مسئلہ ۴۱ :از کلکتہ ۹گووند چند دھرسن لیں مرسلہ حکیم محمد ابراہیم صاحب بنارسی ۱۹ ذیقعدہ ۱۳۲۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ کے نور سے پیداہیں یا نہیں ؟اگر اللہ کے نور سے پیدا ہوئے نور ذاتی سے یا نورصفاتی سے یا دونوں سے ؟ او ر نورکیا چیز ہے ؟بینوا توجروا(بیان کرو اجر پاؤگے ۔ت)
الجواب : جواب مسئلہ سے پہلے ایک اورمسئلہ گزارش کرلوں ،
لقولہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من رأی منکم منکر افلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ۱۔ الحدیث۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مطابق: __تم میں سے کوئی آدمی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے بد ل دے اگرایسا نہ کرسکے تو اپنی زبان سے بدل دے ۔ الحدیث __(ت)
(۱صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۱)
حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکر کریم کے ساتھ جس طرح زبان سے درود شریف پڑھنے کا حکم ہے
اللھم صل وسلم وبارک علیہ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہٖ ابدا
(اے اللہ !آپ پر اورآپ کی آل اورآپ کے صحابہ پر ہمیشہ ہمیشہ درودوسلام اوربرکت نازل فرما۔ت) درودشریف کی جگہ فقط صاد یا عم یا صلع یا صللم کہنا ہرگز کافی نہں بلکہ وہ الفاظ بے معنٰی ہیں اور
فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھم۲
میں داخل ،کہ ظالموں نے وہ بات جس کا انہیں حکم تھا ایک اورلفظ سے بدل ڈالی
فانزلنا علی الذین ظلموا رجزاً من السماء بما کانوا یفسقون۳
(۲القرآن الکریم ۲/ ۵۹)
(۳ القرآن الکریم ۲/ ۵۹ )
تو ہم نے آسمان سے ان پر عذاب اتارا بدلہ ان کی بے حکم کا۔
یونہی تحریر میں
القلم احداللسانین
(قلم دو زبانوں مین سے ایک ہے ۔ت)
بلکہ فتاوٰی تاتارخانیہ سے منقول کہ اس میں اس پر نہایت سخت حکم فرمایا اور اسے معاذاللہ تخفیف شان نبوت بتایا۔
طحطاوی علی الدرالمختار میں ہے :
یحافظ علی کتب الصلٰوۃ والسلام علی رسول اللہ ولا یسأم من تکرارہٖ وان لم یکن فی الاصل ویصلی بلسانہ ایضا،ویکرہ الرمز بالصلاۃ والترضی بالکتابۃ بل یکتب ذٰلک کلہ بکمالہٖ ، وفی بعض المواضع عن التتارخانیۃ من کتب علیہ السلام بالھمزۃ والمیم یکفر لانہ تخفیف وتخفیف الانبیاء علیم الصلٰوۃ والسلام کفر بلا شک ، ولعلہ ان صح النقل فھو مقید بقصدہ والا فالظاھر انہ لیس بکفر ، نعم الاحتیاط فی الاحتراز عن الایھام والشبھۃ ۱اھ مختصراً۔
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود وسلام لکھنے کی محافظت کی جائے اور اس کی تکرار سے تنگ دل نہ ہواگرچہ اصل میں نہ ہو اوراپنی زبان سے بھی درود پڑھے ۔ درود یا رضی اللہ عنہ کی طرف لکھنے میں اشارہ کرنا مکروہ ہے بلکہ پورا لکھناچاہیے ۔ تاتارخانیہ کے بعض مقامات پر ہے کہ جس نے علیہ السلام ہمزہ اورمیم سے لکھا ، کافر ہوگیا کیونکہ یہ تخفیف ہے اورانبیاء کی تخفیف بغیر کسی شک کے کفر ہے ، اور یہ نقل صحیح ہے تو اس میں قصدکی قید ضرورہوگی ورنہ بظاہر یہ کفر نہیں ہے ، ہاں احتیاط ایہام اورشبہ سے بچنے میں ہے ۔(ت)
(۱حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختارخطبۃ الکتاب المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۶)
اس کے بعد اصل مسئلہ کا جواب بعون الملک الوھاب لیجئے ۔ نور عرف عامہ میں ایک کیفیت ہے ہے کہ نگاہ پہلے اسے ادراک کرتی ہے اوراس کے واسطے سے دوسری اشیائے دیدنی کو۔
قال السید فی تعریفاتہ النور کیفیۃ تدرکہا الباصرۃ اولا وبواسطتہا سائر المبصرات۲۔
علامہ سید شریف جرجانی نے فرمایا : نور ایک ایسی کیفیت ہے جس کا ادراک قوت باصرہ پہلے کرتی ہے پھر اس کے واسطے سے تمام مبصرات کا ادراک کرتی ہے ۔(ت)
(۲التعریفات للجرجانی تحت اللفظ _النور_۱۵۷۷ دارالکتاب العربی بیروت ص۱۹۵)
اورحق یہ کہ نور اس سے اجلٰی ہے کہ اس کی تعریف کی جائے ۔
یہ جو بیان ہوا تعریف الجلی بالخفی ہے
کمانبہ علیہ فی المواقف وشرحھا
