رسالہ
الامن والعلٰی لنا عتی المصطفی بدافع البلاء
کلمہ دافع البلا کے ساتھ مصطفی علیہ الصلوۃ والسلام کی نعت بیان کرنے والوں کے لئے
بلاؤں سے امن اور انکے مرتبے کی بلندی ہے
مسمی بہ نام تاریخی
اکمال الطامۃ علی شرک سوی بالامور العامۃ
پوری قیامت ڈھانا وہابیوں کے اس شرک پر جو امور عامہ کی طرح موجود کی ہر قسم پر صادق ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ ۳۵ : از دہلی باڑہ ہند ورائے مرسلہ مولوی محمد کرامت اللہ خان صاحب (عہ) ۲۱ جمادی الآخرۃ ۱۳۱۱ ھ
عہ: مولانا کرامت اللہ خاں صاحب خلیفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہما
علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں زید کہتا ہے کہ پڑھنا درود تاج اور دلائل الخیرات کا شرک محض اور بدعت سیئہ ہے اور تعلیم اس کی سم قاتل شرک اس لئے کہ درود تاج میں دافع البلاء والوبا ء والقحط والمرض والالم رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں مذکور ہے ،اور بدعت سیئہ اس لئے کہ یہ درودبعد صدہا سال کے تصنیف ہوئے ہیں ۔عمر وجواب میں کہتا کہ ورد اس درود مقبول کا موجب خیر وبرکت اور باعث ازدیاد محبت ہے ۔ زید عربیت سے جاہل ہے وہ نہیں سمجھتا کہ حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سبب ہیں دفع بلا کے ،اگرچہ دافع البلاء حقیقتاً خدائے تعالی ہے ۔مختصرالمعانی میں انبت الربیع البقل۱۔ (بہار نے سبزہ اگایا ۔ت) کہ بقول مومن مجاز اور بقول کافر حقیقت فرمایا ہے ۔
(۱مختصر المعانی ،احوال اسناد الخبر ، المکتبہ الفاروقیہ ملتان ،ص ۸۵)
علاوہ ازیں و ما کان اللہ لیعذب بھم وانت فیھم ۲ (اللہ تعالی ان کافروں پر عذاب نہ فرمائے گا جب تک اے محبوب تو ان میں تشریف فرما ہے ۔ت )
(۲القران الکریم ۸ /۳۳) اور وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین ۳ (ہم نے نہ بھیجا تمھیں مگر رحمت سارے جہان کے لئے ۔ت )
(۳القرآن الکریم ۲۱ /۱۰۷)
ہمارے دعوئے پر دو بزرگ گواہ ہیں ،اور کیا سال ولادت حضرت رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں قحط عام کی وبا دفع نہیں ہوئی ،اس کے سوا جبرائیل خلیل کامقولہ قرآن کریم میں اس طرح درج ہے : لاھب لک غلما زکیا ۴ (میں عطا کروں تجھے ستھرا بیٹا ۔ت)
(۴القرآن الکریم ۱۹ /۱۹)
یہاں بقول زید حضرت جبرائیل بھی معاذ اللہ مشرک ہوگئے کیونکہ وہ اپنے آپ کو وہاب فرما رہے ہیں ۔پس جو جواب زید کی طرف سے ہوگا وہی ہماری طرف سے ۔پھر چونکہ یہ درود معمول بہ اکثر علماء ومشائخ عظام ہے پس وہ سب بھی زید کے نزدیک مشرک ہوئے اور طرہ یہ کہ خود زید بھی اس خواہ مخواہ کے شرک سے بچ نہیں سکتا کیونکہ وہ بھی سم (عہ)کو قاتل اور ادویہ کو دافع درد رافع عشیاں کہتا ہے ۔
عہ: سم یعنی زہر
اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قصیدہ اطیب النغم میں آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دافع فرما رہے ہیں ۔سندیں تو اور بھی ہیں مگر اس مختصر میں گنجائش نہیں ۔ رہا صد ہا سال کے بعد تصنیف ہونے سے بدعت سیئہ ہونا ،یہ بھی زید کی حماقت پر دال ہے ۔خود زید جو مولوی اسمعیل صاحب کے خطبے جمعہ میں بر سر منبر پڑھتا ہے اس کے لئے اس کے پاس کوئی حدیث ہے یا وہ زمانہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ سلم کی تصنیف ہیں ۔سبحان اللہ ان خطبوں کا پڑھنا (جو صد ہا سال بعد کی تصنیف ہیں ) تو زید کے لئے سنت ہو او ر خاصان حق کی تصنیف درود کا پڑھنا بدعت سیئہ ٹھہرے ،ہاں جو صیغے درود کے حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے منقول ہیں ان کا پڑھنا ہمارے نزدیک بھی افضل وبہتر ہے مگرعلمائے راسخین وفقرائے کاملین نے حالت ذوق وشوق میں جو درود شریف بالفاظ بدیعہ تصنیف فرمائے ہیں جن میں جناب غوث الثقلین محبوب سبحانی بھی شامل ہیں اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے جذب القلوب میں درج فرمائے ہیں ،اور خودحضرت شیخ نے ایک مستقل رسالہ اس بارہ میں تالیف فرمایا ہے ،اور جتنے درود مشائخ عظام نے تصنیف فرمائے ہیں سب اس میں درج ہیں ،اور شرح سفر السعادۃ میں ۳۶صیغے رسول خدا سے منقول ہیں باقی صحابہ وتابعین نے زیادہ کئے ہیں ۔زید جاہل نے ان سب حضرات کو معاذ اللہ مشرک بنایا ہے ۔اب علمائے اعلام سے استفسار ہے کہ قول زید کا صحیح اور موافق عقائد سلف صالح کے ہے یا عمرو کا ؟یہ تشریح وتفصیل ارشاد ہو ،اللہ آپ کو جزائے خیر عنایت فرمائے ۔
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ علی ما علم وھدانا للذی اقوم وسلک بنا السبیل الاسلم وصلی ربنا وبارک وسلم علی دافع البلاء والقحط والمرض والالم سیدنا ومولنا ومالکنا وماونا محمد مالک الارض ورقاب الامم و علی الہ وصحبہ اولی الفضل والفیض والعطاء والجود والکرم امین قال الفقیر المستدفع البلاء من فضل نبیہ العلی الاعلی صلی علیہ اللہ تعالی عبد المصطفی احمد رضا المحمدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی دفع نبیہ عنہ البلاء ومنح قلبہ النور والجلاء ۔ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں کہ اس نے ہمیں علم عطا فرمایا اور سب سے سیدھی راہ کی ہدایت فرمائی اور ہمیں سلامتی والے راستے پر چلایا ۔ہمارا پروردگار درود وسلام اور برکت نازل فرمائے بلا ، وبا ،قحط ،بیماری اور دکھوں کو دور کرنیوالے ہمارے آقا ومولی ومالک وماوی محمد پر ، جو زمین اور امتوں کی گردنوں کے مالک ہیں ،اور آپ کی آل اور آپ کے اصحاب پر جو فضل ،فیض ،عطا اور جود وکرم والے ہیں ،آمین ۔کہتا ہے فقیر عبد المصطفی احمد رضا سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی جو نبی اعلی کے بلند فضل کے بطفیل مصیبت سے بچنے کا طلب گار ہے ۔نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس مصیبت کو دور فرمائیں اور اس کے دل کو روشنی اور چمک عطا فرمائیں (ت)
یہ مختصرجواب موضع صواب متضمن مقدمہ ودو باب وخاتمہ ۔مقدمہ اتمام الزام وتمہید مرام میں عائدہ قاہرہ وفائدہ زاہرہ پر مشتمل ۔
عائدہ قاہرہ
ایھا المسلمون دفع نبیکم عنکم بلاء المجنون وفتنۃ المفتون ۔ اے مسلمانو تمھارے نبی نے تم سے مجنون کی بلاء اور فتنہ انگیز کا فتنہ دور کردیا ہے ۔ت
زید بیقید کے ایسے کلمات کچھ محل تعجب نہیں مذہب وہابیہ کی بنا ہی حتی الامکان حضور سید الانس والجان علیہ وعلی الہ افضل الصلوۃ والسلام کے ذکر شریف مٹانے اور محبوبان خدا جل وعلا وعلیہم الصلوۃ والثناء کی تعظیم قلوب مسلمین سے گھٹانے پر ہے وسیعلم الذین ظلمو ا ای منقلب ینقلبون۱ (اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے ۔ت)
(۱القران الکریم ۲۶ /۲۲۷)
مگر تعجب ان مسلمانان اہلسنت سے کہ ایسے ناپاک اقوال پر کان دھریں ،بہت کان کھانے والے دنیا میں ہوئے اور ہوتے رہیں گے ،مسلمان صحیح العقیدہ ان کی طرف التفات ہی کیوں کریں ،ایسوں کا علاج حضور میں خاموشی اور غیبت میں فراموشی ،اور اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ہر حال اپنے محبوب بے مثال صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ذکر پاک کی زیادہ گرمجوشی کہ مخالف خود ہی اپنی آگ میں جل بجھیں گے “قل موتوا بغیظکم ان اللہ علیم بذات الصدور” ۲ (تم فرما دو کہ مر جاؤ اپنی گھٹن میں ،اللہ خوب جانتا ہے دلوں کی بات ۔ ت)
(۲القران الکریم ۳ /۱۱۹)
اس تالفہ کے رد میں اقوال ائمہ وعلماء پیش کرنے کا کوئی محل ہی نہیں کہ یہ تم اپنے اعتقاد سے ائمہ وعلماء کہتے ہو ان کے نزدیک وہ بھی تمھاری طرح معاذ اللہ مشرک بدعتی تھے ،درود محمود میں کتب وصیغ کثیرہ کی تصنیف واشاعت انھیں نے کی تمھارے پیارے نبی محمد مصطفی دافع البلاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اللہ عزوجل کا خلیفہ اکبر ومدد بخش ہر خشک وتر وواسطہ ایصال ہر خیر وبرکت ووسیلہ فیضان ہر جود ورحمت وشافی وکافی وقاسم نعمت وکاشف کرب ودافع زحمت وہی لکھ گئے جس کی تصریحات قاہرہ سے ان کی تصنیفات باہر ہ کے آسمان گونج رہے ہیں ۔فقیر غفر اللہ لہ نے کتاب مستطاب سلطنۃ المصطفی فی ملکوت کل الوری ۱۲۹۷ھ میں بکثرت ارشادات جلیلہ ونصوص جزیلہ جمع کئے جن کے دیکھنے سے بحمد اللہ ایمان تازہ ہو اور روئے ایقان پر احسان کا غازہ تو ان کے نزدیک حقیقۃً یہ شرک وبدعت تمھیں وہی سکھاگئے آخر ان کا بانی مذہب شیخ نجدی علیہ ما علیہ ڈنکےکی چوٹ کہتا تھا کہ ۶۰۰برس سےجتنے علماء گزرے سب کافر تھے کما ذکرہ المحدث العلامۃ الفقیہ الفھامہ شیخ الاسلام زینت المسجد الحرام سیدی احمد بن زین ابن دحلان المکی قدس سرہ الملکی فی الدرر السنیۃ ۱۔ (جیسا کہ حضرت محدث العلامہ الفقیہ الفہامہ شیخ الاسلام زینت المسجد الحرام سیدی احمد بن زین ابن دحلان المکی قدس سرہ الملکی نے اس کو الدرر السنیۃ میں ذکر کیا ۔ت)
(۱الدررالسنیۃ فی الرد علی الوہابیہ مکتبہ حقیقۃ دار الشفعۃ استانبول ترکی ۔ص۵۲)
احادیث دکھانے کا کیا موقع کہ آخر سب کتب حدیث صحاح وسنن ومسانید ومعاجیم وغیرہ حضور والا صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیہ کے بعد تصنیف ہوئیں تو ان کے طور پر معاذاللہ وہ سب بدعت اور مصنف بدعتی ۔رہی آیت کہ رب العزۃ جل وعلا نے بلا تخصیص لفظ وصیغہ ووقت وعدد مطلقا اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر درود وسلام کی طرف بلاتا ہے یا یھا الذین امنو صلوا علیہ وسلموا تسلیما ۲۔ اے ایمان والو ! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔
(۲القران الکریم ۳۳ /۵۶)
اللھم صل وسلم وبارک علیہ وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین کلما ولع بذکرہ الفائز ون ومنع من اکثارہ الھالکون۔ اے اللہ !درود وسلام اوربرکت نازل فرما آپ پر اور آپ کی آل اورآپ کے تمام صحابہ پر ، جب بھی آپ کے ذکر پرشیفتہ ہوں کامیاب ہونیوالے اوراس کی کثرت سے انکار کریں ہلاک ہونیوالے (ت)
تو دلائل الخیرات ودرود تاج وغیرہما سب اس حکم جانفزا کے دائرہ میں داخل ، یہ بھی انہیں مقبول ہوتی نظر نہیں آتی کہ ان کتب وصیغ میں حضور والا دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اوصاف عظیمہ جلیلہ ونعوت کثیرہ جزیلہ ہیں ۔
اورانکے امام الطائفہ کا حکم ہے کہ ”جو بشر کی سی تعریف ہو اس میں بھی اختصار کرو”۱
(۱تقویۃ الایمان الفصل الخامس فی ردالاشراک الخ مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۴۴)
علاوہ ازیں وظیفہ درود میں صدہا بار نام اقدس لینا ہوگا اوران کا امام لکھ چکا کہ نام جپنا شرک ہے ۔ اب وہ اپنے امام کی تصریح مانیں یا تمہارے خدا کا اطلاق ۔ ہاں اگر انہیں کے امام الطائفہ اور اس کے آباؤ اجداد واکابر کی تصانیف دکھاؤ تو شاید کچھ کام چلے کہ امام الطائفہ کو کچھ کہیں تو ایمان کی گت بری بنے اوراس کے اکابر سے مکابر رہیں تو اس سے کیونکر گاڑھی چھنے ، ایسی ہی جگہ پر بدلگامی کا قافیہ تنگ ہوتاہے ہے کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن (نہ رہنے کا یارا ، نہ چلنے کی تاب۔ ت)مثلاً:
