مسئلہ۳۷ : از کانپور محلہ بنگالی محل مرسلہ حدم علی خاں وکاطم حسین ۱۱محرم الحرام ۱۳۲۰ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شبِ معراج مبارک عرش عظیم تک تشریف لے جانا علمائے کرام وائمہ اعلام نے تحریر فرمایا ہے یا نہیں ؟زید کہتاہے یہ محض جھوٹ ہے ، اس کا یہ کہنا کیسا ہے ؟بینوا توجروا(بیان فرماؤ اجردئے جاؤ گے ۔ت)
الجواب : بیشک علمائے کرام ائمہ دین عدول ثقات معتمدین نے اپنی تصنیف جلیلہ میں اس کی اور اس سے زائد کی تصریحات جلیلہ فرمائی ہیں ، اوریہ سب احادیث ہیں، اگرچہ احادیث مرسل یا ایک اصطلاح پر معضل ہیں،اورحدیث مرسل ومعضل باب فضائل میں بالاجماع مقبول ہے خصوصاً جبکہ ناقلین ثقات عدول ہیں اوریہ امر ایسا نہیں جس میں رائے کو دخل ہوتو ضرور ثبوت سند پر محمول ، اورمثبت نافی پر مقدم، اورعدم اطلاع اطلاع عدم نہیں تو جھوٹ کہنے والا محض جھوٹا مجازف فی الدین ہے ۔
امام اجل سید ی محمد بوصیری قدس سرہ، قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں : ع سریت من حرم لیلا الی حرم
کما سری البدر فی داج من الظلم
وبت ترقی الی ان نلت منزلۃ
من قاب قوسین لم تدرک ولم ترم
خفضت کل مقام بالاضافۃ اذ
نودیت بالرفع مثل المفرد العلم
فخرت کل فخار غیر مشترک
وجزت کل مقام غیر مزدحم۱
یعنی یارسول اللہ!حضور رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں حرم مکہ معظمہ سے بیت الاقصٰی کی طرف تشریف فرماہوئے جیسے اندھیری رات میں چودھویں کا چاند چلے ، اورحضور اس شب میں ترقی فرماتے رہے یہاں تک کہ قاب قوسین کی منزل پہنچے جو نہ کسی نے پائی نہ کسی کو اس کی ہمت ہوئی ۔ حضور نے اپنی نسبت سے تمام مقامات کو پست فرمادیا، جب حضور رفع کے لئے مفرد علم کی طرح ندافرمائے گئے حضور نے ہر ایسا فخر جمع فرمالیا جو قابل شرکت نہ تھا اور حضور ہر اس مقام سے گزرگئے جس میں اوروں کا ہجوم نہ تھا یا یہ کہ حضور نے سب فخر بلا شرکت جمع فرمالئے اورحضور تمام مقامات سے بے مزاحم گزرگئے ۔
(۱ الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ (قصیدہ بردہ )الفصل السابع مرکز اہلسنت گجرات ہند ص۴۴تا۴۶)
یعنی عالم امکان میں جتنے مقام ہیں حضور سب سے تنہا گزر گئے کہ دوسرے کو یہ امر نصیب نہ ہوا ۔
علامہ علی قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں : ای انت دخلت الباب وقطعت الحجاب الی ان لم تترک غایۃ للساع الی السبق من کمال القرب المطلق الی جناب الحق ولا ترکت موضع رقی وصعود وقیام وقعود لطالب رفعۃ فی عالم الوجود بل تجاوزت ذٰلک الٰی مقام قاب قوسین اوادنٰی فاوحٰی الیک ربک ما اوحٰی۱۔
یعنی حجور دروازہ میں داخل ہوئے اورآپنے یہاں تک حجاب طے فرمائے کہ حضر ت عزت کی جناب میں قرب مطلق کامل کے سبب کسی ایسے کے لئے جو سبقت کی طرف دوڑے کوئی نہایت نہ چھوڑی اورتما م عالم وجود میں کسی طالب بندلی کے لئے کوئی جگہ عروج وترقی یا اٹھنے بیٹھنے کی باقی نہ رکھی بلکہ حضور عالم مکان سے تجاوز فرما کر مقام قاب وقوسین اوادنٰی تک پہنچے تو حضور کے رب نے حضور کو وحی فرمائی جو وحی فرمائی ۔
(۱الزبدۃ العمدۃ فی شرح القصیدۃ البردۃ الفصل السابع جمعیت علماء سکندریہ خیر پور سندھ ص۹۶)
نیز امام ہمام ابو عبداللہ شرف الدین محمد قدس سرہ، ام القرٰی میں فرماتے ہیں : وترقی بہ الٰی قاب قوسین
وتلک السیادۃ القعسا
رتب تسقط الاما فی حسرٰی