(جیسا کہ مواقف اور اس کی شرح میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے ۔ ت) نور بایں معنٰی ایک عرض وحادث ہے اوررب عزوجل اس سے منزہ ۔ محققین کے نزدیک نوروہ کہ خود ظاہر ہو اوردوسروں کا مظہر ،
کما ذکرہ الامام حجۃ الاسلام الغزالی الی ثم العلامۃ الزرقانی فی شرح المواھب الشریفۃ
(جیسا کہ حجۃ الاسلام امام غزالی نے پھر شرح مواہب شریف میں علامہ زرقانی نے ذکر فرمایا ہے ۔ ت) بایں معنی اللہ عزوجل نور حقیقی ہے بلکہ حقیقۃً وہی نور ہے اورآیہ کریمہ
اللہ نور السمٰوٰت والارض ۱
(اللہ تعالٰی نور ہے آسمانوں اورزمین کا۔ ت) بلاتکلف وبلادلیل اپنے معنی حقیقی پر ہے ۔
(۱ القرآن الکریم ۲۴/ ۳۵)
فان اللہ عزوجل ھو الظاھر بنفسہ المظھر لغیرہ من السمٰوٰت والارض ومن فیھن وسائر المخلوقات۔
کیونکہ اللہ عزوجل بلاشبہ خود ظاہر ہے او راپنے غیر یعنی آسمانوں ، زمینوں ، ان کے اندر پائی جانے والی تمام اشیاء اوردیگر مخلوقات کو ظاہر کرنے والا ہے ۔(ت)
حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلاشبہ اللہ عزوجل کے نور ذاتی سے پیداہیں ۔
حدیث شریف میں وارد ہے :
ان اللہ تعالٰی قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہٖ ۔ رواہ عبدالرزاق ۲ونحوہ عندالبیہقی۔
اے جابر!بیشک اللہ تعالٰی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا ۔(اس کو عبدالرزاق نے روایت کیا اوربیہقی کے نزدیک اس کے ہم معنٰی ہے ۔ ت)
(۲ المواہب اللدنیۃ بحوالہ عبدالرزاق المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۷۱)
حدیث میں _نورہ_فرمایا جس کی ضمیر اللہ کی طرف ہے کہ اسم ذات ہے
من نور جمالہ یا نور علمہ یا نور رحمتہ
(اپنے جمال کے نور سے یا اپنے علم کے نور سے یا اپنی رحمت کے نور سے ۔ت) وغیرہ نہ فرمایا کہ نور صفات سے تخلیق ہو۔ علامہ زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی اسی حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں :
(من نورہٖ) ای من نورھوذاتہ۳
یعنی اللہ عزوجل نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو اس نور سے پیدا کیا جو عین ذات الٰہی ہے ، یعنی اپنی ذات سے بلاواسطہ پیدا فرمایا ،
کما سیأتی تقریرہ
(جیسا کہ اس کی تقریر عنقریب آرہی ہے ۔ ت)
(۳شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول دارالمعرفہ بیروت ۱ /۴۶)
امام احمد قسطلانی مواہب شریف میں فرماتے ہیں :
لما تعلقت ارادۃ الحق تعالٰی بایجاد خلقہ ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ من الانوار الصمدیۃ فی الحضرۃ الاحدیۃ ثم سلخ منہا العوالم کلہا علوھا وسفلھا۱۔
یعنی جب اللہ عزوجل نے مخلوقات کو پیدا کرنا چاہا صمدی نوروں سے مرتبہ ذات صرف میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ظاہر فرمایا ، پھر اس سے تما م علوی وسفلی نکالے۔
(۱ المواہب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۵۵)
شرحِ علامہ میں ہے :
والحضرۃ الاحدیۃ ھی اول تعینات الذات واول رتبہا الذی لااعتبارفیہ لغیر الذات کما ھو المشار الیہ بقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان اللہ ولا شیئ معہ ذکرہ الکاشی۲۔
یعنی مرتبہ احدیتِ ذات کا پہلا تعین اورپہلا مرتبہ ہے جس میں غیر ذات کا اصلاً لحاظ نہیں جس کی طرف نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالٰی تھا اوراس کے ساتھ کچھ نہ تھا، اسے سیدی کاشی قدس سرہ، نے ذکر فرمایا ۔
(۲شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۷)
شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی ، مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں : انبیاء مخلوق انداز اسمائے ذاتیہ حق واولیاء از اسمائے صفاتیہ وبقیہ کائنات از صفات فعلیہ وسید رسل مخلو ق است از ذات حق وظہور حق دروے بالذات است۳۔
انبیاء اللہ کے اسماء ذاتیہ سے پیداہوائے اوراولیاء اسمائے صفاتیہ سے ، بقیہ کائنات صفات فعلیہ سے ، اورسید رسل ذات حق سے ، اور حق کا ظہور آپ میں بالذات ہے ۔ (ت)
(۳مدارج النبوۃ تکملہ درصفات کاملہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۶۰۹)
