سایہ رسول کریم, فتاوی رضویہ, فضائل و خصائص

حضور علیہ السلام کا سایہ تھایانہیں ؟

رسالہ
نفی الفیئ عمن استنا ربنورہ کل شیئ(۱۲۹۶ھ)
(ا س ذات اقدس کے سائے کی نفی جس کے نور سے ہر مخلوق منور ہوئی)

مسئلہ۴۳ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم کے لئے سایہ تھایانہیں ؟ بینواتوجروا (بیان فرمائیے اجردئے جاؤ۔ت)

الجواب
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ط الحمدللہ الذی خلق قبل الاشیاء نور نبینا من نورہ وفلق الانوار جمیعا من لمعات ظھورہ فھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نورالانواروممد جمیع الشموس والاقمارسماہ ربہ فی کتابہ الکریم نورا وسراجا منیرا فلولا انارتہ لما استنارت شمس ولا تبین یوم من امس ولا تعین وقت للخمیس صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلی المستنیرین بنورہ المحفوظین عن الطمس جعلنا اللہ تعالٰی منھم فی الدنیا ویوم لا یسمع الا ھمس۔

ہم اللہ کی حمدبیان کرتے ہیں اوراس کے رسول کریم پر درود بھیجتے ہیں ۔ تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کیلئے ہیں جس نے تمام اشیاء سے قبل ہمارے نبی کے نور کو اپنے نور سے بنایا ، اورتمام نوروں کے آپ کے ظہور کے جلووں سے بنایا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام نوروں کے نور اورہر شمس وقمر کے ممدہیں ۔ آپ کے رب نے اپنی کتاب کریم میں آپ کانام نور اورسراج منیر رکھا ہے ۔ اگر آپ جلوہ فگن نہ ہوتے تو سورج روشن نہ ہوتا ، نہ آج کل سے ممتاز ہوتااورنہ ہی خمس کے لئے وقت کا تعین ہوتا۔ اللہ تعالٰی آپ پر درودنازل فرمائے اور آپ کے نور سے مستنیر ہونے والوں پر جو مٹ جانے سے محفوظ ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں ان سے بنائے دنیا میں اوراس دن جس میں نہیں سنائی دے گی مگر بہت آہستہ آواز۔(ت)

بیشک اس مہر سپہر اصطفاء ماہ منیر اجتباء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا،اور یہ امر احادیث واقوال علماء کرام سے ثابت اوراکابر ائمہ وجہابذفضلاء مثل حافظ رزین محدث وعلامہ ابن سبع صاحب شفاء الصدور وامام علامہ قاضی عیاض صاحب کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفٰی وامام عارف باللہ سیدی جلال الملۃ والدین محمد بلخی رومی قدس سرہ، وعلامہ حسین بن دیار بکری واصحاب سیرت شامی وسیرت حلبی وامام علامہ جلال الملّۃ والدین سیوطی وامام شمس الدین ابوالفرج ابن جوزی محدث صاحب کتاب الوفاء وعلامہ شہاب الحق والدین خفاجی صاحب نسیم الریاض وامام احمد بن محمد خطیب قسطلانی صاحب مواہب لدنیہ ومنہج محمدیہ وفاضل اجل محمد زرقانی مالکی شارح مواہب وشیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی وجناب شیخ مجدد الف ثانی فاروقی سرہندی وبحرالعلوم مولانا عبدالعلی لکھنوی وشیخ الحدیث مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی وغیرہم اجلہ فاضلین ومقتدایان کہ آج کل کے مدعیان خام کا رکوان کی شاگردی بلکہ کلام سمجھنے کی بھی لیاقت نہیں ، خلفاً عن سلف دائماً اپنی تصنیف میں اس کی تصریح کرتے آئے اورمفتی عقل وقاضی نقل نے باہم اتفاق کر کے اس کی تاسیس وتشیید کی۔

فقد اخرج الحکیم الترمذی عن ذکوان ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل فی شمس ولا قمر ۱؂۔

حکیم ترمذی نے ذکوان سے روایت کی کہ سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نظر نہ آتا تھا دھوپ میں نہ چاندنی میں ۔

(۱؂الخصائص الکبرٰی بحوالہ الحکیم الترمذی باب الآیۃ فی انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۶۸)

سیدنا عبداللہ بن مبارک اورحافظ علامہ ابن جوزی محدث رحمہمااللہ تعالٰی حضرت سیدنا وابن سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کرتے ہیں :

قال لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ، ولم یقم مع شمس قط الاغلب ضؤوہ ضوء الشمس ، ولم یقم مع سراج قط الاغلب ضوؤہ علی ضوء السراج۱؂۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا ، اور نہ کھڑے ہوئے آفتاب کے سامنے مگر یہ ان کا نور عالم افروز خورشید کی روشنی پر غالب آگیا، اورنہ قیام فرمایا چراغ کی ضیاء میں مگر یہ کہ حضورکے تابش نور نے اس کی چمک کو دبالیا۔

(۱؂الوفاء باحوال المصطفٰی الباب التاسع والعشرون مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۴۰۷)

امامِ علام حافظ جلال الملۃ والدین سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی نے کتاب خصائصِ کُبرٰی میں اس معنی کے لئے ایک باب وضع فرمایا اوراس میں حدیث ذکوان ذکر کے نقل کیا: قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لایقع علی الارض وانہ کان نورا فکان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لاینظر لہ ظل قال بعضھم ویشھد لہ حدیث قول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نورا۲؂۔

یعنی ابن سبع نے کہا حضور کے خصائص کریمہ سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا اورآپ نو رمحض تھے ، تو جب دھوپ یا چاندنی میں چلتے آپ کا سایہ نظر نہ آتا ۔ بعض علماء نے فرمایا اس کی شاہد ہے وہ حدیث کہ حضور نے اپنی دعا میں عرض کیا کہ مجھے نور کردے۔