اولاً : یوں پوچھئے کہ حیادارو!صرف اس جرم پر کہ حضرات علمائے دین مصنفین کتب رحمہم اللہ تعالٰی زمانہ اقدس حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں نہ تھے انہیں کی کتابیں بدعت اوروہ معاذاللہ اہل بدعت قرار پائیں گے یایہ حکم امام الطائفہ اوراس کے عم نسب وپدر شریعت جد طریقت جناب مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب اوراس کے جد نسب وجد شریعت وفرجد طریقت شاہ ولی اللہ صاحب اورفرجد نسب وتلمذ وجد الجد بیعت شاہ عبدالرحیم صاحب وغیرہم اکابر وعمائد خاندان دہلی کو بھی شامل ہوگا۔ کیا یہ حضرات زمانہ اقدس میں تھے ، کیا ان کی کتابیں جبھی تصنیف ہوئی تھیں ، کیا انہوں نے اپنی تصانیف کے خطبوں میں بیسیوں مختلف صیغوں سے جو درود لکھے ہیں سب بعینہ حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، اگر ہیں تو بتاد و اورنہیں تو کیا ہٹ دھرمی سینہ زوری ہے کہ انکی تصانیف بدعت اوریہ بدعتی نہ ٹھہریں ، کیا وحی باطنی اسمعٰیلی ہمیں یہ حکم تشریعی بھی آچکا ہے کہ یجوز لاٰبائک مالا یجوز لغیرھم (تیرے آباء کے لیے جائز ہے جو ان کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ۔ ت) ان کا امام صاف صاف لکھ چکا کہ بعض غیر انبیاء پر بھی (جن میں اس نے اپنے پیر اورپر دادا کو بھی داخل کیاہے ۔ ) بے وساطت انبیاء وحی باطنی آتی ہے جس میں احکام تشریعی اترتے ہیں وہ ایک جہت سے انبیاء کے پیرو اورایک جہت سے خو د محقق ہوتے وہ شاگرد انبیاء بھی ہیں اورہم استاد انبیاء بھی ، وہ مثل انبیاء معصوم ہیں۱۔(دیکھو صراط المستقیم مطبع ضیاء میرٹھ ص۳۸دو سطر اخیرتا ص۳۹سطر ۱۰،۱۱دوسطر اخیر ص ۴۱سطر ۵،۶تاص۴۲ سطر ۲و۳،۴)
(۱صراط مستقیم حب ایمانی کا دوسرا ثمرہ کلام کمپنی تیرتھ داس روڈ کراچی ص۶۵)
( صراط مستقیم (فارسی )حب ایمان کا دوسرا ثمرہ المکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور ص۳۴)
گمراہی بد دینی کا منہ کالا، پھر نبوت کیا کسی پیڑ کا نام ہے ، اللہ کی شان یہ کھلم کھلا اپنے استادوں پیروں کو نبی بنانے والے تو امام اورائمہ شریعت ، اورعلمائے سنت اس جرم پر کہ صیغہائے درود مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی کیوں کثرت کی معاذاللہ بدعتی بدنام ۔
ثانیاً : یہ قہرمانی حکم صرف حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود میں ہے یا خاندان امام الطائفہ کے ایجادات میں بھی کہ شاہ صاحب کی قول الجمیل جن کے لیے ضامن وکفیل ۔ اسی قول الجمیل میں اپنے اور اپنے پیران ومشائخ کے آداب طریقت واشغال ریاضت کی نسبت صاف لکھا کہ ہماری صحبت وسلوک آمیزی تو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک متصل ہے ۔ وان لم یثبت تعین الاٰداب ولا تلک الاشغال ۲ اگرچہ نہ ان خاص آداب کا نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثبوت ہے نہ ان اشغال کا۔
(۲القول الجمیل گیارہویں فصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۷۳)
شاہ عبدالعزیز صاحب حاشیہ میں فرماتے ہیں : ”اسی طرح پیشوا یان طریقت نے جلسات اور ہیأت واسطے اذکار مخصوصہ کے ایجا کئے ”۳۔
(۳شفاء العلیل مع القول الجمیل چوتھی فصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۱)
مولوی خرمعلی مصنف نصحیۃ المسلمین نے اسکے ترجمہ شفاء العلیل میں شاہ صاحب کا یہ قول نقل کر کے لکھا ہے : ”یعنی ایسے امور کو مخالف شرع یا داخل بدعات سیئہ نہ سمجھنا چاہیے جیسا کہ بعض کم فہم سمجھتے ہیں”۴۔
(۴شفاء العلیل مع القول الجمیل چوتھی فصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۲)
اورسنئے اسی قول الجمیل میں اشغال مشائخ نقشبندیہ قدست اسرارہم تصور شیخ کی ترکیب لکھی ہے کہ : اذا غاب الشیخ عنہ یخیل صورتہ بین عینیہ بوصف المحبۃ والتعظیم فتفید صورتہ ماتفید صحبتہ۱۔ شیخ غائب ہوتو اس کی صورت اپنے پیش نظر محبت وتعظیم کے ساتھ تصور کرے جو فائدے اس کی صحبت دیتی تھی اب یہ صورت دے گی۔
(۱القول الجمیل چھٹی فصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۸۲ و۸۱)
شفاء العلیل میں مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب نے نقل کیا: ”حق یہ ہے کہ سب راہوں سے یہ راہ زیادہ تر قریب ہے”۲۔
(۲شفاء العلیل مع قول الجمیل چھٹی فصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۸۰)
مکتوبات مرز ا صاحب جانجاناں میں ہے (جنہیں شاہ ولی اللہ صاحب اپنے مکتوبات میں نفس ذکیہ قیم طریقہ احمدیہ داعی سنت نبویہ لکھتے ہیں ) : دعائے حز ب البحر وظیفہ صبح وشام وختم حضرات خواجگان قدس اللہ اسرارہم ہر روز بجہت حل مشکلا ت باید خواند۳۔ دعائے حزب البحر صبح وشام کا وظیفہ اورحضرات خواجگان قدس اللہ اسرارہم کا ختم شریف مشکلات کے حل کے لیے ہر روز پڑھنا چاہیے ۔ (ت)
(۳کلمات طیبات ملفوظات مظہر جان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۷۴)
ذرا اس صبح وشام وہر روز کے الفاظ پر بھی نظر رہے کہ وہی التزام ومداومت ہے جسے ارباب طائفہ وجہ ممانعت قرار دیتے ہیں یہ ان داعی سنت نے بدعت اوربدعت کا حکم دیا بلکہ اس ختم اور ختم مجددی کی نسبت انہیں مکتوبات میں ہے : بعد حلقہ صبح لازم گیرد۴۔ اس کے بعد صبح کے حلقے کو لازم قرار دے لیں ۔(ت)
(۴کلمات طیبات ملفوظات مظہر جانان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۴۲)
انہیں میں ہے : بعد از حلقہ صبح براں مواظبت نمایند ۵۔ اس کے بعد صبح کے حلقے کی پابندی کرنی چاہیے ۔(ت)
(۵کلمات طیبات ملفوظات مظہر جانان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۴۲)
سب جانے دو خود امام الطائفہ صراط مستقیم میں لکھتاہے : اشغال مناسبہ ہر وقت و ریاضات ملائمہ ہر قرن جدا جدا می باشد ولہذا محققان ہر وقت ازاکابر ہر طریق در تجدید اشغال کو ششہاکہ دہ اندبناء علیہ مصلحت دید وقت چناں اقتضاء کرد کہ یک باب ازیں کتاب برائے بیان اشغال جدیدہ کہ مناسب ایں وقت ست تعیین کرد شود ۱الخ۔ ہر وقت کے مناسب اعمال اورہرزمانے کے مطابق ریاضتیں مختلف ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اکابر میں سے ہر طریقے کے محققین نے اشغال واعمال میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی بایں وجہ جو مصلحت دیکھی یا حالات کا تقاضا ہوا اسی لئے اس کتاب کا ایک باب ایسے جدید اشغال کے لیے جو اپنے اپنے وقت کی مناسبت سے شروع کئے گئے متعین کیا گیا ہے ۔ (ت)
(۱صراط مستقیم مقدمۃ الکتاب المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۷،۸)
للہ انصاف! یہ لوگ کیوں نہ بدعتی ہوئے ۔اورذرا تصور شیخ کی توخبریں کہئے جسے جناب شاہ صاحب مرحوم سب راہوں سے قریب تر راہ بتارہے ہیں، یہ ایمان تقویۃ الایمان پر ٹھیٹ بت پرستی تو نہیں یا یہ حضرات شریعت باطنہ اسمٰعیلی سے مستثنٰی ہیں۔
ثالثاً: بھلاحضور اقدس دافع البلاء مانح العطاصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دافع البلاء کہنا تو معاذاللہ شرک ہوا اب جناب شاہ ولی اللہ صاحب کی خبر لیجئے وہ اپنے قصیدہ نعتیہ اطیب النغم اور اس کے ترجمہ میں کیا بول بو ل رہے ہیں : بنظر نمی آید مرامگر آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ جائے دست اندوہگین است در ہر شد تے۲ ۔ ہمیں نظر نہیں آتا مگر آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر مصیبت کے وقت غمخواری فرماتے ہیں۔(ت)
(۲اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل اول تحت شعر معتصم المکروب فی کل غمرۃ مطبع مجتبائی دہلی ص۴)
پھر کہا : جائے پناہ گرفتن بندگان وگریزگاہ ایشاں دروقت خوف روزقیامت ۳۔ حضور قیامت کے دن خوفزدوں اورخوف سے بھاگنے والوں کی جائے پناہ ہیں۔ (ت)
(۳اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل دوم تحت شعر ملاذعباداللہ ملجاء خوفہم مطبع مجتبائی دہلی ص۴)
پھر کہا: نافع تیرن ایشانست مردماں را زنز دیک ہجوم حوادث زماں ۴۔ زمانہ کے ہجوم کے وقت لوگوں کے لئے سب سے زیادہ نفع بخش ہیں ۔(ت)
(۴اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل چہارم تحت شعر واحسن خلق اللہ خلقاًوخلقہ مطبع مجتبائی دہلی ص۶)
پھر کہا: اے بہترین خلق خدا واے بہترین عطا کنندہ واے بہترین کسیکہ امیداودا شتہ شود برائے ازالہ مصیبتے ۱۔ اے خلق خد امیں بہترین ! اے بہترین عطاوالے اوراے بہترین شخصیت ، اورمصیبت کے وقت امیدوار کی مصیبت کو ٹالنے والے ۔ (ت)
(۱اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل یازدہم تحت شعر وصلی علیک اللہ یا خیر خلقہ مطبع مجتبائی دہلی ص۲۲)
پھر کہا : تو پناہ دہند ہ از ہجوم کردن مصیبتے ۲۔ آپ مصیبتوں کے ہجوم سے پناہ دینے والے ہیں ۔ (ت)
(۲اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل یازدہم تحت شعر وانت مجیری من ہجوم ملمۃ الخ مطبع مجتبائی دہلی ص۲۲)
اپنے دوسرے قصیدہ نعتیہ ہمزیہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : آخر حالت مادح آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راوقتیکہ احساس کند نارسائی خود را از حقیقت ثنا آنست کہ ندا کند خوار وزار شدہ باخلاص درمناجات وبہ پناہ گرفتن بایں طریق اے رسول خدا عطائے ترامیخواہم روز حشر (الی قولہ ) توئی پناہ از ہربلا بسوئے تست رو آوردن من وبہ تست پناہ گرفتن من ودرتست امید داشتن من ۳اھ ملخصاً۔ حضور کی تعریف کرنے والا جب اپنی نارسائی کا احساس کرے تو حضور کو نہایت عاجزی اور اخلاص سے پکارے اورفریاد کرے اورحضور کی پناہ اس طرح چاہے کہ اے خدا کے رسول قیامت کے دن تیری عطا چاہتاہوں تو ہی میری ہر بلا کی پناہ ہے ۔ جبھی تو میں تیری طرف رجوع کرتاہوں اورتجھ سے پناہ کا طلب گار ہوں اورمیری امیدیں تجھ سے ہی وابستہ ہیں اھ ملخصاً۔(ت)
(۳اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل ششم تحت اشعار وآخر ما لما دحہ الخ مطبع مجتبائی دہلی ص۳۳ و۳۴)
یہی شاہ صاحب ہمعات میں زیر بیان نسبت اویسیہ لکھتے ہیں : ازثمرات ایں نسبت رویت آں جماعت ست درمنام وفائدہا ایشاں یافتن ودرمہالک ومضائق سورت آں جماعت پددید آمدن وحل مشکلات وے بآں صورت منسوب شدن۱۔ اس نسبت کے ثمرات یہ ہیں کہ اس جماعت (اویسیہ)کی زیارت خواب میں ہوجاتی ہے اورہلاکت وتنگی کے اوقات میں وہ جماعت ظاہر ہوکر مشکلیں حل فرماتی ہے ۔ (ت)
(۱ہمعات ہمعہ ۱۱ اکادیمیۃ الشاہ ولی اللہ الدہلوی حیدرآباد باکستان ص۵۹)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی ان کے شاگرد رشید اورمرزا صاحب موصوف کے مرید تذکرۃ الموتٰی میں ارواح اولیائے کرام قدس اسرارہم کی نسبت لکھتے ہیں : ارواح ایشاں از زمین وآسمان وبہشت ہرجا کہ خواہند ومیروند ودوستاں ومعتقداں را دردنیا وآخرت مددگاری میفرما یند ودشمناں راہلاک می سازند۲۔ ان کی ارواح زمین وآسمان اوربہشت سے ہر جگہ جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں اپنے دوستوں اورمعتقدوں کی دنیا اورآخرت میں مدد فرماتی ہیں اوردشمنوں کو ہلاک کرتی ہیں ۔(ت)
(۲تذکرۃ الموتٰی مطبع مجتبائی دہلی ص ۴۱)
اوردافع البلاء کس چیز کا نام ہے ۔ مرزاصاحب کے ملفوظات میں ہے : نسبت مابجناب امیر المومنین علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ میر سند وفقیر رانیاز خاص بآنجناب ثابت ست دروقت عروض عارضہ جسمانی توجہ بآنحضرت واقع می شود وسبب حصول شفا میگردد۳۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے میری نسبت خاص وجہ سے ہے کہ فقیر کو آنجناب سے خاص نیاز حاصل ہے اورجس وقت کوئی عارضہ بیماری جسمانی پیش ہوتی ہے میں آنجناب کی طرف توجہ دیتاہوں جو باعث شفا ہوجاتی ہے ۔(ت)