ہاں عین ذاتِ الٰہی سے پیدا ہونے کے یہ معنی نہیں کہ معاذاللہ ذاتِ الٰہی ذاتِ رسالت کیلئے مادہ ہے جیسے مٹی سے انسان پیداہو، یا عیاذاً باللہ ذات الٰہی کا کوئی حصہ یا کُل ، ذاتِ نبی ہوگیا۔ اللہ عزوجل حصے اورٹکڑے اورکسی کے ساتھ متحد ہوجانے یا کسی شَئے میں حلول فرماتے سے پاک ومنزہ ہے ۔ حضو رسیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خواہ کسی شے جزء ذاتِ الٰہی خواہ کسی مخلوق کو عین ونفس ذاتِ الٰہی ماننا کفر ہے ۔
اس تخلیق کے اصل معنی تو اللہ ورسول جانیں ، جل وعلا و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عالم میں ذاتِ رسول کو تو کوئی پہچانتا نہیں ۔ حدیث میں ہے : یا ابابکر لم یعرفنی حقیقۃ غیر ربی ۱۔
اے ابُوبکر!مجھ جیسا میں حقیقت میں ہوں میرے رب کے سوا کسی نے نہ جانا۔
(۱مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آبادص۱۲۹)
ذاتِ الٰہی سے اس کے پیداہونے کے حقیقت کسے مفہوم ہومگر اس میں فہم ظاہر بیں کا جنتا حصہ ہے وہ یہ ہے کہ حضر ت حق عزجلالہ، نے تمام جہان کو حضور پرنورمحبوب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے واسطے پیدا فرمایا، حضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا۔ لولاک لما خلقت الدنیا۲۔
اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو نہ بناتا۔(ت)
(۲تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۷)
آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام سے ارشادہوا:
لولا محمد ماخلقتک ولا ارضا ولا سماء ۳۔
اگر محمد نہ ہوتے تو میں نہ تمہیں بناتا نہ زمین وآسمان کو۔(ت)
(۳المواہب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۰)
(مطالع المسرات الحزب الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۲۶۴)
توساراجہان ذات الٰہی سے بواسطہ حضور صاحب لولاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پیدا ہوا یعنی حضور کے واسطے حضور کے صدقے حضور کے طفیل میں ۔ لاانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم استفاض الوجود میں حضرۃ العزۃ ثم ھو افاض الوجود علی سائر البریۃ کما تزعم کفرۃ الفلاسفۃ من توسیط العقول ، تعالٰی اللہ عما یقول الظالمون علواکبیر ا، ھل من خلاق غیر اللہ۔
یہ بات نہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اللہ سے جود حاصل کیا پھر باقی مخلوق کو آپ نے وجود دیا جیسے فلاسفہ کافر گمان کرتے ہیں کہ عقول کے واسطے دوسری چیزیں پیداہوتی ہیں ، اللہ تعالٰی ان ظالموں کے اس قول سے بلند وبالا ہے ، کیا اللہ تعالٰی کے علاوہ بھی کوئی خالق ہوسکتاہے ۔(ت)
بخلاف ہمارے حضور عین النور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کہ وہ کسی کے طفیل میں نہیں، اپنے رب کے سوا کسی کے واسطے نہیں تو وہ ذات الٰہی سے بلاواسطہ پیدا ہیں ۔
زرقانی شریف میں ہے : ای من نورھو ذاتہ لابمعنی انھا مادۃ خلق نورہ منہا بل بمعنی تعلق الارادۃ بہ بلاواسطۃ شیئ فی وجودہ۱۔ یعنی اس نور سے جو اللہ کی ذات ہے ، یہ مقصد نہیں کہ وہ کوئی مادہ ہے جس سے آپ کا نور پیدا ہوا بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا ارادہ آپ کے نورسے بلا کسی واسطہ فی الوجود کے متعلق ہوا۔ (ت)
(۱شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الاول دارالمعرفت بیروت ۱ /۴۶)
یازیادہ سے زیادہ بغرض توضیح ایک کمال ناقص مثال یوں خیال کیجئے کہ آفتاب نے ایک عظیم وجمیل وجلیل آئینہ پر تجلی کی ، آئینہ چمک اٹھا اور اس کے نور سے اورآئینے اورپانیوں کے چشمے اورہوائیں اورسائے روشن ہوئے آئینوں اورچشموں میں صرف ظہور نہیں بلکہ اپنی اپنی استعداد کے لائق شعاع بھی پیداہوئی کہ اورچیز کو روشن کر سکے کچھ دیواروں پر دھوپ پڑی، یہ کیفیتی نور سے متکیف ہیں اگرچہ اورکوروشن نہ کریں جن تک دھوپ بھی نہ پہنچی ، وہ ہوائے متوسط نے ظاہرکیں جیسے دن میں مسقّف دالان کی اندرونی دیواریں ان کا حصہ صرف اسی قدر ہوا کہ ، کیفیت نور سے بہر نہ پایا، پہلا آئینہ خود ذات آفتاب سے بلاواسطہ روشن ہے اورباقی آئینے چشمے اس کے واسطے سے اوردیواریں وغیرہا واسطہ درواسطہ پھر جس طرح وہ نور کہ آئینہ اول پر پڑا بعینہٖ آفتاب کا نور ہے بغیر اس کے آفتاب خود یا اس کا کوئی حصہ آئینہ ہوگیا ہو، یونہی باقی آئینے اور چشمے کہ اس آئینے سے روشن ہوئے اوردیوار وغیرہ اشیاء پر ان کی دھوپ پڑی یا صرف ظاہر ہوئیں ، ان سب پر بھی یقیناآفتاب ہی کا نور اور اسی سے ظہور ہے ، آئینے اورچشمے فقط واسطہ وصول ہیں ، ان کی حد زات میں دیکھو تو یہ خود نور تو نور ، ظہور سے بھی حصہ نہیں رکھتے ؎
