فتاوی رضویہ, فضائل و خصائص, نور مصطفی علیہ السلام

سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرے نور کو پیدافرمایا،

مسئلہ ۴۲ : از کلکتہ ، مچھوابازار، اسٹریٹ نمبر ۲۱، متصل چولیا مسجد ، مرسلہ حکیم اظہر علی صاحب ۲۰ ذیقعدہ ۱۳۱۹ھ
بحضور اقدس جناب مولانا مدظلہ العالی !یہ اشہتار ترسیل خدمت ہے ، اگر صحیح ہوتو اس پر صادر کردیا جائے ۔ والا جواب مفصل ترقیم فرمائیں والادب۔اظہر علی عفی عنہ

نقل اشتہار

رب زدنی علما (اے میرے رب !میرے علم میں اضافہ فرما۔ ت) نور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اللہ تعالٰی کا ذاتی نور جزء ذات یا عین ذات کا ٹکڑا نہیں بلکہ پیدا کیا ہوا، نور مخلوق ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے : اول ما خلق اللہ نوری ، اول ماخلق اللہ القلم ، اول ما خلق اللہ العقل ۔ کذا فی تاریخ الخمیس۱؂ وسرالاسرار۔

سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرے نور کو پیدافرمایا، سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے قلم کو پیدا فرمایا ، سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے عقل کو پیدا فرمایا، تاریخ خمیس اورسرالاسرار میں یونہی ہے ۔ (ت)

(۱؂تاریخ الخمیس مطلب اول المخلوقات مؤسسۃ شعبان بیروت ۱ /۱۹)
(مرقاۃ المفاتیح کتاب الایمان تحت الحدیث ۹۴المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۱ /۲۹۱)

اورذاتی نور کہنے سے نور رسول کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کو جزء ذات یا عین ذات یا ٹکڑا ذات خدائے تعالٰی کا کہنا لازم آتاہے ، یہ کلام کفر ہے اورنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا قدیم ہونا لازم آتاہے کیونکہ ذاتی کے معنی اگر اصطلاحی لئے جائیں تو جز خدایا عین خدا یا ٹکڑا ذات خدا کا ہونا لازم آتاہے ، یہی کلام کفر ہے اورعقائد بعض جہّال کے یہی ہیں ، اس سبب سے نور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نور ذاتی یا ذاتی نور یا اللہ تعالٰی کی ذات کا ٹکڑا نہ کہنا چاہیے ، اگر نور رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نور خدا یا نور مخلوق خدا یا نور ذات خدایا نور جمال خدا کہے تو کہنا جائز ہے جیسا کہ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پنی کتاب سرالاسرار میں فرمایا ہے : لما خلق اللہ تعالٰی روح محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اولا من نور جمالہ۲؂۔

سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے روح محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنے نور جمال سے پیدا فرمایا۔(ت)

اورحدیث قدسی میں آیا ہے : خلقت روح محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من نور وجھی ۳؂کما قال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اول ماخلق اللہ روحی اول ماخلق اللہ نوری۴؂۔

میں نے روح محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی ذات کے نور سے پیدافرمایا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میری روح کو پیدافرمایا ، سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرے نور کو پیدا فرمایا ۔(ت)

(۳؂تاریخ الخمیس مطلب اول المخلوقات مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱ /۱۹)

کیونکہ ایک چیز کو دوسرے کی طرف اضافت کرنے سے جزء اس کا یا عین اس کا لازم نہیں آتا ہے کیونکہ مضاف ومضاف الیہ کے درمیان مغائرت شرط ہے ۔ چنانچہ بیت اللہ وناقۃ اللہ ونوراللہ وروح اللہ ، پس ثابت ہوا کہ نور رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نورمخلوق خدا یا نور ذات خدا یا نور جمال خدا ہے ، نور ذاتی یعنی اللہ تعالٰی کی ذات کا ٹکڑا وجزو عین نہیں ہے ، واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔
المشتہر : عبدالمہیمن قاضی علاقہ تھانہ بہوبازار وغیرہ کلکتہ

الجواب
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نور بلا شبہ اللہ عزوجل کے نورذاتی یعنی عین ذات الہٰی سے پیدا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے فتوے میں تصریحات علمائے کرام سے محقق کیا اوراس کے معنی بھی وہیں مشرّح کردیے ۔ حاش للہ ! یہ کسی مسلمان کا عقیدہ کیا گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ نور رسالت یا کوئی چیز معاذاللہ ذات الٰہی کا جز یا اس کا عین ونفس ہے ، ایسا اعتقاد ضرور کفر وارتداد۔ ای ادعاء الجزئیۃ مطلقاً والعینیۃ بمعنی الا تحاد ای ھو ھو فی مرتبۃ الفرق اما ان الوجود واحد والموجود واحد فی مرتبۃ الجمع والکل ظلالہ وکعوسہ فی مرتبۃ الفرق فلاموجود الا ھو فی مرتبۃ الحقیقۃ الذاتیۃ اذلاحظ لغیرہ فی حد ذاتہ من الجود اصلاجملۃ واحدۃ من دونہ ثنیا فحق واضح لاشک فیہ۔

