فتاوی رضویہ, فضائل و خصائص, والدین مصطفی علیہ السلام

رسول کریم علیہ السلام کے آباؤ اجداد کرام کا مسلما ن ہونا

رسالہ
شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام (۱۳۱۵ھ)
(رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آباؤ اجداد کرام کا مسلما ن ہونا)
بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

مسئلہ ۳۴ : از معسکر بنگلور، مسجد جامع مدرسہ جامع العلوم مرسلہ حضرت مولانا مولوی شاہ محمد عبدالغفار صاحب قادری نسباً وطریقۃً ، اعلٰی مدرس مدرسہ مذکور ۲۱شوال ۱۳۱۵ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ سرورکائنات فخر موجودات رسول خدا محمدمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم کے ماں باپ آدم علٰی نبینا وعلیہ السلام تک مومن تھے یا نہیں؟بینوا توجروا۔(عہ۱) (بیان کرو اجر پاؤگے ۔ت)

عہ۱ : اس سوال کے جواب میں ”ہدایۃ الغوی فی اسلام آباء النبی”مصنفہ مولوی صاحب موصوف تھا ، یہ اسی کی تصدیق میں لکھاگیا۔

الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم ط
اللھم لک الحمد الدائم الباطن الظاھرصل وسلم علی المصطفی الکریم نورک الطیب الطاھر الزاھر الذی نزھتہ من کل رجس اودعتہ فی کل مستودع طاھر ونقلتہ من طیبٍ الی طیبٍ فلہ الطیب الاول والاٰخروعلی اٰلہ وصحبہ الاطائب الاطاھر اٰمین ۔

اے اللہ ! تیرے لئے ظاہری وباطنی طور پر دائمی حمد ہے ۔ درود وسلام نازل فرما مصطفی کریم پر جو تیرا طیب وطاہر اورروشن نور ہیں جن کو تو نے ہر نجاست سے منزہ کیا ہے اورپاک محل میں ودیعت فرمایا ہے ۔ اورستھرے سے ستھرے کی طرف منتقل فرمایا ہے ۔ اول وآخر اس کےلئے پاکیزگی ہے ، اوران کی طیب ، طاہر آل اور اصحاب پر۔آمین!(ت) اولاً : (پہلی دلیل) : اللہ عزوجل فرماتاہے : ولعبد مؤمن خیر من مشرک۱؂۔ بیشک مسلمان غلام بہتر ہے مشرک سے ۔

(۱؂القرآن الکریم ۲ /۲۲۱)

اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : بعثت من خیر قرون بنی اٰدم قرناً فقرناً حتی کنت من القرن الذی کنت منہ ۔ رواہ البخاری۲؂فی صحیحہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ہر قرن وطبقہ میں تمام قرون بنی آدم کے بہتر سے بھیجاگیا یہاں تک کہ اس قرن میں ہواجس میں پیداہوا۔ (اس کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۲؂صحیح البخاری کتاب المناقب باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۰۳)

حضرت امیر المومنین مولی المسلین سیدنا علی مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کی حدیث صحیح میں ہے ،۔ لم یزل علی وجہ الدھر (الارض) سبعۃ مسلمون فصاعداً فلولاذٰلک ھلکت الارض ومن علیہا۔ اخرجہ عبدالرزاق ۳؂ وابن المنذر بسند صحیح علی شرط الشیخین۔ روئے زمین پر ہر زمانے میں کم سے کم سات مسلمان ضرور رہے ہیں ، ایسا نہ ہوتا تو زمین واہل زمین سب ہلاک ہوجاتے۔ (اس کو عبدالرزاق اورابن المنذر نے شیخین کی شرط پر صحیح سند کے ساتھ روایت کیاہے ۔ت)

(۳؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ عبدالرزاق وابن المنذر المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۷۴)

حضرت عالم القرآن حبرالامۃ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث میں ہے : ماخلت الارض من بعد نوح من سبعۃ یرفع اللہ بھم عن اھل الارض ۱؂۔ نوح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بعد زمین کبھی سات بندگانِ خدا سے خالی نہ ہوئی جن کی وجہ سے اللہ تعالٰی اہل زمین سے عذاب دفع فرماتاہے ۔

(۱؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ احمد فی الزہد الخ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۷۴)
(الحاوی للفتاوٰی بحوالہ احمد فی الزہد والخلال فی کرامات الاولیاء الخ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۲۱۲)

جب صحیح حدیثوں سے ثابت کہ ہر قرن و طبقے میں روئے زمین پر لااقل سات مسلمان بندگان مقبول ضرور رہے ہیں ، اورخو دصحیح بخاری شریف کی حدیث سے ثابت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جن سے پیداہوئے وہ لوگ ہر زمانے میں ، ہر قرن میں خیارقرن سے ، اورآیت قرآنیہ ناطق کہ کوئی کافر اگرچہ کیسا ہی شریف القوم بالانسب ہو، کسی غلام مسلمان سے بھی خیر وبہتر نہیں ہوسکتا تو واجب ہوا کہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آباء وامہات ہر قرن اورطبقہ میں انہیں بندگان صالح ومقبول سے ہوں ورنہ معاذاللہ صحیح بخاری میں ارشاد مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وقرآن عظیم میں ارشاد حق جل وعلاکے مخالف ہوگا۔ اقول: والمعنی ان الکافر لا یستاھل شرعاً ان یطلق علیہ انہ من خیار القرن لاسیما وھناک مسلمون صالحون وان لم یرد الخیریۃ الا بحسب النسب ، فافھم۔ اقول: (میں کہتاہوں۔ت)کہ مراد یہ ہے کہ کافر شرعاً اس بات کا مستحق نہیں کہ اس کو خیر القرن کہا جاسکے بالخصوص جبکہ مسلمان صالح موجود ہوں اگرچہ خیریت نسب ہی کے لحاظ سے کیوں نہ ہو۔ چنانچہ تو سمجھ ۱۲۔ (ت)
یہ دلیل امام جلیل خاتم الحفاظ جلال الملۃ والدین سیوطی قدس سرہ نے افادہ فرمائی فاللہ یجزیہ الجزاء الجمیل (اللہ تعالٰی ان کو اجر جمیل عطافرمائے ۔ ت)

ثانیاً : قال اللہ عزوجل انما المشرکون نجس۲؂۔ دوسری دلیل : اللہ تعالٰی نے فرمایا ، کافر تو ناپاک ہی ہیں۔ (ت)

(۲؂القرآن الکریم ۲ /۲۲۱)

اورحدیث میں ہے حضور سید المرسلمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : لم یزل اللہ عزوجل ینقلنی من اصلاب الطیبۃ الی الارحام الطاہرۃ مصفی مھذبا لاتنشعب شعبتان الا کنت فی خیرھما ۔ رواہ ابو نعیم فی دلائل النبوۃ ۱؂ عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ ہمیشہ اللہ تعالٰی مجھے پاک ستھری پشتوں میں نقل فرماتارہا صاف ستھرا آراستہ جب دو شاخیں پیداہوئیں، میں ان میں بہتر شاخ میں تھا ۔ (اس کو نعیم نے دلائل النبوۃ میں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)

(۱؂ الحاوی للفتاوی بحوالہ ابی نعیم مسالک الحنفاء فی والدی المصطفٰی دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۲۱۱)
(دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الثانی عالم الکتب بیروت الجزء الاو ل ص۱۱و۱۲)

اورایک حدیث میں ہے ، فرماتے ہیں صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم : لم ازل انقل من اصلاب الطاھرین الٰی ارحام الطاھرات۲؂۔ میں ہمیشہ پاک مردوں کی پشتوں سے پاک بیبیوں کے پیٹوں میں منتقل ہوتارہا۔

(۲؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابی نعیم عن ابن عباس المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۷۴)
(الحاوی للفتاوی مسالک الحنفاء فی والدی المصطفٰی دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۲۱۰)

دوسری حدیث میں ہے ، فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لم یزل اللہ ینقلنی من الاصلاب الکریمۃ والارحام الطاھرۃ حتی اخرجنی من بین ابوی ۔ رواہ ابن ابی عمرو العدنی۳؂ فی مسندہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ہمیشہ اللہ عزوجل مجھے کرم والی پشتوں اورطہارت والے شکموں میں نقل فرماتا رہا ۔ یہاں تک کہ مجھے میرے ماں باپ سے پیداکیا۔ اس کو ابن ابی عمرو العدنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی مسند میں روایت کیا۔ ت)

(۳؂الشفاء بتعریف حقو ق المصطفٰی فصل واما شرف نسبہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃفی البلاد العثمانیہ ۱ /۶۳)
(نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض بحوالہ ابن ابی عمرو العدنی مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۴۳۵)

توضرورہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے آبائے کرام طاہرین وامہات کرام طاہرات سب اہل ایمان و توحید ہوں کہ بنص قرآن عظیم کسی کا فروکافرہ کے لیے کرم وطہارت سے حصہ نہیں ۔

یہ دلیل امام اجل فخر المتکلمین علامۃ الورٰی فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے افادہ فرمائی اور امام جلال الدین سیوطی اورعلامہ محقق سنوسی اورعلامہ تلمسانی شارح شفاء وامام ابن حجر مکی وعلامہ محمد زرقانی شارح مواہب وغیرہم اکابر نے اس کی تائید وتصویب کی ۔

ثالثاً : قال اللہ تبارک وتعالٰی : وتوکل علی العزیز الرحیم o الذی یرٰک حین تقوم o وتقلبک فی السٰجدین o۱؂۔ تیسری دلیل : اللہ تبارک وتعالٰی نے فرمایا : بھروساکر زبردست مہربان پر جو تجھے دیکھتا ہے جب تو کھڑا ہو اور تیرا کروٹیں بدلنا سجدہ کرنیوالوں میں ۔

(۱؂القرآن الکریم ۲۶ /۲۱۷ تا ۲۱۹)

امام رازی فرماتے ہیں: معنی آیت یہ ہیں کہ حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نور پاک ساجدوں سے ساجدوں کی طرف منتقل ہوتارہا ۲؂ تو آیت اس پر دلیل ہے کہ سب آبائے کرام مسلمین تھے۔

(۲؂مفاتیح الغیب تحت آیۃ ۲۶ / ۲۱۹ ۔۔ ۲۴/ ۱۴۹)

امام سیوطی وامام ابن حجر وعلامہ زرقانی ۳؂ وغیرہم اکابر نے اس کی تقریر وتائید وتاکید وتشیید فرمائی ۔

(۳؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول باب وفات امہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالمعرفہ بیروت ۱ /۱۷۴)

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے اس کے موید روایت ابو نعیم ۴؂کے یہاں آئی : وقد صرحوا ان القرآن محتج بہ علی جمیع وجوھہ ولا ینفی تاویل تاویلا ویشھد لہ عمل العلماء فی الاحتجاج بالایات علی احد التاویلات قدیما وحدیثا ۔ علماء نے تصریح کی ہے کہ قرآن پاک کی ہر وجہ سے استدلال کیا جائے گا اور کوئی ایک تاویل دوسری تاویل کی نفی نہیں کرتی ، اس کے لیے علماء کاعمل گواہ ہے کہ وہ پرانے اور نئے زمانے میں آیات مبارکہ کی کئی تاویلات میں سے ایک سے استدلال کرتےرہے ہیں۔ (ت)

(۴؂شرح الزرقانی بحوالہ ابی نعیم المقصد الاول باب وفات امہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالمعرفہ بیروت ۱ /۱۷۴)
(دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الثانی عالم الکتب بیروت الجزء الاو ل ص۱۱و۱۲)

رابعاً :قال المولی سبحنہ وتعالی ولسوف یعطیک ربک فترضی۵؂ چوتھی دلیل : اللہ تعالی نے فرمایا : البتہ عنقریب تجھے تیرا رب اتنا دے گاکہ تو راضی ہو جائے گا ۔

(۵؂القرآن الکریم ۹۳/۵)