دونھا ماوراھن وراء۲
حضور کو قاب قوسین تک ترقی ہوئی اوریہ سرداری لازوال ہے یہ وہ مقامات ہیں کہ آرزوئیں ان سے تھک کرگرجاتی ہیں ان کے اس طرف کوئی مقام ہی نہیں ۔
(۲ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الرابع حز ب القادریۃ لاہور ص۱۳)
امام ابن حجر مکی قدس سرہ الملکی اس کی شرح افضل القرٰی میں فرماتے ہیں : قال بعض الائمۃ والماریج لیلۃ الاسراء عشرۃ ، سبعۃ فی السمٰوٰت والثامن الی سدرۃ المنتھٰی والتاسع الی المستوی والعاشر الی العرش۳الخ ۔
بعض ائمہ نے فرمایا شب اسراء دس معراجیں تھیں ، سات ساتوں آسمانوں میں ، اورآٹھویں سدرۃ المنتہٰی ، نویں مستوٰی ، دسویں عرش تک۔
(۳افضل القرٰی لقراء ام القری تھت شعر۷۳ المجعم الثقافی ابو ظبی ۱/ ۴۰۴)
سید علامہ عارف باللہ عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں اسے نقل فرما کر مقرر رکھا : قال الشھاب المکی فی شرح ھمزیۃ لامام بوصیری عن بعض الائمۃ ان المعاریج عشرۃ الٰی قولہ والعاشر الی العرش والرؤیۃ۴ ۔
فرمایا ، امام شہاب مکی نے شرح ہمزیہ امام بوصیرہ میں کہا بعض آئمہ سے منقول ہے کہ معراجین دس ہیں،
(۴ الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ بحوالہ شرح قصیدہ ہمزیہ المکتبۃ النوریۃ الرضویہ لائلپور ۱ /۲۷۲)
دسویں عرش ودیدار تک ۔
نیز شرح ہمزیہ امام مکی میں ہے : لما اعطی سلیمٰن علیہ الصلٰوۃ والسلام الریح التی غدوھا شھر ورواحھا شھر اعطی نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم البراق فحملہ من الفرش الی العرش فی لحظۃ واحدۃ واقل مسافۃ فی ذٰلک سبعۃ اٰلاف سنۃ ۔ وما فوق العرش الی المستوی والرفرف لایعلمہ الا اللہ تعالٰی ۱ ۔
جب سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہوادی گئی کہ صبح شام ایک ایک مہینے کی راہ پر لے جاتی ۔ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو براق عطا ہوا کہ حضور کو فرش سے عرش تک ایک لمحہ میں لے گیا اوراس مین ادنٰی مسافت (یعنی آسمان ہفتم سے زمین تک ) سات ہزار برس کی راہ ہے ۔ اوروہ جو فوق العرش سے مستوٰی اورفرف تک رہی اسے توخدا ہی جانے ۔
(۱افضل القرٰی لقرء ام القرٰی)
اسی میں ہے : لما اعطی موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام الکلام اعطی نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مثلہ لیلۃ الاسراء وزیادۃ الدنو والرویۃ بعین البصر وشتان مابین جبل الطور الذی نوجی بہ موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام موما فوق العرش الذی نوجی بہ نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۲۔
جب موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دولت کلام عطاہوئی ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ویسی ہی شب اسراملی اورزیادت قرب اورچشم سر سے دیدارالٰہی اس کے علاوہ ۔ اوربھلاکہاں کو ہ طور جس پر موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام سے مناجات ہوئی اورکہاں مافوق العرش جہاںہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کلام ہوا۔
(۲افضل القرٰی لقرء ام القرٰی)
اسی میں ہے : رقیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ببدنہ یقظۃ بمکۃ لیلۃ ولاسراء الی السماء ثم الی سدرۃ المنتھٰی ثم الی المستوی الی العرش والرفرف والرویۃ۳ ۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے جسم پاک کے ساتھ بیداری میں شب اسراآسمانوں تک ترقی فرمائی ، پھر سدرۃ المنتہٰی ، پھر مقام مستوٰی ، پھر عرش ورفرف ودیدار تک۔