(۲؂الخصائص الکبرٰی باب الآیۃ انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۶۸)

نیز انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باب ثانی فصل رابع میں فرماتے ہیں : لم یقع ظلہ علی الارض ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نوراقال رزین لغلبۃ انوارہ۳؂۔

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہ پڑا ، حضور کا سایہ نظر نہ آیا نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں ۔ ابن سبع نے فرمایا اس لئے کہ حضور نور ہیں ۔امام رزین نے فرمایا اس لئے کہ حضور کے انوار سب پر غالب ہیں۔

(۳؂انموذج اللبیب)

امام علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی شفاء شریف میں فرماتے ہیں : وما ذکر من انہ کان لاظل لشخصہ فی شمس ولا قمر لانہ کان نوراً ۱؂۔

یعنی حضور کے دلائل نبوت وآیات رسالت سے ہے وہ بات جو مذکور ہوئی کہ آپ کے جسم انور کا سایہ نہ دھوپ میں ہوتا نہ چاندنی میں اس لئے کہ حضور نور ہیں۔

(۱؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن ذٰلک ماظہر من الآیات دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۲۲۵)

علامہ شہاب الدین خفاجی رحمہ اللہ تعالٰی اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں : دھوپ اورچاندنی اورجو روشنیاں کہ ان میں بسبب اس کے کہ اجسام ، انوار کے حاجب ہوتے ہیں لہذا ان کا سایہ نہیں پڑتا جیساکہ انوار حقیقت میں مشاہدہ کیا جاتاہے ۔ پھر حدیث کتاب الوفاء ذکر کر کے اپنی ایک رباعی انشاد کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سایہ احمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دامن بسبب حضور کی کرامت وفضیلت کے زمین پر نہ کھینچا گیا اورتعجب ہے کہ باوجود اس کے تمام آدمی ان کے سایہ میں آرام کرتے ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں : بہ تحقیق قرآن عظیم ناطق ہے کہ آپ نور روشن ہیں اورآپ کا بشر ہونا اس کے منافی نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا، اگر تو سمجھے تو وہ نور علی نور ہیں۔ وھذا ما نصّہ الخفاجی (خفاجی کی عبارت یہ ہے ) : (و) ومن دلائل نبوتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (ماذکر) بالبناء للمجہول والذی ذکرہ ابن سبع (من انہ) بیان لما الموصولۃ (لاظل لشخصہ )ای لجسدہ الشریف اللطیف اذا کان (فی شمس ولاقمر)مما ترٰی فیہ الظلال لحجب الاجسام ضوء النیراین ونحوھما وعلل ذٰلک ابن سبع بقولہ (لانہ ) صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (کان نورا)والانوار شفافۃ لطیفۃ لاتحجب غیر ھا من الانوار فلاظل لھا کما ھو مشاھد فی الانوار الحقیقۃ وھذا رواہ صاحب الوفاء عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع شمس الا غلب ضوؤہ ضوئھا ولا مع سراج الا غلب ضوؤہ ضوؤہ وقد تقدم ھٰذا والکلام علیہ ورباعیتھافیہ
وھی : ؎ ماجر لظل احمد اذیال
فی الارض کرامۃ کما قد قالوا
ھذا عجب وکم بہ من عجب
والناس بظلہ جمیعا قالوا”
وقالواھذا من القیلولۃ وقد نظق القراٰن بانہ النورالبمین وکونہ بشرا لا ینافیہ کما توھم فان فھمت فھو نور علی نور فان النور ھو الظاھر بنفسہ المظھر لغیرہ وتفصیلہ فی مشکوٰۃ الانوار ۱؂ انتھٰی۔

حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دلائل نبوت سے ہے وہ جو کہ مذکورہوا ، اوروہ جو ابن سبع نے ذکر فرمایا کہ آپ کے تشخص یعنی جسم اطہر ولطیف کا سایہ نہ ہوتا جب آپ دھوپ اورچاندنی میں تشریف فرماہوتے یعنی وہ روشنیاں جن میں سائے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اجسام، شمس وقمر وغیرہ کی روشنی کے لئے حاجب ہوتے ہیں ۔ ابن سبع نے اس کی علت یہ بیان کی کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور ہیں اورانوار شفاف ولطیف ہوتے ہیں وہ غیر کے لئے حاجت نہیں ہوتے اوران کا سایہ نہیں ہوتا جیسا کہ انوار حقیقت میں دیکھاجاتاہے ۔ اس کو صاحب وفاء نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا ، نہ کھڑے ہوئے آپ کبھی سورج کے سامنے مگر آپ کا نور سورج پر غالب آگیا، اورنہ قیام فرمایا آپ نے چراغ کے سامنے مگر آپ کا نور چراغ کی روشنی پر غالب آگیا۔یہ اوراس پر کلام پہلے گزر چکا ہے اوراس سلسلہ میں رباعی جو کہ یہ ہے : ”حضرت امام الانبیاء احمد مجتبٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سایہئ اقدس نے آپ کی کرامت وفضیلت کی وجہ سے دامن زمین پر نہیں کھینچاجیسا کہ لوگوں نے کہا ۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ عدم سایہ کے باوجود سب لوگ آپ کے سایہ رحمت میں آرام کرتے ہیں ۔”
یہاں قالوا، قیلولہ سے مشتق ہے (نہ کہ قول سے ) تحقیق قرآن عظیم ناطق ہے کہ آپ نور روشن ہیں اورآپ کا بشرہونا اس کے منافی نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا ۔ اگر تو سمجھے توآپ نور علی نور ہیں ،کیونکہ نور وہ ہے جو خود ظاہر ہوں اوردوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو۔ اس کی تفصیل مشکوۃ الانوار میں ہے ۔ (ت)

(۱؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۳ /۲۸۲)