اللہ اکبر ! بارگاہ عزت میں مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عزت ووجاہت ومحبوبیت کہ امت کے حق میں تو رب العزت جل وعلا نے فرمایا ہی تھا : سنرضیک فی امتک ولا نسؤک رواہ مسلم۱؂ فی صحیحہ ۔ قریب ہے کہ ہم تجھے تیری امت کے باب میں راضی کردینگے اور تیرا دل برا نہ کریں گے ۔(اسے مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ۔ت )

(۱؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب دعا النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لامتہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۳)

مگر اس عطا و رضا کا مرتبہ یہاں تک پہنچا کہ صحیح حدیث میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ابو طالب کی نسبت فرمایا: وجدتہ فی غمرات من النار فاخرجتہ الی ضحضاح رواہ البخاری ومسلم عن العباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہما۲؂۔ میں نے اسے سراپا آگ میں ڈوبا ہوا پایا تو کھینچ کر ٹخنوں تک کی آگ میں کر دیا (اس کو امام بخاری وامام مسلم نے ابن عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا ۔ت)

(۲؂صحیح البخاری کتاب المناقب قصہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۴۸)
( صحیح البخاری کتاب الادب کنیۃ المشرک قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۱۷)
(صحیح مسلم باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لابی طالب الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۵ )
(مسند احمد بن حنبل عن العباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۰۶)

دوسری روایت صحیح میں فرمایا : ولو لا انا لکان فی الدرک الاسفل من النار ۔رواہ ایضا ۳؂رضی اللہ تعالی عنہ ، اگر میں نہ ہوتا تو ابو طالب جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں ہوتا (اس کو بخاری نے انہی سے روایت کیا ہے )

(۳؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۵)
(صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصۃ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۴۸ )
(صحیح البخاری کتاب الادب باب کنیۃ المشرک قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۱۷)

دوسری حدیث صحیح میں فرماتے ہیں : صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اھون اھل النار عذابا ۔ رویاہ ۱؂عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما ۔ دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب ابو طالب پر ہے (امام بخاری ومسلم نے یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی ۔ت)

(۱؂ صحیح مسلم کتاب الایمان باب اھون اھل النار عذابا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۱۵)

اور یہ ظاہر ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے جو قرب والدین کریمین کو ہے ،ابو طالب کو اس سے کیا نسبت ؟ پھر ان کا عذر بھی واضح کہ نہ انھیں دعوت پہنچی نہ انھوں نے زمانہ اسلام پایا ،تو اگر معاذ اللہ وہ اہل جنت نہ ہوتے تو ضرور تھا کہ ان پر ابو طالب سے بھی کم عذاب ہوتا اور وہی سب سے ہلکے عذاب میں ہوتے ۔یہ حدیث صحیح کے خلاف ہے تو واجب ہوا کہ والدین کریمین اہل جنت ہیں ،وللہ الحمد ،اس دلیل کی طرف بھی امام خاتم الحفاظ (جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ تعالی )نے اشارہ فرمایا :

اقول: وباللہ التوفیق (میں کہتا ہوں اور توفیق اللہ تبارک تعالی کی طرف سے ہے ۔ت )تقریر دلیل یہ ہے کہ صادق ومصدوق صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے خبر دی کہ اہل نار میں سب سے ہلکا عذاب ابو طالب پر ہے ۔اب ہم پوچھتے ہیں کہ ابو طالب پر یہ تخفیف کس وجہ سے ہے ؟ آیا حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی یاری وغمخواری وپاسداری وخدمت گزاری کے باعث یا اس لئے کہ سید المحبوبین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ان سے محبت طبعی تھی ،حضور کو ان کی رعایت منظور تھی ۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : عم الرجل صِنوُ اَبِیہِ رواہ الترمذی۲؂ بسند حسن عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ وعن علی والطبرانی الکبیر عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہم) آدمی کا چچا اس کے باپ کے بجائے ہوتا ہے اس کو امام ترمذی نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابوہریرہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہما سے جبکہ طبرانی کبیر نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا ہے ۔(ت)

(۲؂جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب ابی الفضل عم النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ۲ /۲۱۷)
(المعجم الکبیر حدیث ۱۰۶۹۸ المکتبہ الفیصلیۃ بیروت ۱۰ /۳۵۳)

شق اول باطل ہے ،قال اللہ عزوجل وقدمنا الی ما عملوا من عمل فجعلنہ ھباء منثورا ۱؂۔ (اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ):اور جو کچھ انھو ں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرما کر انھیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں ۔(ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۲۵/ ۲۳)

صاف ارشاد ہوتا ہے کہ کافر کے سب عمل برباد محض ہیں ،لا جرم شق ثانی ہی صحیح ہے اور یہی ان احادیث صحیحہ مذکورہ سے مستفاد ،ابو طالب کے عمل کی حقیقت تو یہاں تک تھی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سراپا آگ میں غرق پایا ،عمل نے نفع دیا ہوتا تو پہلے ہی کام آتا ،پھر حضور کا ارشاد کہ میں نے اسے ٹخنوں تک کی آگ میں کھینچ لیا ،میں نہ ہوتا تو جہنم کے طبقہ زیریں میں ہوتا “۲؂۔

(۲؂صحیح البخاری کتاب مناقب انصار قصہ ابی طالب ۱ /۵۴۸ و صحیح مسلم کتاب الایمان ۱ /۱۱۵ )
(مسند احمد بن حنبل عن العباس المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۰۷و۲۱۰)

لاجرم یہ تخفیف صرف محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا پاس خاطر اور حضور کا اکرام ظاہر وباہر ہے اور بالبداہت واضح کہ محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خاطر اقدس پر ابو طالب کا عذاب ہر گز اتنا گراں نہیں ہو سکتا جس قدر معاذ اللہ والدین کریمین کا کاملہ ،نہ ان سے تخفیف میں حضور کی آنکھوں کی وہ ٹھنڈک جو حضرات والدین کے بارے میں ،نہ ان کی رعایت میں حضور کا وہ اعزاز واکرام جو حضرت والدین کے چھٹکارے میں ،تو اگر عیاذ اباللہ وہ اہل جنت نہ ہوتے تو ہر طرح سے وہی اس رعایت وعنایت کے زیادہ مستحق تھے ،وبوجہ آخر فرض کیجئے کہ یہ ابوطالب کے حق پرورش وخدمت ہی کا معاوضہ ہے تو پھر کون سی پرورش جزئیت کے برابر ہوسکتی ہے ، کون سی خدمت حمل و وضع کا مقابلہ کرسکتی ہے ؟ کیا کبھی کسی پرورش کنندہ یا خدمت گزار کا حق ،حق والدین کے برابر ہو سکتا ہے جسے رب العزت نے اپنے حق عظیم کے ساتھ شمار فرمایا : ان اشکر لی ولوالدیک ۱؂ حق مان میرا اور اپنے والدین کا ۔

(۱؂القرآن الکریم ۳۱/ ۱۴)

پھر ابو طالب نے جہاں برسوں خدمت کی ،چلتے وقت رنج بھی وہ دیا جس کا جواب نہیں ،ہر چند حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کلمہ پڑھنے کو فرمایا ،نہ پڑھنا تھا نہ پڑھا ،جرم وہ کیا جس کی مغفرت نہیں ۔عمر بھر معجزات دیکھنا ،احوال پر علم تام رکھنا اور زیادہ حجۃ اللہ قائم ہونے کا موجب ہوا بخلاف ابوین کریمین کہ نہ انھیں دعوت دی گئی نہ انکار کیا ،تو ہر وجہ ،ہر لحاظ ،ہر حیثیت سے یقینا انھیں کا پلہ بڑھا ہوا ہے ،تو ابو طالب کا عذاب سب سے ہلکا ہونا یونہی متصور کہ ابوین کریمین اہل نار ہی سے نہ ہوں ۔ وھو المقصود والحمد للہ العلی الودود اور وہی مقصود ہے ،(اور تمام تعریفیں بلندی ومحبت والے اللہ کے لئے ہیں ۔ت)

خامساً : اقول: قال المولٰی عزوعلا: لایستوی اصحٰب النارواصحٰب الجنۃ اصحٰب الجنۃ ھم الفائزون۱؂۔ پانچویں دلیل : اقول (میں کہتاہوں کہ) مولٰی عزوجل نے فرمایا : برابر نہیں دوزخ والے اورجنت والے ، اورجنت والے ہی مراد کو پہنچے ۔ (۱؂القرآن الکریم ۵۹ /۲۰)

حدیث میں ہے حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اولادِ امجادِ حضرت عبدالمطلب سے ایک پاک طیبہ خاتون رضی اللہ تعالٰی عنہا کو آتے دیکھا ، جب پاس آئیں ، فرمایا : مااخرجک من بیتک ؟ اپنے گھر سے کہاں گئی تھیں ؟
عرض کی : آتیت اھل ھذا المیت فترحمت الیہم وعزیتھم بمیتھم۔ یہ جو ایک میت ہوگئی تھی میں ان کے یہاں دعائے رحمت اورتعزیت کرنے گئی تھی۔ فرمایا: لعلک بلغت معھم الکدٰی ۔ شاید تو ان کے ساتھ قبرستان تک گئی ۔ عرض کی : معاذاللہ ان اکون بلغتھاوقد سمعتک تذکر فی ذٰلک ماتذکر ۔ خدا کی پناہ میں وہاں جاتی حالانکہ حضور سے سن چکی تھی جو کچھ اس بات میں ارشاد کیا۔
سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: لوبلغتہا معھم مارایت الجنۃ حتی یراھا جد ابیک۔ اگر توان کے ساتھ وہاں جاتی تو جنت نہ دیکھتی جب تک عبدالمطلب نہ دیکھیں ۔ رواہ ابوداود۲؂ والنسائی ۔واللفظ لہ عن عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما، اما ابوداودفتادب وکنّٰی وقال فذکر تشدیدافی ذٰلک واما ابو عبدالرحمن فادّٰی لتبلیغ العلم واداء الحدیث علٰی وجھہٖ لکل وجھۃ ھو مولیہا۔ اس کو ابو داود اورنسائی نے روایت کیا ہے ، اورلفظ نسائی کے ہیں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ، امام ابو داودنے ازراہ ادب بطور کنایہ اس میں تشدید کا ذکر کیا لیکن امام ابو عبدالرحمن نے کھل کر علم کو پہنچایا اورحدیث کا حق ادا کیا۔ ہر ایک کے لئے تو جہ کی ایک سمت ہے جس کی طرف وہ منہ کرتاہے ۔ (ت)

(۲؂سنن النسائی کتاب الجنائز باب النعی نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۶۵و۲۶۶ )
(سنن ابی داود کتاب الجنائز باب التعزیۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۸۹)

یہ تو حدیث کا ارشاد ہے ، اب ذرا عقائد اہلسنت پیش نظر رکھتے ہوئے نگاہ انصاف درکار ، عورتوں کا قبرستان جانا غایت درجہ اگر ہے تو معصیت ہے ، اورہرگز کوئی معصیت مسلمان کوجنت سے محروم اور کافر کے برابر نہیں کرسکتی ، اہلسنت کے نزدیک مسلمان کا جنت میں جانا واجب شرعی ہے اگرچہ معاذاللہ مواخذے کے بعد ، اورکافر کا جنت میں جانا محال شرعی کہ ابدالآباد تک کبھی ممکن ہی نہیں ، اورنصوص کو حتی الامکان ظاہر پر محمول کرنا واجب، اور بے ضرورت تاویل ناجائز ، اور عصمت نوع بشر میں خاصہ حضرات انبیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء ہے ، ان کے غیر سے اگرچہ کیسا ہی عظیم الدرجات ہو ، وقوع گناہ ممکن ومتصور۔یہ چاروں باتیں عقائد اہل سنت میں ثابت ومقرر، اب اگر بحکم مقدمہ رابعہ مقابر تک بلوغ فرض کیجئے تو بحکم مقدمہ ثالثہ جزاء کا ترتب واجب، اوراس تقدیر پر کہ حضرت عبدالمطلب کو معاذ اللہ غیر مسلم کہئے بحکم مقدمتین اولین ونیزبحکم آیت کریمہ محال وباطل ، تو واجب ہوا کہ حضرت عبدالمطلب مسلمان واہل جنت ہوں اگرچہ مثل صدیق وفاروق وعثمان وعلی وزہراو صدیقہ وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم سابقین اولین میں نہ ہوں ۔ اب معنی حدیث بلا تکلف اور بے حاجت تاویل و تصرف عقائد اہلسنت سے مطابق ہے یعنی اگر یہ امر تم سے واقع ہوتا تو سابقین اولین کے ساتھ جنت میں جانا نہ ملتا بلکہ اس وقت جبکہ عبدالمطلب داخل بہشت ہوں گے ھکذا ینبغی التحقیق واللہ تعالٰی ولی التوفیق (یونہی تحقیق چاہئے اوراللہ تعالٰی ہی توفیق کا مالک ہے ۔ت)