(۳کلمات طیبات ملفوظات مرز امظہر جان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۷۸)
ذرا اس ”نیاز خاص”پر بھی نظر رہے ۔ یہی داعی سنت نبویہ فرماتے ہیں : التفات غوث الثقلین بحال متوسلان طریقہ علیہ ایشاں بسیار معلوم شد باہیچکس از اہل ایں طریقہ ملاقات نشدہ کہ توجہ مبارک بآنحضرت بحالش مبذول نیست ۴۔ حضور غوث الثقلین اپنے تمام متوسلین کے حالات کی طرف توجہ رکھتے ہیں کوئی ان کا مرید ایسا نہیں کہ اس کی طرف آنجناب کی توجہ نہ ہو۔ (ت)
(۴کلمات طیبات ملفوظات مرز امظہر جان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۸۳)
ذرا اس عبارت کے تیور دیکھئے اورلفظ مبارک ”غوث الثقلین ”بھی ملحوظ خاطر رہے اس کے یہی معنی ہے نا کہ انس وجن سب کی فریاد کو پہنچنے والے ۔
اورسنئے یہی نفس ذکیہ فرماتے ہیں : ہمچنیں عنایت حضرت خواجہ نقشبند بحال معتقدان خود مصروف است مغلاں درصحرا یاوقت خواب اسباب واسپان خودبحمایت حضرت خواجہ می سپارند وتائیدات از غیب ہمراہ ایشاں می شود ۱۔ ایسا ہی حضرت خواجہ نقشبند اپنے معتقدین کے حالات میں ہمیشہ مصروف رہتے ہیں چرواہے اورمسافر جنگل میں یا نیند کے وقت اپنے اسباب اورچوپائے گھوڑے وغیرہ حضور خواجہ نقشبند کے سپر دکردیتے غیبی تائید ان کے ساتھ ہوتی ہے ۔ (ت)
(۱کلمات طیبات ملفوظات مرز امظہر جان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۸۳)
اب تو شرک کا پانی سر سے اوپر ہوگیا ، ایمان سے کہیوتمہارے ایمان پر کتنا بڑا بھاری شرک ہے جس پر مدد غیبی نازل ہوتی اوریہ بات حضرت خواجہ قدس سرہ العزیز کے مدائح میں گنی جاتی ہے ، خدا کرے اس وقت کہیں تمہیں حدیث اعوذبعظیم ھٰذاالوادی ۲۔ (میں اس وادی کے حکمران کی پناہ چاہتاہوں ۔ ت)
(۲المعجم الکبیر حدیث ۴۱۶۶ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۴ /۲۲۱)
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ ذکر تحریم بن فائک دارالفکر بیروت ۳ /۶۲۱)
یا آیہ کریمہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن ۳۔ (آدمیوں میں کچھ مرد جنوں کے کچھ مردوں کے پناہ لیتے تھے ۔ت) یا د آجائے ،
(۳القرآن الکریم ۷۲ /۶)
پھر جناب مرزا صاحب اور ان کے مداح جناب شاہ صاحب کا مزہ دیکھئے ، آخر تمہارا امام بھوت پریت جن پری اوراولیاء شہداء سب کو ایک ہی درجہ میں مان رہا ہے ، مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی میں اکابر اولیاء کا حال بعد انتقال لکھتے ہیں : دریں حالت ہم تصرف دردنیا دادہ واستغراق آنہا بجہت کمال وسعت مدارک آنہا مانع توجہ بایں سمت نمی گرددواویسیاں تحصیل مطلب کمالات باطنی از انہامی نمایند وارباب حاجات ومطالب حل مشکلات خود ازانہامی طلبند ومی یابند۱۔ اولیاء اللہ بعد انتقال دنیا میں تصرف فرماتے ہیں اوران کے استغراق کا کمال اورمدارج کے رفعت ان کو اس سمت توجہ دینے کی مانع نہیں ہے اویسی اپنے کمالات باطنی کا اظہار فرماتے ہیں اورحاجت مند لوگ اپنی مشکلات کا حل اورحاجت روائی انہیں سے طلب کرتے ہیں اوراپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ (ت)
(۱تفسیر فتح العزیزتحت آیۃ ۸۴ /۱۸ مطبع مسلم بکڈپو لال کنواں دہلی پارہ عم ص۲۰۶)
ذرا یہ ”دنیا میں اولیاء کا تصرف بعد انتقال ”ملحوظ رہے اورحل مشکل ودفع بلا میں کتنا فرق ہے ۔ (یا علی مشکل کشا مشکلکشا)
اورتحفہ اثناعشریہ میں تو ا س سے بھی بڑھ کر جان نجدیت پر قیامت توڑگئے ، فرماتے ہیں : حضرت امیر وذریۃ طاہرہ او درتمام امت برمثال پیران ومرشد ان می پرستند وامور تکوینیہ را بایشاں وابستہ میدانندوفاتحہ ودرود وصدقات ونذر بنام ایشاں رائج ومعمول گردیدہ چنانچہ جمیع اولیاء اللہ ہمیں معاملہ است ۲۔ حضرت امیر یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اوران کی اولاد طاہرہ کو تمام افراد امت پیروں مرشدوں کی طرح مانتے ہیں اورتکوینی امور کو ان حضرات کے ساتھ وابستہ جانتے ہیں اورفاتحہ اوردرود وصدقات اورنذورنیاز انکے نام ہمیشہ کرتے ہیں ، چنانچہ تمام اولیاء اللہ کا یہی حال ہے ۔(ت)
(۲تحفہ اثناء عشریہ باب ہفتم درامامت سہیل اکیڈیمی لاہور ص۲۱۴)
(تحفہ مطبوعہ کلکتہ ۱۲۴۳ھ آخر ص۳۹۶واول ۳۹۷)
کیوں صاحبو! یہ کتنے برے شرکہا ئے اکبر واعظم ہیں کہ شاہ صاحب جن پر اجماع امت بتارہے ہیں ، اب تو عجب نہیں کہ روافض کی طرح امت مرحومہ کو معاذاللہ امت ملعونہ لقب دیجئے بھلا دفع بلا بھی امور تکوینیہ میں ہے یا نہیں جو دامن پاک حضرت مولی علی واہلبیت کرام سے وابستہ ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ سید ھم ومولاھم وعلیہم وبارک وسلم۔
طرفہ تر سنئے ، شاہ ولی اللہ صاحب کے انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے روشن کہ شاہ صاحب والا مناقب اورانکے بارہ اساتذہ علم حدیث ومشائخ طریقت جن میں مولانا ابو طاہر مدنی اوان کے والد واستاذ پیر مولانا ابراہیم کردی اوران کے استاد مولانا احمد قشاشی اوران کے استاد مولانا احمد شناوی اورشاہ صاحب کے استاذالاستاذ مولانا احمد نخلی وغیرہم اکابر داخل ہیں کہ شاہ صاحب کے اکثر سلاسل حدیث انہیں علماء سے ہیں جو اہر خمسہ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری علیہ الرحمۃ الباری وخاص دعائے سیفی کی اجازتیں لیتے اور اپنے مریدین ومعتقدین کو اجازت دیتے ۔
اعمال جواہر خمسہ ودعائے سیفی کا زمانہ اقدس حضور دافع البلاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تصنیف ہونے سے بدعت ، اور اس وجہ سے ان صاحبو ں کا بدعتی ومروج بدعت قرار پانا درکنار، اسی جواہر خمسہ کی سیفی میں وہ جوہر دار سیف خونخوار ، جسے دیکھ کر وہابیت بیچاری اپنا جوہرکرنے کو تیار ، وہ کیا کہ نادعلی کہ ایمان طائفہ پر شرک جلی ۔ جواہرخمسہ میں ترکیب دعائے سیفی میں فرمایا: نادعلی ہفت بار یاسہ بار یا یک بار بخواند و آن ایں ست ناد علیاًمظھر العجائب ، تجدہ عوناً لک فی النوائب ، کل ھم وغم سینجلی بولایتک یا علی یا علی یا علی ۱۔ ناد علی سات بار یا تین بار یا ایک بار پڑھنا چاہئے ، اوروہ یہ ہے : علی (رضی ا للہ عنہ )کو پکار جن کی ذات پاک مظہر عجائب ہے ، جب تو انہیں پکارے گا انہیں مصائب وافکار میں اپنا مددگارپائے گا ہر پریشانی وغم فوراً دور ہوجاتاہے آپ کی مدد سے یا علی یا علی یا علی ۔(ت)
(۱جواہر خمسہ مترجم اردو مرزا محمد بیگ نقشبندی دارالاشاعت کراچی ص ۲۸۲ و۴۵۳)
یعنی پکار علی مرتضٰی (کرم اللہ وجہہ)کو کہ مظہر عجائب ہیں تو انہیں اپنا مددگار پائے گا ۔ مصیبتوں میں ، سب پریشانی وغم اب دورہوتے جاتے ہیں حضور کی ولایت سے یا علی یا علی یا علی ۔
ذرا اب شرک طائفہ کا مول تول کہئے ، اس نفیس سند کی قدرے تفصیل درکار ہوتو فقیر کے رسائل ”انھارالانوار من یم صلٰوۃ الاسرار”(ف۱) و”حیاۃ الموات فی بیان سماع الاموات ”(ف۲) و ”انوار الانتباہ فی حل ندا ء یارسول اللہ ”(ف۳) ملاحظہ ہوں ۔ ہے یہ کہ ان خاندانی اماموں نے طائفہ کی مٹی اوربھی خراب کی ہے وللہ الحمد۔
ف۱ : رسالہ انہار الانوار من یم صلوٰۃ الاسرار فتاوی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ ، لاہور جلد ہفتم میں ص ۵۶۹پر موجود ہے ۔
ف۲ : رسالہ حیاۃ الموات فی بیان سماع الاموات فتاوٰ ی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ ،لاہور ، جلد نہم میں ص ۶۷۵پر موجود ہے ۔
ف۳ : رسالہ انوار الانتباہ فی حل ندا ء یا رسول اللہ فتاوی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور جلد۲۹میں ص ۵۴۹ پر موجود ہے ۔
کیوں صاحبو!یہ سب حضرات بھی ایمان طائفہ پر مشرک ، بے ایمان ، واجب العذاب، مستحیل الغفران تھے یا تقویۃ الایمان کی آیتیں حدیثیں امام الطائفہ کا کنبہ چھوڑ کر باقی علمائے اہلسنت ہی کو مشرک بدعت بنانے کے لئے اتری ہیں۔ اللہ ایمان وحیابخشے ۔ آمین ۔
غرض ان حضرات کے مقابل شاید ایسے ہی گرم دودھوں سے کچھ کام چلے جنہیں نہ نگلتے بنے نہ اگلتے ۔ وللہ الحجۃ الساطعۃ ۔
فائدہ زاہرہ
خیر ، یہ تو اجمالاً ان حضرات کی خدمت گزاری تھی ، اوربدعت کی بحث تو علمائے سنت بہت کتب میں غایت قصوٰی تک پہنچا چکے ومن احسن من فصلہ وحققہ خاتم المحققین سیدناالوالدرضی اللہ عنہ المولٰی الماجد فی کتابہ الجلیل المفاد”اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد” (خاتم المحققین سیدنا والد ماجد رضی اللہ عنہ نے اپنی جلیل ومفید کتاب ”اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد”میں اس کی تحسین وتفصیل وتحقیق کی ہے ۔ت)
فقیر غفراللہ تعالٰی نے بھی اپنے رسالہ ”اقامۃ القیامہ علی طاعن القیام لنبی تھامہ”وغیرہا رسائل میں بقدر کافی نکات چیدہ گزارش کئے اوراپنے رسالہ ”منیر العین فی حکم تقبیل الابھا مین ”(ف) وغیرہا میں خاندان مذکور کے بکثرت ایجادو احداث لکھے کہ اس نو تصنیفی کی صفرا شکنی کو بس ہیں اورحضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وبا وبلاوقحط ومرض والم کو دفع فرمانے کے جزئیات ووقائع جو احادیث میں مروی ان کے جمع کرنے کی ضرورت نہ حصر کی قدرت، ان میں سے بہت سے بحمدللہ تعالٰی کتب وخطب علماء میں مسلمانوں کے کانوں تک پہنچ چکے اوراب جو چاہے کتب سیر وخصائص ومعجزات مطالعہ کرے ۔
ف : رسالہ ”منیر العین فی حکم تقبیل الابھا مین ”فتاوی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور جلد پنجم صفحہ ۴۲۹ پر موجود ہے ۔ رسالہ ”اقامۃ القیامۃ ”جلد ۲۶ص۴۹۵ پر موجود ہے ۔
نکتہ جلیلہ کلیہ
مگرفقیر غفراللہ تعالٰی لہ ایک نکتہ جلیلہ کلیہ بغایت مفید القاکرے کہ ان شاء اللہ تعالٰی تمام شرکیات وہابیہ کی بیخ کنی میں کافی ووافی کام دے ، مسلمانو!کچھ خبر بھی ہے ان حضرات کا لفظ دافع البلاء اوراس کے مثال کو شرک بتا نے بلکہ یہ بات بات پرشرک پھیلانے سے اصل مدعا کیا ہے وہ ایک دائے باطنی ومرض خفی ہے کہ اکثر عوام بیچاروں کی نگاہ سے مخفی ہے ان نئے فلسفوں پرانے فیلسوفوں کے نزدیک شرک امور عامہ سے ہے کہ عالم میں کوئی موجود اس سے خالی نہیں یہاں تک کہ معاذاللہ حضرات علیہ انبیائے کرام وملٰئکہ عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام تاآنکہ عیاذاًباللہ خود حضرت رب العزۃ وحضور پر نور سلطان رسالت علیہ افضل الصلوٰۃ والتحیۃ ، ولہذا امام الطائفہ نے جابجا وبیجا مسائل جی سے گھڑے کہ یہ ناپاک چھینٹا وہاں تک بڑھے ، جس کی بعض مثالیں مجموعہ فتاوٰی فقیر ”العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ” کی جلد ششم ”البارقۃ الشارقہ علی مارقۃ المشارقہ ” میں ملیں گی ، ان کی تفصیل سے تطویل کی حاجت نہیں ، یہ حضرات کہ اس امام کے مقلد ہیں انا علی اٰثارھم مقتدون۱ (ہم ان کی لکیر کے پیچھے ہیں۔ت) پڑھتے ہوئے اسی ڈگر ہوئے ، یہ حکم شرک بھی اسی دبی آگ کا دھواں دے رہا ہے، اجمال سے نہ سمجھو تو مجھ سے مفصل سنو۔
(۱القرآن الکریم ۴۳ /۲۳)
اقول : وباللہ التوفیق ، نسبت واسناد دوقسم ہے : حقیقی کہ مسند الیہ حقیقت سے متصف ہو۔
اورمجازی کہ کسی علاقہ سے غیر متصف کی طرف نسبت کردیں جیسے نہر کو جاری یا حابس سفینہ کو متحرک کہتے ہیں ، حالانکہ حقیقۃً آب وکشتی جاری متحرک ہیں۔