یعنی جزئیت کا دعوٰی کرنا مطلقاً اورعینیت بمعنی اتحاد کا دعوٰی کرنا یعنی مربہ فرق میں نور محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عین ذات خدا ہے (کفر ہے )لیکن یہ اعتقادکہ بے شک وجود ایک ہے اورموجود ایک ہے مرتبہ جمع میں اورتمام موجودات مربہ فرق میں اسی کے ظل اورعکس ہیں۔ چنانچہ مرتبہ حقیقت ذاتیہ میں اس کے سوا کوئی موجود نہیں کیونکہ حد ذات میں اس کے ماسوا کسی کے لئے بغیر کسی استثناء کے بالکل وجود سے کوئی حصہ نہیں، (یہ اعتقاد)خالص حق ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔ (ت)

مگر نور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اللہ عزوجل کا نور ذاتی کہنے سے نہ عین ذات یا جزء ذات ہونا لازم ، نہ مسلمانوں پربدگمانی جائز ، نہ عرف عام علماء وعوام میں اس سے یہ معنی مفہوم ، نہ نورذات کہنے کو نورذاتی کہنے پر کچھ ترجیح جس سے وہ جائز اور یہ ناجائزہو۔

اولاً : ذاتی کی یہ اصطلاح کہ عین ذات یا جز ء ماہیت ہو، خاص ایسا غوجی کی اصطلاح ہے ، علامء عامہ کے عرف عام میں نہ یہ معنے مراد ہوتے ہیں نہ ہرگز مفہوم ، عام محاورہ میںکہتے ہیں یہ میں اپنے ذاتی علم سے کہتاہوں یعنی کسی کی سنی سنائی نہیں ۔ یہ مسجد میں نے اپنے ذاتی روپیہ سے بنائی ہے یعنی چندہ وغیرہ مال غیر سے نہیں۔ ائمہ اہل سنت جن کا عقیدہ ہے کہ صفات الہیہ عین ذات نہیں ، اللہ عزوجل کے علم وقدرت وسمع وبصر وارادہ وکلام وحیات کو اس کی صفت ذاتی کہتے ہیں ۔
حدیقہ ندیہ میں ہے : اعلم بان الصفات التی ھی لاعین الذات ولا غیرھا انما ھی الصفات الذاتیۃ ۱؂الخ۔

بیشک وہ صفات جو اللہ تعالٰی کے نہ عین اورنہ غیر ہیں ،صرف وہ ذاتی صفات ہیں۔ (ت)

(۱؂ الحدیقۃ الندیۃ الباب الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱ /۲۵۴)

علامہ سید شریف قدس سرہ الشریف رسالہ ”تعریفات”میں فرماتے ہیں : الصفات الذاتیۃ ھی مایوصف اللہ تعالٰی بھا ولا یوصف بضدھا نحو القدرۃ والعزۃ والعظمۃ وغیرھا۲؂۔

ذاتی صفات وہ ہیں جن سے اللہ تعالٰی موصوف ہے اوران کی ضد سے موصوف نہیں جیسے قدرت ، عزت، عظمت وغیرہا۔(ت)

(۲؂التعریفات للجرجانی ۸۷۰(الصفات الذاتیہ) دارالکتاب العربی بیروت ص۱۱۱)

وجوب ذاتی وامتانع ذاتی وامکان ذاتی کا نام حکمت وکلام وفلسفہ وغیرہا میں سنا ہوگا یعنی ان الذات تقتجی لذاتھا الوجود او العدم (یعنی بلاشبہ ذات اپنی ذات کے اعتبارسے وجود یا عدم کا تقاضا کرتی ہے ۔ ت) اولاً : ان میں کوئی بھی اپنے موصوف کا نہ عین ذات ہے نہ جزء بلکہ مفہومات اعتبار یہ ہیں جن کےلئے خارج میں وجود نہیں کام حقق فی محلہ (جیسا کہ اس کے محل میں اس کی تحقیق کردی گئی ہے ۔ ت)یونہی اصلین اعنی علم کلام وعلم اصول فقہ میں افعل کے حسن ذاتی وقبح ذاتی کا مسئلہ اورا سمیں ہمارے آئمہ ماتریدیہ کا مذہب سنا ہوگا حالانکہ بداہۃً حسن وقبح نہ عین فعل ہیں نہ جزء فعل۔