حضرت مولوی معنوی قدس سرہ القوی دفتر پنجم مثنوی شریف میں فرماتے ہیں : ؎

چوں فنانش از فقر پیرایہ شود
اومحمد داربے سایہ شود۱؂

(جب اس کی فنا فقر سے آراستہ ہوجاتی ہے تو وہ محمدمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرح بغیر سایہ کے ہوجاتاہے ۔ت)

(۱؂مثنوی معنوی درصفت آں بیخود کہ دربقای حق فانی شدہ است دفترپنجم نورانی کتب خانہ پشاور ص۱۹)

مولانا بحرالعلوم نے شرح میں فرمایا : درمصرع ثانی اشارہ بمعجزئہ آن سرور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ آن سرور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راسایہ نمی افتاد۲؂۔

دوسرے مصرعے میں سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معجزے کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتاتھا۔(ت)

امام علامہ احمد بن محمد خطیب قسطلانی رحمہ اللہ تعالٰی مواہب لدنیہ ومنہج محمدیہ میں فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا دھوپ میں نہ چاندی میں ۔ اسے حکیم ترمذی نے ذکوان سے پھر ابن سبع کا حضور کے نور سے استدلال اور حدیث اجعلنی نوراً (مجھے نور بنادے ۔ ت) سے استشہادذکر کیا۔ حیث قال (امام قسطلانی نے فرمایا۔ت) : لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی شمس ولا قمر رواہ الترمذی عن ذکوان ، وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نوراً فکان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لایظھر لہ ظل قال غیرہ ویشھد لہ قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نورا۳؂۔

دھوپ اورچاندنی میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاسایہ نہ ہوتا ۔ اس کو ترمذی نے ذکوان سے روایت کیا۔ ابن سبع نے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور تھے ، جب آپ دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو سایہ ظاہر نہ ہوتا ۔ اس کے گیر نے کہا اس کا شاہد نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وہ قول ہے جو آپ دعا میں کہتے کہ اے اللہ ! مجھے نور بنادے۔(ت)

(۳؂المواھب اللدنیۃ المقصد الثالث الفصل الاول المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۳۰۷)

اسی طرح سیرت شامی میں ہے : وزاد عن الامام الحکیم قال معناہ لئلایطأعلیہ کافر فیکون مذلۃ لہ۱؂۔

یعنی امام ترمذی نے یہ اضافیہ کیا: اس میں حکمت یہ تھی کہ کوئی کافر سایہ اقدس پر پاؤں نہ رکھے کیونکہ اس میں آپ کی توہین ہے۔

(۱؂سبل الہدٰی والرشادالباب العشرون فی مشیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۹۰)

اقول : سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما تشریف لئے جاتے تھے ، ایک یہودی حضرت کے گرد عجب حرکات اپنے پاؤں سے کرتاجاتاتھااس سے دریافت فرمایا،بولا :بات یہ ہے کہ اورتوکچھ قابو ہم تم پر نہیں پاتے جہاں جہاں تمہاراسایہ پڑتاہے اسے اپنے پاؤں سے روندتا چلتاہوں۔ ایسے خبیثوں کی شرارتوں سے حضرت حق عزجلالہ، نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو محفوظ فرمایا۔ نیز اسی طرح سیرت حلبیہ میں قدرمافی شفاء الصدور۔
محمد زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح میں فرماتے ہیں : حضور کے لئے سایہ نہ تھا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حضور نور ہیں ، جیسا کہ ابن سبع نے کہا اورحافظ رزین محدث فرماتے ہیں :سبب اس کا یہ تھا کہ حضور کا نور ساطع تمام انوار عالم پر غالب تھا ، اور بعض علماء نے کہا کہ حکمت اس کی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بچانا ہے اس سے کہ کسی کافر کا پاؤں ان کے سایہ پر نہ پڑے ۔ وھذا کلامہ برمہ (زرقانی کی اصل عبارت) : (ولم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل فی شمس ولاقمر لانہ کان نورا کما قال ابن سبع وقال رزین لغلبۃ انوارہ قیل وحکمۃ ذالک صیانتہ عن ان یطأکافر علی ظلہ (رواہ الترمذی الحکم عن ذکوان )ابی صالح السمان الزیات المدنی اوابی عمرو المدنی مولی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا وکل منھما ثقۃ من التابعین فھو مرسل لکن روی ابن المبارک وابن الجوزی عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما لم یکن للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع الشمس قط الاغلب ضوؤہ ضوء الشمس ولم یقم مع سراج قط الا غلب ضوؤہ ضوء السراج (وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور افکان اذا مشٰی فی الشمس والقمر لایظھر لہ ظل) لان النور لا ظل لہ (قال غیرہ ویشھدلہ قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ)لما سئل اللہ تعالٰی ان یجعل فی جمیع اعضائہ وجہاتہ نوراً ختم بقولہ (واجعلنی نورا)والنور لاظل لہ وبہ یتم الا ستشہاد ۱؂ انتہٰی ۔)

حضورانور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا نہ دھوپ میں اورنہ ہی چاندنی میں ، کیونکہ آپ نور ہیں جیسا کہ ابن سبع نے فرمایا ۔ رزین نے فرمایا عدم سایہ کا سبب آپ کے انوار کا غلبہ ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اس کی حکمت آپ کو بچانا ہے اس بات سے کہ کوئی کافر آپ کے سایہ پر اپنا پاؤں رکھے ۔ اس کو حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے زکوان ابوصالح السمان زیات المدنی سے یاسیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے آزاد کردہ غلام ابو عمروالمدنی سے اوروہ دونوں ثقہ تابعین میں سے ہیں ، چنانچہ یہ حدیث مرسل ہوئی ، مگر ابن مبارک اورابن جوزی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا ، آپ کبھی بھی سورج کے سامنے جلوہ افروز نہ ہوئے مگر آپ کا نور سوج کے نور پر غالب آگیا اور نہ ہی کبھی آپ چراغ کے سامنے کھڑے ہوئے مگر آپ کی روشنی چراغ کی روشنی پرغالب آگئی ۔ابن سبع نے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور تھے۔ آپ جب دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نمودار نہ ہوتا کیونکہ نور کا سایہ نہیں ہوتا ، اس کے غیر نے کہا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دعائیہ کلمات اس کے شاہد ہیں جب آپ نے اللہ تعالٰی سے سوال کیا کہ وہ آپ کے تمام اعضاء اورجہات کو نور بنادے ، اورآخر میں یوں کہا اے اللہ ! مجھے نور بنادے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ اسی کے ساتھ استدلال تام ہوا۔ (ت)

