فتاوی رضویہ, فضائل و خصائص, معراج

شب معراج نبی علیہ السلام کا اپنے رب کو دیکھنا

رسالہ
منبہ المنیۃ بوصول الحبیب الی العرش والرّؤیۃ (۱۳۲۰ھ)
(محبوب خدا صلی للہ علیہ وسلم کی عرش تک رسائی اوردیدار الہٰی کےبارےمیں مطلوب سےخبردار کرنیوالا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مسئلہ ۳۶: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شب معراج نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اپنے رب کو دیکھنا کس حدیث سے ثابت ہے ؟بینواتوجروا(بیان فرمائےے اوراجر دیے جاؤ گے ۔ت)

الجواب

الاحادیث المرفوعہ (مرفوع حدیثیں)

امام احمد اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی : قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأیت ربی عزوجل۱؂ ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔

(۱؂مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۸۵)

امام جلال الدین سیوطی خصائص کبرٰی اورعلامہ عبدالرؤف مناوی تیسیرشرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں :
یہ حدیث بسند صحیح ہے ۱؂۔

(۱؂ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث رأیت ربی مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۲۵)
(الخصائص الکبرٰی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۶۱)

ابن عساکر حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : لان اللہ اعطی موسی الکلام واعطانی الرؤیۃ لوجہہ وفضلنی بالمقام المحمود والحوض المورود۲؂۔

بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔

(۲؂کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث ۳۹۲۰۶مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴ /۴۴۷ )

وہی محدث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی : قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال لی ربی نخلت ابرٰھیم خلتی وکلمت موسٰی تکلیما واعطیتک یا محمد کفاحا۳؂۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمد!مواجہ بخشا کہ بے پردہ وحجاب تم نے میرا جمال پاک دیکھا ۔

(۳؂تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء واجتماعہ بجماعۃ من الانبیاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۶ )

فی مجمع البحار کفاحا ای مواجھۃً لیس بینھما حجاب ولارسول۴؂ ۔

مجمع البحار میں ہے کہ کفاح کا معنٰی بالمشافہ دیدار ہے جبکہ درمیان میں کوئی پردہ اورقاصد نہ ہو۔ (ت)

(۴؂مجمع بحار الانوار باب کف ع تحت اللفظ کفح مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ ۴ /۴۲۴)

ابن مردویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی : سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وھو یصف سدرۃ المنتہٰی (وذکر الحدیث الی ان قالت ) قلت یارسول اللہ مارأیت عندھا ؟قال رأیتہ عندھا یعنی ربہ ۱؂۔

یعنی میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سدرالمنتہٰی کا وصف بیان فرماتے تھے میں نے عرض کی یارسول اللہ !حضو ر نے اس کے پاس کیا دیکھا ؟فرمایا : مجھے اس کے پاس دیدار ہوایعنی رب کا۔

(۱؂الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور بحوالہ ابن مردویہ تحت آیۃ ۱۷/۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۴)

اٰثار الصحابہ

ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی : اما نحن بنوھا شام فنقول ان محمدا رای ربہ مرتین ۲؂۔

ہم بنی ہاشم اہلبیت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا۔

(۲؂جامع الترمذی ابو اب التفسیر سورئہ نجم امین کمپنی اردو بازا ر دہلی ۲ /۱۶۱)
( الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل وامارؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱/ ۱۵۹)

ابن اسحٰق عبداللہ بن ابی سلمہ سے راوی : ان ابن عمر ارسل الٰی ابن عباس یسألہ ھل راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ ، فقال نعم۳؂۔

یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے دریافت کرابھیجا : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ؟ا نہوں نے جواب دیا: ہاں ۔

(۳؂ الدرالمنثور بحوالہ ابن اسحٰق تحت آیۃ ۵۳ /۱۸ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۷۰)

جامع ترمذی ومعجم طبرانی میں عکرمہ سے مروی : واللفظ للطبرانی عن ابن عباس قال نظر محمد الی ربہ قال عکرمۃ فقلت لابن عباس نظر محمد الی ربہ قال نعم جعل الکلام لموسٰی والخلۃ لابرٰھیم والنظر لمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۱؂(زاد الترمذی )فقد رای ربہ مرتین۲؂۔

یعنی طبرانی کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ عکرمہ ان کے شاگردکہتے ہیں : میں نے عرض کی : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں اللہ تعالٰی نے موسٰی کے لئے کلام رکھا اورابراہیم کے لئے دوستی اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے دیدار۔ (اورامام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ ) بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کو دوبار دیکھا۔

(۱؂المعجم الاوسط حدیث ۹۳۹۲مکتبۃ المعارف ریاض ۱۰ /۱۸۱)
(۲؂جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ نجم امین کمپنی اردوبازار دہلی ۲/ ۱۶۰)

امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ۔

امام نسائی اورامام خزینہ وحاکم وبیہقی کی روایت میں ہے : واللفظ للبیہقی أتعجبون ان تکون الخلۃ لابراھیم والکلام لموسٰی والرؤیۃ لمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

کیاابراہیم کے لئے دوستی اورموسٰی کے لئے کلام اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے دیدار ہونے میں تمہیں کچھ اچنبا ہے ۔ یہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔
حاکم۳؂ نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے ۔ امام قسطلانی وزرقانی نے فرمایا : اس کی سند جید ہے ۴؂۔

(۳؂المواہب اللدنیۃ بحوالہ النسائی والحاکم المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
(الدرالمنثور بحوالہ النسائی والحاکم تحت الآیۃ ۵۳ /۱۸ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۶۹)
(المستدرک علی الصحیحین کتاب الایمان راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ دارالفکر بیروت ۱ /۶۵)
(السنن الکبری للنسائی حدیث ۱۱۵۳۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۴۷۲)
(۴؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۷)