پھر حقیقی بھی دو قسم ہے : ذاتی کہ خود اپنی ذات سے بے عطائے غیر ہو، اورعطائی کہ دوسرے نے اسے حقیقۃً متصف کردیا ہو خواہ وہ دوسرا خود بھی اس وصف سے متصف ہو جیسے واسطہ فی الثبوت میں ، یانہیں جیسے واسطہ فی الاثبات میں ۔ ان سب صورتوں کی اسنادیں تمام محاورات عقلائے جہاں واہل ہر مذہب وملت وخود قرآن وحدیث میں شائع وذائع ، مثلاً انسان عالم کو عالم کہتے ہیں ، قرآن مجید میں جابجا اولوالعلم وعلمؤابنی اسرائیل اورانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی نسبت لفظ علیم وارد ، یہ حقیقت عطائیہ ہے یعنی بعطائے الہٰی وہ حقیقۃً متصف بعلم ہیں، اورمولٰی عزوجل نے اپنے نفس کریم کو علیم فرمایا یہ حقیقت ذاتیہ ہے کہ وہ بے کسی کی عطا کے اپنی ذات سے عالم ہے ۔ سخت احمق وہ کہ ان اطلاقات میں فرق نہ کرے۔ وہابیہ کے مسائل شرکیہ استعانت وامداد وعلم غیب وتصرفات ونداوسماع فریاد وغیرہا ایسے فرق نہ کرنے پر مبنی ہیں ۔ فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے اس بحث شریف میں ایک نفیس رسالہ کی طرح ڈالی ہے اس میں متعلق نزاعات وہابیہ صدہا اطلاقات کو آیات واحادیث سے ثابت اوراحکام اسنادات کو مفصل بیان کرنے کا قصد ہے ان شاء اللہ تبارک وتعالٰی حضور پر نور ، معطی البہار والسرور ، دافع البلاء والشرور، شافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دافع البلاء کہنا بھی بمعنی حقیقی عطائی ہے مخالف متعسف کو یوں توفیق تصدیق نہ ہو تو فقیر کا رسالہ ”سلطنۃ المصطفٰی فی ملکوت کل الورٰی ” مطالعہ کرے کہ بعونہٖ تعالٰی تحقیق وتوثیق کے باغ لہکتے نظر آئیں اورایمان وایقان کے پھول مہکتے ، خیر یہاں اس بحث کی تکمیل کا وقت نہیں تنزیلاً یہی سہی کہ احد الامرین سے خالی نہیں نسبت حقیقی عطائی ہے یا ازانجاکہ حضور سبب ووسیلہ وواسطہ دفع البلاء ہیں لہذا نسبت مجازی ، رہی حقیقی ذاتی حاشا کہ کسی مسلمان کے قلب میں کسی غیر خدا کی نسبت اس کا خطرہ گزرے۔
امام علامہ سیدی تقی الملۃ والدین علی بن عبدالکافی سبکی قدس سرہ الملکی (جن کی امامت وجلالت محل خلاف وشبہت نہیں ، یہاں تک کہ میاں نذیر حسین دہلوی اپنے ایک مہری مصدق فتوٰی میں انہیں بالاتفاق امام مجتہد مانتے ہیں )کتاب مستطاب شفاء السقام شریف میں ارشاد فرماتے ہیں : لیس المراد نسبۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الی الخلق والاستقلال بالافعال ھذا لایقصدہ مسلم فصرف الکلام الیہ ومنعہ من باب التلبیس فی الدین والتشویش علی عوام المؤحدین۱۔ یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مدد مانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ حضور خالق وفاعل مستقل ہیں یہ تو کوئی مسلمان ارادہ نہیں کرتا، تو اس معنی پرکلام کو ڈھالنا اورحضور سے مدد مانگنے کو منع کرنا دین میں مغالطہ دینا اورعوام مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔
(۱شفاء السقام الباب الثامن فی التوسل والاستغاثہ الخ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۱۷۵)
صدقت یا سید ی جزاک اللہ عن الاسلام والمسلمین خیراً، اٰمین (اے میرے آقا!آپ نے سچ فرمایا ، اللہ تعالٰی آپ کو اسلام اورمسلمانوں کی طرف سے جزاء خیر عطافرمائے ۔ت)
فقیر کہتاہے ایک دفع بلاء وامداد وعطاہی پر کیا موقوف مخلوق کی طرف اصل وجود ہی کی اسنادبمعنی حقیقی ذاتی نہیں پھر عالم کو موجود کہنے میں وہابیہ بھی ہمارے شریک ہیں کیا ان کے نزدیک عالم بذاتہٖ موجود ہے یا جو فسطائیہ کی طرح عقیدہ حقائق الاشیاء ثابتۃ (اشیاء کی حقیقت ثابت ہے ۔ت) سے منکر ہیں اورجب کچھ نہیں توکیا ظلم ہے کہ جو محاورے صبح وشام خود بولتے رہیں مسلمانوں کے مشرک بنانے کو ان کی طرف سے آنکھیں بندکرلیں ، کیا مسلمان پر بدگمانی حرام قطعی نہیں ، کیا اس کی مذمت پر آیات قرآنیہ واحادیث صحیحہ ناطق نہیں بلکہ انصاف کی آنکھ کھلی ہوتو اس ادعائے خبیث کا درجہ تو بدگمان سے بھی گزرا ہوا ہے ، سوئے ظن کے لئے اس گمان کی گنجائش تو چاہیے ، مسلمان کے بارہ میں ایسے خیال کا احتمال ہی کیا ہے اس کا موحد ہونا ہی اس کی مراد پر گواہ کافی ہے کما لایخفی عند کل من لہ عقل ودین (جیسا کہ کسی صاحب عقل ودین پر پوشیدہ نہیں۔ت)
فتاوی خیریہ کتاب الایمان میں ہے : سئل فی رجل حلف انہ لایدخل ھذہ الدار الا ان یحکم علیہ الدھر فدخل ھل یحنث اجاب لاوھذا مجاز لصدورہ من الموحد واذا دخل فقد حکم ای قضٰی علیہ رب الدھر بدخولہا وھو مستثنی فلا حنث ۱اھ بتلخیص ۔ ایک شخص کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس نے قسم کھائی ہے کہ جب تک مجھے دہر حکم نہیں دے گا میں اس گھر میں داخل نہیں ہوں گا ، اوروہ داخل ہوگیا، کیا وہ قسم توڑنے والا ہے یا نہیں، اس کا جواب یہ تحریر ہے کہ حانث نہیں ہوا، یہ کلمہ مجازی ہے ، موحد جو خدا کو ایک مانتا ہے اس سے شرک کا صدور ناممکن ہے ۔ جب داخل ہوا تو رب الدہر یعنی خدا کے حکم سے داخل ہوا، اس لئے وہ حانث نہیں ہوا اھ ملخصاً(ت)
(۱الفتاوی الخیریۃ کتاب الایمان دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۸۱)
توایسا ناپاک ادعابدگمانی نہیں صریح افترا ہے ، وہ بھی مسلمان پر وہ بھی کفر کا ، مگر قیامت تو نہ آئیگی ، حساب تو نہ ہوگا ، ان خبائث کے دعووں سے سوال تو نہ کیا جائے گا، مسلمان کی طرف سے لاالہٰ الا الہ جھگڑتا ہوا نہ آئے گا ۔ ستمگر !جواب تیار رکھ اس سختی کے دن کا ، وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۲۔ (اور اب جاناچاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے ۔ت )
(۲القرآن الکریم ۲۶ /۲۲۷)
بالجملہ اس احتمال کو یہاں راہ ہی نہیں بلکہ انہیں دو سے ایک مراد بالیقین یعنی اسناد غیر ذاتی کسی قسم کی ہو اب جو اسے شرک کہا جاتاہے تو اس کی دو ہی صورتیں متصور بنظر مصداق(عہ) نسبت یا بنفس حکایت ۔
عہ: فرق یہ کہ اول میں حکم منع حکایت بنظر بطلان وعدم مطابقت ہوگا یعنی واقعہ میں موضوع ایسے صفت سے متصف ہی نہیں جو اس حکایت کا مصحح ہو ، اوردوم میں حکایت خود ہی محذور ہوگی اگر صادق ہوکہ صدق وصحت اطلاق الزام نہیں ،
الاترٰی انانؤمن بان محمداً صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اعز عزیز واجل جلیل من خلق اللہ عزوجل ولکن لایقال محمد عزوجل بل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔
کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارااعتقاد ہے کہ محمد صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم مخلوق الہٰی میں ہر عزیز سے بڑھ کر عزیز اورہر جلالت والے سے بڑھ کر جلیل ہیں مگر محمد عزوجل نہیں کہا جاتابلکہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہا جاتاہے ۔ (ت)
تو درجہ اول میں ہمیں یہ بیان کرنا ہے کہ اسناد غیر ذاتی کا مطلقاً متحقق ، اوردوم میں یہ کہ یہ اطلاق یقینا جائز ۔ پر ظاہر کہ دلائل وجہ دوم سب دلائل وجہ اول بھی ہیں کہ حکایات الہٰیہ ونبویہ قطعاًصادق ۔ لہذا ہم انہیں جانب کثرت بقلت توجہ کریں گے نصوص وجہ ثانی بکثرت لائیں گے وباللہ التوفیق ۱۲منہ دامت فیوضہ۔
اول یہ کہ غیر خدا کے لیے ایسا اتصاف ماننا ہی مطلقا شرک اگرچہ مجازی ہو ،جس کا حاصل اس مسئلہ میں یہ کہ حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دفع بلا کے سبب ووسیلہ وواسطہ بھی نہیں کہ مصداق نسبت کسی طرح متحقق جو غیر خدا کو ایسے امور میں سبب ہی مانے وہ بھی مشرک ۔
دوم یہ کہ ایسی نسبت وحکایت خاص بذاتہ حدیت جل وعلا ہے غیر کے لئے مطلقا شرک اگرچہ اسناد غیر ذاتی مانے ،آدمی اگر عقل وہوش سے کچھ بہرا رکھتا ہو تو غیر ذاتی کا لفظ آتے ہی شرک کا خاتمہ ہوگیا کہ جب بعطائے الہی مانا تو شرک کے کیا معنی برخلاف اس طاغی سرکش کےجو عقل کی آنکھ پر مکابرہ کی پٹی باندھ کر صاف کہتا ہے پھر خواہ یوں سمجھے کہ یہ بات ان کو اپنی ذات سے ہے خواہ اللہ کے دینے سے غرض اس عقیدے سے ہر طرح شرک ثابت ہوتا ہے۱ ۔
(۱تقویۃ الایمان ،پہلا باب ،مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۷)
کسی سفیہ مجنوں سے کیا کہا جائے گا کہ صفت الہی بعطائے الہی نہیں تو جو بعطائے الہی ہے صفت الہی نہیں ،تو اس کا اثبات اصلا کسی صفت الہی کا اثبات بھی نہ ہوا نہ کہ خاص صفت ملزومہ الوہیت کا کہ شرک ثابت ہو بلکہ یہ تو بالبداہۃ صفت ملزومہ عبدیت ہوئی کہ بعطائے غیر کسی صفت کا حصول تو بندہ ہی کے لئے معقول تو اس کا اثبات صراحتا عبدیت کا اثبات ہوا نہ کہ معاذ اللہ الوہیت کا ،ایک یہی حرف تمام شرکیات وہابیہ کو کیفر چشانی کے لئے بس ہے ،مگر مجھے تو یہاں وہ بات ثابت کرنی ہے جس پر میں نے یہ تمہید اٹھائی ہے یعنی ان صاحبوں کا حکم شرک اللہ ورسول تک متعدی ہونا،ہاں اس کا ثبوت لیجئے ابھی بیان کرچکا ہوں کہ اس حکم ناپاک کے لئے دو ہی وجہیں متصور ،ان میں سے جو وجہ لیجئے ہر طرح یہ حکم معاذ اللہ ورسول تک منجر جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔
با ب اول
وجہ اول پر نصوص سنئے اس میں چھ آیتیں اور ساٹھ حدیثیں ،جملہ چھیاسٹھ نص ہیں ۔
فصل اول آیات کریمہ میں
ۤآیت ۱: قال اللہ عزوجل ، وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم ۱۔ اللہ ان کافروں پر عذاب نہ فرمائے گا جب تک اے محبوب ! تو ان میں تشریف فرما ہے ۔
(۱ القران الکریم ۸ /۳۳)
سبحان اللہ ! ہمارے حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کفار پر سے بھی سبب دفع بلا ءہیں کہ مسلمانوں پر تو خاص رؤف ورحیم ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔
آیت ۲: وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین ۲۔ ہم نے نہ بھیجا تمھیں مگر رحمت سارے جہان کیلئے ۔
(۲القران الکریم ۲۱ /۱۰۷)
پر ظاہر کہ رحمت سبب دفع بلا وزحمت (جو خوب ظاہر ہے کہ رحمت سبب ہے مصیبت وزحمت کی دوری کا ۔ت)
آیت ۳: ولوانھم اذ ظلموا انفسہم جاءو ک واستغفروااللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما ۳۔ اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے حضور حاضر ہوں پھر اللہ سے بخشش چاہیں اور معافی مانگیں ان کے لئے رسول ،تو بیشک اللہ کو توبہ کرنے والا مہربان پائیں ۔
(۳القران الکریم ۴ /۶۴)
آیۃ کریمہ صاف ارشا د فرماتی ہے کہ حضور پر نور عفو غفور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری سبب قبول توبہ ودفع بلائے عذاب ہے ،بلکہ آیت بیمار دلوں پر اور بھی بلا وعذاب کہ رب العزت قادر تھا یونہی گناہ بخش دے مگر ارشاد ہوتا ہے کہ قبول ہونا چاہو تو ہمارے پیارے کی سرکا ر میں حاضر ہو صلی اللہ تعالی علیہ وسلم والحمد للہ رب العالمین ۔
آیت ۴: ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لھدمت صوامع۱۔ اگراللہ تعالی آدمیوں کو آدمیوں سے دفع نہ فرمائے تو ہر ملت ومذہب کی عبادت گاہ ڈھادی جائے۔
(۱القران الکریم ۲۲ /۴۰)
آیت۵ : ولو لادفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض ولٰکن اللہ ذو فضل علی العٰلمین ۲۔ اگر نہ ہوتا دفع کرنا اللہ عزوجل کا لوگوں کو ایک دوسرے سے تو بیشک تباہ ہو جاتی زمین مگر اللہ فضل والا ہے سارے جہان پر۔
