رسالہ
صلات الصفاء فی نورالمصطفٰی(۱۳۲۹ھ)
(نور مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بیان میں صفائی باطن کے انعامات )
بسم اللہ الرحمن الرحیم ط
مسئلہ ۳۸ : از لشکر گوالیار محکمہ ڈاک دربار مرسلہ مولوی نور الدین احمد صاحب ۲۸ذیقعدہ ۱۳۱۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہ مضمون کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے پیدا ہوئے اوران کے نور سے باقی مخلوقات ، کس حدیث سے ثابت ہے اوروہ حدیث کس قسم کی ہے ؟بینوا توجروا(بیان کرواجر پاؤگے۔ت)
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم ط
اللھم لک الحمد یانور یانور النور یانور اقبل کل نور ونورا بعد کل نور یامن لہ النور وبہ النور ومنہ النور والیہ النور وھو النورصل وسلم وبارک عی نورک المنیر الذی خلقتہ من نورک و خلقت من نورہ الخلق جمیعا وعلٰی اشعۃ انوارہٖ واٰلہٖ واصحابہٖ نجومہٖ واقمارہٖ اجمعین (اٰمین)
اے اللہ !تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں، ا ے نور کے نور ، اے نور ہر نور سے پہلے اور، اے نور ہر نور کے بعد۔اے وہ ذات جس کے لئے نور ہے ، جس کے سبب سے نور ہے، جس سے نور ،جس کی طرف نور ہے اوروہی نور ہے ۔ درود وسلام اوربرکت نازل فرما اپنے نور پرجوروشن کرنے والاہے ۔ جس کو تو نے اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ اورتمام مخلو ق کو اس کے نور سے پیدا فرمایا۔ اوراس کے انورا کی شعاعوں پر اور اس کے آل واصحاب پر جو اس کے ستارے اورچاند ہیں۔ سب پر۔ اے اللہ !ہماری دعا کو قبول فرما۔(ت)
امام اجل سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کے شاگرد اورامام ابجل سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے استاذ اورامام بخاری وامام مسلم کے استاذ الاستاذ حافظ الحدیث احد الاعلام عبدالرزاق ابو بکر بن ہمام نے اپنی مصنف میں حضرت سیدنا وابن سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی : قال قلت یارسول اللہ بابی انت وامی اخبرنی عن اول شیئ خلقہ اللہ تعالٰی قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالٰی قد خلق قبل الاشیاء نورنبیک من نورہٖ فجعل ذٰلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللہ تعالٰی ولم یکن فی ذٰلک الوقت لوح ولا قلم ولاجنۃ ولا نار ولا ملک ولاسماء ولاارض ولا شمس ولا قمر ولا جنی ولا انسی، فلما اراداللہ تعالٰی ان یخلق الخلق قسم ذٰلک النور اربعۃ اجزاء فخلق من الجزء الاول القلم ، ومن الثانی اللوح ، ومن الثالث العرش ، ثم قسم الجزء الرابع اربعۃ اجزاء فخلق من الجزء الاول حملۃ العرش ومن الثانی الکرسی ومن الثالث باقی الملائکۃ ، ثم قسم الرابع اربعۃ اجزاء ، فخلق من الاول السمٰوٰات، ومن الثانی الارضین ومن الثالث الجنۃ والنار ، ثم قسم الرابع اربعۃ اجزاء الحدیث ۱بطولہ۔
یعنی وہ فرماتے ہیں میں نے عرض کی : یارسول اللہ !میرے ماں باپ حضور پر قربان ،مجھے بتا دیجئے کہ سب سے پہلے اللہ عزوجل نے کیا چیز بنائی ، فرمایا: اے جابر!بیشک بالیقین اللہ تعالٰی نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا، وہ نور قدرت الٰہی سے جہاں خدا نے چاہا دورہ کرتارہا ۔ اس وقت لوح ، قلم ، جنت ، دوزخ ، فرشتے ، آسمان ، زمین ، سورج، چاند ، جن ، آدمی کچھ نہ تھا۔پھر جب اللہ تعالٰی نے مخلوق کو پیدا کرناچاہا اس نور کے چار حصے فرمائے ، پہلے سے قلم، دوسرے سے لوح، تیسرے سے عرش بنایا۔ پھر چوتھے کے چار حصے کئے، پہلے سے فرشتگان حامل عرش ، دوسرے سے کرسی، تیسرے سے باقی ملائکہ پیدا کئے ۔ پھر چوتھے کے چار حصے فرمائے ، پہلے سے آسمان ، دوسرے سے زمینیں ، تیسرے سے بہشت دوزخ بنائے ، پھر چوتھے کے چار حصے کئے ، الٰی آخر الحدیث۔