سادساً ، اقول : قال ربنا الاعزالاعلٰی عزوعلا: وللہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ولٰکن المنٰفقین لایعلمون۱؂۔ (۱؂القرآن الکریم ۶۳/ ۸)

چھٹی دلیل : اقول: (میں کہتاہوں کہ ) ہمارے پروردگار اعز و اعلٰی عزوعلانے فرمایا، عزت تو اللہ ورسول اورمسلمان ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو علم نہیں۔ وقال تعالٰی: یایھا الناس انا خلقنٰکم من ذکر اوانثٰی وجعلنٰکم شعوباً وقبائل لتعارفواان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم ان اللہ علیم خبیر۱؂۔ (۱؂القرآن الکریم ۴۹/ ۱۳)

اوراللہ تعالٰی نے فرمایا: اے لوگو! ہم نے بنایا تمہیں ایک نرومادہ سے اورکیا تمہیں قومیں اورقبیلے کہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو بے شک اللہ کے نزدیک تمہارا زیاد عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے ۔
ان آیات کریمہ میں رب العزت جل وعلانے عزت وکرم کو مسلمانوں میں منحصرفرمادیا اورکافر کو کتنا ہی قوم دار ہو ، لئیم وذلیل ٹھہرایا اورکسی لئیم وذلیل کی اولاد سے ہونا کسی عزیز وکریم کے لیے باعث مدح نہیں ولہذا کافر باپ دادوں کے انتساب سے فخر کرنا حرام ہوا۔

صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : من انتسب الٰی تسعۃ اٰباء کفار یرید بھم عزّا وکرماً کان عاشرھم فی النار۔رواہ احمد ۲؂عن ابی ریحانہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند صحیح ۔ (۲؂مسند احمد بن حنبل حدیث ابی ریحانہ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۱۳۴)

جو شخص عزت وکرامت چاہنے کو اپنی نوپشت کافر کا ذکر کرے کہ میں فلاں ابن فلاں ابن فلاں کا بیٹا ہوں ان کادسواں جہنم میں یہ شخص ہو۔ (اس کو امام احمد نے ابو ریحانہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت فرمایا۔ت)

اوراحادیث کثیرہ مشہورہ سے ثابت کہ حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے فضائل کریمہ کے بیان اورمقام رجز ومدح میں بارہا اپنے آبائے کرام وامہات کرائم کا ذکر فرمایا ۔
روزِ حنین جب ارادہ الہٰیہ سے تھوڑی دیر کےلئے کفار نے غلبہ پایا معدود بندے رکاب رسالت میں باقی رہے ، اللہ غالب کے رسول غالب پر شان جلال طاری تھی : انا النبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب ۔ رواہ احمد والبخاری ومسلم۳؂ والنسائی عن البراء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ میں نبی ہوں کچھ جھوٹ نہیں ، میں ہوں بیٹا عبدالمطلب کا ۔ (اس کو احمد ، بخاری ، مسلم اورنسائی نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ت)

(۳؂صحیح البخاری کتاب الجہاد باب من قاد دابۃ غیرہ فی الحرب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۰۱)
(صحیح مسلم کتاب الجہادباب غزوۃ حنین قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۰۰)

حضور قصد فرما رہے ہیں کہ تنہا ان ہزاروں کے مجمع پر حملہ فرمائیں ۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب وحضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہما بغلہ شریف کی لگام مضبوط کھینچے ہوئے ہیں کہ بڑھ نہ جائے اورحضور فرمارہے ہیں :
انا النبی لاکذب
انا ابن عبدالمطلب ۔ رواہ ابوبکربن ابی شیبۃ ۱؂ (وابونعیم عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ) میں سچا نبی ہوں ، اللہ کا پیارا ، عبدالمطلب کی آنکھ کا تارا، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔(اس کو ابو بکر بن ابی شیبہ اورابو نعیم نے براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ت)

(۱؂المصنف لابن ابی شیبہ کتاب السیر حدیث ۳۳۵۷۳دارالعلمیۃ بیروت ۶ /۵۳۵)
(کنزالعمال بحوالہ ش وابی نعیم حدیث ۳۰۲۰۷مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۰ /۵۴۰)

امیر المومنین عمر لگام روکے ہیں اورحضرت عباس دُمچی تھامے ، اورحضور فرمارہے ہیں، قدما ھا ، انا النبی لاکذب ، انا ابن عبدالمطلب ، رواہ ابن عساکر۲؂عن مصعب بن شیبۃ عن ابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ اسے بڑھنے دو، میں ہوں نبی صریح حق پر ، میں ہوں عبدالمطلب کا پسر، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔(اس کو ابن عساکر نے مصعب بن شیبہ سے ان کے باپ کے واسطہ سے روایت کیاہے ۔ت)

(۲؂تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۲۸۵۸شیبۃ بن عثمان داراحیاء التراث العربی بیروت ۲۵ /۱۷۲)

گئے ، بغلہ طیبہ نے نزول اجلال فرمایا، اس وقت بھی یہی فرماتے تھے ، انا النبی لاکذب ، انا ابن عبدالمطلب ، اللھم انزل نصرک ۔ رواہ ابن ابی شیبۃ۳؂وابن ابی جریر عن البراء رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ میں ہوں نبی برحق سچا، میں ہوں عبدالمطلب کا بیٹا، الہٰی! اپنی مدد نازل فرما۔(اس کو ابن ابی شیبہ اورابن جریر نے سیدنا حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ت)

(۳؂کنزالعمال بحوالہ ش وابن جریر حدیث ۳۰۲۰۶مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۰ /۵۴۱)

پھر ایک مشت خاک دستِ پاک میں لےکر کافروں کی طرف پھینکی اورفرمایا: شاھت الوجوہ ۱؂۔ چہرے بگڑگئے۔

(۱؂کنزالعمال حدیث ۳ ۳۰۲۱مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۰ /۵۴۱ )
(جامع البیان (تفسیر ابن جریر) تحت الآیۃ لقد نصرکم اللہ الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۰ /۱۱۸)

وہ خاک ان ہزاروں کافروں پر ایک ایک کی آنکھ میں پہنچی اورسب کے منہ پھر گئے ، ان میں جو مشرف باسلام ہوئے وہ بیان فرماتے ہیں جس وقت حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وہ کنکریاں ہماری طرف پھینکیں ہمیں یہ نظر آیا کہ زمین سے آسمان تک تانبے کی دیوار قائم کردی گئی اور اس پر سے پہاڑ ہم پر لڑھکائے گئے ، سوائے بھاگنے کے کچھ بن نہ آئی ، وصلی اللہ تعالٰی علی الحق المبین سید المنصورین واٰلہٖ وبارک وسلم۔ اللہ تعالٰی درودوسلام اوربرکت نازل فرمائے حق مبین پر جو مددکئے ہوؤں کے سردار ہیں اورآپ کی آل پر۔ (ت)

اسی غزوہ کے رجز میں ارشاد فرمایا : انا ابن العواتک من بنی سلیم ۔ رواہ سعید بن منصور۲؂فی سننہٖ والطبرانی فی الکبیر عن سبابۃ بن عاصم رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ میں بنی سلیم سے ان چند خاتونوں کا بیٹا ہوں جن کا نا م عاتکہ تھا۔(اس کو سعیدبن منصور نے اپنی سنن میں اورطبرانی معجم کبیر میں سبابہ بن عاصم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔(ت )

(۲؂کنزالعمال بحوالہ ص وطب حدیث ۳۱۸۷۴مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۱ /۴۰۲)
( المعجم الکبیر بحوالہ ص و طب حدیث ۶۷۲۴ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۷ /۱۶۹)

ایک حدیث میں ہے ، بعض غزوات میں فرمایا : انا النبی لاکذب ، انا ابن عبدالمطلب، انا بن العواتک ۔ رواہ ابن عساکر ۳؂عن قتادہ ۔ میں نبی ہوں کچھ جھوٹ نہیں ، میں ہوں عبدالمطلب کا بیٹا ، میں ہوں ان بیبیوں کا بیٹا جن کا نام عاتکہ تھا(اس کو ابن عساکر نے حضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔(ت)

(۳؂تاریخ دمشق الکبیر باب معرفۃ امہ وجداتہٖ الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۶۰)

علامہ مناوی صاحب تیسیر وامام مجدالدین فیروز آبادی صاحب قاموس وجوہری صاحب صحاح وصنعانی وغیرہم نے کہا : نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جدات میں نو بیبیوں کا نام عاتکہ تھا۱؂۔

(۱؂التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث انا ابن العواتک مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱ /۲۷۵)
(الصحاح باب الکاف فصل العین تحت لفظ عاتکہ دار احیاء التراث العربی بیروت ۴ /۱۳۱۱)

ابن بری نے کہا: وہ بارہ بیبیاں عاتکہ نام کی تھیں ، تین سلمیات یعنی قبیلہ بنی سلیم سے ، اوردو قرشیات، دو عدوانیات اورایک ایک کنانیہ ، اسدیہ ، ہذلیہ، قضاعیہ ، ازدیہ، ذکرہ فی تاج العروس۲؂ (اسے تاج العروس میں ذکر کیا گیا۔ت)

(۲؂تاج العروس باب الکاف فصل العین داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۱۵۹)

ابو عبداللہ عدوسی نے کہا: وہ بیبیاں چودہ تھیں ، تین قرشیات ، چار سلمیات ، دو عدوانیات اورایک ایک ہذلیہ ، قحطانیہ، قضاعیہ ، ثقفیہ، اسدیہ بنی اسد خزیمہ سے ۔ رواہ الامام الجلال السیوطی فی الجامع الکبیر (اس کو امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے جامع کبیر میں روایت کیا ہے ۔ت)اور ظاہر ہے کہ قلیل نافی کثیر نہیں ۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے مقام مدح وبیان فضائل کریمہ میں اکیس پشت تک اپنا نسب نامہ ارشاد کر کے فرمایا: میں سب سے نسب میں افضل ، باپ میں افضل ، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ تو بحکم نصوص مذکورہ ضرور ہے کہ حضور کے آباء وامہات مسلمین ومسلمات ہوں ۔ وللہ الحمد(اوراللہ تعالٰی ہی کے لئے حمد ہے ۔ت)

سابعاً : قال اللہ سبحٰنہ وتعالٰی : انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح۳؂۔ ساتویں دلیل : اللہ سبحٰنہ وتعالٰی نے فرمایا: اے نوح ! یہ کنعان تیرے اہل سے نہیں یہ تو ناراستی کے کام والا ہے ۔ (ت)

(۳؂القرآن الکریم ۱۱/ ۴۶)

آیہ کریمہ نے مسلم وکافر کا نسب قطع فرمادیا ولہذا ایک کا ترکہ دوسرے کو نہیں پہنچتا ۔ اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے : نحن بنوالنضربن کنانۃ لاننتفی من ابینا ۔ رواہ ابوداؤد الطیالسی وابن سعد والامام احمد ۱؂ وابن ماجۃ والحارث والماوردی سمویہ وابن قانع والطبرانی فی الکبیر وابو نعیم والضیاء المقدسی فی صحیح المختارۃ عن الاشعث بن قیس الکندی رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ہم نضربن کنانہ کے بیٹے ہیں ، ہم اپنے باپ سے اپنا نسب جدا نہیں کرتے (اسکو ابوداود طیالسی ، ابن سعد ، امام احمد ، ابن ماجہ ، حارث ، ماوردی ، سمویہ ، ابن قانع ، طبرانی کبیر، ابو نعیم اورضیاء مقدسی نے صحیح مختارہ میں اشعث بن قیس الکندی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ت)