(۳افضل القرٰی لقراء ام القرٰی تحت شعرا ۱المجمع الثقافی ابوظبی ۱/ ۱۱۶و۱۱۷)
علامہ احمد بن محمد صاوی مالکی خلوتی رحمۃ اللہ تعالٰی تعلیقاتِ افضل القرٰی میں فرماتے ہیں : الاسراء بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی یقظۃ بالجسد والروح من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی ثم عرج بہ الی السمٰوٰت العلی ثم الی سدرۃ المنتہٰی ثم الی المستوی ثم الی العرش والرفرف۱۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو معراج بیداری میں بدن ورُوح کے ساتھ مسجد حرامِ سے مسجدِ اقصٰی تک ہوئی ،پھر آسمانوں ، پھر سدرہ ، پھر مستوٰی ، پھرعرش ورفرف تک۔
(۱ تعلیقات علی ام القرٰی للعلامۃ احمد بن محمد الصاوی علی ھامش الفتوحات الاحمدیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبری مصرص۳)
فتوحات احمدیہ شرح الہمزیہ للشیخ سلیمان الجمل میں ہے : رقیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لیلۃ الاسراء من بیت المقدس الی السمٰوٰت السبع الی حیث شاء اللہ تعالٰی لکنہ لم یجاوز العرش علی الراجح۲۔
حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ترقی شب اسراء بیت المقدس سے ساتوں آسمانوں اوروہاں سے اس مقام تک ہے جہاں تک اللہ عزوجل نے چاہا مگر راجح یہ ہے کہ عرش سے آگے تجاوز نہ فرمایا ۔
(۲ الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحمدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصر ص۳)
اسی میں ہے : المعاریج لیلۃ الاسراء عشرۃ سبعۃ فی السمٰوٰت والثامن الی سدرۃ المنتھٰی والتاسع الی المستوٰی والعاشر الی العرش لکن لم یجاوز العرش کما ھو التحقیق عند اھل المعاریج۳۔
معراجیں شب اسراء دس ہوئیں، سات آسمانوں میں ،ا ورآٹھویں سدرہ، نویں مستوٰی ، دسویں عرش تک۔ مگر راویان معراج کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ عرش سے اوپر تجاو ز نہ فرمایا ۔
(۳الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصرص۳۰)
اسی میں ہے : بعد ان جاوز السماء السابعۃ رفعت لہ سدرۃ المنتھٰی ثم جاو زھا الی مستوٰی ثم زج بہ فی النور فخرق سبعین الف حجاب من نور مسیرۃ کل حجاب خمسائۃ عام ثم دلی لہ رفرف اخضر فارتقی بہ حتی وصل الی العرش ولم یجاوزہ فکان من ربہ قاب قوسین او ادنٰی۱۔
جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آسمان ہفتم سے گزرے سدرہ حضور کے سامنے بلند کی گئی اس سے گزر کر مقام مستوٰی پر پہنچے ، پھر حضور عالم نور میں ڈالے گئے وہاں ستر ہزار پردے نور کے طے فرمائے ، ہر پردے کی مسافت پانسو برس کی راہ۔ پھر ایک سبز بچھونا حضور کے لئے لٹکایا گیا ، حضور اقدس اس پر ترقی فرماکر عرش تک پہنچے ، اورعرش سے ادھر گزر نہ فرمایا وہاں اپنے رب سے قاب قوسین اوادنٰی پایا۔
(۱ الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصرص۳۱)