(۱المواہب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۱و۷۲)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۴۶و۴۷)
(تاریخ الخمیس مطلب اللوح والقلم مؤسسۃ شعبان ۱ /۱۹و۲۰)
(مطالع المسرات الحزب الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۲۲۱)
(مدارج النبوۃ قسم دوم باب اول مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۲)
یہ حدیث امام بیہقی نے بھی دلائل النبوۃ مین بنحوہٖ روایت کی ، اجلہ ائمہ دین مثل امام قسطلانی مواہب لدنیہ اور امام ابن حجر مکی افضل القرٰی اورعلامہ فاسی مطالع المسرات اورعلامہ زرقانی شرح مواہب اورعلامہ دیاربکری خمیس اورشیخ محقق دہلوی مدارج وغیرہا میں اس حدیث سے استناد اور اس پر تعویل واعتماد فرماتے ہیں ، بالجملہ وہ تلقی امت بالقو کا منصب جلیل پائے ہوئے ہے تو بلاشبہ حدیث حسن صالح مقبول معتمد ہے ۔ تلقی علماء بالقبول وہ شے عظیم ہے جس کے بعد ملاحظہ سند کی حاجت نہیں رہتی بلکہ سند ضعیف بھی ہوتو حرج نہیں کرتی ، کما بیناہ فی ”منیر العین فی حکم تقبیل الابھا مین ” (جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ ”منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین ”میں اس کو بیان کیاہے ۔ت)
لاجرم علامہ محقق عارف باللہ سید عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں : قد خلق کل شیئی من نورہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کما وردبہ الحدیث الصحیح۲ ۔
بے شک ہر چیز نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے بنی ، جیسا کہ حدیث صحیح اس معنی میں وارد ہوئی ۔
(۲الحدیقۃ الندیۃ المبحث الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۳۷۵)
ذکرہ فی المبحث الثانی بعد النوع الستین من اٰفات اللسان فی مسئلہ ذم الطعام۔
اس کو علامہ نابلسی نے نوع نمبر ساٹھ جو کہ زبان کی آفتوں کے بیان میں ہے کہ بعد، کھانے کی برائی بیان کرنے کے مسئلہ کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے ۔(ت)
مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات میں ہے : قد قال الاشعری انہ تعالٰی نور لیس کالا نواروالروح النبویۃ القدسیۃ لمعۃ من نورہ والملائکۃ شرر تلک الانوار وقال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اول ماخلق اللہ نوری ومن نوری خلق کل شیئ وغیرہ مما فی معناہ ۱۔
یعنی امام اجل امام اہلسنت سید نا ابوالحسن اشعری قدس سرہ (جن کی طرف نسبت کر کے اہل سنت کو اشاعرہ کہا جاتاہے ) ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نور ہے نہ اورنوروں کی مانند اورنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح پاک اسی نور کی تابش ہے اورملائکہ ان نوروں کے ایک پھول ہیں ، اوررسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرا نور بنایا اورمیری ہی نور سے ہر چیز پیدا فرمائی ۔ اوراس کے سوا اورحدیثیں ہیں جو اسی مضمون میں وارد ہیں۔ واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
(۱ مطالع المسرات الحزب الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۲۶۵)