم لایساوی السنۃ ابدا وکفی بھذین لتوجیہ النظر ووجہہ ش بما توضیحہ مع تلخیصہ ان لوبنیت المسألۃ علیہ لماتنجس عندنا من الماء الا مایساوی النجاسۃ حجما فقطرۃ بقطرۃ ونصفھا بنصفھا۔
میں کہتا ہوں قابلیۃ اور فعلیۃ میں بہت فرق ہے، اور جسم ان کے نزدیک متصل بالفعل ہے تو وہ صرف اسی سے ملے گا جس سے ملا ہوا ہے،اور ثانیاً اگر تقسیم بھی کیا جائے تو لازم نہیں آتاکہ نجاست کے تمام اجزاء پانی کے تمام اجزاء سے متصل ہوں کیونکہ انصاف اَضعاف کی نسبت کے مطابق ہی ہوگا، مثلاً نجاست ایک انگلی کی مقدار ہے اور پانی ہزار ذراع ہے، تو اس کا نصف آدھی انگلی ہوا اور اس کا آدھا پانسو ذراع ہوا اور اسی طرح الیٰ مالا نہایۃ تک ہوگا، اور تقسیم کی تساوی سے اقسام کی تساوی لازم نہیں آتی ہے، مثلا ابد کے ایام اور سال غیر متناہی ہیں اور ایک دن ہرگز بھی ایک سال کے برابر نہیں ہوسکتا ہے اوریہ دونوں نظر کی توجیہ کو کافی ہیں اور “ش” نے اس کی جو توجیہ کی ہے اس کی تلخیص مع توضیح یہ ہے کہ اگر مسئلہ اسی پر مبنی ہو تو ہمارے نزدیک صرف اتنا ہی پانی نجس ہوگا جتنا کہ نجاست کے مساوی ہے، تو ایک قطرہ ایک قطرہ ہی کے مقابل ہوگا اور نصف اس کے نصف کے مقابل ہوگا۔
اقول: وایضا یلزم المعتزلۃ لوقالوا بہ تنجیس البحر العظیم بقطیرۃ قال علی ان المشہور ان الخلاف فی الجزء بین المسلمین والفلاسفۃ بنواعلیہ قدم للعالم وعدم حشر الاجساد والمعتزلۃ لم یخالفوا فی شیئ من ذلک والا لکفروا اھ
میں کہتا ہوں اگر معتزلہ کا یہی قول ہوتاتو ان پر یہ لازم آتا کہ ایک قطرہ سے پورا سمندر ناپاک ہوجائے، انہوں نے فرمایا علاوہ ازیں مشہور یہ ہے کہ اختلاف جزء میں فلسفیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہے،اور فلاسفہ نے اس پر عالم کے قدم اور حشر ونشر کی نفی کی بنیاد رکھی ہے اور معتزلہ نے ان چیزوں میں کسی کی مخالفت نہیں کی ہے ورنہ وہ کافر قرار پاتے اھ
اقول: لیس(۱) نفی الجزء کفرا ولا لازم المذھب مذھبا لاسیما تلک اللوازم البعیدۃ وکم من لزوم علی مذاھب المعتزلۃ القائلین بھا قطعا ثم لم یکفروافلیکن ھذا منھا فکیف یرد نقل الثقۃ علی انہ یکفی(۲) فیہ ان یکون قول بعضھم کما قال تعالی قالت الیھود عزیرن ابن اللّٰہ قالوا قالھا طائفۃ قلیلۃ منھم کانت وبانت قال فالاولی ماقیل من بناء المسئلۃ علی ان الماء یتنجس عندھم بالمجاورۃ وعندنا لابل بالسریان وذلک یعلم بظھور اثرھا فیہ فمالم یظھر لایحکم بالنجاسۃ ھذا ما ظھر لی فاغتنمہ اھ
میں کہتا ہوں جزء کی نفی کفر نہیں ہے اور نہ ہی لازم مذہب،مذہب ہوتا ہے، خاص طور پر یہ لوازم بعیدہ،اور جو معتزلی مذہب رکھتے ہیں ان پر بہت سے لوازم ہیں، مگر ان کی تکفیر نہیں کی جاتی ہے، سو یہ لازم بھی منجملہ ایسے لوازم کے ہو جائے، تو ثقہ کی نقل کو کیسے رد کیا جائے، علاوہ اس کے اس میں اتنا کافی ہے کہ یہ بعض کا قول ہو، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے ”یہود نے کہا کہ عزیراللہ کے بیٹے ہیں” علماء فرماتے ہیں یہ صرف ایک گروہ کا قول تھا اور یہ فرقہ ختم ہوگیا، فرمایا بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ مسئلہ اس امر پر مبنی ہے کہ پانی ان کے نزدیک مجاورۃ کی وجہ سے ناپاک ہوجاتا ہے، اور ہمارے نزدیک سرایت کی وجہ سے، اور اس کا پتا اس سے لگتا ہے کہ اس کا اثر پانی میں ظاہر ہوتا ہے، تو جب تک اثر ظاہر نہ ہو نجاست کا حکم نہ لگایا جائے گا، یہ مجھ پر ظاہر ہوا ہے تم اس کو غنیمت جانو۔
اقول: نص فی(۲) البدائع ان التنجس بالتجاور وبینا(۳) فی النمیقۃ الانقی ان الماء القلیل یتنجس معالا بالسریان علی انھم(۴) اذلم یفرقوا بین القلیل والکثیر یلزمھم بالمجاورۃ ایضا تنجیس البحر الکبیر برشح یسیر(۲) فالحق عندی ان ذلک مبنی علی انھم لایلحقون الکثیر بالجاری واللّٰہ تعالٰی اعلم اھ منہ حفظہ ربہ تعالٰی۔ (م(