اقول :(میں کہتاہوں۔ت) شیخ سلیمٰن نے عرش سے اوپر تجاوز نہ فرمانے کوترجیح دی، اورامام ابن حجر مکی وغیرہ کی عبارت ماضیہ وآتیہ وغیرہا میں فوق العرش ولامکان کی تصریح ہے ، لامکان یقینا فوق العرش ہے اورحقیقۃً دونوں قولوں میں کچھ اختلاف نہیں ، عرش تک منتہائے مکان ہے ، اس سے آگے لامکان ہے ، اورجسم نہ ہوگا مگر مکان میں ، تو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جسم مبارک سے منتہائے عرش تک تشریف لے گئے اورروح اقدس نے وراء الوراء تک ترقی فرمائی جسے ان کا رب جانے جو لے گیا، پھر وہ جانیں جو تشریف لے گئے ، اسی طرف کلام امام شیخ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں اشارہ عنقریب آتاہے کہ ان پاؤں سے سیر کا منتہٰی عرش ہے ، تو سیر قدم عرش پر ختم ہوئی ، نہ اس لئے کہ سیر اقدس میں معاذاللہ کوئی کمی رہی ، بلکہ اس لئے کہ تمام اماکن کا احاطہ فرمالیا،اوپرکوئی مکان ہی نہیں جسے کہئے کہ قدم پاک وہاں نہ پہنچا اوسیر قلب انور کی انتہاء قاب قوسین ، اگر وسوسہ گزرے کہ عرش سے وراء کیا ہوگا کہ حضور نے اس سے تجاوز فرمایاتو امام اجل سید علی وفا رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد سنئے جسے امام عبدالوہاب شعرانی نے کتاب الیواقیت والجواہر فی عقائد الاکابر میں نقل فرمایا کہ فرماتے ہیں : لیس الرجل من یقیدہ العرش وما حواہ من الافلاک والجنۃ والنار وانما الرجل من نفذ بصرہ الی خارج ھٰذا الوجود کلہ وھناک یعرف قدرعظمۃ موجدہ سبحٰنہ وتعالٰی ۲۔
مَرد وہ نہیں جسے عرش اورجو کچھ اس کے احاطہ میں ہے افلاک وجنت ونار یہی چیزیں محدود ومقید کرلیں، مرد وہ ہے جس کی نگاہ اس تمام عالم کے پار گزر جائے وہاں اسے موجد عالم جل جلالہ کی عظمت کی قدر کھلے گی۔
(۲الیواقیت والجواہر المبحث الرابع والثلاثوں داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۷۰)
امام علامہ احمد قسطلانی مواہب لدنیہ ومنح محمدیہ میں اور علامہ محمد زرقانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں : (ومنہا انہ راٰی اللہ تعالٰی بعینیہ) یقظۃ علی الراجح (وکلمہ اللہ تعالٰی فی الرفیع الا علی) علی سائر الامکنۃ وقدروی ابن عساکر عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مرفوعا لما اسری لی قربنی ربی حتی کان بینی وبینہ قاب قوسین اوادنی ۱۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص سے ہے کہ حضور نے اللہ عزوجل کو اپنی آنکھوں سے بیداری میں دیکھا، یہی مذہب راجح ہے ، اوراللہ عزوجل نے حضور سے اس بلند وبالا تر مقام میں کلام فرمایا جو تمام امکنہ سے اعلٰی تھا اوربیشک ابن عساکر نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : شب اسراء مجھے میرے رب نے اتنا نزدیک کیا کہ مجھ میں اوراس میں دوکمانوں بلکہ اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا۔
(۱ المواہب اللدنیۃ المقصد الرابع الفصل الثانی المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۶۳۴)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الرابع الفصل الثانی دارالمعرفۃ بیروت ۵ /۲۵۱و۲۵۲)
اسی میں ہے : قد اختلف العلماء فی الاسراء ھل ھوا اسراء واحد او اثنین مرۃ بروحہ وبدنہ یقظۃ ومرۃ مناما او یقظۃ بروحہ وجسدہ من المسجدالحرام الی المسجد الاقصی ثم منا ما من المسجدالاقصٰی الی العرش۲۔
علماء کو اختلاف ہوا کہ معراج ایک ہے یا دو، ایک بار روح وبدن اقدس کے ساتھ بیداری میں اورایک بارخواب میں یا بیداری میں روح وبدن مبارک کے ساتھ مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک، پھر خواب میں وہاں سے عرش تک ۔
(۲ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۷)