(۱؂شرح الزرقانی المواھب اللدنیۃ المقصد الثالث الفصل الاول دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۲۲۰)

علامہ حسین بن محمد دیار بکری کتاب الخمیس فی احوال انفس نفیس ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )النوع الرابع ما اختص صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بہ من الکرامات

میں فرماتے ہیں : لم یقع ظلہ علی الارض ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر۲؂ ۔

حضور کا سایہ زمین پر نہ پڑتا ، نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں نظر آتا۔

(۲؂تاریخ الخمیس القسم الثانی النوع الرابع مؤسسۃ الشعبان بیروت ۱ /۲۱۹)

بعینہٖ اسی طرح کتاب ”نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی الاطہار ” میں ہے ۔

اما م نسفی تفسیر مدارک شریف میں زیر قولہٖ تعالٰی : لو لا اذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنٰت بانفسھم خیرا۳؂۔ (کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سنا تھا کہ مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیاہوتا۔ت)

(۳؂القرآن الکریم ۲۴ /۱۲)

فرماتے ہیں : قال عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان اللہ مااوقع ظلک علی الارض لئلایضع انسان قدمہ علی ذٰلک الظل۱؂ ۔

امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی بے شک اللہ تعالٰی نے حضور کا سایہ زمین پر نہ ڈالا کہ کوئی شخص اس پر پاؤں نہ رکھ دے ۔”

(۱؂مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)تحت الآیۃ ۲۴ /۱۲ دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۱۳۵)

امام ابن حجرمکی افضل القرٰی میں زیر قول ماتن قدس سرہ، : ؎ لم یساووک فی علاک وقدحا
ل سنا منک دونھم وسناء۲؂

انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام فضائل میں حضور کے برابر نہ ہوئے حضور کی چمک اوررفعت حضور تک ان کے پہنچنے سے مانع ہوئی ۔

(۲؂ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الاول حزب القادریۃ لاہور ص۶)

فرماتے ہیں: ھذا مقتبس من تسمیتہ تعالٰی لنبیہ نورا فی نحو ”قدجاء کم من اللہ نور وکتب مبین ” وکان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یکثر الدعا بان اللہ تعالٰی یجعل کلا من حواسہ واعضائہ وبدنہ نوراً اظہار الوقوع ذٰلک وتفضل اللہ تعالٰی علیہ بہ لیز داد شکرہ وشکر امتہ علی ذٰلک کما امرنا بالدعاء الذی فی اٰخر سورۃ البقرۃ مع وقوعہ وتفضل اللہ تعالٰی بہ لذٰلک ومما یؤیدانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صارنورا انہ کان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لم یظھر لہ ظل لانہ لایظھر الالکثیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قد خلصہ اللہ من سائر الکثائف الجسمانیۃ وصیرہ نورا صرفا لایظھر لہ ظل اصلا ۱؂۔

یعنی یہ معنٰی اس سے لئے گئے ہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام نور رکھا مثلاً اس آیت میں کہ بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور تشریف لائے اورروشن کتاب ۔ اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بکثرت یہ دعا فرماتے کہ الہٰی !میرے تمام حواس واعضاء سارے بدن کو نور کردے ۔ اوراس دعاسے یہ مقصود نہ تھا کہ نور ہونا ابھی حاصل نہ تھا اس کا حصول مانگتے تھے بلکہ یہ دعا اس امر کے ظاہر فرمانے کے لئے تھی کہ واقع میں حضور کا تمام جسم پاک نور ہے اوریہ فضل اللہ عزوجل نے حضور پر کردیا تاکہ آپ اورآپ کی امت اس پر اللہ تعالٰی کا زیادہ شکر ادا کریں ۔جیسے ہمیں حکم ہوا کہ سورہ بقرشریف کے آخر کی دعا عرض کریں وہ بھی اسی اظہار وقوع وحصول فضل الہٰی کے لئے اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور محض ہوجانے کی تائید اس سے ہے کہ دھوپ یا چاندنی میں حضور کا سایہ نہ پیدا ہوتا اس لئے کہ سایہ تو کثیف کا ہوتاہے اورحضو راللہ تعالٰی نے تمام جسمانی کثافتوں سے خالص کر کے نرانور کردیا لہذا حضور کے لئے سایہ اصلاً نہ تھا۔

(۱؂افضل القرٰی لقراء ام القرٰی (شرح ام القرٰی) شرح شعر ۲ المجمع الثقانی ابوظبی ۱ /۱۲۸و۱۲۹)

علامہ سلیمان جمل فتوحات احمدیہ شرح ہمزیہ میں فرماتے ہیں : لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل یظھر فی شمس ولا قمر۲؂ ۔

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ دھوپ میں ظاہر ہوتا نہ چاندنی میں ۔

(۲؂ الفتوحات الاحمدیۃ علی متن الہمزیۃ سلیمان جم المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص۵)

فاضل محمد بن فہمیہ کی ”اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی واھل بیتہ الطاھرین ” میں ذکر خصائص نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں ہے : وانہ لافیئ لہ۳؂۔ حضور کا ایک خاصہ یہ ہے کہ حضور کے لئے سایہ نہ تھا۔

(۳؂اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی والہ بیتہ الطاہرین علی ہامش الابصار دارالفکر بیروت ص۷۹)