میں کہتا ہوں بدائع میں اس کی تصریح کی ہے کہ نجس ہونے کی وجہ مجاورۃ ہے اور ہم نے النمیقۃ الانقی میں بیان کیا ہے کہ تھوڑا سا پانی یک دم ناپاک ہوجاتا ہے نہ کہ سرایت سے، علاوہ ازیں انہوں نے قلیل وکثیر میں فرق نہیں کیا ہے، ان پر یہ لازم ہے کہ وہ کہیں ایک بڑے سمندر کا پانی بھی مجاورۃ سے ناپاک ہوجاتا ہے خواہ تھوڑے سے چھینٹے کیوں نہ ہوں، میرے نزدیک حق یہ ہے کہ وہ کثیر پانی کو جاری کے ساتھ ملحق نہیں کرتے ہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت(
اقول: اس مصلحت سے اہم دفع تہمت ہے کہ معاذ اللہ لوگوں کو اس پر اتباع معتزلہ کا گمان ہو اس کے دفع کیلئے ایسا کرے اس(۱)کی نظیر مسح موزہ ہے کہ رافضی خارجی ناجائز جانتے ہیں اگر کسی کو اس پر گمان خروج ہو تو اس کے دفع کو مسح موزہ افضل ورنہ فی نفسہٖ پاؤں دھونا افضل۔
دُرمختار میں ہے:الغسل افضل الالتھمۃ فھو افضل ۲؎۔ موزے پر مسح سے پاؤں دھونا افضل ہے مگرتہمت سے بچنے کیلئے مسح افضل ہے۔ (ت(
(۲؎ درمختار باب المسح علی الخفین مجتبائی دہلی ۱/۴۶)
ردالمحتار میں ہے:لان الروافض والخوارج لایرونہ وانما یرون المسح علی الرجل فاذا مسح الخف انتفت التھمۃ بخلاف مااذا غسل فان الروافض قدیغسلون تقیۃ فیشتبہ الحال فی الغسل فیتھم افادح ۱؎۔
رافضی خارجی پاؤں پر مسح کرتے ہیں اگر موزے پر مسح کرے گا تو تہمت ختم ہوجائے گی بخلاف اس کے کہ جب وہ دھوئے گا کہ رافضی تقیہ سے دھو بھی لیتے ہیں غسل کی صورت میں صورت حال مشتبہ ہوجاتی ہے توتہمت کا خدشہ ہوگا افادح (ت(
(۱؎ ردالمحتار باب المسح علی الخفین مصر ۱/۱۹۳)
اقول: رافضی تقیہ سے سب کچھ کرلیتے ہیں یوں ہی وہابی مجالس میلاد مبارک میں جائیں قیام کریں گیارھویں شریف کی نیاز میں حاضر ہوں پلاؤ کھانے کو موجود اور دل میں شرک وحرام، لہٰذا ہم نے نفی تہمت خروج سے تصویر کی۔
قال ش ماذکرہ الشارح نقلہ القھستانی عن الکرمانی ثم قال لکن فی المضمرات وغیرہ ان الغسل افضل وھوالصحیح کمافی الزاھدی اھ وفی البحر عن التوشیح ھذا مذھبنا وقال الرستغفنی المسح افضل ۲؎ اھ
“ش” نے فرمایا جو شارح نے ذکر کیا ہے اس کو قہستانی نے کرمانی سے نقل کیا ہے پھر فرمایا لیکن مضمرات وغیرہ میں ہے کہ غسل افضل ہے اور یہی صحیح ہے جیسا کہ زاہدی میں ہے اھ اور بحر میں تو شیح سے منقول ہے ”یہ ہمارا مذہب ہے” اور الرستغفنی نے کہا کہ مسح افضل ہے اھ (ت(
(۲؎ ردالمحتار باب المسح علی الخفین مصر ۱/۱۹۳)
اقول: ھذاسبق نظرانمانقل عن الکرمانی التخییربین الغسل والمسح ونقل اولویۃ المسح عن الذخیرۃ ثم ھولایمس(۱) ماذکرالشارح فان کلامہ عند وجود التھمۃ والذی فی الذخیرۃ وغیرھا اولویۃ المسح حکما مطلقاوعلیہ یرد التصحیح المذکور واللّٰہ تعالی اعلم۔
میں کہتا ہوں ان کی نظر چُوک گئی ہے، کرمانی سے تو یہ نقل کیا ہے کہ غَسل اور مسح میں اختیار ہے اور ذخیرہ سے مسح کی اولویت نقل کی ہے پھر یہ اس کے مطابق نہیں ہے جس کو شارح نے ذکر کیا ہے کیونکہ ان کاکلام وجوہِ تہمت کے متعلق ہے اور جو ذخیرہ وغیرہ میں ہے وہ مسح کے اولیٰ ہونے کا مطلق حکم ہے اور اسی پر مذکور تصحیح وارد ہوتی ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت(
ثم اقول: اُس سے بھی اہم دفع وسوسہ ہے اگر کوئی شخص وسوسہ میں مبتلا ہو حوض سے وضو کرتے کراہت رکھتا ہو اُسے حوض ہی سے وضو افضل ہے کہ قطع وسوسہ ہو ورغم الشیطان اھم من رغم المعتزلی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