فالحق انہ اسراء واحد بروحہ وجسدہ یقظۃ فی القصۃ کلھا والی ھذا ذھب الجمہور من علماء المحدثین والفقہاء والمتکلمین ۳۔
اورحق یہ ہے کہ وہ ایک اسراء ہے اورسارے قصے میں یعنی مسجد الحرام سے عرش اعلٰی تک بیداری میں روح وبدن اطہر ہی کے ساتھ ہے ۔ جمہور علماء ومحدثین وفقہاء ومتکلمین سب کا یہی مذہب ہے ۔
(۳المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۷)
(المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۲)
اسی میں ہے : المعاریج عشرۃ (الٰی قولہ )العاشر الی العرش ۱۔ معراجیں دس ہوئیں ، دسویں عرش تک۔
(۱المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس مراحل المعراج المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۷)
اسی میں ہے : قدروردفی الصحیح عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لما عرج بی جبریل الی سدرۃ المنتہٰی ودنا الجبار رب العزۃ فتدلی فکان قاب قوسین او ادنٰی ۲ وتدلیہ علی ما فی حدیث شریک کان فوق العرش ۳۔
صحیح بخاری شریف میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : میرے ساتھ جبریل نے سدرۃ المنتہٰی تک عروج کیا اور جبار رب العزۃ جل وعلانے دنو وتدلیّ فرمائی تو فاصلہ دو کمانوں بلکہ ان سے کم کا رہا، یہ تدلی بالائے عرش تھی ، جیسا کہ حدیث شریک ہے ۔
(۲المواہب اللدنیۃ المقصد الخاس ثم دنٰی فتدلٰی المتکب الاسلامی بیروت ۳ /۸۸)
(المواہب اللدنیۃ المقصد الخاس ثم دنٰی فتدلٰی المتکب الاسلامی بیروت ۳ /۹۰)
علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض میں فرماتے ہیں : وردفی المعراج انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما بلغ سدرۃ المنتہٰی جاء ہ بالرفرف جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام فتناولہ فطاربہ الی العرش۴۔
حدیث معراج میں وارد ہوا کہ جب حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سدرۃ المنتہٰی پہنچے جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم رفرف حاضر لائے وہ حضو کر لے کر عرش تک اڑگیا۔
(۴نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واماما ورد فی حدیث الاسراء مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۳۱۰)
اسی میں ہے : علیہ یدل صحیح الاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الجنۃ ووصولہ الی العرش اوطرف العالم کما سیأتی کل ذٰلک بجسدہ یقظہ ۱۔
صحیح احادیثیں دلالت کرتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شب اسراء جنت میں تشریف لے گئے اورعرش تک پہنچے یا علم کے اس کنارے تک کہ آگے لامکان ہے اوریہ سب بیداری میں مع جسم مبارک تھا۔
(۱نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ثم اختلف السلف والعلماء مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۲۶۹،۲۷۰)
حضرت سیدی شیخ اکبرامام محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالٰی عنہ فتوحاتِ مکیہ شریف باب ۳۱۶میں فرماتے ہیں : اعلم ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما کان خلقہ القراٰن وتخلق بالاسماء وکان اللہ سبحٰنہ وتعالٰی ذکر فی کتاب العزیز انہ تعلاٰی استوی علی العرش علی طریق التمدح والثناء علی نفسہ اذ کان العرش اعظم الاجسام فجعل لنبیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام من ھذا الاستواء نسبۃ علی طریق التمدح والثناء علیہ بہ حیث کان اعلی مقام ینتہی الیہ من اسری بہ من الرسل علیھم الصلٰوۃ والسلام وذٰلک یدل علی انہ اسری بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بجسمہ ولو کان الاسراء بہ رؤیا لما کان الاسراء ولا الوصلو الی ھذا المقام تمدحا ولا وقع من الاعرافی حقہ انکار علی ذٰلک۲۔