(۲القرآن الکریم ۲ / ۲۵۱)
ائمہ مفسرین فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی مسلمان کے سبب کافروں اورنیکوں کے باعث بدوں سے بلادفع کرتا ہے ۔
آیت ۶: ولو لارجال مؤمنون ونساء مؤمنٰت لم تعلموھم ان تطؤھم فتصیبکم منہم معرۃ بغیر علم لیدخل اللہ فی رحمتہ من یشاء لو تزیلوا لعذبنا الذین کفروا منھم عذابا الیما ۳۔ اوراگر نہ ہوتے ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں جن کی تمہیں خبر نہیں کہیں تم انہیں روندڈالو تو ان سے تمہیں انجانی میں مشقت پہنچے تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں لے لے وہ اگر الگ ہوجاتے تو ہم ان میں سے کافروں کو دردناک عذاب دیتے ۔
(۳القرآن الکریم ۴۸ /۲۵)
یہ فتح مکہ سے پہلے کا ذکر ہے جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عمرے کے لئے مکہ معظمہ تشریف لائے ہیں اورکافروں نے مقام حدیبیہ میں روکا شہر میں نہ جانے دیاصلح پر فیصلہ ہوا ظاہر کی نظر میں اسلام کے لیے ایک دبتی ہوئی بات تھی اورحقیقت میں ایک بڑی فتح نمایاں تھی جسے اللہ عزوجل نے انا فتحنالک فتحامبینا۱۔ (بےشک ہم نے تمہارے لئے روشن فتح فرمادی ۔ت)
(۱القرآن الکریم ۴۸ /۱)
فرمایا اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کی تسکین کو یہ آیت نازل فرمائی کہ اس سال تمہیں داخل مکہ نہ ہونے دینے میں کئی حکمتیں تھیں مکمہ معظمہ میں بہت مردوعورت مغلوبی کے سبب خفیہ مسلمان ہیں جن کی تمہیں خبر نہیں تم قہراً جاتے تو وہ بھی تیغ وبند کے روندنے میں آجاتے اوران کے سوا بھی وہ لوگ ہیں جو ہنوزکافر ہیں اورعنقریب اللہ تعالٰی انہیں اپنی رحمت میں لے گا اسلام دے گا ان کا قتل منطور نہیں ان وجوہ سے کفار مکہ پر سے عذاب قتل وقہر موقوف رکھاگیا یہ سب لوگ الگ ہوجاتے تو ہم ان کافروں پر عذاب فرماتے ۔کیسا صریح روشن نص ہے کہ اہل اسلام کے سبب کافروں پر سے بھی بلادفع ہوتی ہے وللہ الحمد۔
فصل دوم احادیث عظیمہ میں
حدیث ۱: کہ رب العزت جل وعلافرماتاہے : انی لاھم باھل الارض عذابا فاذا نظرت الی عماربیوتی والمتحابین فیّ والمستغفرین بالاسحارصرفت عنھم ۔ البھیقی فی الشعب عن انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال ان اللہ تعالٰی یقول الحدیث۲۔ میں زمین والوں پر عذاب اتارنا چاہتاہوں جب میرے گھر آباد کرنے والے اورمیرے لئے باہم محبت رکھنے والے اورپچھلی رات کو استغفار کرنے والے دیکھتاہوں اپنا غضب ان سے پھیر دیتاہوں ۔ (بیہقی نے شعب الایمان میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کہ فرمایااللہ تعالٰی یہ حدیث بیان فرماتاہے ۔ت)
(۲شعب الایمان حدیث ۹۰۵۱دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۵۰۰)
(کنزالعمال حدیث ۲۰۳۴۳مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۷/ ۵۷۹)
حدیث ۲ : کہ حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : لولاعباد للہ رکع وصبیۃ رضع وبھائم رتع تصب علیکم العذاب صبا ثم رض رضّا۔الطبرانی۱ فی الکبیروالبیہقی فی السنن عن مسافع ن الدیلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ اگر نہ ہوتے اللہ تعالٰی کے نماز ی بندے اور دود ھ پیتے بچے اورگھاس چرتے چوپائے تو بیشک عذاب تم پر بسختی ڈالا جاتا پھر مضبوط ومحکم کردیا جاتا(طبرانی نے کبیر میں اوربیہقی نے سنن میں مسافع الدیلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ ت)
(۱السنن الکبری للبیہقی کتاب صلٰوۃ الاستسقاء باب استحباب الخروج الخ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ دکن ۳/ ۳۴۵)
( المعجم الکبیر حدیث۷۸۵المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۲ /۳۰۹)
حدیث ۳: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ان اللہ تعالٰی لیدفع بالمسلم الصالح عن مائۃ اھل بیت من جیرانہ البلاء ۔ بیشک اللہ عزوجل نیک مسلمان کے سبب اس کے ہمسائے میں سو گھروں سے بلادفع فرماتاہے ۔
ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہمانے یہ حدیث روایت فرما کر آیہ کریمہ ولو لا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض تلاوت کی ۔
رواہ عنہ الطبرانی فی الکبیر۲ وعبداللہ بن احمد ثم البغوی فی المعالم ۔ طبرانی نے کبیر میں ابن عمر سے اورعبداللہ بن احمد پھر بغوی نے معالم میں اس کو روایت کیا ۔ت)
(۲معالم التنزیل (تفسیر البغوی )تحت الآیۃ ۲ /۲۵۱ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۷۷)
(الترغیب والترہیب بحوالہ الطبرانی الترہیب من اذی الجار حدیث ۳۹مصطفی البابی المصر ۳ /۳۶۳)
(الدرالمنثور تحت الآیۃ ۲ /۲۵۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۷۲۶)
حدیث ۴: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : من استغفرللمؤمنین والمؤمنات کل یوم سبعاً وعشرین مرۃ کان من الذین یستجاب لھم ویرزق بھم اھل الارض ۔ الطبرانی فی الکبیر۱عن ابی الدرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند جید۔ جو ہر روز ستائیس بار سب مسلمان مردوں اورسب مسلمان عورتوں کے لئے استغفار کرے وہ ان لوگوں میں ہوجن کی دعا قبول ہوتی ہے اور ان کی برکت سے تمام اہل زمین کو رزق ملتا ہے (طبرانی نے کبیر میں ابو درداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند جید کے ساتھ روایت کیا۔ ت)
(۱کنزالعمال حدیث۲۰۶۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱ /۴۷۶)
حدیث۵: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ھل تنصرون وترزقون الا بضعفائکم ۔ البخاری ۲عن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ کیا تمہیں مدد ورزق کسی اورکے سبب بھی ملتاہے سوائے اپنے ضعیفوں کے ۔ (بخاری نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)
(۲صحیح البخاری کتاب الجہاد باب من استعان بالضعفاء الخ قدیمی کتب خانہ ۱ /۴۰۵)
حدیث ۶: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ان اللہ ینصرالقوم باضعفھم ۔ الحارث فی مسندہ ۳عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ بیشک اللہ تعالٰی قوم کی مدد فرماتاہے ان کے ضعیف ترکے سبب ۔ حارث نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ۔ ت)
(۳کنزالعمال حدیث ۱۰۸۸۲مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۴ /۳۵۷)
(الجامع الصغیر حدیث ۵۱۰دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۷)
حدیث ۷ : زمانہ اقدس میں دوبھائی تھے ایک کسب کرتے ، دوسرے خدمت والا ئے حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوتے ۔ کما نے والے ان کے شاکی ہوئے ، فرمایا : لعلک ترزق بہ ۔ الترمذی ۴وصححہ والحاکم عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ کیا عجب کہ تجھے اس کی برکت سے رزق ملے ۔(اسے ترمذی نے روایت کیا اوراس کی تصحیح کی ، اورحاکم نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)
(۴سنن الترمذی کتاب الزہد حدیث ۲۳۵۲دارالفکر بیروت ۴ /۱۵۴)
(المستدرک للحاکم کتاب العلم خطبۃ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی حجۃ الوداع دارالفکر بیروت ۱ /۹۴)
حدیث۸: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : الابدال فی امتی ثلٰثون بھم تقوم الارض وبھم تمطرون وبہم تنصرون۔ الطبرانی ۱فی الکبیر عن عبادۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ بسندٍ صحیحٍ ۔ ابدال میری امت میں تیس ہیں انہیں سے زمین قائم ہے انہیں کے سبب تم پر مینہ اترتا ہے ۔ انہیں کے باعث تمہیں مدد ملتی ہے ۔ (طبرانی نے کبیر میں عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسند صحیح روایت کیا۔ت)
(۱کنزالعمال بحوالہ عبادۃ ابن الصامت حدیث ۳۴۵۹۳مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۸۶)
(مجمع الزوائد ، باب ماجاء فی الابدال الخ دارالکتب بیروت ۱۰ /۶۳)
(الجامع الصغیر بحوالہ الطبرانی عن عبادۃ بن الصامت حدیث ۳۰۳۳دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۸۲)
حدیث ۹: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ابدال شام میں ہیں اور وہ چالیس ہیں جب ایک مرتا ہے اللہ تعالٰی اس کے بدلے دوسرا قائم کرتاہے ۔ یسقٰی بھم الغیث وینتصر بھم علی الاعداء ویصرف عن اھل الشام بھم العذاب ۔ احمد۲ عن علی کرم اللہ تعالٰی وجھہ بسند حسن۔ انہی کے سبب مینہ دیا جاتاہے ، انہیں سے دشمنوں پر مدد ملتی ہے ، انہیں کے باعث شام والوں سے عذاب پھیرا جاتاہے ۔ (امام احمد نے حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ سے بسند حسن روایت کیا ۔ ت)
(۲مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۱۲)
دوسری روایت یوں ہے : یصرف عن اھل الارض البلاء والغرق ۔ ابن عساکر ۳رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ انہیں کے سبب اہل زمین سے بلاء اورغرق دفع ہوتا ہے ۔(ابن عساکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روایت کیا۔ت)
(۳تاریخ دمشق الکبیر باب ماجاء ان بالشام یکون الابدال داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۱۳)
حدیث ۱۰: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :ابدال شام میں ہیں ، بھم ینصرون وبھم یرزقون ۔ الطبرانی فی الکبیر ۱عن عوف بن مالک وفی الاوسط عن علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما کلاھما بسند حسن۔ وہ انہیں کی برکت سے مدد پاتے ہیں اورانہیں کی وسیلہ سے رزق۔ (طبرانی نے کبیر میں عوف بن مالک سے اوراوسط میں علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے دونوں میں بسند حسن روایت کیا ۔ت)
(۱المعجم الکبیر عن عوف بن مالک حدیث ۱۲۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۸ /۶۵)
حدیث ۱۱: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لن تخلوالارض من اربعین رجلا مثل ابراھیم خلیل الرحمن فیھم تسقون وبھم تنصرون ۔ الطبرانی فی الاوسط۲ عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند حسن ۔ زمین ہرگز خالی نہ ہوگی چالیس اولیاء سے کہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے پرتو پر ہوں گے، انہیں کے سبب تمہیں مینہ ملے گا اورانہیں کے سبب مدد پاؤ گے (طبرانی نے اوسط میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا۔ت)
(۲المعجم الاوسط حدیث ۴۱۱۳ مکتبۃ المعارف ریاض ۵ /۶۵)
( کنزالعمال حدیث ۳۴۶۰۳مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۸۸)
حدیث ۱۲: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لن یخلو الارض من ثلٰثین مثل ابراھیم بھم تغاثون وبھم ترزقون وبھم تمطرون۔ ابن حبان ۳فی تاریخہ عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلٰوۃ والثناء سے خُوبُو میں مشابہت رکھنے والے تیس شخص زمین پر ضرور رہیں گے ، انہیں کی بدولت تمہاری فریاد سنی جائے گی اورانہیں کے سبب رزق پاؤ گے اورانہیں کی برکت سے مینہ دئے جاؤ گے (ابن حبان نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)
(۳کنزالعمال بحوالہ حب فی تاریخہ عن ابی ہریرۃ حدیث ۳۴۶۰۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۸۷)