محقق علی الاطلاق تحریر الاصول میں فرماتے ہیں : مما اتقفقت فیہ العراض والعادات واستحق بہ المدح والذم فی نظر العقول جمیعا لتعلق مصالح الکل بہ لا یفید بل ھو المراد بالذاتی للقطع بان مجرد حرکۃ الید قتلا ظلما لاتزید حقیقتہا علی حقیقتہاعدلا ، فلو کان الذاتی مقتضی الذات اتحد لازمھما حسنا وقبحا ، فانما یراد (ای بالذاتی ) ما یجزم بہ العقل لفعل من الصفۃ بمجرد تعقلہ کائناعن صفۃ نفس من قام بہ فباعتبارھا یوصف بانہ عدل حسن اوضدہٖ ۱؂اھ

جس میں اغراض وعادات متفق ہوں اوراس کے سبب سے مدح وذم کا استحقاق ہوکیونکہ سب کے مصالح اس سے متعلق ہیں یہ قول غیر مفید ہے بلکہ ذاتی سے مراد وہی ہے ، اس لئے کہ یہ بات قطعی ہے کہ قتل کے لئے بطور ظلم محض حرکت یدکی حقیقت بطور عدل اس کی حرکت کی حقیقت سے زائد نہیں ۔ اگر ذاتی مقتضائے ذات ہوتا تو ان دونوں کا لازم حسن وقبح کے اعتبار سے متحدہوجاتا کیونکہ ذاتی سے مراد وہ ہے کہ عقل اس کے ساتھ جزم کرے کسی فعل کے لئے صفت سے ، محض اس کے متعقل ہونے کی وجہ سے اس ذات کی صفت سے جس کے ساتھ وہ قائم ہے اسی کے اعتبار سے اس کو عدل وحسن یا اس کی ضد کے ساتھ متصف کیا جاتاہے اھ (ت)

(۱؂تحریر الاصول المقالۃ الثانیہ الباب الاول الفصل الثانی مصطفی البابی مصر ص ۲۲۵و۲۲۶)

ثانیاً : ذاتی میں یائے نسبت ہے ، ذاتی منسوب بہ ذات اورمتغائرین میں ہراضافت مصح نسبت جو چیز دوسرے کی طرف مضاف ہوگی وہ ضرور اس کی طرف منسوب ہوگی کہ اضافت بھی ایک نسبت ہی ہے ، تو جب نور ذات کہنا صحیح ہے تو نور ذاتی کہنا بھی قطعاً صحیح ہوگا ورنہ نسبت ممتنع ہوگی تو نورذات کہنا بھی باطل ہوجائے گا ھذا خلف۔

ثالثاً : نورِذات کہنا جس کا جواز مانع کو بھی تسلیم ہے اس میں اضافت بیانیہ ہویعنی وہ نور کہ عین ذات الٰہی ہے تو معاذاللہ نور رسالت کا عین ذات الوہیت ہونا لازم آتاہے پھر یہ کیوں نہ منع ہوا ، اگرکہئے کہ یہ معنے مراد نہیں بلکہ اضافت لامیہ ہے اوراس کی وجہ تشریف جیسے بیت اللہ وناقۃ اللہ وروح اللہ ، تو اسی معنٰی پر نور ذاتی میں کیا حرج ہے یعنی وہ نور کہ ذات الہٰی سے نسبت خاصہ ممتازہ رکھتاہے ۔

شرح المواھب للعلامۃ الزرقانی میں ہے : اضافۃ تشریف واشعاربانہ خلق عجیب وان لہ شانا لہ مناسبۃ ما الی الحضرۃ الربوبیۃ علی حد قولہ تعالٰی ونفخ فیہ من روحہ۲؂ٖ۔

اضافت تشریفیہ ہے اوریہ بتانا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عجیب مخلوق ہیں اوربارگاہِ ربوبیت میں آپ کو خاص نسبت ہے جیسے ونفخت فیہ من روحی ۳؂ (اور میں اس میں اپنی طرف کی خاص معزز روح پھونک دوں ۔(ت )

(۲؂شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۴۶)
(۳؂القرآن الکریم ۱۵/ ۲۹ و ۳۸ /۷۲)

رابعاً : نورذاتی میں اگر ایک معنٰی معاذاللہ کفرہیں کہ ذاتی کو اصطلاح فن ایسا غوجی پر حمل کریں جو ہرگز قائلوں کی مراد نہیں بلکہ غالباً ان کو معلوم بھی نہ ہوگی تو نور ذات یا نور اللہ کہنے میں جن کا جواز از خود مانع کو مسلّم ہے عیاذاًباللہ متعدد وجہ پر معانی کفر ہیں ۔