تو جان لے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خلق عظیم قرآن تھا اورحضور اسماء الٰہیہ کی خووخصلت رکھتے تھے اوراللہ سبحٰنہ وتعالٰی قرآن کریم میں اپنی صفات مدح سے عرش پر استواء بیان فرمایا تو اس نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بھی اس سفت استواعلی العرش کے پر تو سے مدح ومنقبت بخشی کہ عرش وہ اعلٰی مقام ہے جس تک رسولوں کا اسراء منتہی ہو ، اوراس سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اسراء مع جسم مبارک تھا کہ اگر خواب ہوتا تو اسرااوراس مقام استواء علی العرش تک پہنچنا مدح نہ ہوتا نہ گنواراس پر انکار کرتے ۔
(۲ الفتوحات المکیۃ الباب السادس داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۶۱)
امام علامہ عارف باللہ سید ی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب الیواقیت والجواہر میں حضرت موصوف سے ناقل : انما قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی سبیل التمدح حتی ظھرت لمستوی اشارۃ لما قلنا من ان متھی السیر بالقدم المحسوس للعرش ۱۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بطور مدح ارشاد فرمانا کہ یہاں تکہ کہ میں مستوی پر بلند ہوا اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ قدم جسم سے سیر کا منتہٰی عرش ہے ۔
(۱ الیواقیت والجواہر المبحث الرابع والثلاثون داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۷۰)
مدارج النبوۃ شریف میں ہے : فرمود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پس گسترانیدہ شد برائے من رفرف سبز کہ غالب بود نور او پر نور نورآفتاب پس درخشید بآن نور بصر من ونہادہ شدم من برآں رفرف وبرداشتہ شدم تابرسید بعرش۲۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میرے لئے سبز بچھونا بچھایا گیا جس کا نور آفتاب کے نور پر غالب تھا چنانچہ اس نور کے سبب میری آنکھوں کا نور چمک اٹھا ، پھر مجھے رفرف پر سوار کر کے بلندی کی طرف اٹھایا گیا یہاں تک کہ میں عرش پر پہنچا۔(ت)
(۲مدارج النبوۃ باب پنجم وصل دررؤیت الٰہی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱/۱۶۹)
اسی میں ہے : آوردہ اند کہ چوں رسید آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بعرش دست زد بدامان اجلال وے ۳۔
منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرش پر پہنچے تو عرش آپ کا دامن اجلال تھام لیا۔(ت)
(۳مدارج النبوۃ باب پنجم وصل دررؤیت الٰہی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱ /۱۷۰)
اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ شریف میں ہے : جز حضرت پیغمبرما صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بالاترازاں ہیچ کس نہ رفتہ وآنحضرت بجائے رفت کہ آنجاجانیست ؎
ہمارے نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علاوہ عرش سے اوپر کوئی نہیں گیا، آپ اس جگہ پہنچے جہاں جگہ نہیں۔ برداشت از طبیعت امکاں قدم کہ آں