(۱؂کنزالعمال بحوالہ الحارث والباوردی وسمویہ وغیرہ حدیث ۳۵۵۱۳مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۴۴۲)
( سنن ابن ماجۃ ابواب الحدود باب من نفی رجلا من قبیلۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۹۱ )
(مسند احمد بن حنبل حدیث الاشعث بن قیس الکندی المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۲۱۱۲۱۲ )
(المجعم الکبیر حدیث ۲۱۹۰ و ۲۱۹۱ المکتب الفیصلیۃ بیروت ۲ /۲۸۶)
(مسند ابی داود الطیالسی احادیث الاشعث بن قیس حدیث ۱۰۴۹دارالمعرفۃ بیروت الجز الرابع ص۱۴۱)
( الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر من انتمٰی الیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارصادر بیروت ۱۰ /۲۳ )
(دلائل النبوۃ للبیہقی باب ذکر شرف اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۱۷۳)

کفار سے نسب بحکم احکم الحاکمین منقطع ہے ، پھر معاذاللہ جدا نہ کرنے کا کیا محل ہوتا۔

ثامناً وتاسعاً ، اقول: قال العلی الاعلی تبارک وتعالٰی : ان الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین فی نارجہنم خٰلدین فیھا اولٰئک ھم شرالبریۃ ان الذین اٰمنو اوعملو االصٰلحٰت اولٰئک ھم خیر البریۃ۲؂ ۔ آٹھویں اورنویں دلیل: میں کہتاہوں علی اعلی تبارک وتعالٰی نے فرمایا: بیشک سب کافر کتابی اورمشرک جہنم کی آگ میں ہیں ، ہمیشہ اس میں رہیں گے ، وہ سارے جہان سے بدتر ہیں، بے شک وہ جو ایمان لائے اوراچھے کام کئے وہ سارے جہان سے بہتر ہیں۔

(۲؂القرآن الکریم ۹۸/ ۶)

اورحدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : غفراللہ عزوجل لزید بن عمرو و رحمہ فانہ مات علی دین ابراہیم۔رواہ البزار والطبرانی ۱؂عن سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ اللہ عزوجل نے زید بن عمرو کو بخش دیا اوران پر رحم فرمایا کہ وہ دین ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام پر تھے۔(اس کو بزار اورطبرانی نے سیدنا سعید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔ ت)

(۱؂الطبقات الکبرٰی لابن سعد ترجمہ سعید بن زید دارصادر بیروت ۳ /۳۸۱)

اورایک اورحدیث میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انکی نسبت فرمایا: رأیتہ فی الجنۃ یسحب ذیولا۔ رواہ ابن سعد ۲؂والفاکھی عن عامر بن ربیعۃ رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ میں نے اسے جنت میں نازکے ساتھ دامن کشاں دیکھا(اس کو ابن سعد اورفاکہی نے حضرت عامر بن ربیع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)

(۲؂فتح الباری بحوالہ ابن سعد والفاکہی کتاب المناقب حدیث زید بن عمرو بن نفیل مصطفٰی البابی مصر ۸ /۱۴۷)

اوربیہقی وابن عساکر کی حدیث میں بطریق مالک عن الزہری عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : وھذہ روایۃ البیھقی (اور یہ بیہقی کی روایت ہے ۔) :

انا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن النضربن کنانۃ بن خزیمۃ بن مدرکۃ بن الیاس بن مضربن نزاربن معدبن عدنان۔ ماافترق الناس فرقتین الاجعلنی اللہ فی خیر ھما فاخرجت من بین ابوین فلم یصبنی شیئ من عہد الجاھلیۃ وخرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح من لدن اٰدم حتی انتہیت الی ابی وامی فانا خیرکم نفسا وخیرکم ابا۳؂وفی لفظ فانا خیرکم نسباً وخیرکم اباً۱؂۔ میں ہوں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہربن مالک بن نضربن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضربن نزاربن معدبن عدنان۔ کبھی لوگ دوگروہ نہ ہوئے مگر مجھے اللہ تعالٰی نے بہتر گروہ میں کیا تو میں اپنے ماں باپ سے ایسا پیداہوا کہ زمانہ جاہلیت کی کوئی بات مجھ تک نہ پہنچی اورمیں خالص نکاح صحیح سے پیداہوا آدم سے لے کر اپنے والدین تک ، تو میرانفس کریم تم سب سے افضل اورمیرے باپ تم سب کے آباء سے بہتر۔

(۳؂دلائل النبوۃ باب ذکر اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۱۷۴ تا ۱۷۹)
(تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر معرفۃ نسبہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹و۳۸)
(۱؂تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر معرفۃ نسبہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۳۰)

اس حدیث میں اول تو نفی عام فرمائی کہ عہد جاہلیت کی کسی بات نے نسب اقدس میں کبھی کوئی راہ نہ پائی، یہ خود دلیل کافی ہے اورامرجاہلیت کو خصوص زنا پر حمل کرنا ایک تو تخصیص بلا مخصص، دوسرے لغو کہ نفی زنا صراحۃًاس کے متصل مذکور۔
ثانیاً ارشادہوتا ہے کہ میرے باپ تم سب کے آباء سے بہتر ۔ ان سب میں حضرت سعید بن زید بن عمرورضی اللہ تعالٰی عنہما بھی قطعاً داخل تو لازم کہ حضرت والد ماجد حضرت زید سے افضل ہوں اوریہ بحکم آیت بے اسلام ناممکن۔

عاشرًا، اقول: قال اللہ عزوجل : اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ۲؂ ۔ دسویں دلیل : میں کہتاہوں ، اللہ عزوجل نے فرمایا : خد اخوب جانتاہے جہاں رکھے اپنی پیغمبری ۔

(۲؂القرآن الکریم ۶ /۱۲۴)

آیہ کریمہ شاہد کہ رب العزۃ عزّوعلاسب سے زیادہ معزز ومحترم موضع ، وضع رسالت کے لیے انتخاب فرماتا ہے ولہذا کبھی کم قوموں رذیلوں میں رسالت نہ رکھی ، پھر کفر وشرک سے زیادہ رذیل کیا شے ہوگی ؟وہ کیونکر اس قابل کہ اللہ عزوجل نور رسالت اس میں ودیعت رکھے ۔ کفار محل غضب ولعنت ہیں اورنو ررسالت کے وضع کو محل رضا ورحمت درکار ۔

حضر ت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر ایک بار خوف وخشیت کا غلبہ تھا، گریہ وزاری فرمارہی تھیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے عرض کی: یا ام المومنین !کیا آپ یہ گمان رکھتی ہیں کہ رب العزت جل وعلانے جہنم کی ایک چنگاری کومصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جوڑا بنایا؟ ام المومنین نے فرمایا: فرّجت عنی فرّج اللہ عنک۳؂۔ تم نے میر اغم دور کیا اللہ تعالٰی تمہارا غم دور کرے ۔

خود حدیث میں ہے ، حضور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ان اللہ ابٰی لی ان اتزوج أوازوج الا اھل الجنۃ ۔ رواہ ابن عساکر ۱؂ عن ھند بن ابی ھالۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ بے شک اللہ عزوجل نے میرے لئے نہ مانا کہ میں نکاح میں لانے یا نکاح میں دینے کا معاملہ کروں مگر اہل جنت سے ۔(اس کو ابن عساکر نے ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ت)

(۱؂تاریخ دمشق الکبیر رملۃ بنت ابی سفیان صخربن حرب الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷۳ /۱۱۰)

جب اللہ عزوجل نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لے پسند نہ فرمایا (کہ غیر مسلم عورت آپ کے نکاح میں آئے ) خود حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نور پاک معاذاللہ محل کفر میں رکھنے یا حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جسم پاک عیاذاً باللہ خون کفار سے بنانے کو پسند فرمانا کیونکر متوقع ہو۔

یہ بحمداللہ دس دلیل جلیل ہیں، پہلی چار ارشاد ائمہ کبار اورچھ اخیر فیض قدیر حصہ فقیر ، تلک عشرۃ کاملۃ ، والحمدللہ فی الاولٰی والاٰخرۃ (یہ دس کامل ہوئیں ، اور پہلی اور پچھلی میں سب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں۔ت)

حدیث احیاء کی غایت ضعف ہے کما حققہ خاتم الحفاظ الجلا ل السیوطی ولاعطر بعد العروس (جیسا کہ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اس کی تحقیق فرما دی ہے اور عروس کے بعد کرئی عطر نہیں ۔ت )
اور حدیث ضعیف دربارہ فضائل مقبول کما حققناہ بما لا مزید علیہ فی رسالتنا الھا دا لکاف فی حکم الضعاف (جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنے رسالہ الھا د الکاف فی حکم الضعاف میں کردی ہے ۔ت بلکہ امام ابن حجر مکی نے فرمایا متعدد حفاظ نے اس کی تصحیح کی ۔

افضل القری لقراء ام القری میں فرماتے ہیں : ان اباء النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم غیر الانبیاء وامھاتہ الی ادم وحواء لیس فیھم کافرلان الکافر لا یقال فی حقہ انہ مختار ولاکریم ،ولا طاھر ،بل نجس ،وقد صرحت الاحادیث بانھم مختارون وان الاباء کرام ،والامھات طاھرات ،وایضا قال تعالی وتقلبک فی السجدین علی احد التفاسیر فیہ ان المراد تنقل نورہ من ساجد الی ساجد وحینئذ فھذہ صریح فی ان ابوی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اٰمنۃ وعبد اللہ من اھل الجنۃ لانھما اقرب المختارین لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وھذاھوالحق ،بل فی حدیث صححہ غیر واحد من الحفاظ ولم یلتفتوا لمن طعن فیہ ۔ان اللہ تعالی احیاھما فامنابہ ۱؂الخ مختصرا وفیہ طول۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سلسلہ نسب میں جتنے انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والسلام ہیں وہ تو انبیاء ہی ہیں ،ان کے سوا حضور کے جس قدر اباء وامھات آدم وحوا ء علیہما الصلوۃ والسلام تک ہیں ان میں کوئی کافر نہ تھا کہ کافر کو پسند یدہ یا کریم یا پاک نہیں کہا جا سکتا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء وامھات کی نسبت حدیثوں میں تصریح فرمائی گئی کہ وہ سب پسندیدہ بارگاہ الہی ہیں ،آباء سب کرام ،مائیں سب پا کیزہ ہیں اور آیہ کریمہ تقلبک فی السجدین (اور نمازیوں میں تمھارے دورے کو )کی بھی ایک تفسیر یہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نور ایک ساجد سے دوسرے ساجد کی طرف منتقل ہوتا آیا تو اب اس سے صاف ثابت ہے کہ حضور کے والدین حضرت آمنہ وحضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما اہل جنت ہیں کہ وہ تو ان بندوں میں جنھیں اللہ عزوجل نے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے چنا تھا سب سے قریب تر ہیں ،یہی قول حق ہے بلکہ ایک حدیث میں جسے متعدد حافظان حدیث نے صحیح کہا اور اس میں طعن کرنے والے کی بات کو قابل التفات نہ جانا ،تصریح ہے کہ اللہ عزوجل نے والدین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے زندہ فرمایا یہاں تک کہ وہ حضور پر ایمان لائے ،مختصر حالانکہ اس حدیث میں طول ہے ، ھکذا قال واللہ تعالی اعلم

(۱؂افضل القری لقراء ام القری شعر ۶ المجمع الثقافی ابو ظہبی ۱ /۱۵۱)