یک چراغ ست دریں خانہ کہ از پر توآں
ہرکجا می نگری انجمنے ساختہ اند
(اس گھرمیں ایک چراغ سے جس کی تابش سے تو جہاں دیکھتا ہے انجمن بنائے ہوئے ہیں۔)
یہ نظر محض ایک طرح کی تقریب فہم کے لئے ہے جس طرح ارشاد ہوا: مثل نورہ کمشکوٰۃ فیہا مصباح۲ ۔ (اس کے نور کے مثال ایسے ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے ۔ت)
(۲القرآن الکریم ۲۴ /۳۵)
ورنہ کجا چراغ اورکجاوہ نور حقیقی ،
وللہ المثل الاعلی ۳ (اوراللہ کی شان سب سے بلند ہے ۔ت)
(۳القرآن الکریم ۱۶/۶۰)
توضیح صرف ان دوباتوں کی منظور ہے ایک یہ کہ دیکھو آفتاب سے تمام اشیاء منورہوئیں بے اسکے آفتاب خود آئینہ ہوگیا یا اس میں سے کچھ جدا ہوکر آئینہ بنا، دوسرے یہ کہ ایک آئینہ نفس ذات آفتاب سے بلاواسطہ روشن ہے باقی بوسائط ، ورنہ حاشاکہاں مثال اورکہاں وہ بارگاہ جلال۔ باقی اشیاء سے کہ مثال میں بالواسطہ منور مانیں آفتاب حجاب میں ہے اوراللہ عزوجل ظاہر فوق کل ظاہر ہے ، آفتاب ان اشیاء تک اپنے وصول نور میں وسائط کا محتاج ہے اوراللہ عزوجل احتیاج سے پاک، غرض کسی بات میں نہ تطبیق مراد نہ ہرگز ممکن، حتی کہ نفس وساطت بھی یکساں نہیں ، کما لایخفٰی وقد اشرنا الیہ (جیسا کہ پوشیدہ نہیں اورہم نے اس کی طرف اشارہ کردیاہے ۔ت)
سید ی ابو سالم عبداللہ عیاشی ، ہم استاذ علامہ محمد زرقانی تلمیذ علامہ ابوالحسن شبراملسی اپنی کتاب ”الرحلہ”پھر سید ی علامہ عشماوی رحمہم اللہ تعالٰی جمیعاً ”شرح صلاۃ”حضرت سیدی احمد بدوی کبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں فرماتے ہیں : انما یدرکہ علی حقیقتہ من عرف معنی قول تعالی : اللہ نور السمٰوٰت والارض وتحقیق ذٰلک علی ماینبغی لیس مما یدرک ببضاعۃ العقول ولا مما تسلط علیہ الاوھام وانما یدرک بکشف الٰھی واشراق حقہ من اشعۃ ذٰلک النور فی قلب العبد فیدرک نوراللہ بنورہ واقرب تقریر یعطی القرب من فھم۔ اس کا ادراک حقیقۃً وہی شخص کرسکتاہے جو اللہ تعالٰی کے ارشاداللہ نورالسمٰوٰت والارض کا معنی جانتاہے کیونکہ وہم او رعقل کے ذرائع اس کا حقیقی ادراک نہیں کرسکتے ، اس کو توصرف بندے کے دل میں اس نور کو اللہ تعالٰی کی عطاکردہ شعاؤں سے ہی سمجھا جاسکتاہے ، پس ”نوراللہ”کو اس نور ہی کے ذریعے سے سمجھا جاسکتاہے ۔ معنی الحدیث انہ لما کان النور المحمدی اول الانوار الحادثۃ التی تجلی بھا النور القدیم الازلی وھو اول التعینات للوجود المطلق الحقانی وھو مدد کل نور کائن اویکون وکما اشرق النور الاول فی حقیقتہ فتنورت بحیث صارت ھو نورا اشرق نورہ المحمدی علی حقائق الموجودات شیئافشیئا فہی تستمد منہ علی قدر تنورھا بحسب کثرۃ الوسائط وقلتہا وعدمہا وکلما اشرق نورہ علی نوع من انواع الحقائق ظہر النور فی مظہر الاقسام فقد کان النور الحادث اولا شیئا واحد اثم اشرق فی حقیقۃ اخری فاستنارت بنورہ تنورا کاملا یحسب ما تققتضیہ حقیقتہا فحصل فی الوجود الحادث نوران مفیض ومفاض وفی نفس الامر لیس ھناک الا نورا واحدا اشرق فی قابل الاستنارۃ یتنوربتعددات المظاھر والظاھر واحدثم کذٰلک کلما اشرق فی محل ظھر بصورۃ الانقسام وقد یشرق نور المفاض علیہ ایضاً بحسب قوتہٖ علی قوابل اخر فتنوربنورہ فیحصل انقسام اخر بحسب المظاھر وکلہا راجعۃ الی النور الا ول الھادث اما بواسطۃ او بدونھا۔ حدیث کے معنٰی کو سمجھنے کے لئے قریب ترین یہ ہے کہ نو رمحمدی جب قدیم اورازلی نور کی پہلی تجلی ہے تو کائنات میں بھی اللہ تعالٰی کے وجود کا وہی سب سے پہلا مظہر ہے اوروجود میں آنے والے تمام نوروں کی اصل قوت ہے ۔ جب یہ نو راول چمکا اورمنور ہوا تو اس نور محمدی نے تمام موجودات پر درجہ بدرجہ اپنی چمک ڈالی تو بلاواسطہ یا واسطوں کی کمی بیشی کے اعتبار سے ہر چیز اپنی استعداد کے مطابق چمک اٹھی اورتما م حقائق واقسام اس نور کی چمک سے اس کے مظہر بن گئے ، یوں وجود میں آنے والا پہلا نور ایک تھا لیکن ا سکی چمک سے دوسرے حقائق بھی اپنی حقیقت کے مطابق اس نور سے منور ہوتے چلے گئے اورکائنات میں نور در نور بن گئے جبکہ وجود میں نور کی سرف دو ہی قسمیں ، ایک فیض دینے والا اور دوسرا فیض پانے والا، حالانکہ نفس الامری حقیقت میں یہ دونوں نور ایک ہی ہیں، یہ ایک حقیقی نور ہی قابل اشیاء مین چمک پیدا کرکے متعدد مظاہر میں ہوتاہے اورتمام اقسام میں ہر قسم کی صورت میں چمکتاہے اسی طرح فیض یافتہ نور بھی اپنی استعداد کے مطابق دوسری قابل اشیاء میں چمک پیدا کر کے ان کو منور کرتاہے جس سے مزید مظاہرات کی اقسام حاصل ہوتی ہیں جبکہ یہ تمام انوار بالواسطہ یا بلاواسطہ سب سے پہلے نور سے ہی مستفیض ہیں۔ قال وھذا غایۃ ما اتصل الیہ العبارۃ فی ھذا التقریر ومثل فی قصر باعہ وعدم تضلعہ من العلوم الا لٰھیۃ ان زاد فی التقریر خشی علی واقرب مثال یضرب لذٰلک نور المصباح تصبح منہ مصابیح کثیرۃ وھو فی نفسہ باق علی ما ھوا علیہ لم ینقص منہ شیئ واقرب من ھذا المثال الی التحقیق وابعد عن الافھام نورالشمس المشرق فی الاھلۃ والکواکب علی القول بان الکل مستنیر بنورہ ولیس لہا نور من ذاتھا فقد یقال بحسب النظر الاول ان نور الشمس منقسم فی ھذہ الاجرام العولیۃ وفی الحقیقۃ لیس ھذا الا نور ھا وھو قائم بھا لم ینقص منہ شیئ ولم یزایلہا منہ شیئ ولٰکنہ اشرق فی اجرام قابلۃ الاستنارۃ فاستنارت ۔ اس تقریر کے لئے یہ انتہائی محتاط عبارت ہے جو علوم الٰہیہ کے موافق ہے ، اس سے زائد عبارت خطرناک ہوسکتی ہے ۔ اس تقریر کی مناسب مثال وہ چراغ ہے جس سے بے شمار چراغ روشن ہوئے ، اس کے باوجود وہ اپنی اصل حالت پر باقی ہے اوراس کے نور میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ، مزید واضح مثال سورج ہے جس سے تمام سیارے روشن ہیں جن کا اپناکوئی نور نہیں ہے ۔ بظاہر یوں معلوم ہوتاہے کہ سورج کا نوران سیاروں میں منقسم ہوگیا ہے جبکہ فی الواقع ان سیاروں میں سورج ہی کا نور ہے جو سورج سے نہ تو جدا ہوا اورنہ ہی کم ہوا، سیارے تو صرف اپنی قابلیت کی بناپر چمکتے ہیں اورسورج کی روشنی سے منور ہوئے ۔ واقرب من ھذا الالفھم مایحصل فی الاجرام السفلیۃ من اشراق اشعۃ الشمس علی الماء اوقوار الزجاج فیستنیر مایقابلہا من الجدران بحیث یلمح فیہا نور کنور الشمس مشرق باشراقہ ولم ینفصل شیئ من نور المشس عن محلہ الی ذٰلک المحل ومن کشف اللہ حجاب الغفلۃ عن قلبہ واشرقت الانوار المحمدیۃ علی قلبہ یصدق اتباعہ لہ ادرک الامر ادراکا اخر لا یحتمل شکا ولا وھما۔ مزید سمجھ کے لئے پانی اورشیشے پر پڑنے والی سورج کی شعاعوں کو دیکھا جائے جن کا عکس پانی یا شیشے کے بالمقابل دیوار پر پڑتاہے جس سے دیوار روشن ہوجاتی ہے ، دیوار پر یہ روشنی سورج ہی کا نور ہے جو بالواسطہ دیوار پر پڑاکیونکہ براہ راست دیوار پر سورج کا نہیں پڑا اورنہ ہی یہ نور سورج سے جداہوا ، اس کے باوجود یہ نور سورج کا ہی ہے ، جب اللہ تعالٰی کسی کے قلب کو حجاب غفلت سے پاک کرتاہے اوروہ دل انوار محمدیہ سے منور ہوتاہے تو پھر اس کا ادراک ایسا کامل ہوتاہے کہ اس میں شک اوروہم کا احتمال نہیں ہوتا۔ نسأل اللہ تعالٰی ان ینوربنورالعلم الالٰھی بصائر نا ویحجب عن ظلمات الجل سرائرنا ویغفرلنا ما اجترأنا علیہ من الخوض فیما لسنالہ باھل ونسألہ ان لایؤاخذنا بما تقتضیہ العبارۃ من تقصیر فی حق ذٰلک الجناب۱ اھ مختصراً۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہماری بصیر ت کو اپنے علم کے نور سے منور فرمائے اورہمارے باطن کو جہالت کے اندھیروں سے محفوظ فرمائے ،اورجن امورمیں ہم غور کرنے کے اہل نہیں ان پر ہماری جسارت کو معاف فرمائے اوراس جناب میں ہماری کی کوتاہیوں پر مواخذہ نہ فرمائے آمین !اھ مختصراً (ت)
(۱ الرحلۃ لعلی بن علی الشبر املسی)