ہم نے فتوٰی دیگر میں بیان کیا کہ نور کے دو معنی ہیں : ایک ظاہر بنفسہٖ مظہر لغیرہٖ ، بایں معنٰی اگر اضافت بیانیہ لو تو نور رسالت عین ذات الہٰی ٹھہرے اوریہ کفر ہے ۔ اور اگر لامیہ لو تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ نور کہ آپ بذاب خود ظاہر اورذات الہٰی کا ظاہر کرنے والا ہے ، یہ بھی کفر ہے ۔ دوسرے معنی یہ کیفیت وعرض جسے چمک ، جھلک ، اجالا ، روشنی کہتے ہیں اس معنٰی پر اضافت بیانیہ لو تو کفر عینیت کے علاوہ ایک اورکفر عرضیت عارض ہوگا کہ ذات الہٰی معاذاللہ ایک عرض وکیفیت قرار پائی ، اوراگرالامیہ لو تو کسی کی روشنی کہنے سے غالباً یہ مفہوم کہ یہ کیفیت اس کو عارض ہے جیسے نو رشمس ونور قمر ونور چراغ،یوں معاذاللہ اللہ عزوجل محل حوادث ٹھہرے گا ، یہ بھی صریح ضلالت وگمراہی ومنجربہ کفرلزومی ہے ، ایسے خیالات سے اگر نو رذاتی کہنا ایک درجہ ناجائز ہوگا تو نورذات ونور اللہ کہنا چاردرجے ، حالانکہ ان کا جواز مانع کو مسلّم ہونے کے علاوہ نور اللہ تو خود قرآن عظیم میں وارد ہے : یریدون لیطفؤا نوراللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولوکرہ الکٰفرون o ۱؂ یریدون ان یطفؤا نوراللہ بافواھھم ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکٰفرون۲؂۔ اللہ تعالٰی کے نور کو اپنی پھونکوں سے بچھانا چاہتے ہیں اوراللہ تعالٰی اپنے نور کو تام فرمانے والا ہے اگرچہ کافر ناپسند کریں ۔ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں اوراللہ نہ مانے گا مگر اپنے نورکا پورا کرنا ، پڑے برامانیں کافر۔ (ت)

(۱؂القرآن الکریم ۶۱ /۸ )
(۲؂القرآن الکریم ۹ /۳۲)

حدیث میں ہے : اتقوافراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ ۳؂۔

مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نور اللہ سے دیکھتاہے ۔ (ت)

(۳؂سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۱۳۸دارالفکر بیروت ۵ /۸۸)
( کنزالعمال حدیث ۳۰۷۳۰موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱ /۸۸)

خامساً : مضاف ومضاف الیہ میں اگر معائرت شرط ہے تو منسوب ومنسوب الیہ میں کیا شرط نہیں ۔

سادساً : بلکہ اس طور پر جو مانع نے اختیار کیا، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سب سے پہلے مخلوق الٰہی نہ رہیں گے ، دو چیزیں حضور سے پہلے مخلوق قرار پائیں گی اوریہ خلافت حدیث وخلافت نصوص ائمہئ قدیم وحدیث ۔حدیث میں ارشاد ہوا: یاجابر ان اللہ خلق قبل الاشیاء نورنبیک من نورہٖ۱؂۔

اے جابر!اللہ تعالٰی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا کیا۔

(۱؂ المواھب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۱)

یہاں دو اضافتیں ہیں : نور نبی ونور خدا ۔ اورمشتہر کے نزدیک اضافت میں مغائرت شرط ہے تو نور نبی غیر ہو اورنور خدا یر خدا، اورغیر خدا جو کچھ ہے مخلوق ہے تو نور خدا مخلوق ہوا اور اس نور سے نور نبی بنا، تو ضرر نورخدا نور نبی سے پہلے مخلوق تھا اورنو نبی باقی سب اشیاء سے پہلے بنا، اوراشیاء میں خود نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بھی ہیں ، تو نور نبی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے پہلے بنا اور اس سے پہلے نور خدا بنا، تو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے دو مخلوق پہلے ہوئے ، یہ محض باطل ہے ۔

سابعاً : حل یہ ہے کہ ایسا غوجی میں ذاتی مقابل عرضی ہے بایں معنی اللہ عزوجل نور ذاتی ونور عرضی ، دونوں سے پاک ومنزہ ہے مگر وہ یہاں نہ مراد نہ مفہوم اورعام محاورہ میں ذاتی مقابل صفاتی واسمائی ہے اوریہاں یہی مقصود ، بایں معنٰی اللہ عزوجل کے لئے نور ذاتی ونور صفاتی ونوراسمائی سب ہیں کہ اس کی ذات وصفات وامساء کی تجلیاں ہیں ، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تجلی ذات اورانبیاء واولیاء وسائر خلق اللہ تجلی اسماء وصفات ہیں جیسا کہ ہم نے فتوائے دیگر میں شیخ محقق سے نقل کیا ، رحمہ اللہ تعالٰی۔ واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ سیدنا محمدواٰلہٖ وسلم۔

تقریظ(عہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم لک الحمد فقیر غفرلہ المولی القدیر نے فاضلِ فاضل ، عالم عامل ، حامی السنۃ ، ماحی الفتنہ ، مولٰنا مولوی حبیب علی صاحب علوی ایدہ اللہ تعالٰی بالنور العلوی کی یہ تحریر منیر مطالعہ کی فجزاہ اللہ عنہ نبیہ المصطفٰی الجزاء الاوفٰی ۔