مجمع البحار میں برمزش یعنی زبدہ شرح شفاء شریف میں ہے : من اسمائہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قیل من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہ اذا مشٰی فی الشمس والقمر لایظھر لہ ظل۴؂۔

حضور کا ایک نام مبارک ”نور”ہے ، حضور کے خصائص سے شمار کیا گیا کہ دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو سایہ نہ پیداہوتا۔

(۴؂مجمع بحار الانوار باب نون تحت لفظ ”النور”مکتبہ دارالایمان مدینۃ المنورۃ ۴ /۸۲۰)

شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ العزیز مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں : ونبودمرآنحضرت را صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نہ در آفتاب ونہ در قمر رواہ الحکیم الترمذی عن ذکوان فی نوادر الاصول وعجب است ایں بزرگان کہ کہ ذکر نکر دند چراغ راونور یکے از اسمائے آنحضرت است صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ونور راسایہ نمی باشد انتہٰی۱؂۔

سرکاردوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ سورج اورچاند کی روشنی میں نہ تھا ۔ بروایت حکیم ترمذی از ذکوان ، اورتعجب یہ ہے ان بزرگوں نے اس ضمن میں چراغ کا ذکر نہیں کیا اور ”نور”حضور کے اسماء مبارکہ میں سے ہے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ (ت)

(۱؂مدارج النبوۃ باب اول بیان سایہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱ /۲۱)

جناب شیخ مجدد جلد سوم مکتوبات ، مکتوبات صدم میں فرماتے ہیں : او را صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نبود درعالم شہادت سایہ ہرشخص از شخص لطیف تر است وچوں لطیف ترے ازوے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم درعالم نباشد اورا سایہ چہ صورت دارد ۲؂

آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا، عالم شہادت میں ہر شخص کا سایہ اس سے بہت لطیف ہوتاہے ، اورچونکہ جہان بھر میں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کوئی چیز لطیف نہیں ہے لہذا آپ کا سایہ کیونکر ہوسکتاہے!(ت)

(۲؂مکتوبات امام ربانی مکتوب صدم نولکشور لکھنؤ ۳ /۱۸۷)

نیز اسی کے آخر مکتوب ۱۲۲میں فرماتے ہیں : واجب راتعالٰی چراظل بود کہ ظل موہم تولید بہ مثل است ومنبی از شائبہ عدم کمال لطافت اصل ، ہرگاہ محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم را از لطافت ظل نبود خدائے محمدراچگونہ ظل باشد۳؂۔

اللہ تعالٰی کا سایہ کیونکر ہو، سایہ تو وہم پیدا کرتاہے کہ اس کی کوئی مثل ہے اور یہ کہ اللہ تعالٰی میں کمال لطافت نہیں ہے ، دیکھئے محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا لطافت کی وجہ سے سایہ نہ تھا تو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ کیونکر ممکن ہے۔(ت)

(۳؂مکتوبات امام ربانی مکتوب ۱۲۲ نولکشورلکھنؤ ۳ /۲۳۷)

مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی سورہ والضحٰی میں لکھتے ہیں : سایہ ایشاں برزمیں نمی افتاد۱؂۔

آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑا۔

(۱؂فتح القدیر (تفسیر عزیزی)پ عم سورۃ الضحٰی مسلم بک ڈپو، لا ل کنواں ، دہلی ص۳۱۲)

فقیر کہتاہے غفراللہ لہ، استدلال ابن سبع کا حضور کے سراپا نور ہونے سے جس پر بعض علماء نے حدیث واجعلنی نورا (مجھے نور بنادے ۔ ت) سے استشہاد اورعلمائے لاحقین نے اسے اپنے کلمات میں بنظر احتجاج یاد کیا۔

ہمارے مدعا پر دلالتِ واضحہ یہ ہے ، دلیل شکل اول بدیہی الانتاج دو مقدموں سے مرکب ، صغرٰی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور ہیں ، اورکبرٰی یہ کہ نور کے لئے سایہ نہیں ، جوان دونوں مقدموں کو تسلیم کرے گا نتیجہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا ، آپ ہی پائے گا: مگر دونوں مقدموں میں کوئی مقدمہ ایسا نہیں جس میں مسلمان ذی عقل کو گنجائش گفتگو ہو، کبرٰی توہرعاقل کے نزدیک بدیہی اورمشاہد ہ بصروشہادت بصیرت سے ثابت، سایہ اس جس کا پڑے گا جو کثیف ہو اور انوار کو اپنے ماوراء سے حاجب ، نور کا سایہ پرے تو تنویر کون کرے۔ اس لئے دیکھو آفتاب کے لئے سایہ نہیں ، اور صغرٰی یعنی حضور والا کا نورہونا مسلمان کا تو ایمان ہے ، حاجت بیان حجت نہیں مگر تبکیت معاندین کے لئے اس قدر اشارہ ضرور کہ حضرت حق سبحانہ، وتعالٰی فرماتاہے : یآیھا النبی انا ارسلنٰک شاھداً ومبشرا ونذیر اوداعیاً الی اللہ باذنہ وسراجاً منیراً۲؂۔ اے نبی ! ہم نے تمہیں بھیجاگواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا اور خدا کی طرف بلانے والا اور چراغ چمکتا۔

(۲؂القرآن الکریم ۳۳ /۴۵)

یہاں سراج سے مراد چراغ ہے یا ماہ یا مہر ، سب صورتیں ممکن ہیں ، اور خود قرآن عظیم میں آفتاب کو سراج فرمایا : وجعل القمر فیھن نورا وجعل الشمس سراجا ۳؂۔ اوربنایا پروردگار نےچاند کو نور آسمانوں میں اوربنایا سورج کو چراغ۔(ت)

(۳؂القرآن الکریم ۷۱ /۱۶)

اورفرماتاہے : قدجاء کم من اللہ نور وکتاب مبین ۱؂۔ بتحقیق آیا تمہارے پاس خدا کی طرف سے ایک نور اورکتاب روشن ۔