حدیث ۱۳: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لایزال اربعون رجلاً من امتی قلوبھم علی قلب ابراھیم یدفع اللہ بھم عن اھل الارض یقال لھم الابدال ۔ ابو نعیم فی الحلیۃ۱ عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ میری امت میں چالیس مرد ہمشیہ رہیں گے کہ ان کے دل ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دل پر ہوں گے اللہ تعالٰی ان کے سبب زمین والوں سے بلا دفع کرے گا ان کا لقب ابدال ہوگا۔ (ابو نعیم نے حلیہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)
(۱حلیۃ الاولیاء ترجمہ زید بن وہب ۲۶۳دارالکتاب العربی بیروت ۴ /۱۷۳)
(کنزالعمال بحوالہ طب عن ابن مسعود حدیث ۳۴۶۱۲مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۹۰)
حدیث ۱۴: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لایزال اربعون رجلا یحفظ اللہ بھم الارض کلما مات رجل ابدل اللہ مکانہ اٰخر وھم فی الارض کلھا۔ الخلّال ۲عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ چالیس مرد قیامت تک ہوا کریں گے جن سے اللہ تعالٰی زمین کی حفاظت لے گا جب ان میں کا ایک انتقال کرے گا اللہ تعالٰی اسکے بدلے دوسرا قائم فرمائیگا ، اوروہ ساری زمین میں ہیں ۔ (خلّال نے ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)
(۲کنز العمال بحوالہ الخلال عن ابن عمر حدیث ۳۴۶۱۴موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۹۱)
حدیث ۱۵: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :بیشک اللہ تعالٰی کے لیے خلق میں تین سو اولیاء ہیں کہ ان کے دل قلب آدم پر ہیں ، اور چالیس کے دل قلب موسٰی اور سات کے قلب ابراہیم ، اورپانچ کے قلب جبریل، اورتین کے قلب میکائیل ، اورایک کا دل قلب اسرافیل پر ہے علیہم الصلٰوۃ والتسلیم ۔ جب وہ ایک مرتا ہے تین میں سے کوئی ایک اس کا قائم مقام ہوتاہے ، اورجب ان میں سے کوئی انتقال کرتاہے تو پانچ میں سے اس کا بدل کیا جاتاہے اورپانچ والے کا عوض سات اور سات کا چالیس اور چالیس کا تین سو اور تین سو کا عام مسلمین سے ، فیھم یحیی ویمیت ویمطر وینبت ویدفع البلاء ۔ ابو نعیم فی الحلیۃ ۱وابن عساکر عن ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ انہیں تین سو چھپن اولیاء کے ذریعہ سے خلق کی حیات موت ، مینہ کا برسنا، نباتات کا اُگنا ، بلاؤں کا دفع ہونا ہواکرتاہے ۔ (ابو نعیم نے حلیہ میں اورابن عساکر نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)
(۱حلیۃ الاولیاء مقدمۃ الکتاب دارالکتاب العربی بیروت ۱ /۹)
(تاریخ دمشق الکبیر باب ماجاء ان بالشام یکون الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۲۳)
حدیث ۱۶: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : قرء القراٰن ثلٰثۃ (فذکر الحدیث الی ان قال ) ورجل قرأالقراٰن فوضع دواء القراٰن علی داء قلبہ فاسھر بہ لیلہ واظمأبہ نھارہ وقاموا فی مساجدھم واحبوابہ تحت برانسھم فھٰؤلاء یدفع اللہ بھم البلاء ویزیل من الاعداء وینزل غیث السماء فواللہ ھؤلاء من قراء القراٰن اعز من الکبریت الاحمر۔ ابن حبان ۲فی الضعفاء وابو نصر السجزی فی الابانۃ والدیلمی عن بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ورواہ البیھقی فی الشعب عن الحسن البصری رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ تین قسم کے آدمیوں نے قرآن پڑھا (دو قسمیں دنیا طلب وقاری بے عمل بیان کر کے فرمایا) ایک وہ شخص جس نے قرآن عظیم پڑھا اور دواکو اپنے دل کی بیماری کا علاج بنایا تو ا س نے اپنی رات جاگ کر اوراپنا دن پیاس یعنی روزے میں کاٹا اوراپنی مسجدوں میں قرآن کے ساتھ نماز میں قیام کیا اور اپنی زاہدانہ ٹوپیاں پہنے نرم آواز سے اس کے پڑھنے میں روئے ، تو یہ لوگ وہ ہیں جن کے طفیل میں اللہ تعالٰی بلا کو دفع فرماتااور دشمنوں سے مال ودولت وغنیمت دلاتا اورآسمان سے مینہ برساتا ہے خدا کی قسم قاریان قرآن میں ایسے لوگ گوگرد سرخ سے بھی کمیاب تر ہیں ۔ (ابن حبان نے الضعفاء میں اورابو نصر سجزی نے ابانۃ میں اوردیلمی نے حضرت بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اوربیہقی نے شعب میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ ت)
(۲شعب الایمان حدیث ۲۶۲۱ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۵۳۱و ۵۳۲)
(کنز العمال بحوالہ حب فی الضعفاء وابی نصر السجزی الخ حدیث ۲۸۸۲مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱ /۶۲۳)
حدیث ۱۷: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : النجوم امنۃ للسماء فاذا ذھبت النجوم اتی السماء ما توعد ، وانا امنۃ لاصحابی فاذا ذھبت اتٰی اصحابی مایوعدون ، واصحابی امنۃ لامتی فاذا ذھب اصحابی اتٰی امتی مایوعدون۔ ستارے امان ہیں آسمان کے لئے ، جب ستارے جاتے رہیں گے آسمان پر وہ آئے گا جس کا اس سے وعدہ ہے یعنی شق ہونا فنا ہوجانا ۔ اور میں امان ہوں اپنے اصحاب کےلئے جب میں تشریف لے جاؤں گا میرے اصحاب پر وہ آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہے یعنی مشاجرات۔ اورمیرے صحابہ امان ہیں میر ی امت کے لیے ، جب میرے صحابہ نہ رہیں گے میری امت پر وہ آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہے یعنی ظہور کذب ومذاہب فاسدہ وتسلط کفار۔
صدق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ۔(ت) احمد ومسلم۱ عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ امام احمد ومسلم نے حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ (ت)
(۱صحیح مسلم کتاب الفضائل باب بیان ان بقاء النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امان لاصحابہ قدیمی کتب خانہ کراچی۲/۳۸۸)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی موسٰی الاشعری المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۳۹۹)
حدیث ۱۸،۱۹: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : النجوم امان لاھل السماء واھل بیتی امان لامتی۲۔ واللہ ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔
اور برتقدیر خصوص ظہور طوائف ضالہ مراد ہو ، کما فی روایۃ ابی یعلی فی مسندہ عن سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند حسن والحاکم فی المستدرک وصحح وتعقب عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ولفظہ النجوم امان لاھل الارض من الغرق واھل بیتی امان لامتی من الاختلاف ۱الحدیث۔ جیسا کہ مسند ابو یعلٰی کی روایت میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسند حسن ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک میں اسے روایت کیا ا وراس کی تصحیح کی اورابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس کی پیروی کی ، ان کے الفاظ یہ ہیں : ستارے زمین والوں کے لئے غرق ہونے سے امان ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کے لیے اختلاف سے امان ہیں، الحدیث ۔(ت)
(۱المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ اہل بیتی امان لامتی دارالفکر بیروت ۳ /۱۴۹)
حدیث۲۰: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :ا ھل بیتی امان لامتی فاذ اذھب اھل ابیتی اتاھم مایوعدون۔ الحاکم ۲وتعقب عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ میرے اہلبیت میری امت کے لے امان ہیں جب اہل بیت نہ رہیں گے امت پروہ آئیگا جو ان سے وعدہ ہے (حاکم نے روایت کی اورجابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کی پیروی کی ۔ ت)
(۲المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ اہل بیتی امان لامتی دارالفکر بیروت ۳ /۱۴۹)
حدیث ۲۱: عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہ انہوں نے فرمایا : کان من دلالات حمل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کل دابۃ کانت لقریش نطقت تلک اللیلۃ وقالت حمل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ورب الکعبۃ وھو امان الدنیا وسراج اھلھا۱۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حمل مبارک کی نشانیوں سے تھا کہ قریش کے جتنے چوپائے تھے سب نے اس رات کلام کیا اورکہا رب کعبہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حمل میں تشریف فرماہوئے وہ تمام دنیا کی پناہ اوراہل عالم کے سورج ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔
(۱الخصائص الکبرٰی بحوالہ ا بو نعیم عن ابن عباس باب مظہر فی لیلۃ مولدہ الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۴۷)
حدیث ۲۲و۲۳: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اطلبوا الحوائج الی ذوی الرحمۃ من امتی ترزقوا وفی لفظ اطلبوا الفضل عند الرحماء من امتی تعیشوا فی اکنافھم فان فیھم رحمتی وفی لفظ اطلبوا الفضل من الرحماء وفی روایۃ اخرٰی اطلبوا المعروف من رحماء امتی تعیشوا فی اکنافھم۔ العقیلی ۲والطبرانی فی الاوسط باللفظ الاول وابن حبان والخرائطی والقضاعی وابوالحسن الموصلی والحاکم فی التاریخ ۳بالثانی والعقیلی بالثالث کلھم عن سعید الخدری والاخری للحاکم فی المستدرک ۴عن علی ن المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ میرے رحم دل امتیوں سے حاجتیں مانگو رزق پاؤگے اورایک روایت میں ہے ان سے فضل طلب کرو ان کے دامن میں آرام سے رہوگے کہ ان میں میری رحمت ہے ۔ اورایک اور روایت میں ہے میری رحمدل امتیوں سے بھلائی چاہو ان کی پناہ میں چین سے رہوگے ۔ عقیلی اورطبرانی نے اوسط میں بلفظ اول اورابن حبان ، خرائطی ، قضاعی ، ابوالحسن موصلی اورحاکم نے تاریخ میں بلفظ دوم جبکہ عقیلی نے بلفظ سوم روایت کیا ہے ۔ ان سب نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے اورمستدرک حاکم میں دوسری روایت میں بروایت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے ۔(ت)
(۲کنزالعمال بحوالہ عق ، طس عن ابی سعید حدیث ۱۶۸۰۱موسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۱۸)
( الجامع الصغیر بحوالہ عق ، طس عن ابی سعید حدیث ۱۱۰۶دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۷۲)
(۳الجامع الصغیر بحوالہ الخرائطی فی مکام الاخلاق حدیث ۱۱۱۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۷۲)
(کنزالعمال بحوالہ الخرائطی فی مکارم الاخلاق حدیث ۱۶۸۰۹مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۱۹)
(۴المستدرک للحاکم کتاب الرقاق اہل المعروف فی الدنیا الخ دارالفکر بیروت ۴ /۳۲۱)
(کنزالعمال حدیث ۱۶۸۰۷مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶/ ۵۱۹)
حدیث ۲۴تا۳۷: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ ۱۔ بھلائی اوراپنی حاجتیں خُوشرُویوں سے مانگو۔
(۱المعجم الکبیر عن ابن عباس حدیث ۱۱۱۱۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱ /۸۱)
ع__________________ کہ معنی بود وصورت خوب را کہ یہ خوش رو حضرات اولیائے کرام ہیں کہ حسن ازلی جن سے محبت فرماتاہے ۔
من کثرت صلوٰتہ باللیل حسن وجھہ بالنھار۲۔ (جو رات کو کثرت سے نماز پڑھتا ہے اللہ تعالٰی اس کے چہرے کو دن کی روشنی جیسا حسن عطاکردیتاہے۔ت)