اس تقریر منیر سے مقاصدِ مذکورہ کے سِوا چند فائدے اورحاصل ہوئے :
اولاً : یہ بھی روشن ہوگیا کہ تمام عالم نور محمدی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کیونکر بنا۔ بے اس کے کہ نور حضور تقسیم ہوا یا اس کا کوئی حصہ این وآں بنا ہو۔ اوریہ کہ وہ جو حدیث میں ارشاد ہوا کہ پھر اس نور کے چار حصے کئے ، تین سے قلم ولوح وعرش بنائے ، چوتھے کے پھر چار حصے کئے الی آخرہٖ، یہ اس کی شعاوں کا انقسام جیسے ہزار آئینوں میں آفتاب کا نور چمکے تو وہ ہزار حصوں پر منقسم نظرآئے گا ، حالانکہ آفتاب منقسم نہ ہوا نہ اس کا کوئی حصہ آئینوں میں آیا۔ واند فع مااستشکلہ العلامۃ الشبراملسی ان الحقیقۃ الواحدۃ لاتنقسم ولیست الحقیقۃ المحمدیہ الا واحدۃ من تلک الاقسام والباقی ان کان منہا ایضا فقد اقسمت وان کان غیرھا فما معنی الا قسام وحاول الجواب وتبعہ فیہ تلمیذہ العلامۃ الزرقانی بان المعنی انہ زادفیہ ”لا انہ قسم ذٰلک النور الذی ھو نور المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذا الظاھر انہ حیث صورہ بصورۃ مما ثلۃ لصورۃ التی سیصیر علیھما لایقسمہ الیہ والٰی غیرہ۲ اھ۔ ” اس (مذکورہ بالا تقریرسے )علامہ شبر املسی کا اعتراض ختم ہوا(اعتراض)حقیقۃ واحدہ تقسیم نہیں ہوتی کیونکہ حقیقت محمدیہ ان اقسام میں ایک قسم ہے ، اوراگر باقی اقسام اسی (حقیقت)سے ہیں تو یہ حقیقت تقسیم ہوگئی اوراگر باقی چیزیں اس حقیقت کی غیر ہیں تو انقسام کا کیا مطلب، پھر انہوں نے (علامہ شبر املسی )نے خود ہی جواب دیا اورعلامہ زرقانی شاگرد رشید علامہ شبراملسی نے ان کی اتباع کی۔ (جواب) حقیقت یہ ہے کہ الہ نے اس میں اضافہ کیا نہ کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور کو تقسیم کیا کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ اللہ نے ان کو ایک ایسی صورت مثالی عطا کی جس پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تخلیق ہونی تھی تو اسے تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
(۲ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاو ل دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۴۶)
وحاصل جوابہ کما قررۃ تلمیذہ العیاشی وان معنی الانقسام زیادۃ نور علی ذٰلک النور المحمدی فیؤخذ ذٰلک الزائد ثم یزادعلیہ نوراٰخر ثم کذٰلک الی اٰخر الاقسام ، قال العیاشی وھذا جواب مقنع بحسب الظاھر والمتحقیق واللہ تعالٰی اعلم وراء ذٰلک اھ ۱ ؎ ثم ذکر مانقلنا عنہ اٰنفاوراأیتنی کتبت علی ھامش الزرقانی مانصہ۔ ان کے جواب کا خلاصہ جسے ان کے شاگرد علامہ عیاشی نے بیان کیا ہے کہ انقسام کا معنٰی نور محمدی اپر اضافے کے ہیں، پھر اس زائد کو لے لیا اس پر ایک دوسرے نور کا اضافہ کیا۔ اسی طرح آخری تقسیم تک سلسلہ جاری رہا۔
عیاشی نے کہا کہ ظاہر کے لحاظ سے یہ جواب کافی ہے اورتحقیق اس کے علاوہ اللہ جانتاہے اھ ۔ پھر اس نے وہی ذکر کیا جو ابھی ہم نے اس سے نقل کیاہے ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے زرقانی پر حاشیہ لکھا جس کی نص یہ ہے ۔ اقول : تبع فیہ شیخہ الشبرملسی الحق انہ لا معنی لہ فانہ اذن لایکون التخلیق من نورہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وھو خلاف المنصوص والمراد۲اھ اقول: (میں (احمد رضا خاں)کہتاہوں)کہ اس (عیاشی)نے اس مسئلہ میں اپنے شیخ شبراملسی کی پیروی کی لیکن حق یہ ہے کہ یہ ایک بے معنٰی بات ہے کیونکہ اس صورت میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے تخلیق نہ ہوگی ، یہ نص اورماد کے خلاف ہے ۔
(۲حاشیۃ امام احمد رضا علی شرح الزرقانی )
اقول : ویمکن الجواب بان المراد انہ تعالٰی کساہ شعاعا اکثرمما کان ثم فصل من شعاعہ شیئا فقسمہ کما تأخذہ الملٰئکۃ شیئا من الا شعۃ المحیطۃ بالکواکب فترمی بہ مسترقی السمع ویقال بذٰلک ان النجوم لھا رجوم ولٰکن منح المولٰی تعالٰی من ذٰلک التقریر المنیر ما اغنی عن کل تکلف وللہ الحمد وقد کان منح للعبد الضعیف ثم رأیت فی شرح العشماوی جزاہ اللہ تعالٰی عنی وعن المسلمین خیراً کثیرًا اٰمین!