(۱؂القرآن الکریم ۵ /۱۵)

علماء فرماتے ہیں : نور سے مراد محمدمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں۔

اسی طرح آیہ کریمہ والنجم اذا ھوٰی۲؂۔ (اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اترے۔ ت)میں امام جعفر صادق اورآیہ کریمہ وما ادرٰک ما الطارق النجم الثاقب۳؂۔ (اورکچھ تم نے جانا وہ رات کو آنے والا کیاہے ، چمکتا تارا۔ت) میں بعض مفسرین نجم اور نجم الثاقب سے ذات پاک سید لولاک مراد لیتے ہیں ۴؂صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

(۲؂القرآن الکریم ۵۳ /۱)
(۳؂القرآن الکریم ۸۶/ ۲و۳)
(۴؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الفصل الرابع دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۰)

بخاری ومسلم وغیرہما کی احادیث میں بروایت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما حضور سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ایک دعا منقول جس کا خلاصہ یہ ہے : اللھم اجعل فی قلبی نور اوفی بصری نوراً وفی سمعی نوراً وفی عصبی نور اوفی لحمی نورًا وفی دمی نورا وفی شعری نورا وفی بشری نورا وعن یمینی نور ا وعن شمالی نورا وامان می نورا وخلفی نور ا وفوقی نورا وتختی نورا واجعلنی نوراً۵؂۔

الہٰی!میرے دل اور میری جان اورمیر ی آنکھ اورمیرے کان اورمیرے گوشت وپوست وخون واستخوان اورمیرے زیر وبالا وپس وپیش وچپ وراست اورہرعضو میں نور اورخود مجھے نور کردے ۔

(۵؂صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۳۵)
( صحیح مسلم کتاب صلٰوۃ المسافرین باب صلٰوۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۱)
(جامع الترمذی ابواب الدعوات باب منہ امین کمپنی دہلی ۲ /۱۷۸)

جب وہ یہ دعا فرماتے اوران کے سننے والے نے انہیں ضیائے تابندہ ومہر درخشندہ ونور الٰہی کہا پھر اس جناب کے نور ہونے میں مسلمان کو کیا شبہ رہا ، حدیث ابن عباس میں ہے کہ ان کا نور چراغ وخوشید پر غالب آتا ۔ اب خدا جانے غالب آنے سے یہ مراد کہ ان کی روشنیاں اس کے حضور پھیکی پڑ جائیں جیسے چراغ پیش مہتاب یا یکسر ناپدید وکالعدم ہوجاتیں جیسے ستارے حضور آفتاب۔

ابن عباس کی حدیث میں ہے : واذاتکلم رئی کالنور یخرج من بین ثنایاہ ۱؂۔

جب کلام فرماتے دانتوں سے نور چھنتا نظر آتا۔

(۱؂تاریخ دمشق الکبیر باب ماروی فی فصاحۃ لسانہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۸ ،۹)
( الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل وان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۴۶)
( شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ص۳)

وصاف کی حدیث میں وارد ہے : یتلأ لؤ وجھہ تلألؤالقمر لیلا البدراقنی العرنین لہ نوریعلوہ یحسبہ من لم یتأملہ اشم انور المتجرد۲؂۔

یعنی حضور کا چہر ہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ، بلند بینی تھی اوراس پر ایک نور کا بُکّامتجلی رہتاکہ آدمی خیال نہ کرے تو ناک ماس روشن نور کے سبب بہت اونچی معلوم ہو، کپڑوں سے باہر جو بدن تھا یعنی چہر ہ اورہتھیلیاں وغیرہ، نہایت روشن وتابندہ تھا۔ صلی ا للہ تعالٰی علٰی کل عضو من جسمہ الانوار الاعطر وبارک وسلم (اللہ تعالٰی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم انور معطر کے ہر عضو پر درود وسلام اوربرکت نازل فرمائے ۔ ت)

(۲؂شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ص۲)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : کان الشمس تجری فی وجھہ۳؂۔

گویاآفتاب ان کے چہرے میں رواں تھا۔

(۳؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل ان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۴۶)

اورفرماتے ہیں : واذاضحک یتلألؤفی الجدر ۴؂۔

جب حضور ہنستے دیواریں روشن ہوجاتیں۔

(۴؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل ان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۴۶)

ربیع بنت معوذ فرماتی ہیں : لورأیت لقلت الشمس طالعۃ۱؂۔ اگر تو انہیں دیکھتا ، کہتا آفتاب طلوع کر رہا ہے ۔

(۱؂المواھب اللدنیۃ عن ربیع بنت معوذ المقصد الثالث الفصل الاول المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۲۳)

ابو قرصافہ کی ماں اور خالہ فرماتی ہیں : رأینا کان النور یخرج من فیہ۲؂۔

ہم نے نور سانکلے دیکھا ان کےدہان پاک سے۔

(۲؂مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتاب علامات النبوۃ باب صفۃ صلی اللہ علیہ وسلم دارالکتاب بیروت ۸ /۲۸۰)

احادیث کثیرہ مشہورہ میں وارد، جب حضور پیداہوئے ان کی روشنی سے بصرہ اورروم وشام کے محل روشن ہوگئے ۔

چند روایتوں میں ہے : اضاء لہ ما بین المشرق والمغرب ۳؂

آپ کے لئے شرق سے غرب تک منور ہوگیا۔

(۳؂المواھب اللدنیۃ المقصد الاول احادیث اخری فی المولد المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۳۰)

اوربعض میں ہے : امتلأت الدنیاکلھانوراً۴؂۔

تمام دنیا نور سے بھر گئی ۔

(۴؂الخصائص الکبرٰی باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۴۷)

آمنہ حضور کی والدہ فرماتی ہیں : رأیت نور اساطعا من رأسہ قد بلغ السماء ۵؂۔

میں نے ان کے سر سے ایک نور بلند ہوتا دیکھا کہ آسمان تک پہنچا۔

(۵؂الخصائص الکبرٰی باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۴۹)