طبرانی معجم اوسط میں راوی : عن عبداللہ بن عباس انہ کان یقول ان محمدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راٰی ربہ مرتین مرۃ ببصرہ ومرۃ بفوادہ۵؂۔

یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دوبار اپنے رب کو دیکھا ایک بار اس آنکھ سے اورایک بار دل کی آنکھ سے ۔

(۵؂المواہب اللدنیۃ بحوالہ الطبرانی فی الاوسط المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
(المعجم الاوسط حدیث ۵۷۵۷مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۳۵۶)

امام سیوطی وامام قسطلانی وعلامہ شامی علامہ زرقانی فرماتے ہیں : اس حدیث کی سند صحیح ہے ۱؂۔

(۱؂ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۷)

امام الائمہ ابن خزیمہ وامام بزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی : ان محمد ا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راٰی ربہ عزوجل۲؂ ۔

بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔

(۲؂ المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)

امام احمد قسطلانی وعبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں : اس کی سند قوی ہے۳؂ ۔

(۳؂المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۸)

محمد بن اسحٰق کی حدیث میں ہے : ان مروان سأل ابا ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ھل راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ فقال نعم۴؂۔

یعنی مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے ر ب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں

(۴؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۶)
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ ابن اسحٰق فصل وما رؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)

اخبار التابعین

مصنف عبدالرزاق میں ہے : عن معمر عن الحسن البصری انہ کان یحلف باللہ لقد راٰ ی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۵؂۔

یعنی امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قسم کھاکر فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔

(۵؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ عبدالرزاق عن معمر عن الحسن البصری فصل واما رویۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)

اسی طرح امام ابن خزیمہ حضرت عروہ بن زیبر سے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے اورصدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نواسے ہیں راوی کہ وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو شب معراج دیدار الہٰی ہونا مانتے : وانہ یشتد علیہ انکارھا ۱؂ اھ ملتقطا۔

اوران پر اس کا انکار سخت گراں گزرتا ۔

(۱؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۱۶)

یوں ہی کعب احبار عالم کتب سابقہ وامام ابن شہاب زہری قرشی وامام مجاہد مخزومی مکی وامام عکرمہ بن عبداللہ مدنہ ہاشمی وامام عطا بن رباح قرشی مکی ۔ استاد امام ابو حنیفہ وامام مسلم بن صبیح ابوالضحی کو فی وغیرہم جمیع تلامذہ عالم قرآن حبر الامہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم کا بھی یہی مذہب ہے ۔

امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں : اخرج ابن خزیمۃ عن عروہ بن الزبیر اثباتھا وبہ قال سائر اصحاب ابن عباس وجزم بہ کعب الاحبار والزھری ۲؂الخ۔

ابن خزیمہ نے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہاسے اس کا اثبات روایت کیاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے تمام شاگردوں کا یہی قول ہے ۔ کعب احبار اورزہری نے اس پر جزم فرمایا ہے ۔ الخ۔(ت)

(۲؂ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)

اقوال من بعدھم من ائمّۃ الدین

امام خلّال کتاب السن میں اسحٰق بن مروزی سے راوی ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی رؤیت کو ثابت مانتے اوراس کی دلیل فرماتے : قول النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأیت ربی ۳؂اھ مختصراً۔

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے میں نے اپنے رب کو دیکھا۔

(۳؂المواہب اللدنیۃ بحوالہ الخلال فی کتاب السن المقصد الخامس المتکب الاسلامی بیرو ت۳ /۱۰۷)

نقاش اپنی تفسیر میں اس امام سند الانام رحمہ اللہ تعالٰی سے راوی : انہ قال اقول بحدیث ابن عباس بعینہ راٰی ربہ راٰہ راٰہ راٰہ حتی انقطع نفسہ۔۴؂

یعنی انہوں نے فرمایا میں حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا معتقد ہوں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو اسی آنکھ سے دیکھا دیکھا دکھا ، یہاں تک فرماتے رہے کہ سانس ٹوٹ گئی ۔

(۴؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ النقاش عن احمد وامام رؤیۃ لربہ المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۵۹)

امام ابن الخطیب مصری مواہب شریف میں فرماتے ہیں : جزم بہ معمر واٰخرون وھوقول الاشعری وغالب اتباعہ۱؂۔

یعنی امام معمر بن راشد بصری اوران کے سوا اورعلماء نے اس پر جزم کیا ، اوریہی مذہب ہے امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری اوران کے غالب پَیروؤں کا۔

(۱؂المواہب اللدنیہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)

علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں : الاصح الراجح انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رای ربہ بعین راسہ حین اسری بہ کما ذھب الیہ اکثر الصحابۃ۲؂۔

مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شب اسرا اپنے رب کو بچشم سردیکھا جیسا کہ جمہور صحابہئ کرام کا یہی مذہب ہے۔

(۲؂نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واما رؤیۃ لربہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۲ /۳۰۳)

امام نووی شرح صحیح مسلم میں پھر علامہ محمدبن عبدالباقی شرح مواہب میں فرماتے ہیں : الراجح عند اکثر العلماء انہ طرای ربہ بعین راسہ لیلۃ المعراج۳؂۔

جمہور علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شب معراج اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔

(۳؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۶)

ائمہ متاخرین کے جدا جدااقوال کی حاجت نہیں کہ وہ حد شمار سے خارج ہیں اورلفظ اکثر العلماء کہ منہاج میں فرمایا کافی ومعنی ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