اقول: (میں کہتاہوں )اس کا جواب یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ نے آپ کے نور کو پہلی شعاع سے زائد شعاع عطا کی پھر اس سے کچھ جدا کیا، پھر اس کی تقسیم کی جیسے فرشتے ان شعاعوں میں سے جو ستاروں کو محیط ہیں، لے کر چھپ کر سننے والے شیطانوں کو مارتے ہیں اس لئے کہا جاتاہے کہ نجوم کے لئے رجوم ہے ۔ اس روشن تقریر سے مولٰی تعالٰی نے ہر تکلیف سے بے نیازی عطافرمائی ۔ اورتمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے یہ تقریر اس عبدضعیف کو القاء فرمائی پھر میں نے اس کو عشماوی کی شرح میں دیکھا۔ اللہ تعالٰی میری طرف سے اورتمام مسلمانوں کی طرف سے انکو بہت زیادہ جزاء خیر عطافرمائے ۔ آمین ۔(ت)
ثانیاً اقول: (میں کہتاہوں ) اس کا جواب یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ نے آپ کے نور کو پہلی شعاع سے زائد شعاع عطا کی پھر اس سے کچھ جدا کیا، پھر اس کی تقسیم کی جیسے فرشتے ان شعاعوں میں سے جو ستاروں کو محیط ہیں، لے کر چھپ کر سننے والے شیطانوں کو مارتے ہیں اس لئے کہا جاتاہے کہ نجوم کے لئے رجوم ہے ۔ اس روشن تقریر سے مولٰی تعالٰی نے ہر تکلیف سے بے نیازی عطافرمائی ۔ اورتمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے یہ تقریر اس عبدضعیف کو القاء فرمائی پھر میں نے اس کو عشماوی کی شرح میں دیکھا۔ اللہ تعالٰی میری طرف سے اورتمام مسلمانوں کی طرف سے ان کو بہت زیادہ جزاء خیر عطافرمائے ۔ آمین ۔(ت)
یہ شبہ بھی دفع ہوگیا کہ خلق میں کفار ومشرکین بھی ہیں ، وہ محض ظلمت ہیں تو نور مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کیونکر بنے اورنرے نجس ہیں تو اس نور پاک سے کیونکر مخلوق مانے گئے ۔ وجہ اند فاع ہماری تقیر سے روشن ، ظلمت ہو یا نور ، جس نے خلعت وجود پایاہے اس کے لئے تجلی آفتاب وجود سے ضرور حصہ ہے اگرچہ نورنہ ہو صرف ظہور ہوکما تقدم (جیساکہ آگے آئے گا۔ ت)اورشعاع شمس ہر پاک وناپاک جگہ پڑتی ہے وہ جگہ فی نفسہٖ پاک ہے اس سے دھوپ ناپاک نہیں ہوسکتی۔
ثالثاً اقول: یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ جس طرح مرتبہ وجود میں سرف ایک ذات حق ہے باقی سب اسی کے پر تو وجود سے موجود ، یونہی مرتبہ ایجاد میں صرف ایک ذات مصطفٰی ہے باقی سب پراسی کے عکس کا فیضان وجود، مرتبہ کون میں نور احدی آفتاب ہے اورتمام عالم اس کے آئینے اور مرتبہ تکوین میں نور احمدی آفتاب ہے اورساراجہان اس کے آبگینے ، وفی ھذا اقول (اوراسی سلسلہ میں میں کہتاہوں ): ؎
خالق کل الورٰی ربک لاغیرہ
نورک کل الورٰی غیرک لم لیس لن
ای لم یوجد ولیس موجود اولن یوجدابدا۔۱
(کل مخلوق کا پیدا کرنے والا آپ کا رب ہی ہے ، آپ ہی کا نور کل مخلوق ہے اورآپ کا غیر کچھ بھی نہ تھا، نہ ہے ، نہ ہوگا۔ ت)
(۱بستان الغفران مجمع بحوث الامام احمد رضا کراچی ص۲۲۳)
رابعاً اقول : نور اَحَدی تو نوراحدی ، نور احمدی پر بھی یہ مثال منیر مثال چراغ سے احسن و اکمل ہے ، ایک چراغ سے بھی اگرچہ ہزاروں چراغ روشن ہوسکتے ہیں بے اس کے کہ ان چراغوں میں اس کا کوئی حصہ آئے مگر دوسرے چراغ صرف حصول نو ر میں اسی چراغ کے محتاج ہوئے ، بقاء میں اس سے مستغنی ہیں، اگر انہیں روشن کر کے پہلے چراغ کو ٹھنڈا کر دیجئے ان کی روشنی میں فرق نہ آئے گا نہ روشن ہونے کے بعد ان کو اس سے کوئی مدد پہنچ رہی ہے مع ہذا کسب نور کے بعد ان میں اوراس چراغ اول میں کچھ فرق نہیں رہتاسب یکساں معلوم ہوتے ہیں بخلاف نور محمدی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ عالم جس طرح اپنی ابتدائے وجود میں اس کا محتاج تھا کہ وہ نہ ہوتا تو کچھ نہ بنتا یونہی ہر شے اپنی بقا میں اس کی دست نگر ہے ، آج اس کا قدم درمیان سے نکال لیں تو عالم دفعۃً فنائے محض ہوجائے ؎
وہ جو نہ تھے کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے۱
(۱حدائق بخشش مکتبہ رضویہ کراچی حصہ دوم ص۷۹)
نیزجس طرح ابتدائے وجود میں تمام جہان اس سے مستفیض ہوا بعد وجود بھی ہر آن اسی کی مدد سے بہرہ یاب ہے ، پھر تمام جہان میں کوئی اس کے مساوی نہیں ہوسکتا ۔ یہ تینوں باتیں مثال آفتاب سے روشن ہیں، آئینے اس سے روشن ہوئے اورجب تک روشن ہیں اسی کی مددپہنچ رہی ہے اورآفتاب سے علاقہ چھوٹتے ہیں فوراً اندھیرے ہیں پھر کتنے ہی چمکین سورج کی برابری نہیں پاتے ۔ یہی حال ایک ذرہ عالم عرش وفرش اورجو کچھ ان میں ہے اوردنیاوآخرت اوران کے اہل اورانس وجن وملک وشمس وقمر وجملہ انوار ظاہر وباطن حتی کہ شموس رسالت علیہم الصلٰوۃ والتحیۃ کا ہمارے آفتاب جہاں تاک بعالم مآب علیہ الصلٰوۃ والسلام من الملک الوہاب کے ساتھ ہے کہ ہر ایک ایجاد امداد وابتداء وبقاء میں ہر حال ، ہر آن ان کا دست نگر ، ان کا محتاج ہے وللہ الحمد (اورسب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں ۔ ت) ؎