اسرٰی بعبدہٖ است من المسجد الحرام
تاعرصہ وجوب کہ اقتضائے عالم ست
کابخانہ جاست ونے جہت ونے نشاں نہ نام۱
طبیعت امکان سے قدم مبارک اٹھالئے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے خاص بندے کو سیرکرائی مسجد حرام سے صحرائے وجوب تک جو عالم کا آخری کنارہ ہے کہ وہاں نہ مکان ہے نہ جہت، نہ نشان اورنہ نام ۔(ت)
(۱اشعۃ اللمعات باب المعراج مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۵۳۸)
نیز اسی کے باب رؤیۃ اللہ تعالٰی فصل سوم زیر حدیث قد راٰی ربہ مرتین (تحقیق آپ نے اپنے رب کو دوبارہ یکھا۔ت)
ارشاد فرمایا : بتحقیق دیدآنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پروردگارخود را جل وعلا دوبار، یکے چوں نزدیک سدرۃ المنتہٰی بود،دوم چوں بالائے عرش برآمد۲۔
تحقیق آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے پروردگارجل وعلاکو دوباردیکھا ، ایک بار جب آپ سدرہ کے قریب تھے ، اوردوسری بار جب آپ عرش پرجلوہ گرہوئے ۔(ت)
(۲اشعۃ اللمعات کتاب الفتن باب رؤیۃ اللہ تعالٰی الفصل الثالث مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۴۴۲تا۴۲۹ )
مکتوبات حضرت شیخ مجدد الف ثانی جلد اول ، مکتوب ۲۸۳میں ہے : آں سرورعلیہ الصلٰوۃ والسلام دراں شب چوں از دائرہ مکان وزمان بریون جست وازتنگی امکان برآمد ازل وابدراں آں واحد یافت وبدایت ونہایت رادریک نطقہ متحد دید۳۔
اس رات سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکان وزمان کے دائرہ سے باہر ہوگئے ،اور تنگی امکان سے نکل کر آپ نے ازل وابد کو ایک پایا اورابتداء کو انتہا کو ایک نقطہ میں متحد دیکھا۔(ت)
(۳مکتوبات امام ربانی مکتوب ۲۸۳نولکشورلکھنؤ ۱/ ۳۶۶)
نیز مکتوب ۲۷۲میں ہے : محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ محبوب رب العالمین ست وبہترین موجودات اولین وآخرین باوجودآنکہ بدولت معراج بدنی مشرف شد واز عرش وکرسی درگزشت وازامکان وزمان بالارفت۴۔
محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو کہ رب العالمین کے محبوب ہیں اور تمام موجودات اولین وآخرین سے افضل ہیں ، جسمانی معراج سے مشرف ہوئے اورعرش وکرسی سے آگے گزر گئے اورمکان وزمان سے اوپر چلے گئے ۔ (ت)
(۴ مکتوبات امام ربانی مکتوب ۲۷۲نولکشورلکھنؤ ۱ /۳۴۸)
امام ابن الصلاح کتاب معرفۃ انواع علم الحدیث میں فرماتے ہیں : قول المصنفین من الفقہاء وغیرہم ”قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کذا وکذا”ونحو ذٰلک کلہ من قبیل المعضل وسماہ الخطیب ابوبکر الحافظ فی بعض وکلامہ مرسلا وذٰلک علی مذھب من یسمی کل مالایتصل مرسلاً۱۔
فقہاء وغیرہ ومصنفین کا قول کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسا ایسا فرمایا ہے یا اس کی مثل کوئی کلمہ یہ سب معضل کے قبیل سے ہے ۔ خطیب ابو بکر حافظ نے اس کا نام مرسل رکھا ہے اوریہ اس کے مذہب کے مطابق ہے جو ہر غیر متصل کا نام مرسل رکھتاہے ۔(ت)
(۱معرفۃ انواع علم الحدیث النوع الحادی عشر دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۱۳۸)
تلویح وغیرہ میں ہے : ان لم یذکر الواسطۃ اصلا فمرسل۲۔
اگر واسطہ بالکل مذکور نہ ہوتو وہ مرسل ہے ۔(ت)
(۲التوضیح والتلویح الرکن الثانی فی السنۃ فصل فی الانقطاع نورانی کتب خانہ پشاور ص۴۷۴)
مسلم الثبوت میں ہے : المرسل قول العدل قال علیہ الصلٰوۃ والسلام کذا۳۔