ابن عساکر نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی : ”میں سیتی تھی ، سوئی گر پڑی ، تلاش کی ، نہ ملی ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف لائے ، حضور کے نور رُخ کی شعاع سے سوئی ظاہر ہوگئی ۶؂۔”

(۶؂ الخصائص الکبرٰی بحوالہ ابن عساکر باب الآیۃ فی وجہہ الشریف صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مرکز اہلسنت گجرات ہند۱/۶۲و۶۳)

علامہ فاسی مطالع المسرات میں ابن سبع سے نقل کرتے ہیں : کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یضیئ البیت المظلم من نورہ۱؂

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے خانہ تاریک روشن ہوجاتا۔

(۱؂مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۳۹۳)

اب نہیں معلوم کہ حجور کے لئے سایہ ثابت نہ ہونے میں کلام کرنے والا آپ کے نور ہونے سے انکار کرے گا یا انوار کے لئے بھی سایہ مانے گا یا مختصر طور پر یوں کہئے کہ یہ تو بالیقین معلوم کہ سایہ جسم کثیف کا پڑتا ہے نہ جسم لطیف کا ، اب مخالف سے پوچھنا چاہئے تیرا ایمان گواہی دیتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جسم اقدس لطیف نہ تھا عیاذاً باللہ ، کثیف تھا اور جو اس سے تحاشی کرے تو پھر عدم سایہ کا کیوں انکار کرتاہے؟

بالجملہ جبکہ حدیثیں اوراتنے اکابر ائمہ کی تصریحیں موجود کہ اگر مخالف اپنے کسی دعوے میں ان میں سے ایک کا قول پائے ، کس خوشی سے معرض استدعلال میں لائے ، جاہلانہ انکار، مکاربرہ وکج بحثی ہے ، زبان ہر ایک کی اس کے اختیار میں ہے چاہے دن کو رات کہہ دے یا شمس کو ظلمات ، آخر کار مخالف جو سایہ ثابت کرتاہے اس کے پاس بھی کوئی دلیل ہے یا فقط اپنے منہ سے کہہ دیا جیسے ہم حدیثیں پیش کرتے ہیں اس کے پاس ہوں وہ بھی دکھائے ، ہم ارشادات علماء سند میں لاتے ہیں وہ بھی ایسے ہی ائمہ کے اقوال سنائے ، یا نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی سند ، گھر بیٹھے اسے الہام ہوا کہ حضور کا سایہ تھا۔

مجرد ماوشما پر قیاس تو ایمان کے خلاف ہے ع

چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک

(مٹی کو عالم پاک سے کیا نسبت ۔ت)

وہ بشر ہیں مگر عالم علوی سے لاکھ درجہ اشرف اورجسم انسانی رکھتے ہیں مگر ارواح وملائکہ سے ہزارجگہ الطف ۔ وہ خود فرماتے ہیں:

لست کمثلکم۲؂

میں تم جیسا نہیں ۔

(۲؂المصنف لعبدالرزاق کتاب الصیام باب الوصال حدیث ۷۷۵۲المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۲۶۷)

(صحیح البخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳)

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱و۳۵۲)

ویروٰی لست کھیئتکم ۳؂

میں تمہاری ہیئت پر نہیں۔

(۳؂صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱و۳۵۲)

( صحیح بخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳و۲۶۴)

ویروٰی ، ایکم مثلی۱؂

تم میں کون ہے مجھ جیسا۔

(۱؂صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱)

(صحیح البخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳)

آخر علامہ خفاجی کا ارشاد نہ سنا کہ : __حضور کا بشر ہونا نور رخشندہ ہونے کے منافی نہیں کہ اگر تو سمجھے تو وہ نور علی نور ہیں۲؂۔

(۲؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ومن ذالک ماظہر من الآیات الخ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۳ /۲۸۲)

پھر صرف اس قیاس فاسد پرکہ ہم سب کا سایہ ہوتاہے ان کے بھی ہوگا ، ثبوت سایہ ماننا یااس کی نفی میں کلام کرنا عقل وادب سے کس قدر دور پڑتا ہے ؎

الا ان محمد ابشرلاکالبشر
بل ھو یاقوت بین الحجر۳؂

(خبردار !محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بشرہیں مگر کسی بشر کی مثل نہیں ، بلکہ وہ ایسے ہیں جیسے پتھروں کے درمیان یاقوت ۔ ت)

( صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین وبارک وسلم )

(۳؂افضل الصلٰوۃ علی سید السادات فضائل درود مکتبہ نبویہ ، لاہور ص۱۵۰)

فقیر کو حیرت ہے ان بزرگواروں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معجزات ثابتہ وخصائص صحیحہ کے انکار میں اپنا کیا فائدہ دینی ودنیاوی تصور کیا ہے ، ایمان بے محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حاصل نہیں ہوتا ۔ وہ خود فرماتے ہیں:

لایؤمن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولد والناس اجمعین۴؂ ۔

تم میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوگاجب تک میں اسے اس کے ماں باپ ،اولاد اورسب آدمیوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں۔

(۴؂صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷)

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب وجوب محبۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۹)

اورآفتاب نیم روز کی طرح روشن کہ آدمی ہمہ تن اپنے محبوب کے نشر فضائل وتکثیر مدائح میں مشغول رہتاہے ، سچی فضیلتوں کا مٹانا اورشام وسحر نفی محاسن کی فکر میںہونا کام دشمن کا ہے نہ کہ دوست کا۔

جان برادر!تو نے کبھی سنا ہے کہ تیرامحب تیرے مٹانے کی فکر میں رہے ، اورپھر محبوب بھی کیسا،جان ایمان وکان احسان ، جسے اس کے مالک نے تمام جہان کے لئے رحمت بھیجا اوراس نے تمام عالم کا بارتن نازک پر اٹھالیا ۔