(۲کنزالعمال حدیث ۲۱۳۹۴مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۷ /۷۸۳)
اورجودکامل وسخائے شامل بھی انہیں کا حصہ کہ وقت عطاشگفتہ روئی جس کا ادنٰی ثمرہ ۔ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس بھٰذا اللفظ والعقیلی والخطیب وتمام الرازی فی فوائد ہٖ والطبرانی فی الکبیر والبیہقی فی شعب الایمان عنہ وابن ابی الدنیا فی قضاء الحوائج والعقیلی والدارقطنی فی الافراد والطبرانی فی الاوسط وتمام والخطیب فی رواۃ مالک عن ابی ھریرۃ ، وابن عساکر والخطیب فی تاریخھما عن انس بن مالک ، والطبرانی فی الاوسط والعقیلی والخرائطی فی اعتلال القلوب وتمّام وابوسھل وعبدالصمدبن عبدالرحمن البزار فی جزئہ وصاحب المھر انیات فیھا عن جابر بن عبداللہ ، وعبدبن حمید فی مسندہ وابن حبان فی الضعفاء وابن عدی فی الکامل والسلفی فی الطیوریات عن ابن عمر، وابن النجار فی تاریخہ عن امیرالمومنین علی ، والطبرانی فی الکبیر عن ابی خصیفۃ وتمام عن ابی بکرۃ ، والبخاری فی التاریخ وابن ابی الدنیا فی قضاء الحوائج ، وابویعلٰی فی مسندہٖ ، والطبرانی فی الکبیر والعقیلی والبیہقی فی شعب الایمان وابن عساکر عن ام المؤمنین الصدیقۃ کلھم بلفظ اطلبوا الخیر عند حسان الوجوہ۱ ، کماعند الاکثر اوالتمسوا ۱ کما التما م عن ابن عباس والخطیب عن انس۔ والطبرانی عن ابی خصیفۃ۔ طبرانی نے کبیر میں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ان ہی لفظوں کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ عقیلی ، خطیب ، تمام رازی اپنی فوائد میں، طبرانی کبیر میں اور بیہقی شعب الایمان میں ان ہی سے راوی ہیں ۔ ابن ابی الدنیا نے قضاء الحوائج میں ، عقیلی ودارقطنی نے افراد میں، طبرانی نے اوسط میں ، تمام اور خطیب نے بواسطہ مالک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ ابن عساکر اور خطیب نے اپنی تاریخ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ طبرانی نے اوسط میں ، عقیلی وخرائطی نے اعتلال القلوب میں، تمام وابو سہل اورعبدالصمد بن عبدالرحمن بزار نے اس کو اپنی جزء میں اورصاحب مہرانیات نے مہرانیات میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ جبکہ عبد بن حمید نے اپنی مسند میں ، ابن حبان نے ضعفاء میں ، ابن عدی نے کامل میں اورسلفی نے طیور یات میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ابن نجار نے اپنی تاریخ میں امیر المومنین علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ۔ طبرانی نے کبیر میں ابو خصیفہ سے اور تمام نے ابو بکرہ سے روایت کیا۔ بخاری نے تاریخ میں ، ابن ابی الدنیا نے قضاء الحوائج میں، ابو یعلٰی نے اپنے مسند میں ، طبرانی نے کبیر میں ، عقیلی وبیہقی نے شعب الایمان میں اورابن عساکر نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا ہے ۔ ان سب نے بایں الفاظ ذکر کیا ہے کہ ”خوشرویوں سے بھلائی طلب کرو”جیسا کہ اکثر کے نزدیک ہے ۔ یا اطلبوا کی جگہ التمسواہے جیسا کہ تمام نے ابن عباس ، خطیب نے حضرت انس اورطبرانی نے ابوخصیفہ سے روایت کیا رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔
(۱اتحاف السادۃ المتقین کتاب الصبر والشکربیان حقیقۃ النعمۃ واقسامہا دارالفکر بیروت ۹ /۹۱)
(کشف الخفاء تحت الحدیث ۳۹۴دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۲۲و۱۲۳)
(تاریخ بغداد ذکر مثانی الاسماء دارالکتاب بیروت ۴ /۱۸۵)
(تاریخ بغداد ترجمہ ایوب بن الولید ۳۴۸۳ دارالکتاب بیروت ۷ /۱۱)
(تاریخ بغداد ترجمہ عبدالصمد بن احمد ۵۷۲۲دارلکتاب بیروت ۱۱ /۴۳)
(تاریخ بغداد عصمۃ بن محمد الانصاری ۷۱۴۱دارالکتاب بیروت ۱۳ /۱۵۸)0
(الضعفاء الکبیر حدیث ۱۳۶۶دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳ /۳۴۰)
( شعب الایمان تحت الحدیث ۳۵۴۳دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/۲۷۹)
(موسوعۃ رسائل ابن ابی الدنیا قضاء الحوائج حدیث ۵۳مؤسسۃ الکتب الثقافیہ بیروت ۲ /۵۱)
(کنزالعمال بحوالہ قط فی الافراد حدیث ۱۶۷۹۲موسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۱۶)
(الجامع الصغیر بحوالہ قط فی الافراد حدیث ۴۴دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۹ )
(الجامع الصغیر بحوالہ تخ حدیث ۱۱۰۷دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۷۲)
(المعجم الاوسط عن ابی ہریرۃ حدیث ۳۷۹۹مکتبۃ المعارف ریاض ۴ /۴۷۲)
(کنز العمال حدیث ۱۶۷۹۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۱۶)
(المعجم الاوسط عن جابر رضی اللہ تعالی عنہ حدیث ۶۱۱۳مکتبۃ المعارف ریاض ۷/۷۱)
(مجمع الزوائد باب مایفعل طالب الحاجۃ وممن یطلبھا دارالکتاب بیروت ۸ /۱۹۴و۱۹۵)
( الکامل لابن عدی ترجمہ سلیم بن مسلم، دارالفکر بیروت ۳ /۱۱۶۷)
(المنتخب من مسند عبد بن حمید حدیث ۷۵۱عالم الکتب بیروت ص۲۴۳)
(اعتلال القلوب للخرائطی حدیث ۳۴۲و۳۴۳مکتبہ نزار مصطفی البازمکۃالمکرمۃ ۱ /۱۶۶و۱۶۷)
(موسوعۃ رسائل ابن ابی الدنیا قضاء الحوائج حدیث ۵۲ و ۵۱ مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت ص۵۰و۵۱)
(الضعفاء الکبیر ترجمہ سلیمان بن راقم ۵۹۹ ۲ /۱۲۱ وترجمہ سلیمان بن کراز ۶۲۸ ۲ /۱۳۹)
( شعب الایمان حدیث ۳۵۴۱و۳۵۴۲دارالکتب العلمیۃ بیروت۳ /۲۷۸)
(۱المعجم الکبیر عن ابی خصیفۃ حدیث ۹۸۳المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۲ /۳۹۶)
(تاریخ بغداد ترجمہ محمد بن محمد ۱۲۸۷ دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۲۲۶)
او ابتغو ا۲کما للدارقطنی عن ابی ھریرۃ ولفظہ عندابن عدی عن ام المؤمنین اطلبوا الحاجات وھو فی کاملہ ۳ یا لفظ ابتغوا ہے جیسا کہ دارقطنی نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے ۔ ابن عدی کی کامل میں بروایت ام المومنین حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ ”اپنی حاجات طلب کرو”۔
(۲کنز العمال بحوالہ قط فی الافراد عن ابی ہریرۃ حدیث ۱۶۷۹۲موسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۱۶)
(۳الکامل لابن عدی ترجمہ الحکم بن عبداللہ دارالفکر بیروت ۲ /۶۲۲)
والبیہقی فی شعب عن عبداللہ بن جراد بلفظ اذا ابتغیتم المعروف فاطلبوہ عند حسان الوجوہ ۱ واحمد بن منیع فی مسندہ عن یزیدالقسملی بلفط اذا طلبتم الحاجات فاطلبوھا ۲ وابن ابی شیبۃ فی مصنفہ عن ابن مصعب ن الانصاری وعن عطاء وعن ابن شہاب الثلٰثۃ مراسیل رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ بیہقی نے شعب الایمان میں عبداللہ بن جراد سے بایں الفاظ روایت کیاہے کہ ”جب بھلائی طلب کرو تو خوشرویوں کے پاس طلب کرو۔ ”احمد بن منیع نے اپنی مسند میں یزید القسملی سے ان لفظوں کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ”جب حاجات طلب کرو توخوشرویوں کے ہاں طلب کرو۔ ”ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ابن مصعب انصاری ، عطاء اورابن شہاب سے روایت کیا ، یہ تینوں حدیثیں مرسل ہیں ، رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔(ت)
(۱شعب الایمان حدیث ۱۰۸۷۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت۷/۴۳۵)
(۲اتحاف السادۃ المتقین کتاب الصبر والشکر بیان حقیقۃ النعمۃ واقسامہا دارالفکر بیروت ۹ /۹۱)
(کشف الخفاء تحت الحدیث ۳۹۴دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۲۳)
(المصنف لابن ابی شیبۃ حدیث ۲۶۲۶۷،۲۶۲۶۸،۲۶۲۶۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۵ /۴۳۵)
حدیث ۳۸: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اطلبوا الابادی عند فقراء المسلمین فان لھم دولۃ یوم القیٰمۃ۳ ۔ ابو نعیم فی الحلیۃ عن ابی الربیع السائح معضل۔ نعمتیں مسلمان فقیروں کے پاس طلب کرو کہ روز قیامت ان کی دولت ہے ۔ (ابو نعیم نے حلیہ میں ابو الربیع السائح سےمعضل(سخت مشکل) روایت کی۔ت)
(۳حلیۃ الاولیاء ترجمہ ابی الربیع السائح ۴۱۸ دارالکتاب العربی بیروت ۸ /۲۹۷)
حدیث ۳۹: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ان اللہ تعالٰی عبادااختصھم لحوائج الناس یفزع الناس الیھم فی حوائجھم اولٰئک الاٰمنون من عذاب اللہ ۔ الطبرانی فی الکبیر ۱عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما بسند حسن۔
(۱کنزالعمال بحوالہ طب عن ابن عمر حدیث ۱۶۰۰۷مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۳۵۰)
اللہ تعالٰی کے کچھ بندے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے انہیں حاجت روائی خلق کے لیے خاص فرمایاہے لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں اپنے پاس لاتے ہیں ، یہ بندے عذاب الہٰی سے امان میں ہیں ۔ (طبرانی نے کبیر میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ۔ت)
حدیث ۴۰ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اذا اراد اللہ بعبد خیرا استعملہ علی قضاء حوائج الناس۔ البیھقی فی الشعب ۲عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ جب اللہ تعالٰی کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتاہے اس سے مخلوق کی حاجت روائی کا کام لیتا ہے (بیہقی نے شعب میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)
(۲شعب الایمان حدیث ۷۶۵۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۱۱۷)
حدیث ۴۱: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اذا اراد اللہ بعبد خیراً صیر حوائج الناس الیہ ۔ مسند الفردوس ۳ عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ اللہ تعالٰی جب کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتاہے تو اسے لوگوں کا مرجع حاجات بناتاہے (مسند فردوس میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا گیا ۔ت)
(۳الفردو س بماثور الخطاب حدیث ۹۳۸دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۲۴۳)
حدیث ۴۲و۴۳ : فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : میری تمہاری کہاوت ایسی ہے جیسے کسی نے آگ روشن کی ، پنکھیاں اورجھینگراس میں گِرنا شروع ہوئے وہ انہیں آگ سے ہٹا رہا ہے، وانا اٰخذ بحجزکم عن النار وانتم تفلتون من یدی ۔ احمد ومسلم عن جابر واحمد۴عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ اورمیں تمہاری کمریں پکڑے تمہیں آگ سے بچارہا ہوں اورتم میرے ہاتھ سے نکلنا چاہتے ہو۔ (احمد اورمسلم نے حضرت جابر سے اوراحمد نے حضرت ابو ہریرۃ سے روایت کیا رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ ت)
(۴صحیح مسلم کتاب الفضائل باب شفقتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی اٰمتہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۴۸)
(مسند احمد بن حنبل عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۳۹۲)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۵۴۰)
حدیث ۴۴: کہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لیس منکم رجل الا انا ممسک بحجزتہ ان یقع فی النار ۔ الطبرانی فی الکبیر۱ عن سمرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔
(۱المعجم الکبیر عن سمرۃ رضی اللہ عنہ حدیث ۷۱۰۰المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۷ /۲۶۹)