مرسل یہ ہے عادل کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یوں فرمایا۔(ت)
(۳مسلم الثبوت مسئلہ تعریف المرسل مطبع انصاری دہلی ص۲۰۱)
فواتح الرحموت میں ہے : الکل داخل فی المرسل عند اھل الاصول۴۔
اصولیوں کے نزدیک سب مرسل میں داخل ہیں۔(ت)
(۴فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی مسئلہ فی الکلام علی المرسل منشورات الشریف الرضی قم ۲ /۱۷۴)
انہیں میں ہے : المرسل ان کان من صحابی یقبل مطلقا اتفاقا وان کان من غیرہ فالاکثر ومنھم الامام ابوحنیفۃ والامام مالک والامام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہم قالو یقبل مطلقا اذا کان الراوی ثقۃ ۵الخ۔
مرسل اگر صحابی سے ہو مطلقاً مقبول ہے اوراگر غیر صحابی سے ہو تو اکثرائمہ بشمول امام اعظم،امام مالک اورامام احمد رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ مطلقامقبول ہے بشرطیکہ راوی ثقہ ہو الخ۔ (ت)
(۵فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی مسئلہ فی الکلام علی المرسل منشورات الشریف الرضی قم ۲ /۱۷۴)
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے : لایضرذٰلک فی الاستدلال بہ ھٰھنا لان المقطع یعمل بہ فی الفضائل اجماعا۱۔
اس سے استدلال کرنا یہاں مضر نہیں کیونکہ فضائل میں منقطع بالاجماع قابل عمل ہے ۔(ت)
(۱ مرقاۃ المفاتیح باب الرکوع الفصل الثانی تحت الحدیث ۸۸۰المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۶۰۲)
شفائے امام قاضی عیاض میں ہے : اخبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لقتل علی وانہ قسیم النار۲۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قتل کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ بیشک وہ قسیم النار ہیں۔(ت)
(۲الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن ذلک مااطلع علیہ من الغیوب المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۲۸۴)
نسیم الریاض میں فرمایا : ظاھر ھذان ھذا مما اخبربہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا انھم قالوا لم یروہ احدمن المحدثین الا ان ابن الاثیر قال فی النہایۃ الا ان علیا رضی اللہ تعالٰی عنہ قال انا قسیم النار قلت ابن الاثیر ثقۃ وما ذکرہ علی لایقال من قبل الرائ فھو فی حکم المرفوع ۳ اھ ملخصاً۔
ظاہر اس کا یہ ہےکہ بیشک یہ ان امور میں سے ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خبر دی مگر انہوں نےکہاکہ اس کو محدثین میں سے کسی نے روایت نہیں کیا مگر ابن اثیر نے نہایہ میں کہا: بیشک حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں قسیم نار ہوں ۔ میں کہتاہوں کہ ابن اثیر ثقہ ہے اورجو کچھ سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ذکر فرمایا وہ قیاس سے نہیں کہا جاسکتا لہذ ا وہ مرفوع کے حکم میں ہے اھ تلخیص(ت)
(۳نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب مرکز اہلسنت گجرات الہند ۳ /۱۶۳)
امام ابن الہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں : عدم النقل لاینفی الوجود۱۔
عدم نقل وجود کی نفی نہیں کرتا۔ (ت)واللہ تعالٰی اعلم
(۱ فتح القدیر کتاب الطہارت مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۰)
رسالہ
منبہ المنیۃ بوصول الحبیب الی العرش والرؤیۃ ختم ہوا۔