اقول : وبماء قرأت امر الاحیاء اندفع مازعم الحافظ ابن دحیہ من مخالفۃ الایات عدم انتفاع الکافر بعد موتہ کیف وانا لانقول ان الاحیاء لاحداث ایمان بعد کفرہ بل لاعطاء الایمان بمحمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وتفاصیل دینہ الاکرام بعد المضی علی محض التوحید وحینئذ لاحاجۃ بناالی ادعاء التخصیص فی الایات کما فعل العلماء المجیبون ۔ اقول : ( میں کہتا ہوں) یہ زندہ کرنے کا معاملہ جو تو نے پڑھا ہے اس سے حافظ ابن دحیہ کا وہ قول مندفع ہوگیا کہ والدین کریمین کا ایمان ماننے سے ان آیات کریمہ کی مخالفت لازم آتی ہے جن میں کافر کے مرنے کے بعد عدم انتفاع کا ذکر ہے ،یہ مخالفت کیسے لازم آسکتی ہے حالانکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ والدین کریمین رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو کفر کے بعد ایمان دینے کیلئے زندہ کیا گیا بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ توحید پر انتقال فرمانے کے بعد محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر اور آپ کے دین کریم کی تفاصیل پر ایمان کی دولت سے مشرف فرمانے کے لئے زندہ کیا گیا ،اس صورت میں ہمیں آیات کریمہ تخصیص کا دعوی کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ جواب دینے والے علماء نے کیا ہے ۔(ت)
اپنا مسلک اس باب میں یہ ہے :ع
ومن مذھبی حب الدیار لاھلہا
وللناس فیما یعشقون مذاھب

(میر امذہب تو شہر والوں کی وجہ سے شہر سے محبت کرنا ہے اور لوگوں کے لئے ان کی پسندیدہ چیزوں میں مختلف طریقے ہیں۔ت )

جسے یہ پسند ہو فبہا ، ونعمت ورنہ آخر اس سے تو کم نہ ہو کہ زبان روکے،دل صاف رکھے، ان ذٰلکم کان یؤذی النبی ۱؂ (بیشک یہ بات نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اذیت پہنچاتی ہے ۔ ت) سے ڈرے ۔

(۱؂القرآن الکریم ۲۳/ ۵۳)

امام ابن حجر مکی شرح میں فرماتے ہیں: مااحسن قول بعض المتوقفین فی ھٰذہ المسئلۃ الحذر الحذر من ذکر ھما بنقص فان ذٰلک قد یؤذیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لخبر الطبرانی لاتؤذواالاحیاء بسبب الاموات۲؂۔ یعنی کیا خوب فرمایا بعض علماء نے جنہیں اس مسئلے میں توقف تھا کہ دیکھ بچ والدین کریمین کو کسی نقص کے ساتھ ذکر کرنے سے کہ اس سے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایذاء ہونے کا اندیشہ ہے کہ طبرانی کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : مردوں کو برا کہہ کر زندوں کو ایذاء نہ دو۔ (ت)

(۲؂افضل القرٰی لقراء ام القرٰی شعر۶ المجمع الثقافی ابوظہبی ۱ /۱۵۴)

یعنی حضور تو زندہ ابدی ہیں ہمارے تمام افعال واقوال پر مطلع ہیں اوراللہ عزوجل نے فرمایاہے : والذین یؤذون رسول اللہ لھم عذاب الیم۳؂۔ جو لوگ رسول اللہ کو ایذاء دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

(۳؂القرآن الکریم ۹ /۶۱)

عاقل کو چاہئے ایسی جگہ سخت احتیاط سے کام لے ع
ہشدارکہ رہ برمردم تیغ است قدم را

(ہوش کر کہ لوگوں پر چڑھائی کرنا قدم کے لیے تلوار ہے ۔ت)

یہ ماناکہ مسئلہ قطعی نہیں ، اجماعی نہیں، پھر ادھر کون ساقاطع کون سااجماع ہے ؟آدمی اگر جانب ادب میں خطا کر ے تو لاکھ جگہ بہترہے اس سے کہ معاذاللہ اس کی خطاجانب گستاخی جائے ، جس طرح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: فان الامام ان یخطیئ فی العفوخیرلہ من ان یخطیئ فی العقوبۃ ، رواہ ابن ابی شیبۃ ۱؂والترمذی والحاکم وصححہ والبیہقی عن ام المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہا۔ جہاں تک بن پڑے حدود کو ٹالو کہ بیشک امام کا معافی میں خطا کرنا عقوبت میں خطا کرنے سے بہتر ہے ۔ (اس کو ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ابن ابی شیبہ ، ترمذی، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ، اورحاکم نے اس کی تصحیح فرمائی ۔ت)

(۱؂المستدرک للحاکم کتاب الحدود دارالفکر بیروت ۴ /۳۸۴)
(جامع الترمذی ابواب الحدود باب ماجاء فی درء الحدود امین کمپنی دہلی ۱ /۱۷۱)
(السنن الکبرٰی کتاب الحدودباب ماجاء فی درء الحدود بالشبہات دارصادر بیروت ۸ /۲۳۸)
(المصنف لابن ابی شیبۃ کتاب الحدود باب ماجاء فی درء الحدود بالشبہات حدیث ۲۸۴۹۳دارالکتب العلمیۃ بیروت ۵ /۵۰۸)

حجۃ الاسلام غزالی قد س سرہ العالی احیاء العلوم شریف میں فرماتے ہیں : ”کسی مسلمان کی طرف گناہ کبیرہ کی نسبت جائز نہیں جب تک تواتر سے ثابت نہ ہو” ۲؂۔ (۲؂احیاء العلوم کتاب آفات اللسان الآفۃ مطبعۃ المشہد الحسین القاہرۃ ۳ /۱۲۵)

مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف معاذاللہ اولاد چنین وچناں سے ہونا کیونکر بے تواتر وقطع نسبت کردیا جائے ، یقین برہانی کا انتفاحکم وجدانی کا نافی نہیں ہوتا ، کیا تمہارا وجدان ایمان گواراکرتاہے کہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سرکار نوربار کے ادنٰی ادنٰی غلاموں کے سگان بارگاہ جنّات النعیم میں

سُررمرفوعۃ ۳؂ (بلند تختوں ) پر تکیے لگائے چین کریں اورجن کی نعلین پاک کے تصدق میں جنت بنی ان کے ماں باپ دوسری جگہ معاذاللہ غضب وعذاب کی مصیبتیں بھریں،

(۳؂القرآن الکریم ۸۸/ ۱۳)

ہاں یہ سچ ہے کہ ہم غنی حمیدعزّجلالہ پر حکم نہیں کرسکتے پھر دوسرے حکم کی کس نے گنجائش دی ؟ ادھر کونسی دلیل قاطع پائی ؟حاش اللہ !ایک حدیث بھی صحیح وصریح نہیں، جو صریح ہے ہرگز صحیح نہیں اورجو صحیح ہے ہرگز صریح نہیں جس کی طرف ہم نے اجمالی اشارات کردئے تواقل درجہ وہی سکوت وحفظ ادب رہا ، آئندہ اختیارات بدست مختار۔

نکتہ الٰہیّہ

اقول : ظاہر عنوان باطن ہے اوراسم آئینہ مسمی الاسماء تنزل من السماء (اسماء آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ت)

سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذا بعثتم الی رجلا فابعثوہ حسن الوجہ حسن الاسم ۔ رواہ البزارفی مسندہ والطبرانی ۱؂فی الاوسط عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند حسن علی الاصح ۔ جب میری بارگاہ میں کوئی قاصد بھیجو تو اچھی صورت اچھے نام کا بھیجو (اس کو بزار نے اپنی مسند میں اورطبرانی نے اوسط میں سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے قول اصح کے مطابق سند حسن کے ساتھ روایت کیاہے ۔ت)

(۱؂المعجم الاوسط حدیث ۷۷۴۳مکتبہ المعارف ریاض ۸ /۳۶۵)
(کنزالعمال بحوالہ البزار وطس عن ابی ھریرۃ حدیث ۱۴۷۷۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۴۵)

اورفرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اعتبر واالارض باسمائھا۔ رواہ ابن عدی ۲؂عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ وھو حسن لشواہد۔ زمین کو اس کے نام پر قیاس کرو۔(اس کو ابن عدی نے سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے او روہ شواہد کے لیے حسن ہے ۔ت)

(۲؂الجامع الصغیر بحوالہ عدی عن ابن مسعود حدیث ۱۱۳۶ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۷۴)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں : کان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یتفاء ل ولا یتطیر وکان یعجبہ الاسم الحسن ۔ رواہ الامام احمد۳؂والطبرانی والبغوی فی شرح السنۃ ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نیک فال لیتے ، بدشگونی نہ مانتے اوراچھے نام کو دوست رکھتے ۔ (اس کو امام احمد ، طبرانی اوربغوی نے شرح السنۃ میں روایت کیا ہے ۔ت) (۳؂مسند احمد بن حنبل عن ابن عباس المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۵۷ و ۳۰۴۳۱۹)
( شرح السنۃ للبغوی حدیث۳۲۵۴المکتب الاسلامی بیروت ۱۲ /۱۷۵)
(مجمع الزوائد بحوالہ احمد وطبرانی کتاب الادب باب ماجاء فی الاسماء الحسنۃ دارالکتاب بیروت ۸ /۴۷)

ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں : ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان یغیرالاسم القبیح ۔ رواہ الترمذی ۱؂۔ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم برے نام کو بدل دیتے تھے (اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے ۔ت)

(۱؂جامع الترمذی ابواب الادب باب ماجاء فی تغیرالاسماء امین کمپنی دہلی ۲ /۱۰۷)

وفی اخرٰی عنہا (اورام المومنین سے ہی دوسری روایت میں ہے ۔ت): کان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذا سمع بالاسم القبیح حوّلہ الٰی ماھو احسن منہ ۔ رواہ الطبرانی۲؂ بسندہ وھو عند ابن سعد عن عروۃ مرسلا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب کسی کا برا نام سنتے تو اس سے بہتر بدل دیتے (اس کو طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ متصلاً روایت کیا ہے اوروہ ابن سعد کے نزدیک عروہ سے مرسلاً مروی ہے۔ ت)

(۲؂کنزالعمال بحوالہ ابن سعد عن عروۃ مرسلاً حدیث ۱۸۵۰۶مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۷ /۱۵۷)

بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان لایتطیر من شیئ وکان اذا بعث عاملاسأل عن اسمہ فاذا اعجبہ اسمہ فرح بہ وروئی بشر ذٰلک فی وجہہ وان کرہ اسمہ روئی کراھیۃ ذٰلک فی وجھہ واذا دخل قریۃ سأل عن اسمھا فاذا اعجبہ اسمہا فرح بھا وروئی بشر ذٰلک فی وجھہ وان کرہ اسمھا روئی کراھۃ ذٰلک فی وجہہ۔ رواہ ابوداؤد۳؂۔ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کسی چیز سے بدشگونی نہ لیتے جب کسی عہدے پر کسی کو مقرر فرماتے اس کا نام پوچھتے اگر پسندآتا خوش ہوتے اوراس کی خوشی چہرہ انور میں نظر آتی اوراگر ناپسند آتا ناگواری کا اثر چہرہ اقدس پر ظاہر ہوتا، اورجب کسی شہر میں تشریف لے جاتے اس کا نام دریافت فرماتے ، اگر خوش آتا مسرورہو جاتے اوراس کا سرور روئے پُرنُور میں دکھائی دیتا، اوراگر ناخوش آتا ناخوشی کا اثر روئے اطہر میں نظر آتا۔(رواہ ابو داود)

(۳؂سنن ابو داود کتاب الکہانۃ والتطیرباب فی الطیرۃ والخط آفتاب عالم پریس لاہور۲ /۱۹۱)

اب ذراچشمِ حق بین سے حبیب صلی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مراعات الہٰیہ کے الطاف خَفِیَّہ دیکھئے ، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والد ماجد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نام پاک عبداللہ کہ افضل اسمائے امت ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : احب اسمائک الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن ۔ رواہ مسلم ۱؂وابو داود والترمذی وابن ماجۃ عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ تمہارے ناموں میں سب سے زیادہ پیارے نام اللہ تعالٰی کو عبداللہ وعبدالرحمن ہیں(اس کو امام مسلم، ابو داود، ترمذی اورابن ماجہ نے سیدنا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے ۔ت)