عہ : یہ تقریظ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز نے مولانا حبیب علی علوی کے رسالہ پر لکھی تھی، بریلی کے ذخیرہ مسودات سے مولانا محمد ابراہیم شاہدی پونپوری نے ۸ رجب المرجب ۱۳۶۳ھ کو نقل کی۔ یہ نقل محدث اعظم پاکستان مولانا سرداراحمد رحمہ اللہ تعالٰی کے ذخیرہ کتب سے راقم کو ۲۲ربیع الاول ۱۴۰۴ھ کو دستیاب ہوئی جو پیش نظر مجموعہ رسائل میں شامل کی جارہی ہے ۔
اس مجموعہ میں حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی نورانیت کے موضوع پر ایک اورسایہ نہ ہونے کے موضوع پر تین رسائل شامل ہیں۔ محمد عبدالقیوم قادری ۔

مسئلہ بحمداللہ تعالٰی واضح ومکشوف اورمسلمانوں میں مشہور ومعروف ہے ، فقیر کے اس میں تین رسائل ہیں۔

(۱) قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام علیہ وعلٰی اٰلہ الصلٰوۃ والسلام ۔
(۲)نفی الفیئ عمن اسننا ربنورہ کل شیء صلی اللہ علیہ وسلم۔
(۳)ھدی الحیران فی نفی الفیئی عن سید الاکوان علیہ الصلٰوۃ والسلام الاتمان الاکملان۔

یہاں جناب مجیب مصیب سلمہ القریب کی تائید میں بعض کلام ائمہ کرام علمائے اعلام کااضافہ کروں۔ امام جلیل جلال الملۃ والدین سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی خصائص الکبری شریف میں فرماتے ہیں : باب الاٰیۃ فی انہ لم یکن یری لہ ظل، اخرج الحکیم الترمذی عن ذکوان ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل فی شمس ولا قمر ، قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لایقع علی الارض وانہ کان نورافکان اذ مشٰی فی الشمس اوالقمر لاینظر لہ ظل قال بعضھم ویشہد لہ حدیث ، قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نوراً ۱؂۔ اس نشانی کا بیان کہ حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہیں دیکھاگیا ۔ حکیم ترمذی نے حضرت ذکوان سے روایت کی کہ سورج اورچاند کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نظر نہیں آتاتھا ۔ ابن سبع نے کہا : آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص میں سے یہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا کیونکہ آپ نور ہیں ، آپ جب سورج اورچاندنی کی روشنی میں چلتے تو سایہ دکھانی نہیں دیتاتھا ۔ بعض نے کہا کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں آپ نے دعا فرماتے ہوئے ہوئے کہا: اے اللہ !مجھے نور بنادے ۔(ت)

(۱؂الخصائص الکبرٰی باب الآیۃ فی انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۶۸)

نیز انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں فرماتے ہیں : لم یقع ظلہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نورا، وقال رزین لغلبۃ انوارہ۲؂ ۔ حضورانور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتاتھا۔نہ ہی سورج اورچاند کی روشنی میں آپ کا سایہ دکھائی دیتاتھا۔ ابن سبع نے کہا آپ کے نور ہونے کی وجہ سے اوررزین نے کہا آپ کے انوارکے غلبہ کی وجہ سے ۔(ت)

(۲؂انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب)

امام ابنِ حجر مکی رحمہ اللہ تعالٰی افضل القرٰی لقراء ام القری زیر قول ماتن رضی اللہ تعالٰی عنہ ؎
لم یساووک فی علاک وقدحا ل سنا منک دونھم سنا۱؂

(انبیاء علیہم الصلوات والسلام فضیلت میں آپ کے برابر نہ ہوئے آپ کی چمک اوررفعت آپ تک ان کے پہنچے سے مانع ہوئی ۔ ت)

(۱؂ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الاول حزب القادریۃ لاہور ص۶)

فرماتے ہیں : ھذا مقتبس من تسمیتہ تعالٰی لنبیہ نورا فی نحو قولہ تعالٰی ”قدجاء کم من اللہ نور وکتاب مبین”، وکان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یکثر الدعاء بان اللہ یجعل کلا من حواسہٖ واعضائہٖ وبدنہٖ نوراً اظہار الوقوع ذٰلک ، وتفضل اللہ تعالٰی علیہ بہ لیزدادشکرہ وشکرامتہ علی ذٰلک ، کما امرنا بالدعاء الذی فی اٰکرسورۃ البقرۃ مع وقوعہ، ، وتفضل اللہ تعالٰی بہ لذٰلک ومما یؤید انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صار نورا انہ کان اذا مشٰی فی الشمس والقمر لم یظھر لہ ظل لانہ لایظھر الا لکثیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قد خلصہ اللہ سائر الکثائف الجسامنیۃ وصیرہ نورا صرفالایظھر لہ ظل اصلا ۱؂۔