تمہارے غم میں دن کاکھانا ، رات کا سونا ترک کردیا۔ تم رات دن لہو ولعب اور ان کی نافرمانیوں میں مشغول ، اوروہ شب وروز تمہاری بخشش کے لئے گریاں وملول۔

جب وہ جان رحمت وکان رأفت پیداہوا بارگاہ الٰہی میں سجدہ کیا

ارب ھب لی امتی۔

(یا اللہ !میری امت کو بخش دے ۔ ت)

جب قبر شریف میں اتار الب جاں بخش کو جنبش تھی ، بعض صحابہ نے کان لگا کر سنا ،آہستہ آہستہ

امتی ۔

(میری امت۔ت) فرماتے تھے ،

قیامت میں بھی انہیں کے دامن میں پناہ ملے گی، تمام انبیاء علیہم السلام سے

نفسی نفسی اذھبواالی غیری۳؂

(آج مجھے اپنی فکر ہے کسی اور کے پا س چلے جاؤ ۔ ت) سنو گے اوراس غمخوار امت کے لب پر

یارب امتی۴؂

(اے رب !میری امت کو بخش دے۔ ت)کا شورہوگا۔

(۳؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)

(۴؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)

بعض روایات میں ہے کہ حضور ارشاد فرماتے ہیں : جب انتقال کروں گا صور پھونکنے تک قبر میں امتی امتی پکاروں گا۔ کان بجنے کا یہی سبب ہے کہ وہ آواز جانگداز اس معصوم عاصی نواز کی جو ہروقت بلند ہے ، گاہے ہم سے کسی غافل ومدہوش کے گوش تک پہنچتی ہے ، روح اسے ادراک کرتی ہے ، اسی باعث اس وقت درود پڑھنا مستحب ہوا کہ جو محبوب ہرآن ہماری یا دمیں ہے ، کچھ دیر ہم ہجراں نصیب بھی اس کی یاد میں صَرف کریں۔

وائے بے انصافی !ایسے غمخوار پیارے کے نام پر جاں نثارکرنا اوراس کی مدح وستائش ونشر فضائل سے آنکھوں کی روشنی ، دل کو ٹھنڈک دینا واجب یا یہ کہ حتی الوسع چاند پر خاک ڈالے اوربے سبب ان کی روشن خوبیوں میں انکار نکالے۔

اے عزیز!چشم خرد بین میں سرمہ انصاف لگااورگوش قبول سے پنبہ اعتساف نکال، پھر یہ تمام اہل اسلام بلکہ ہر مذہب وملت کے عقلاء سے پوچھنا ، پھر اگر ایک منصف ذی عقل بھی تجھ سے کہہ دے کہ نشر محاسن وتکثیر مدائح نہ دوستی کا مقتضٰی نہ رد فضائل ونفی کمالات غلامی کے خلاف، تو تجھے اختیار ہے ورنہ خدا ورسول سے شرمااوراس حرکت بے جا سے باز آ ، یقین جان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خوبیاں تیرے مٹائے نہ مٹیں گی۔

جان برادر! اپنے ایمان پر رحم کر ، سمجھ ، دیکھ کر خداسے کسی کا کیا بس چلے گا، اورجس کی شان وہ بڑھائے اسے کوئی گھٹا سکتاہے ، آئندہ تجھے اختیار ہے ، ہدایت کا فضل الٰہی پر مدار ہے ۔

ہم پر بلا غ مبین تھا ، اس سے بحمداللہ فراغت پائی ،ا ور جواب بھی تیرے دل میں کوئی شک وشبہ یاہمارے کسی دعوے پردلیل یا کسی اجمال کی تفصیل درکاہوتو فقیر کا رسالہ مسمّٰی بہ_قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانامعلیہ وعلٰی اٰلہ الصلٰوۃ والسلام ، جسے فقیر نے بعد وروداس سوال کے تالیف کیا،مطالعہ کرے ، ان شاء اللہ تعالٰی بیان شافی پائے گا اورمرشد کافی ، ہم نے اس رسالہ میں اس مسئلہ کی غایت تحقیق ذکر کی ہے اورنہایت نفیس دلائل سے ثابت کردیا ہے کہ حضورسراپا نور تابندہ درخشندہ ذی شعاع واضاء ت بلکہ معدن انواروافضل مضیئات بلکہ درحقیقت بعد جناب الٰہی نامنور_انہیں کو زیبا، اوران کے ماوراء کو اگر نور کہہ سکتے ہیں توانہیں کی جناب سے ایک علاقہ وانتساب کے سبب ، اوریہ بھی ثابت کیا ہے کہ ثبوت معجزات صرف اسی پر موقوف نہیں کہ حدیث یا قرآن میں بالتصریح ان کا ذکر ہوبلکہ ان کے لئے تین طریقے ہیں ، اوریہ بھی بیان کردیا ہے پیشوایان دین کا داب ان معاملات میں ہمیشہ قبول وتسلیم رہاہے ۔ اگرکہیں قرآن وحدیث سے ثبوت نہ ملا تو اپنی نظر کا قصور سمجھا ، نہ یہ کہ باوجود ایسے ثبوت کافی کے کہ حدیثیں اورائمہ کی تصریحیں اورکافی دلیلیں ، سب کچھ موجود ،پھر بھی اپنی ہی کہے جاؤ ، انکار کے سواکچھ زبان پر نہ لاؤ ، اور اس کے سوا اور فوائد شریفہ وابحاث لطیفہ ہیں، جو دیکھے گا ان شاء اللہ تعالٰی لطف جانفزا پائے گا ،

ولا حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم وصلی اللہ تعالٰی علٰی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہ واصحابہ واصھارہٖ وانصارہٖ واتباعہ اجمعین الٰی یوم الدین اٰمین والحمدللہ رب العٰلمین ۔

رسالہ
نفی الفیئ عمن استنار بنورہ کل شیئ
ختم ہوا۔