امام اجل محمد بوصیری قدس سرہ، ام القرٰی میں عرض کرتے ہیں : ؎
کیف ترقٰی رقیک الانبیاء یاسماء ماطاولتہا سماء ،
لم یساووک فی علاک وقدحا ل سنا منک دونھم وسناء ،
انما مثلوا صفاتک للنا س کما مثل النجوم الماء ۲،
(یعنی انبیاء حضور کی سی ترقی کیونکر کریں ، اے وہ آسمان رفعت جس سے کسی آسمان نے بلندی میں مقابلہ نہ کیا ، انبیاء حضور کے کمالات عالیہ میں حضور کے ہمسر نہ ہوئے ، حضور کی جھلک اوربلندی نے ان کو حضور تک پہنچنے سے روک دیا، وہ توحضور کے صفتوں کی ایک شبیہ لوگوں کو دکھاتے ہیں جیسے ستاروں کا عکس پانی دکھاتاہے ۔)
(۲ام القرٰی فی مدح خیرالورٰی الفصل الاول حزب القادریۃ لاہور ص۶)
یہ وہی تشبیہ وتقریر ہے جو ہم نے ذکر کی ، وہاں ذات کریم وافاضہ انوار کا ذکر تھا لہذا آفتاب سے تمثیل دی، یہاں صفات کریمہ کا بیان ہے لہذا ستاروں سے تشبیہ مناسب ہوئی ۔
مطالع المسرات میں ہے : اسمہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم محی حیٰوۃ جمیع الکون بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فھو روحہ وحٰیوتہ وسبب وجودہٖ وبقائہٖ۱۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک محی ہے ، زندہ فرماتے والے ، اس لئے کہ سارے جہان کی زندگی حضورسے ہے تو حضور تمام عالم کی جان وزندگی اوراس کے وجود وبقاء کے سبب ہیں۔
(۱مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آبادص۹۹)
اسی میں ہے : ھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روح الاکوان وحیاتہا وسروجودھا ولولاہ لذھبت وتلاشت کما قال سید عبدالسلام رضی اللہ تعالٰی عنہ ونفعنا بہ ولا شیئ الا ھو بہ منوط اذلولا الواسطۃ لذھب کما قیل الموسوط۲۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام عالم کی جان وحیات وسبب وجود ہیں حضور نہ ہوں تو عالم نیست ونابود ہوجائے کہ حضرت سیدی عبدالسلام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ عالم میں کوئی ایسا نہیں جو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ نہ ہو، اس لئے کہ واسطہ نہ رہے تو جو اس کے واسطہ سے تھا آپ ہی فنا ہوجائے ۔
(۲مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۲۶۳)
ہمزیہ شریف میں ارشاد فرمایا : ؎ کل فضل فی العٰلمین فمن فضل
النبی استعارۃ الفضلاءٖ۳
(جہان والوں میں جو خوبی جس کسی میںہے وہ اس نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضل سے مانگے کرلی ہے ۔)
(۳ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل السادس حز ب القادریۃ لاہور ص۱۹)
امام ابن حجر مکی افضل القرٰی میں فرماتے ہیں : لانہ الممدلھم اذھو الوارث للحضرۃ الا لٰہیۃ والمستمد منہا بلا واسطۃ دون غیرہ فانہ لایستمد منہا الا بواسطتہ فلا یصل لکامل منہا شیئ الا وھو من بعض مددہ وعلٰی یدیہ۱۔ تمام جہان کی امداد کرنے والے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں اس لئے کہ حضور ہی بارگاہ الٰہی کے وارث ہیں بلاواسطہ خدا سے حضور ہی مدد لیتے ہیں اورتمام عالم مدد الٰہی حضور کی وساطت سے لیتاہے تو جس کامل کو خوبی ملی وہ حضور ہی کی مدد اورحضور ہی کے ہاتھ سے ملی ۔
(۱افضل القرٰی لقراء ام القری (شرح ام القرٰی))
شرح سیدی عشماوی میں ہے : نعمتان ماخلا موجود عنہما نعمۃ الا یجاد ونعمۃ الامداد وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الواسطۃ فیھما اذلو لاسبقۃ وجودہ ماوجد موجود ولو لا وجود نورہ فی ضمائر الکون لتھد مت دعائم الوجود فھو الذی وجد اولا ولہ تبع الوجود وصار مرتبطابہ لااستغناء لہ عنہ۲۔ کوئی موجود ،دو نعمتوں سے خالی نہیں ، نعمت ایجاد ونعمت امداد۔ اوران دونوں میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہی واسطہ ہیں کہ حضور پہلے موجود نہ ہولیتے تو کوئی چیز وجود نہ پاتی اور عالم کے اندر حضور کا نور موجود نہ ہوتو وجود کے ستون ڈھے جائیں تو حضور ہی پہلے موجود ہوئے اورتمام جہان حضور کا طفیلی اورحضور سے وابستہ ہوا جسے کسی طرح حضور سے بے نیازی نہیں۔
(۲شرح مقدمۃ العشماوی)
ان مضامین جمیلہ پر بکثرت ائمہ وعلماء کے نصوص جلیلہ فقیر کے رسالہ ”سلطنۃ المصطفٰی فی ملکوت کل الورٰی ” میں ہیں ، وللہ الحمد۔
صفحہ نمبر 186 تک