یہ ماخوذ ہے ان آیات کریمہ سے جن میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کا نام نور رکھاہے ، جیسے آیت کریمہ قد جا ء کم من اللہ نور وکتاب مبین (تحقیق آیا تمھارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے نور اور روشن کتاب )نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اللہ تعالی آپ کے تمام حواس ،اعضا اور بدن کو نور بنا دے ۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یہ دعا اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے فرماتے کہ اس کا وقوع ہو چکا ہے اور اللہ تعالی نے اپنے فضل سے آپ کو مجسم نور بنا دیا ہے تاکہ آپ اور آپ کی امت اس پر اللہ تعالی کا بکثرت شکریہ ادا کرے ۔جیسا کہ اللہ تعالی نے ہمیں سورہ بقرہ کی آخری آیات میں واقع دعا مانگنے کا حکم دیا ہے باوجودیکہ اللہ تعالی کے فضل سے اس کا وقوع ہو چکا ہے ۔آپ کی نورانیت کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب آپ سورج اور چاند کی روشنی میں چلتے تو آپ کا سایہ ظاہر نہ ہوتا کیونکہ سایہ تو کثیف چیز کا ظاہر نہ ہوتا کیونکہ سایہ تو کثیف چیز کا ظاہر ہوتا ہے جبکہ آپ کو اللہ نے تمام جسمانی کثافتوں سے پاک فرما دیا ہے اور آپ کو خالص نور بنا دیا ہے ،چنانچہ آپ کا سایہ بالکل ظاہر نہیں ہوتا تھا۔

(۱؂افضل القرٰی لقراء ام القرٰی (شرح ام القرٰی )شرح شعر ۲المجمع الثقافی ابوظبی ۱/۱۲۸و۱۲۹)

علامہ سلیما ن جمل ہمزیہ میں فرماتے ہیں : لم یکن لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ظل یظہر فی الشمس ولاقمر ۲؂

سورج اور چاند کی روشنی میں حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ ظاہر نہیں ہوتا تھا ۔(ت)

(۲؂الفتوحات الاحمدیہ علی متن الہمزیۃ لسلیمان جمل ،المکتبہ التجاریہ الکبری مصر ،ص۵)

علامہ حسین بن محمد دیار بکری کتاب الخمیس فی احوال انفس نفیس میں لکھتے ہیں : لم یقع ظلہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی الارض ولا رئی لہ ظل فی شمس ولاقمر ۳؂۔

حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور نہ ہی سورج وچاند کی روشنی میں نظر آتا تھا (ت)

(۳؂تاریخ الخمیس ،القسم الثانی النوع الرابع ۔موسسۃ شعبان۔بیروت ،ص ۱ /۲۱۹)

بعینہ اسی طرح نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی الاطہار میں ہے ۔

علامہ سیدی محمد زرقانی شرح مواہب شریف میں فرماتے ہیں : لم یکن لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ظل فی شمس ولاقمر لانہ کان نورا کما قال ابن سبع وقال رزین لغلبۃ انوارہ وقیل حکمۃ ذلک صیانتہ عن یطاء کافر علی ظلہ رواہ الترمذی الحکیم عن ذکوان ابی صالح السمان الزیات المدنی او ابی عمر والمدنی مولی عائشۃ رضی اللہ تعالی عنہا وکل منھا ثقۃ من التابعین فھو مرسل لکن روی ابن المبارک وابن الجوزی عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما لم یکن للنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع الشمس قط الا غلب ضوء ضو ء السراج۱؂۔

حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ شمس وقمر کی روشنی میں نمودار نہ ہوتا تھا بقول ابن سبع آپ کی نورانیت کی وجہ سے ۔اور کہا گیا ہے کہ عدم سایہ کی حکمت یہ ہے کہ کوئی کافر آپ کے سایہ پر پاؤں نہ رکھے ۔اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے ذکوان ابو صالح السمان زیات مدنی سے یا ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کے آزاد کرادہ غلام ابو عمرومدنی سے ، اوروہ دونوں ثقہ تابعین میں سے ہیں، لہذا یہ حدیث مرسل ہے ۔ لیکن ابن مبارک اورابن جوزی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ آپ کا سایہ نہ تھا آپ جب سورج کی روشنی یا چراغ کی روشنی میں قیام فرماتے تو آپ کی چمک سورج اورچراغ کی روشنی پر غالب آجاتی تھی۔ (ت)

(۱؂شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ ،المقصد الثالث ،الفصل الاول ،دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۲۲۰)

فاضل محمد بن صبان اسعاف الراغبین میں ذکر خصائص نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں لکھتے ہیں : وانہ لافیئ لہ ۲؂ ۔

(بے شک آپ کا سایہ نہ تھا ۔ ت)