تم میں ایسا کوئی نہیں کہ میں اس کا کمر بند پکڑے روک نہ رہاہوں کہ کہیں آگ میں نہ گرپڑے ۔ (طبرانی نے کبیر میں سمرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)
حدیث ۴۵: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: اللہ عزوجل نے جو حرمت حرام کی اس کے ساتھ یہ بھی جاناکہ تم میں کوئی جھانکنے والا اسے ضرورجھانکے گا۔ الاو انی ممسک بحجز کم ان تھافتوا فی النار کما تھافت الفراش والذباب ۔ احمد والطبرانی ۲فی الکبیر عن ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ سن لو اور میں تمہارے کمر بند پکڑے ہوں کہ کہیں پے درپَے آگ میں پھاند نہ پڑو جیسے پروانے اورمکھیاں ۔ (احمد اور طبرانی نے کبیر میں ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)
(۲مسند احمد بن حنبل عن ابن مسعود المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۴۲۴)
( المعجم الکبیر عن ابن مسعود حدیث ۱۰۵۱۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۰ /۲۶۵)
اللہ اکبر! اس سے زیادہ اورکیا دفع بلا ہوگا ، ولٰکن الوھابیۃ لایعلمون (لیکن وہابی نہیں جانتے ۔ ت)
تنبیہ : بائیس سے چوالیس تک چوبیس حدیثیں قابل اندراج وجہ دو تھیں کہ قطعاً للشغف یہیں درج ہوئیں ۔
حدیث ۴۶تا۵۲: سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل سے دعا کی : اللھم اعز الاسلام باحب ھٰذین الرجلین الیک بعمربن الخطاب او بابی جھل بن ھشام ۱۔ احمد وعبد بن حمید والترمذی وحسنہ وصححہ وابن سعد وابو یعلٰی والحسن بن سفٰین فی فوائدہٖ والبزار وابن مردویۃ وخیثمۃ بن سلیمان فی فضائل الصحابۃ وابو نعیم والبیہقی فی دلائلھما وابن عساکر کلھم عن امیر المومنین عمر ۔ والترمذی عن انس والنسائی عن ابن عمر واحمد وابن حمید وابن عساکر عن خباب بن الارت والطبرانی فی الکبیر والحاکم عن عبداللہ ابن مسعود والترمذی والطبرانی وابن عساکر عن ابن عباس والبغوی فی الجعد یات عن ربیعۃ السعدی رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ، ورواہ ابن عساکر عن ابن عمر بلفظ اللھم اشدد ۱وکابن النجار عنہ بلفظ الحدیث الثانی وابو داؤد الطیالسی والشاشی فی فوائدہ والخطیب عن ابن مسعود بلفظ الصدیق الآتی ۔ الہٰی ! اسلام کو عزت دے ان دونوں مردوں میں جو تجھے زیادہ پیارا ہو اس کے ذریعہ سے یا تو عمر بن الخطاب یا ابو جہل بن ہشام ۔ (روایت کیا اس کو احمد وعبدبن حمید وترمذی نے اوراسے حسن اورصحیح کہا۔ اورابن سعد وابویعلٰی وحسن بن سفیان نے اپنی فوائد میں ۔ اور بزار، ابن مردویہ ، خیثمہ بن سلیمان فضائل صحابہ میں ، ابو نعیم وبیہقی دلائل النبوۃ میں اورابن عساکر ، یہ تمام امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ہیں۔ ترمذی نے اس سے ، نسائی نے ابن عمر سے ، احمد بن حمید وابن عساکر نے خباب بن الارت سے ، طبرانی نے کبیر میں اورحاکم نے عبداللہ بن مسعود سے ۔ ترمذی ، طبرانی اور ابن عساکر نے ابن عباس سے اوربغوی نے جعدیات میں ربیعہ بن سعدی سے روایت کیا رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ اورابن عساکر نے اس کو ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ”اللھم اشدد”کے لفظ سے روایت کیا اورابن نجار کی طرح اس کو بلفظ حدیث دوم روایت کیا ۔ ابو داود طیالسی اورشاشی نے اپنی فوائد میں اورخطیب نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بلفظ صدیق روایت کیا جو آگے آرہاہے ، رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔ ت )
(۱مسند احمد بن حنبل عن ابن عمر رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۹۵)
( المنتخب من مسند عبد بن حمید حدیث۷۵۹ عالم الکتب بیروت ص۲۴۵)
(سنن الترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عمر بن خطاب حدیث ۳۷۰۱دارالفکر بیروت ۵ /۳۸۳)
(سنن الترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عمر بن خطاب حدیث ۳۷۰۳دارالفکر بیروت ۵ /۳۸۴)
(کنزالعمال بحوالہ البغوی عن ربیع السعدی حدیث ۳۲۷۷۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱ /۵۸۳)
(کنزالعمال حدیث ۷۴ ،۷۳ ،۷۲ ۔۳۲۷۷۱مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱/۵۸۲)
(کنز العمال بحوالہ خیثمۃ فی فضائل الصحابۃ حدیث ۳۵۸۸۱موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۶۰۲)
(کنزالعمال بحوالہ یعقوب بن سفیان حدیث ۳۵۸۴۰موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۵۹۲)
(تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ عمر بن الخطاب ۵۳۰۲داراحیاء التراث العربی بیروت ۴۷/۵۰تا۶۸)
(کشف الخفاء تحت حدیث ۵۴۶دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۶۶)
(دلائل النبوۃ للبیہقی باب ذکر اسلام عمر بن الخطاب دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/ ۲۱۶و۲۲۰)
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد ترجمہ ارقم بن ابی الارقم دارصادر بیروت ۳/ ۲۴۲ و ۲۶۷ و ۲۶۹)
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارصادر بیروت ۳/ ۸۳و۵۰۲)
(السنن الکبرٰی کتاب قسم الفئی والغنیمۃ دارصادر بیروت ۶ /۳۷۰)
(المعجم الکبیر عن ثوبان رضی اللہ عنہ حدیث ۱۴۲۸ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲ /۹۷)
(المعجم الکبیر عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ حدیث ۱۰۳۱۴ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۰ /۱۹۷)
(تاریخ بغداد ترجمہ احمد بن بشر ۱۶۶۱دارالکتاب العربی بیروت ۴ /۵۴)
(المعجم الاوسط حدیث ۴۷۴۹مکتبۃ المعارف ریاض ۵ /۳۷۸)
(المعجم الاوسط حدیث ۱۸۸۱مکتبۃ المعارف ریاض ۲ /۵۱۲)
(۱تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ عمر بن الخطاب ۵۳۰۲داراحیاء التراث العربی بیروت ۴۷ /۵۱)
حدیث ۵۳تا۸۷: کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دعافرمائی : اللھم اعز الاسلام بعمر بن الخطاب خاصۃ۱۔ ابن ماجۃ وابن عدی والحاکم والبیہقی عن ام المومنین الصدیقۃ وبلالفظ خاصۃ ابوالقاسم الطبرانی عن ثوبان والحاکم عن الزبیر وابن سعد من طریق الحسن المجتبٰی وخیثمۃ بن سلیمان فی الصحابۃ واللالکائی فی السنۃ وابو طالب ن العشاری فی فضائل الصدیق وابن عساکر جمیعاً من طریق النزال بن سبرۃ عن امیر المومنین علی وابن عساکر عنہما اعنی الزبیر والامیر معاً کالطبرانی فی الاوسط عن ابی بکر ن الصدیق بلفظ ایدالاسلام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ الہٰی ! خاص عمر بن الخطاب کے ذریعے سے اسلام کو عزت دے ۔ (ابن ماجہ، ابن عدی ، حاکم اوربیہقی نے اس کو ام المومنین صدیقہ سے روایت کیا اورلفظ خاصّۃ کے بغیر اس کو ابوالقاسم طبرانی نے ثوبان سے ، حاکم نے زیبر سے ، ابن سعد نے بطریق حسن مجتبی وخیثمہ بن سلیمان نے صحابہ میں اورلالکائی نے سنّہ میں اورابو طالب عشاری نے فضائل صدیق میں اور ابن عساکر نے ، ان سب نے بطریق نزال بن سبرہ امیر المومنین سیدنا حضرت علی سے اورابن عساکر نے حضرت زبیر اورحضرت علی دونوں سے ، جیسا کہ طبرانی نے اوسط میں حضرت ابو بکر صدیق سے ”اید الاسلام ”کے لفظوں کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ت)
(۱سنن ابن ماجۃ فضل عمر رضی ا للہ عنہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۷۱)
(الکامل لابن عدی ترجمہ مسلم بن خالد دارالفکر بیروت ۶/۲۳۱۰)
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت ۳/۸۳)
(السنن الکبرٰی کتاب قسم الفئی والغنیمۃ دارصادر بیروت ۶/۳۷۰)
(المعجم الکبیر عن ثوبان حدیث ۱۴۲۸ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲/۹۷)
(تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ عمر بن الخطاب ۵۳۰۲داراحیاء التراث العربی بیروت ۴۷/۵۲)
(کنزالعمال بحوالہ خیثمہ واللالکائی والعشاری حدیث ۳۶۶۹۸موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۲۳۲)
(المعجم الاوسط حدیث ۸۲۴۹مکتبۃ المعارف ریاض ۹ /۱۱۹و۱۲۰)
اس دعائے کریم کے باعث عمرفاروق اعظم کے ذریعہ سے جو عزتیں اسلام کو ملیں جو بلائیں اسلام ومسلمین پر سے دفع ہوئیں مخالف وموافق سب پر روشن ومبین ۔ ولہذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : مازلنا اعزۃ منذ اسلم عمر ۱۔البخاری فی صحیحہٖ وابو حاتم الرازی فی مسندہ وابن حبان عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ہم ہمیشہ معزز رہے جب سے عمر اسلام لائے۔ (امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی بخاری میں اورابو حاتم رازی نے اپنی مسند میں اور ابن حبان نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)
(۱صحیح البخاری کتاب المناقب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۲۰)
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت ۳ /۸۴)
(الطبقات الکبری لابن سعد اسلام عمر رضی اللہ عنہ دارصادر بیروت ۳ /۲۷۰)
(صفۃ الصفوۃ ذکر اسلام عمر رضی اللہ عنہ دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۷۴)
نیز فرماتے ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ : کان اسلام عمر فتحا وھجرتہ نصراً وامارتہ رحمۃ لقد رأیتنا وما نستطیع ان نصلی بالبیت حتی اسلم عمر۲۔ رواہ ابو ظاھر السلفی واٰخرہ لابن اسحٰق فی سیرتہ بمعناہ ۔ عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہ )کا اسلام فتح تھا اوران کی ہجرت نصرت اور ان کی خلافت رحمت ، بیشک میں نے اپنے گروہ صحابہ کو دیکھا کہ جب تک عمر مسلمان نہ ہوئے ہمیں کعبہ معظمہ میں نماز پر قدرت نہ ملی ۔ (اس کو روایت کیا ابو ظاہر سلفی نے اوراس کے بعد سیرۃ ابن اسحٰق میں انہیں معنوں میں ۔ت)
(۲السیرۃ النبویۃ لابن ہشام اسلام ابن عمر رضی اللہ عنہ دارابن کثیر بیروت الجزئین الاولین ص۳۴۲)
(اسدالغابۃ ترجمہ ۳۸۲۴عمر بن الخطاب دارالفکر بیروت ۳ /۶۴۸)
الریاض النضرۃ الباب الثانی فی مناقب عمر بن الخطاب حدیث ۵۸۶ دارالمعرفۃ بیروت الجزء الثانی ص۲۴۴)
نیز فرماتے ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ : ماصلینا ظاھرین حتی اسلم عمر ظھر الاسلام ودعاالی اللہ علانیۃً۔ اخرجہ الدولابی فی الفضائل ۱۔ جب تک عمر مسلمان نہ ہو ئے ہم نے آشکارنماز نہ پڑھی جس دن سے وہ اسلام لائے دین نے غلبہ پایا اور انہوں نے علانیہ اللہ عزوجل کی طرف بلایا(دولابی نے فضائل میں اسے بیان کیا۔ت)
(۱الریاض النضرۃ الباب الثانی فی مناقب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حدیث ۵۸۶دارالمعرفۃ بیروت ،الجزء الثانی ص۲۴۴)
صہیب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : لما اسلم عمر جلسنا حول البیت حلقاً وطفنابہ وانتصفنا ممن غلظ علینا ۔ خرجہ ابوالفرج فی صفۃ الصفوۃ ۲۔ جب عمر مسلمان ہوئے ہم گردخانہ کعبہ حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے اورطواف کیا اورہم پر جو سختی کرتے تھے ان سے اپنا انصاف لیا ۔ (ابوالفرج نے اسے صفۃ الصفوۃ میں بیان کیا۔ ت)
(۲صفۃ الصفوۃ ذکر اسلام عمر رضی اللہ عنہ دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۷۴)
صفحہ نمبر 107 تک مکمل ہے