(۱؂سنن ابی داود کتاب الادب باب فی تغیر الاسماء آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۳۲۰)
(جامع الترمذی ابواب الادب باب ماجاء ما یستحب من الاسماءامین کمپنی دہلی ۲ /۱۰۶)
(سنن ابن ماجہ ابواب الادب باب ماجاء ما یستحب من الاسماء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۷۳)

والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نام آمنہ کہ امن وامان سے مشتق اورایمان سے ہم اشتقاق ہے ۔ جد امجد حضرت عبدالمطلب شیبۃ الحمد کہ اس پاک ستودہ مصدر سے اطیب واطہر مشتق محمد واحمد وحامد ومحمود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پیدا ہونے کا اشارہ تھا۔جدہ ماجدہ فاطمہ بنت عمرو بن عائذ ، اس نام پاک کی خوبی اظہر من الشمس ہے ۔ حدیث میں حضرت بتول زہرا رضی اللہ تعالی عنھا کی وجہ تسمیہ یوں آئی ہے کہ حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : انما سمیت فاطمۃ لان اللہ تعالٰی فطمھا ومحبیہا من النار ، رواہ الخطیب ۲؂عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ اللہ عزوجل نے اس کا نام فاطمہ اس لئے رکھا کہ اسے اوراس سے عقیدت رکھنے والوں کو ناز دوزخ سے آزادفرمایا ۔ (اس کو خطیب نے سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیاہے ۔ت)

(۲؂تاریخ بغداد بحوالہ خط عن ابن عباس ترجمہ ۶۷۷۲عالم بن حمید الشمیری دارالکتاب العربی بیروت ۱۲ /۳۳۱)
(کنز العمال حدیث۳۴۲۲۶و۳۴۲۲۷مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۰۹)

حضور کے جدِّ مادری یعنی نانا وہب جس کے معنٰی عطا وبخشش ، ان کا قبیلہ بنی زہراء جس کا حاصل چمک وتابش ۔جدہ مادری یعنی نانی صاحبہ بّرہ یعنی نیکوکار ، کما ذکرہ ابن ھشام فی سیرتہ۱؂ (جیسا کہ ابن ہشام نے اس کو اپنی سیرت میں ذکر کیاہے ۔ت)

(۱؂السیرۃ النبویۃ لابن ہشام زواج عبداللہ من آمنہ بنت وھب دارابن کثیر بیروت ۱ /۱۵۶)

بھلا یہ توخاص اصول ہیں ، دودھ پلانے والیوں کو دیکھئے ، پہلی مرضِعہ ثُوَیْبَہْ کہ ثواب سے ہم اشتقاق ، اوراس فضل الہٰی سے پوری طرح بہرور حضرت حلیمہ بنت عبداللہ بن حارث ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اشج عبدالقیس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا : ان فیک خصلتین یحبھما اللہ الحلم والاناۃ۲؂ ۔ تجھ میں دوخصلتیں ہیں خدا اوررسول کو پیاری درنگ اوربُردباری۔

(۲؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب الامر بالایمان باللہ ولرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵)

ان کا قبیلہ بنی سعد کہ سعادت ونیک طالعی ہے ، شرف اسلام وصحابیت سے مشرف ہوئیں ، کما بینہ الامام مغلطائی فی جزء حافل سماہ التحفۃ ۳؂الجسمیۃ فی اثبات اسلام حلیمۃ ۔ جیسا کہ امام مغلطائی نے اسکو ایک بڑی جُزء میں بیان فرمایا ہے جس کا نام انہوں نے ”التحفۃ الجسمیۃ فی اثبات اسلام حلیمۃ ”رکھا ہے ۔ (ت)

(۳؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الثانی الفصل الرابع دارالمعرفہ بیروت ۳ /۲۹۴)

جب روز حنین حاضر بارگاہ ہوئیں ، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے لیے قیام فرمایا اوراپنی چادر انور بچھا کر بٹھایا کما فی الاستیعاب ۴؂عن عطاء بن یسار (جیسا کہ استیعاب میں عطا بن یسار سے مروی ہے ۔ت)

(۴؂الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ترجمہ ۳۳۳۶حلیمۃ السعدیۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴ /۳۷۴)

ان کے شوہر جن کا شیر حضو ر اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نوش فرمایا حارث سعدی، یہ بھی شرف اسلام وصحبت سے مشرف ہوئے ، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی قدم بوسی کو حاضر ہوئے تھے ، راہ میں قریش نے کہا : اے حارث ! تم اپنے بیٹے کی سنو ، وہ کہتے ہیں مردے جئیں گے ، اوراللہ نے دو گھر جنت ونار بنارکھے ہیں۔ انہوں نے حاضرہوکر عرض کی کہ : اے میرے بیٹے ! حضور کی قوم حضو ر کی شاکی ہے ۔ فرمایا : ہاں میں ایسا فرماتا ہوں، اوراے میرے باپ !جب وہ دن آئے گا تو میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر بتادوں گا کہ دیکھو یہ وہ دن ہے یا نہیں جس کی میں خبر دیتاتھا یعنی روز قیامت۔حارث رضی اللہ تعالٰی عنہ بعد اسلام اس ارشاد کو یاد کر کے کہا کرتے : اگر میرے بیٹے میرا ہاتھ پکڑیں گے تو ان شاء اللہ نہ چھوڑیں گے جب تک مجھے جنت میں داخل نہ فرمالیں۔ رواہ یونس بن بکیر۱؂۔ (اس کو یونس بن بکیر نے روایت کیاہے ۔ت)

(۱؂الروض الانف بحوالہ یونس بن بکیر ابوہ من الرضاعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۱۰۰)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ یونس بن بکیر المقصد الاول ذکر رضاعہ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالمعرفۃ بیروت ۱/۱۴۳)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ یونس بن بکیر المقصد الثانی الفصل الرابع ذکر رضاعہ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۲۹۴)

حدیث میں ہے رسو ل اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اصدقھا حارث وھمام ۔ رواہ البخاری فی الادب المفرد ۲؂وابوداؤد والنسائی عن ابی الھیثمی رضی اللہ تعالٰی عنہ

سب ناموں میں زیادہ سچے نام حارث وہمام ہیں۔(اس کو امام بخاری نے ادب مفرد میں اور ابوداود ونسائی نے ابوالہیثمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ت)

(۲؂سنن ابی داود کتا ب الادب باب فی تغیر الاسماء آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۳۲۰)
(الادب المفرد باب ۳۵۶حدیث ۸۱۴ المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل ص۲۱۱)

حضور کے رضاعی بھائی جوپستان شریک تھے ، جن کے لیےحضور سید العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پستان چپ چھوڑ دیتے تھے عبداللہ سعدی ، یہ بھی مشرف بہ اسلام وصحبت ہوئے کما عند ابن سعد۳؂ فی مرسل صحیح الاسناد (جیساکہ ابن سعد کے نزدیک صحیح الاسناد مرسل میں ہے ۔ ت)

(۳؂الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر من ارضع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ دارصار بیروت ۱ /۱۱۳)
( شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۴۲و۱۴۳)

حضور کی رضاعی بڑی بہن کہ حضور کو گود میں کھلاتیں، سینے پر لٹاکر دعائیہ اشعار عرض کرتیں ،سلاتیں ، اس لئے وہ بھی حضور کی ماں کہلاتیں سیما سعدیہ یعنی نشان والی ، علامت والی ، جودُور سے چمکے، یہ بھی مشرف بہ اسلام ہوئیں رضی اللہ تعالٰی عنہا۴؂۔

(۴؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الثانی الفصل الرابع ذکر رضاعہ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالمعرفۃ بیروت ۳/۲۹۵)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول ذکر رضاعہ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۴۶)

حضرت حلیمہ حضور پُرنُورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو گود میں لئے راہ میں جاتی تھیں تین نوجوان کنواری لڑکیوں نے وہ خدا بھائی صورت دیکھی جو شِ محبت سے اپنی پستانیں دہن اقد س میں رکھیں، تینوں کے دودھ اترآیا ، تینوں پاکیزہ بیبیوں کا نام عاتکہ تھا۔ عاتکہ کے معنٰی زن شریفہ ، رئیسہ ، کریمہ ، سراپا عطرآلود، تینوں قبیلہ بنی سلیم سے تھیں کہ سلامت سے مشتق اوراسلام سے ہم اشتقاق ہے ، ذکرہ ابن عبدالبر۱؂ (اس کو ابن عبدالبر نے استیعاب میں ذکر کیاہے ۔ت)

(۱؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ الاستیعاب المقصدالاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۳۷ )

بعض علماء نے حدیث ”انا ابن العواتک من سلیم ” (میں بنی سلیم کی عاتکہ عورتوں کابیٹا ہوں ۔ت)کو اسی معنٰی پر محمول کیا۔ نقلہ السھیلی ۲؂ (اس کو سُہیلی نے نقل کیا ہے ۔ت)

(۲؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ الاستیعاب المقصدالاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۳۷ )

اقول : الحق کسی نبی نے کوئی آیت وکرامت ایسی نہ پائی کہ ہمارے نبی اکرم الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم وسلم کو اس کی مثل اوراس سے امثل عطانہ ہوئی ، یہ اس مرتبے کی تکمیل تھی کہ مسیح کلمۃ اللہ صلوات اللہ وسلامہ علیہ کوبے باپ کے کنواری بتول کے پیٹ سے پیدا کیا حبیب اشرف بریۃ اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے تین عفیفہ لڑکیوں کے پستان میں دودھ پیدا فرمادیا ع آنچہ خوباں ہمہ دار ند تو تنہاداری

(جو کمالات سب رکھتے ہیں تُو تنہارکھتا ہے ۔ت)
وصلی اللہ تعالٰی علیک وعلیہم وبارک وسلم۔
اللہ تعالٰی آپ پر اور ان (انبیاء سابقہ) پردرود وسلام اوربرکت نازل فرمائے ۔(ت)

امام ابوبکر ابن العربی فرماتے ہیں : لم ترضعہ مرضعۃ الا اسلمت ۔ ذکرہ فی کتابہ سراج المریدین۔۳؂ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جتنی بیبیوں نے دودھ پلایاسب اسلام لائیں۔ (اس کوامام ابو بکر ابن العربی نے اپنی کتاب سراج المریدین میں ذکرکیاہے ۔ت)

بھلایہ تو دودھ پلانا تھا کہ اس میں جزئیت ہے ، مرضعہ حضو راقد س صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام برکت اورام ایمن کنیت کہ یہ بھی یُمن وبرکت و راستی وقوت ، یہ اجلہ صحابیات سے ہوئیں رضی اللہ تعالٰی عنہن ، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہیں فرماتے : انت امی بعد امی ۱؂۔ تم میری ماں کے بعد میری ماں ہو۔

(۱؂المواہب اللدنیۃ المقصد الاول حیاتہ صلی اللہ علیہ وسلم قبل البعثۃ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۷۴)
(المواہب اللدنیۃ المقصد الثانی الفصل الرابع المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۱۱۷)

راہ ہجرت میں انہیں پیاس لگی ، آسمان سے نورانی رسی میں ایک ڈول اترا، پی کر سیراب ہوئیں ، پھر کبھی پیاس نہ معلوم ہوئی، سخت گرمی میں روزے رکھتیں اورپیاس نہ ہوتی ۔ رواہ ابن سعد۲؂ عن عثمان بن ابی القاسم (اس کو ابن سعد نے عثمان بن ابو القاسم سے روایت کیا ہے۔ت )

(۲؂الطبقات الکبرٰی لابن سعد ام ایمن واسمہابرکۃ دارصادر بیروت ۸ /۲۲۴)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المصدالثانی الفصل الرابع دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۲۹۵)

پیداہوتے وقت جنہوں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنے ہاتھوں پر لیا ان کا نام تو دیکھئے شفاء ، رواہ ابو نعیم ۳؂عنہا۔ (اس کو ابو نعیم نے سیدہ شفاء رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا ۔ ت)

(۳؂دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الحادی عشر عالم الکتب بیروت الجزء الاول ص۴۰)

یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ ماجدہ وصحابیہ جلیلہ ہیں۔ اورایک بی بی کہ وقت ولادت اقدس حاضر تھیں فاطمہ بنت عبداللہ ثقفیہ ، یہ بھی صحابیہ ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہا۔

اے چشم انصاف ! کیا ہر تعلق ہر علاقہ میں ان پاک مبارک ناموں کا اجتماع محض اتفاقی بطور جزاف تھا؟کلاو اللہ بلکہ عنایت ازلی نے جان جان کر یہ نام رکھے ، دیکھ دیکھ کر یہ لوگ چُنے ۔پھر محل غور ہے جو اس نور پاک کو برے نام والوں سے بچائے وہ اسے بُرے کام والوں میں رکھے گا، اور بُرا کام بھی کون سا ، معاذاللہ شرک وکفر ، حاشا ثم حاشا، اللہ اللہ! دائیاں مسلمان ، کھلائیاں مسلمان، مگر خاص جن مبارک پیٹوں میں محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پاؤں پھیلائے ، جن طیب مطیب خونوں سے اس نورانی جسم میں ٹکڑے آئے وہ معاذاللہ چنین وچناں حاش للہ کیونکر گوارا ہو ع
خدادیکھا نہیں قدرت سے جانا
ع مابندہ عشقیم ودِگر ہیچ ندانیم
(ہم عشق کے بندے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ۔ت)

فائدہ ظاہرہ

دربارہ ابوین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما یہی طریقہ انیقہ اعنی نجات نجات نجات کہ ہم نے بتوفیقہٖ تعالٰی اختیار کیا ، تنوع مسالک پر مختارِ اجلہ ائمہ کبار اعاظم علمائے نامدار ہے ، ازاں جملہ :
(۱)امام ابو حفص عمر بن احمد بن شاہین جن کی علوم دینیہ میں تین سو تیس تصانیف ہیں، از انجملہ تفسیرایک ہزار جزء میں اورمسند حدیث ایک ہزار تین جزء میں ۔
(۲) شیخ المحدثین احمد خطیب علی البغدادی ۔
(۳)حافظ الشان محدث ماہر امام ابوالقاسم علی بن حسن ابن عساکر۔
(۴)امام اجل ابوالقاسم عبدالرحمن بن عبداللہ سہیلی صاحب الروض۔
(۵) حافظ الحدیث امام محب الدین طبری کہ علماء فرماتے ہیں ، بعد امام نووی کے ان کا مثل علم حدیث میں کوئی نہ ہوا۔
(۶) امام علامہ ناصر الدین ابن المنیر صاحب شرف المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔
(۷) امام حافظ الحدیث ابوالفتح محمد بن محمد ابن سیدالناس صاحب عیون الاثر۔
(۸) علامہ صلاح الدین صفدی۔
(۹) حافظ الشان شمس الدین محمد ابن ناصر الدین دمشقی ۔
(۱۰) شیخ الاسلام حافظ الشان امام شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی ۔
(۱۱) امام حافظ الحدیث ابوبکر محمد بن عبداللہ اشبیلی ابن العربی مالکی۔
(۱۲) امام ابو الحسن علی بن محمد ماوردی بصری صاحب الحاوی الکبیر۔
(۱۳) امام ابو عبداللہ محمد بن خلف شارح صحیح مسلم۔
(۱۴) امام عبداللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی صاحب تذکرہ ۔
(۱۵) امام المتکلمین فخر المدققین فخرالدین محمد بن عمر الرازی ۔
(۱۶) امام علامہ زین الدین مناوی۔
(۱۷) خاتم الحفاظ مجدد القران امام العاشر امام جلال الملۃ والدین عبدالرحمن ابن ابی بکر۔
(۱۸) امام حافظ شہاب الدین احمد بن حجر ہیتمی مکی صاحب افضل القرٰی وغیرہ۔
(۱۹) شیخ نورالدین علی الجزار مصری صاحب رسالہ تحقیق آمال الراجین فی ان والدی المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بفضل اللہ تعالٰی فی الدارین من الناجین۔
(۲۰) علامہ ابو عبداللہ محمد ابن ابی شریف حسنی تلمسانی شارح شفاء شریف۔
(۲۱)علامہ محقق سنوسی۔
(۲۲)امام اجل عارف باللہ سیدی عبدالوہاب شعرانی صاحب الیواقیت والجواہر۔
(۲۳) علامہ احمد بن محمد بن علی بن یوسف فاسی صاحب مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات ۔
(۲۴) خاتمۃ المحققین علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی شارح المواہب ۔
(۲۵) امام اجل فقیہ اکمل محمد بن محمد کردری بزازی صاحب المناقب۔
(۲۶) زین الفقہ علامہ محقق زین الدین ابن نجیم مصری صاحب الاشباہ والنظائر ۔
(۲۷) علامہ سید احمد حموی صاحب غمزالعیون والبصائر ۔
(۲۸) علامہ حسین بن محمد بن حسن دیاربکری صاحب الخمیس فی انفس نفیس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
(۲۹)علامہ محقق شہاب الدین احمد خفاجی مصری صاحب نسیم الریاض۔
(۳۰) علامہ طاہر فتنی صاحب مجمع بحار الانوار۔
(۳۱) شیخ شیوخ علماء الہند مولانا عبدالحق محدث دہلوی۔
(۳۲)علامہ ۔۔۔۔۔۔صاحب کنزالفوائد۔
(۳۳) مولانا بحرالعلوم ملک العلماء عبدالعلی صاحب فواتح الرحموت۔
(۳۴) علامہ سید احمد مصری طحطاوی محشی درمختار۔
(۳۵) علامہ سید ابن عابدین امین الدین محمد آفندی شامی صاحب ردالمحتار وغیرہم من العلماء الکبار والمحققین الاخیار علیہم رحمۃ الملک العزیز الغفار (ان کے علاوہ دیگر علماء کبار اور پسندیدہ محققین ان پر عزت والے ، بخشنے والے بادشاہ کی رحمت ہو۔ ت)
ان سب حضرات کے اقوال طیبہ اس وقت فقیر کے پیش نظر ہیں مگر فقیر نے یہ سطور نہ مجرد نقل اقوال کے لئے لکھیں نہ مباحث طے کردہ علماء عظام خصوصاًاما م جلیل جلال سیوطی کے ایراد بلکہ مقصود اس مسئلہ جلیلہ پر چند دلائل جمیلہ کا سنانا اوربہ تصدق کفش برداری علماء جو فیض تازہ قلب فقیر پر فائض ہوئے، انتفاع برادران دینی کے لئے ان کا ضبط تحریر میں لانا کہ شائد مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ تمام جہاں سے اکرم وارحم وابَرّواوفٰی ہیں، محض اپنے کرم سے نظر قبو ل فرمائیں اورنہ کسی صلے میں بلکہ اپنے خاص فضل کے صدقے میں اس عاجز بے چارہ ، بیکس ، بے یار کا ایمان حفظ فرماکر دارین میں عذاب وعقاب سے بچائیں۔ ع
برکریماں کارہادشوار نیست
(کریموں پربڑے بڑے کام دشوار نہیں ہوتے۔ت)

پھر یہ بھی ان اکابر کا ذکر ہے جن کی تصریحات ،خاص اس مسئلہ جزئیہ میں موجود ، ورنہ بنظر کلیت نگاہ کیجئے تو امام حجۃ الاسلام محمد محمد محمد غزالی وامام الحرمین وامام ابن السمعانی وامام کیا ہر اسی وامام اجل قاضی ابوبکر باقلانی حتی کہ خود امام مجتہد سیدنا امام شافعی کی نصوص قاہرہ موجود ہیں جن سے تمام آباء وامہات اقدس کا ناجی ہونا کالشمس والامس روشن وثابت ہے بلکہ بالاجماع تمام ائمہ اشاعرہ اورائمہ ماتریدیہ سے مشائخ بخارا تک سب کا یہی مقتضائے مذہب ہے کمالایخفٰی علی من لہ اجالۃ نظر فی علمی الاصولین۔ (جیسا کہ اس شخص پر پوشیدہ نہیں جس کی اصولی علموں پر نظر ہے ۔ت)

امام سیوطی سُبُل النجاۃ میں فرماتے ہیں : مال الٰی ان اللہ تعالٰی احیاھما حتی اٰمنا بہ طائفۃ من الائمۃ وحفاظ الحدیث ۱؂۔ ائمہ اورحفاظ حدیث کی ایک جماعت اس طرف مائل ہے کہ بیشک اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ابو ین کریمین کو زندہ فرمایا یہاں تک کہ وہ آپ پر ایمان لائے ۔(ت)

(۱؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بحوالہ سبل النجاۃ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۶۸)

کتاب الخمیس میں کتاب مستطاب الدرج المنیفہ فی الآباء الشریفہ سے نقل کرتے ہیں : ذھب جمع کثیر من الائمۃ الاعلام الٰی ان ابوی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ناجیان محکوم لھما بالنجاۃ فی الاخرۃ وھم اعلم الناس باقوال من خالفھم وقال بغیر ذٰلک ولایقصرون عنہم فی الدرجۃ ومن احفظ الناس للاحادیث والاٰثار وانقد الناس بالادلہ التی استدل بہا اولٰئک فانھم جامعون لانواع العلوم ومتضلوعون من الفنون خصوصان الاربعۃ التی استمدمنھا فی ھٰذہ المسألۃ فلایظن بھم انھم لم یقفواعلی الاحادیث التی استدل بھا اولٰئک معاذ اللہ بل وقفوا علیہاوخاضوا غمر تھا واجابوا عنہا بالاجوبۃ المرضیۃ التی لایردھا منصف واقاموا لما ذھبوا الیہ ادلۃ قاطعۃ کالجبال الرواسی ۱؂اھ مختصراً۔ (خلاصہ یہ کہ ) یہ جمع کثیر اکابر ائمہ واجلہ حفاظ حدیث ، جامعان انواع علوم وناقدان روایات ومفہوم کا مذہب یہی ہے کہ ابوین کریمین ناجی ہیں اورآخرت میں ان کی نجات کا فیصلہ ہوچکا ہے ان اعاظم ائمہ کی نسبت یہ گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ ان احادیث سے غافل تھے جن سے اس مسئلے میں خلاف پر استدلال کیا جاتاہے ، معاذاللہ ایسا نہیں بلکہ وہ ضرور اس پر واقف ہوئے اورتہہ تک پہنچے اور ان سے وہ پسندیدہ جواب دئے جنہیں کوئی انصاف والا رد نہ کرے گا اور نجات والدین شریفین پر دلائل قاطعہ قائم کئے جیسے مضبوط جمے ہوئے پہاڑ کہ کسی کے ہلائے نہیں ہل سکتے۔

(۱؂کتاب الخمیس القسم الثانی النوع الرابع مؤسسۃ شعبان بیروت ۱ /۲۳۰)

بلکہ علامہ زرقانی شرح مواہب میں ائمہ قائلین نجات کے اقوال وکلمات ذکر کر کے فرماتے ہیں : ھذا ماوقفنا علیہ من نصوص علمائنا ولم نرلغیرھم مایخالفہ الا مایشم من نفس ابن دحیۃ وقد تکفل بردّہ القرطبیُّ ۲؂۔

(۲؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ باب وفاۃ امہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۸۶)

یہ ہمارے علماء کے وہ نصوص ہیں جن پر میں واقف ہوا اوران کے غیر سے کہیں اس کا خلاف نظر نہ آیا سوائے ایک بوئے خلاف کے جو ابن دحیہ کے کلام سے پائی گئی اورامام قرطبی نے بروجہ کافی اس کا رد کردیا۔
تاہم بات وہی ہے جو امام سیوطی نے فرمائی : ثم انی لم ادّع ان المسألۃ اجماعیۃ بل ھی مسألۃ ذات خلافٍ فحکمہا کحکم سائر المسائل المختلف فیھا غیر انی اخترت لہ اقوال القائلین بالنجاۃ لانہ انسب بھذا المقام اھ ۱؂وقال فی الدرج بعد مادرج فی الدرج الفریقان ائمۃ اکابر اجلاء ۲؂۔ پھر میں نے یہ دعوٰی نہیں کیا کہ یہ مسئلہ اجماعی ہے بلکہ یہ اختلافی مسئلہ ہے (اوراس کا حکم بھی اختلافی مسائل جیسا ہوگا ) مگر میں نے نجات کے قائلین کے اقوال کو اختیار کیا ہے کیونکہ یہی اس مقام کے زیادہ لائق ہے ۔ اھ اوردرج المنیفہ میں اس بحث کو درج کرنے کے بعد کہا دونوں فریق جلیل القدر اکابر ائمہ ہیں۔ (ت)