(۲؂اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی واہل بیتہ الطاہرین الباب الاول مصطفی البابی مصر ص۷۹)

حضرت مولوی معنوی قدس سرہ الشریف فرماتے ہیں : ؎

چوں فنانش از فقر پیرایہ شود
اومحمد دار بے سایہ شود۳؂

(جب اس کی فنا فقر سے آراستہ ہوجاتی ہے تو وہ محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرح بغیر سایہ کے ہوجاتاہے ۔ ت)

(۳؂مثنوی معنوی درصفت آں بیخود کہ دربقائی حق فانی شدہ است الخ نورانی کتب خانہ پشاور ص۱۹)

ملک العلماء بحرالعلوم مولانا عبدالعلی قدس سرہ، اس کی شرح میں فرماتے ہیں : در مصرع ثانی اشارہ بہ معجزہ آن سرورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم است کہ آں سرور راسایہ نمی افتاد۴؂۔

دوسرے مصرع میں سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس معجزہ کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر واقع نہیں ہوتا تھا۔

یہاں اس مسئلہ مسلمہ کے منکر وہابیہ ہیں اور اسمٰعیل دہلوی کے غلام اوراسمٰعیل کو غلامی حضرت مجدد کا ادعاء اورحضرت شیخ مجدد جلد ثالث مکتوبات ، مکتوب صدم میں فرماتے ہیں : اورا صلے اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نبود ودرعالم شہادت سایہ ہر شخص لطیف ترست وچوں لطیف ترازوے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نباشد اوراسایہ چہ صورت داردعلیہ وعلٰی آلہ الصلوات والتسلیمات ۱؂۔

رسول انورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔عالم شہادت میں ہرشخص کا سایہ اس سے زیادہ لطیف ہوتاہے۔چونکہ آپ سے بڑھ کر کوئی شئے لطیف نہیں ہے لہذا آپ کے سایہ کی کوئی صورت نہیں بنتی۔ آپ پر اور آپ کی آل پر درودوسلام ہو۔(ت)

(۱؂مکتوبات امام ربانی مکتوب صدم نولکشور لکھنؤ جلد سوم ص۱۸۷)

اسی کے مکتوب ۱۲۲میں فرمایا : واجب راتعالی چر اظل بودکہ ظل موہم تولید بہ مثل ست ومنبی از شائبہ عدم کمال لطافت اصل،ہرگاہ محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم را از لطافت ظل نبود خدائے محمدرا چگونہ ظل باشد۲؂ اھ ۔ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

واجب تعالٰی کا سایہ کیسے ہوسکتاہے کہ سایہ تو مثل کے پیدا ہونے کا وہم پیدا کرتاہے اورعدم کمال لطافت کے شائبہ کی خبر دیتاہے ۔ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ بوجہ آپ کی لطافت کے نہ تھا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خدا جل وعلاکا سایہ کیونکر ہوسکتاہے ۔(ت)

(۲؂مکتوبات امام ربانی مکتوب ۱۲۲نولکھشور لکھنؤ جلدسوم ص۲۳۷)

اقول : (میں کہتاہوں۔ت) مطالع المسرات شریف میں امام اہلسنت سیدنا ابوالحسن اشعری رحمہ الہ تعالٰی سے : انہ تعالٰی نورلیس کالانوار والروح النبویۃ القدسیۃ لمعۃ من نورہٖ والملٰئکۃ شررتلک الانوار۳؂ ۔

اللہ تعالٰی نور ہے مگر انوار کی مثل نہیں اورنبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح اقدس اللہ تعالٰی کے نور کا جلوہ ہے اورملائکہ ان انوار کی جھلک ہیں۔ (ت)

(۳؂مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آبادص۲۶۵)

پھر اس کی تائید میں حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : اول ماخلق اللہ نوری ومن نوری خلق کل شیئ۴؂ ۔

اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے میرا نور بنایا اورمیرے نور سے تمام اشیاء کو پیدا فرمایا (ت)

(۴؂مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آبادص۲۶۵)

جب ملائکہ کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے بنے ، سایہ نہیں رکھتے توحضور کہ اصل نور ہیں جن کی ایک جھلک سے سب ملک بنے کیونکر سایہ سے منزہ نہ ہوں گے ۔ جب کہ ملائکہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے بنے ، بے سایہ ہوں ، اورمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ نورالہٰی سے بنے ، سایہ رکھیں۔
حدیث میں ہے کہ آسمانوں میں چا انگل جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے سجدہ میں نہ ہو، ملائکہ کے سایہ ہوتا تو آفتاب کی روشنی ہم تک کیونکر پہنچتی یا شاید پہنچتی تو ایسی جیسے گھنے پیڑ میں سے چھن کر خال خال بندکیاں نور کے سائے کے اندر نظر آتی ہیں، ملائکہ تو لطیف تر ہیں، نار کے لئے سایہ نہین بلکہ ہوا کے لئے سایہ نہیں بلکہ عالم نسیم کی ہوا کہ ہوائے بالا سے کثیف تر ہے اس کا بھی سایہ نہیں ورنہ روشنی کبھی نہ ہوتی بلکہ ہوا میں ہزاروں لاکھوں ذرے اور قسم قسم کے جانور بھرے پڑے ہیں کہ خوردبین سے نظر آتے ہیں اوربعض بے خوردبین بھی ، جبکہ دھوپ کسی بند مکان میں روزن سے داخل ہو ان میں کسی کے سایہ نہیں۔ یہ سب تو قبول کرلیں گے مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تن اقدس کی ایسی لطافت کس دل سے گوارا ہوکہ حضور کے لئے سایہ نہ تھا۔ جانے دو، یہاں ان ذروں کی باریکی جسم کا حیلہ لوگے ، آسمان میں کیا کہوگے ؟اتنا بڑا جسم عظیم کہ تمام زمین کو محیط اوراس کا ایک ذرا سا ٹکڑا جس میں آفتاب ہے سارے کرہ زمین سے تین سو چھبیس حصے بڑا ہے ، اسی کا سایہ دکھا دیجئے ، اس کا سایہ پڑتا تو قیامت تک تمہیں دن کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوتا ، ہاں ہاں یہی جو نیلگوں چھت ہمیں نظر آتی ہے ، یہی پہلا آسمان ہے ،

قرآن عظیم یہی بتاتاہے : قال تعالٰی افلم ینظر وا الی السماء فوقھم کیف بنینہا وزینہا وما لہا من فروج۱؂۔ (اللہ تعالٰی نے فرمایا : )کیا نہیں دیکھتے اپنے اوپر آسمان کو ، ہم نے اسے کیسے بنایا اور آراستہ کیا اوراس میں کہیں شگاف نہیں ۔

(۱؂القرآن الکریم ۵۰ /۶)

اورفرماتاہے : وزینّٰہا للنّٰظرین۲؂۔ ہم نے آسمان کو دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا۔

(۲؂القرآن الکریم ۱۵ /۱۶)

اوراگر فلاسفہ یونانی کی فضلہ خوری سے یہی مانئے کہ جو نظر آتاہے فلک نہیں ، کرہ بخار ہے۔
جب ہمارا مطلب حاصل کہ اتنا بڑا جسم عظیم عنصری سایہ نہیں رکھتا ، اسے آسمان کہو یا کرہ بخار، ہیئات جدیدہ کا کفراوڑھو کہ آسمان کچھ ہے ہی نہیں ، یہ جو نظر آتاہے محض موہوم وبے حقیقت حد نگاہ ہے ، توایک بات ہے مگر آسمانی کتاب پر ایمان لاکر آسمان سے انکار کرنا ناممکن۔

غرض جب دلیل قاہر سے ثابت کہ جسم عنصری کے لئے سایہ ضروری نہیں ، تو نیچریوں کی طرح خلاف نیچر ہونے کا جو ہمیانہ استبعاد تھا وہ اوڑھ لیا، پھر کیا وجہ کہ ائمہ کرام طبقۃً فطبقۃً جو فضیلت ہمارے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے نقل فرماتے ہیں اور مقبول ومقرر رکھتے آئے اورعقل ونقل سے کوئی اس کا واقع نہیں ، تسلیم نہ کیا جائے یا اس میں چون وچرابرتی جائے اسے سوائے مرض قلب کے کیا کہئے ، محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضائل کو بیمار دل گوارا نہیں کرتا یشرح صدرہ للاسلام۱؂۔ (اللہ تعالٰی اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ) کی دولت نہ ملی کہ اللہ تعالٰی اس کا سینہ قبول و تسلیم کے لیے کھول دیتا ، ناچار

یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السمآء ۲؂ (اس کا سینہ تنگ خوب رکا ہوا کر دیتاہے گویا کسی کی زبردستی سے آسمان پر چڑھ رہا ہے ۔ت )کے آڑے آتی ۔

(۱؂القرآن الکریم ۶ /۱۲۵)
(۲؂القرآن الکریم ۶ /۱۲۵)

دل تنگ ہوکر گورکافر کے مثل ہوجاتااور فضیلت کا منکر کلیجہ چار چار اچھلتا گویا آسمان کو چڑھا جاتاہے کذٰلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لایؤمنون ۳؂ والعیاذباللہ رب العٰلمین۔ واللہ سبحٰنہ تعالٰی اعلم (اللہ یوں ہی عذاب میں ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں کو۔ اوراللہ رب العالمین کی پناہ ۔ اوراللہ سبحٰنہ تعالٰی خوب جانتاہے ۔ت)

(۳؂القرآن الکریم ۶ /۱۲۵)

رسالہ
صلات الصفاء فی نور المصطفٰی ختم ہوا