(۱؂الدرج المنیفۃ فی الاباء الشریفۃ )
(۲؂کتاب الخمیس بحوالہ الدرجۃ المنیفۃ القسم الثانی النوع الرابع مؤسسۃ شعبان ۱ /۲۳۰)

اقول: تحقیق یہ کہ طالبِ تحقیقی مرہون دست دلیل ہے ، ابتداءً ظواہر بعض آثار سے جو ظاہر بعض انظار ہوا ظاہر تھا کہ ان جوابات شافیہ اوراس پر دلائل وافیہ قائم ومستقیم چارہ کا ر قبول وتسلیم بالا قل سکوت وتعظیم، اللہ الہادی الٰی صراط مستقیم ۔

عائدہ زاہرہ

امام ابو نعیم دلائل النبوۃ میں بطریق محمد بن شہاب الزہری ام سماعہ اسماء بنت ابی رھم ، وہ اپنی والدہ سے راوی ہیں ، حضر ت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے انتقال کے وقت حاضر تھی ، محمد صلی اللہ تعالٰی کم سن بچے کوئی پانچ برس کی عمر شریف ، ان کے سرہانے تشریف فرما تھے ۔حضرت خاتون نے اپنے ابن کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نظر کی ، پھر کہا: ؎
بارک فیک اللہ من غلام
یاابن الذی من حومۃ الحمامٖ
نجابعون الملک المنعامٖ
فودی غداۃ الضرب بالسھامٖ
بمائۃ من ابل سوامٖ
ان صحّ ما ابصرت فی المنامٖ
فانت مبعوث الی الانامٖ
من عندذی الجلال والاکرامٖ
تبعث فی الحل وفی الحرامٖ
تبعث فی التحقیق والاسلامٖ
دین ابیک البرّ ابراھامٖ
فاللہ انھا ک عن الاصنامٖ
ان لاتوالیہا مع الاقوامٖ۳؂

”اے ستھرے لڑکے !اللہ تجھ میں برکت رکھے ۔ اے بیٹے ان کے جنہوں نے مرگ کے گھیرے سے نجات پائی بڑے انعام والے بادشاہ اللہ عزوجل کی مدد سے ، جس صبح کو قرعہ ڈالا گیاسو بلند اونٹ ان کے فدیہ میں قربان کئے گئے ، اگر وہ ٹھیک اترا جو میں نے خواب دیکھا ہے تو تُو سارے جہان کی طر ف پیغمبر بنایاجائے گا جو تیرے نکو کار باپ ابراہیم کا دین ہے ، میں اللہ کی قسم دے کر تجھے بتوں سے منع کرتی ہوں کہ قوموں کے ساتھ ان کی دوستی نہ کرنا۔”

(۳؂المواہب اللدنیۃ بحوالہ دلائل النبوۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۶۹)

حضرت خاتون آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس پاک وصیت میں جو فراقِ دنیا کے وقت اپنے ابن کریم علیہ افضل الصلٰوۃ والتسلیم کو کی بحمداللہ توحید وردشرک توآفتاب کی طرح روشن ہے اور اس کے ساتھ دین اسلام ملت پاک ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کا بھی پورا اقرار، اورایمان کامل کسے کہتے ہیں ، پھر اس سے بالاتر حضور پرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رسالت کا بھی اعتراف موجود اور وہ بھی بیان بعث عامہ کے ساتھ ، وللہ الحمد۔ اقول : وکلمۃ ان ان کانت للشک فھو غایۃ المنتھٰی اذ ذاک ولا تکلیف فوقہ والا فقد علم مجیئہا ایضا للتحقیق لیکون کالدلیل علی ثبوت الجزاء وتحققہ کقولہ صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم لام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا رأیتک فی المنام ثلٰث لیال یجیء بک الملک فی سرقۃ من حریری فقال لی ھذہ امرأتک فکشفت عن وجھک الثوب فاذا ھی انت فقلت ان یکن ھذا من عنداللہ یمضہ ۔ رواہ الشیخان ۱؂عنہا رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ اقول: (میں کہتاہوں)کلمہ ان اگر شک کےلئے ہے تو وہ غایت منتہٰی ہے اوراس سے اوپر کوئی تکلیف نہیں ، ورنہ اس کا تحقیق کیلئے آنا بھی معلوم ہے تاکہ یہ جزاء کے ثبوت وتحقیق پردلیل کی طرح ہوجائے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمانا کہ میں نے تجھے تین راتیں دیکھا فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) تجھے ایک ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر لایا اور مجھے کہا یہ آپ کی بیوی ہے ۔ میں نے تیرے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو وہ تو تھی ۔ میں نے کہا اگر یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے تو وہ ضروراس کو جاری فرمائے گا۔ اس کو شیخین نے ام المومنین سے روایت کیاہے ۔(ت)

(۱؂صحیح البخاری کتاب النکاح باب النظر الی المرأۃ قبل التزویج قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۶۸)
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضائل عائشہ رضی اللہ عنہا قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۸۵)

اس کے بعدفرمایا : کل حی میت وکل جدید بال وکل کبیر یفنی و انا میتۃ و ذکری باق وقد ترکت خیرا وولدت طھراً ۱؂۔ ہر زندے کو مرنا ہے اورہرنئے کو پرانا ہونا ، اور کوئی کیسا ہی بڑا ہو ایک دن فنا ہونا ہے ۔ میں مرتی ہوں اورمیرا ذکر ہمیشہ خیر سے رہے گا، میں کیسی خیر عظیم چھوڑ چلی ہوں اورکیسا ستھراپاکیزہ مجھ سے پیدا ہوا، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

(۱؂المواہب اللدنیۃ المقصد الاول ذکر وفاۃ آمنۃ رضی اللہ عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۰۔۱۶۹)

یہ کہا اورانتقال فرمایا ، رضی اللہ تعالٰی عنہا وصلی اللہ تعالٰی علی ابنہا الکریم وذویہ وبارک وسلم (اللہ تعالٰی ان سے راضی ہوا اوردرود وسلام اوربرکت نازل فرمائے ان کے کریم بیٹے اوراس کے پیروکاروں پر۔ت)

اوران کی یہ فراست ایمان اورپیشن گوئی نورانی قابل غور ہے کہ میں انتقال کرتی ہوں اورمیرا ذکر خیر ہمیشہ باقی رہے گا،۔ عرب وعجم کی ہزاروں شاہزادیاں ، بڑی بڑی تاج والیاں خا ک کا پیوند ہوئیں جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا ، مگر اس طیبہ خاتون کے ذکر خیر سے مشارق مغارب ارض میں محافل مجالس انس وقدس میں زمین وآسمان گونج رہے ہیں اورابدالآباد تک گونجیں گے وللہ الحمد۔

عبرتِ قاہرہ

سید احمد مصری حواشی در میں ناقل کہ ایک عالم رات بھر مسئلہ ابوین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما میں متفکر رہے کہ کیونکر تطبیق اقوال ہو ۔ اسی فکر میں چراغ پر جھک گئے کہ بدن جل گیا۔ صبح ایک لشکری آیا کہ میرے یہاں آپ کی دعوت ہے ۔ راہ میں ایک ترہ فروش ملے کہ اپنی دکان کے آگے باٹ ترازولئے بیٹھے ہیں ، انہوں نے اٹھ کر ان عالم کے گھوڑے کی باگ پکڑی اور یہ اشعار پڑھے : اٰمنت ان ابا النبی وامّہ
احیاھماالحی القدیر الباری
حتی لقد شہدالہ برسالۃ
صدق فتلک کرامۃ المختارٖ
وبہ الحدیث ومن یقول بضعفہٖ
فھو الضعیف عن الحقیقۃ عاری۲؂

”یعنی میں ایمان لایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ماں باپ کو اس زندہ ابدی قادر مطلق خالق عالم جل جلالہ نے زندہ کیا یہاں تک کہ ان دونوں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیغمبری کی گواہی دی، اے شخص اس کی تصدیق کر کہ یہ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اعزاز کے واسطے ہے اوراس باب میں حدیث وارد ہوئی جو اسے ضعیف بتائے وہ آپ ہی ضعیف اورعلم حقیقت سے خالی ہے۔ ”

(۲؂حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار کتاب النکاح باب نکاح الکافر المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۲ /۸۱)

یہ اشعار سنا کر ان عالم سے فرمایا : اے شیخ !انہیں لے اورنہ رات کو جاگ نہ اپنی جان کو فکر میں ڈال کہ تجھے چراغ جلادے ، ہاں جہاں جارہا ہے وہاں نہ جا کہ لقمہ حرام کھانے میں نہ آئے ۔
ان کے اس فرمانے سے وہ عالم بیخودہوکر رہ گئے ، پھر انہیں تلاش کیا پتا نہ پایا اوردکانداروں سے پوچھا، کسی نے نہ پہچانا، سب بازار والے بولے : یہاں تو کوئی شخص بیٹھتا ہی نہیں ۔وہ عالم اس ربانی ہادی، غیب کی ہدایت سن کر مکان کو واپس آئے ، لشکری کے یہاں تشریف نہ لے گئے ۔۱؂انتہٰی۔

(۱؂حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب النکاح باب نکاح الکافر المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۲ /۸۱)

اے شخص! یہ عالم بہ برکت علم، نظر عنایت سے ملحوظ تھے کہ غیب سے کسی ولی کو بھیج کر ہدایت فرمادی خوف کر کہ تو اس ورطہ میں پڑ کر معاذاللہ کہیں مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا باعث ایذاء نہ ہو جس کا نتیجہ معاذاللہ بڑی آگ دیکھنا ہو ۔ اللہ عزوجل ظاہر و باطن میں مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سچی محبت سچا ادب روزی فرمائے اوراسباب مقت (ناراضگی ) وحجاب وبیزاری وعتاب سے بچائے آمین آمین آمین!

یا ارحم الراحمین ارحم فاقتنا یا ارحم الراحمین ارحم ضعفنا تبراْنا من حولنا الباطل وقوتنا العاطلۃ والتجانا الی حولک العظیم وطولک القدیم وشھدنا بان لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم واٰخردعوٰنا ان الحمدللہ رب العٰلمین وصلی اللہ تعالٰی علٰی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہٖ وصحبہٖ وذریتہٖ اجمعین اٰمین۔ اے بہترین رحم فرمانے والے ! ہمارے فاقہ اورضعف پر رحم فرما، ہم اپنی باطل طاقت اوربیکاری قوت سے براء ت کرتے ہیں اورتیری عظیم طاقت اورقدیم قوت کی پناہ چاہتے ہیں اوراس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ عزت وعظمت والے خدا کے سوا نہ تو گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اورنہ ہی نیکی کرنے کی ، اورہماری گفتگو کا خاتمہ اس پر ہے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے ۔ اوراللہ تعالٰی درود نازل فرمائے ہمارے آقا ومولٰی محمد مصطفی پر ، آپ کی تمام آل پر ،آپ کے تمام صحابہ پر اورآپ کی تمام اولاد پر ۔آمین ۔(ت)

الحمدللہ یہ موجزرسالہ اواخر شوال المکرم ۱۳۱۵ھ کے چند جلسوں میں تمام اوربلحاظ تاریخ ” شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام ”(عہ) نام ہوا ۔ واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔

عہ: وبضم الکاف بمعنی الریم صفۃ الرسول اوبکسرھا جمع الکرام نعت الاصول۱۲

رسالہ
شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام ختم ہوا۔