شان مصطفیٰ, فتاوی رضویہ, فضائل و خصائص

افضل المرسلین ہونے سے انکار۔۔۔۔۔

رسالہ
تجلی الیقین بانّ نبیّناسید المرسلین (۱۳۰۵ھ)
(یقین کا اظہار اس بات کے ساتھ کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں کے سردار ہیں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مسئلہ ۳۳: از مونگیر لعل دروازہ معرفت حضرت مرزا غلام قادر بیگ غرہ شوال ۱۳۰۵ھ
حضرت اقدس دام ظلہم ! یہاں وہابیہ نے ایک تازہ شگوفہ اظہار کیا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے افضل المرسلین ہونے سے انکار کیا۔ ہر چند کہا گیا کہ مسئلہ واضح ہے ، مسلمانوں کا ہر بچہ جانتاہے ، مگر کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث سے دلیل لاؤ۔ یہاں کوشش کی ، قرآن وحدیث میں دلیل نہ پائی ، لہذا مسئلہ حاضر خدمتِ والا ہے، امید ہے کہ بہ ثبوت آیات واحادیث مسلمانوں کو ممنون فرمائیں گے، فقط

الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ الذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق لیظھر ہ علی الدین کلہٖ ط ولو کرہ المشرکون تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہٖ لیکون للعٰلمین نذیر ا والی اقوامھم خاصۃ ارسل المرسلون ھوالذی ارسل نبینا رحمۃ للعٰلمین فادخل تحت ذیل رحمۃ الانبیآء والمرسلین ، والملٰئکۃ المقربین وخلق اللہ اجمعین ، وجعلہ خاتم النبیین فنسخ الادیان ولاینسخ لہ دین ، وادخل فی امتہ جمیع المرسلین اذ اخذ اللہ میثاق النبیین، سبحٰن الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الی السمٰوٰت العلٰی الی العرش الاعلٰی،ثم دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنیٰ ، فاوحیٰ الٰی عبدہٖ ما اوحٰی ماکذب الفؤٰاد ماراٰی افتمٰرونہ علی مایرٰی ولقد راٰہ نزلۃ اُخرٰی، مازاغ البصروماطغٰی وان الٰی ربک المنتھٰی وان علیہ النشأۃ الاخرٰی یوم لایجد ون شفیعاً الا المصطفٰی فلہ الفضل فی الاولٰی والاخرٰی ، والغایۃ القصوٰی والوسیلۃ العظمٰی والشفاعۃ الکبرٰی والمقام المحمود والحوض المورود ومال لایحصٰی من الصفات العلٰی والدرجات العلیاء فصلی اللہ تعالٰی وسلم وبارک علیہ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہٖ وکل منتم الیہ دآئما ابدًاکما یحب ویرضیٰ ھو وربہ العلی الاعلٰی ۔

سب خوبیاں اسے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اورسچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اورپڑے بُرامانیں مشرک ، بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر قرآن اتارا کہ وہ سارے جہان کو ڈرسنانے والا ہو۔ اورسب رسول خاص اپنی ہی قوموں کی طرف بھیجے گئے ۔ اس نے ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو سارے جہان کے لیے رحمت بھیجا، تو ان کے دامنِ رحمت کے نیچے انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین اورتمام مخلوقِ الہٰی کو داخل فرمایا، اوران کو سب نبیوں کا خاتم کیا، تو انہوں نے اوردین نسخ فرمائے ، اوران کے دین کا کوئی حرف منسوخ نہ ہوگا۔اللہ نے ا ن کی امت میں تمام رسولوں کو داخل کیا، جبکہ خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے لے گیا مسجد اقصیٰ تک بلند آسمانوں تک عرش اعلٰی تک ، پھر نزدیک ہوا تو تجلی فرمائی ، تو دوکمانوں بلکہ اس سے کم کا فاصلہ رہا۔ پس اپنے بندے کو وحی کی ،دل نے جودیکھا اس میں شک نہ کیا تو کیاتم ان کے دیدار میں جھگڑتے ہو۔ اورقسم ہے بے شک انہوں نے اسے دوبار ہ دیکھا۔ آنکھ بیجا نہ چلی اورنہ حد سے بڑھی ۔ اوربے شک تیرے رب ہی کی طرف انتہا ہے ۔ اوربے شک اسے سب کو دوبارہ پیدا کرنا ضرور ہے جس دن کوئی شفیع نہ پائیں گے سوائے مصطفی کے ، تو دنیا اورآخرت میں انہیں کیلئے فضیلت ہے اورسب سے پرلے سرے کی نہایت اورسب سے بڑا وسیلہ اورسب سے اعظم شفاعت اوروہ مقام جس میں سب اگلے پچھلے ان کی حمد کریں اوروہ حوض جس پر تشنگان امت آکر سیراب ہوں گے اوربے گنتی بلند صفتیں اورسب سے اونچے درجے ، تو اللہ تعالٰی درود وبرکت اتارے ان پر اور ان کے آل واصحاب اورہر ان کے نام لیوا پر ہمیشہ ہمیشہ جیسی انہیں اوران کے بلند وبالا تر رب کو پسند ومحبوب ہے ۔

حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا افضل المرسلین وسید الاولین والآخرین ہونا قطعی ایمانی، یقینی ، اذعانی ، اجماعی ، ایقانی مسئلہ ہے جس میں خلاف نہ کرے گا مگر گمراہ بد دین بندہ شیاطین والعیاذباللہ رب العٰلمین کلمہ پڑھ کر اس میں شک عجیب ہے ، آج نہ کھلا تو کل قریب ہے ، جس دن تمام مخلوق کو جمع فرمائیں گے ، سارے مجمع کا دولھا حضور کو بنائیں گے ، انبیائے جلیل تاحضرت خلیل سب حضور ہی کے نیاز مند ہوں گے ، موافق ومخالف کی حاجتوں کے ہاتھ انہیں کی جانب بلند ہوں گے ، انہیں کا کلمہ پڑھا جاتا ہوگا، انہیں کی حمد کا ڈنکا بجتا ہوگا، جو آج بیاں ہے کل عیاں ہے ، اس دن جو مومن ومقِرّ ہیں نور بارعشرتوں سے شادیاں رچائیں گے ، الحمدللہ الذی ھدٰنا لھٰذا۱؂ (سب خوبیاں اللہ کوجس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی ۔ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۷ /۴۳)

اورجو مبطل ومنکر ہیں دلفگارحسرتوں سے ہاتھ چبائیں گے، یالیتنا اطعنا اللہ واطعنا الرسول۲؂ ہائے کسی طرح ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم ماناہوتا ۔

(۲؂ القران الکریم ۳۳ / ۶۶)

اللھم اجعلنا من المھتدین ولاتجعلنا فتنۃ للقوم الظٰلمین۔ اے اللہ !ہم کو ہدایت پانے والوں میں سے بنادے اورہمیں ظالموں کے لئے آزمائش نہ بنا۔(ت)

گروہِ معتزلہ کہ ملائکہ کرام کو حضرات انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام سے افضل مانتے ہیں وہ بھی حضورسید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلیہم وعلٰی آلہٖ اجمعین کو بالیقن مخصوص ومستثنیٰ جانتے ہیں ۔ انکے نزدیک بھی حضور پرنور انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین وخلق اللہ اجمعین سب سے افضل واعلٰی وبلند وبالا علیہ صلٰوۃ المولٰی تعالٰی۔کلماتِ علمائے کرام میں اس کی تصریح اورفقیر کے رسالہ ”اجلال جبریل بجعلہ خادما للمحبوب الجمیل ”میں تحقیق وتوضیح ۔ اما الزمخشری فقد سفہ نفسہ وتبع ھواہ وجھل مذھبہ وتناھی فی الضلال حتی لم یعلم مشربہ کما نبہ علیہ اھل التحقیق، واللہ سبحانہ ولی التوفیق۔ رہا زمخشری ، تو وہ دل کا احمق ، اپنی نفسانی خواہش کا پیروکار ، اپنے مذہب سے جاہل اورگمراہی میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہے ، یہاں تک کہ اس کے مشرب کا پتا نہیں جیسا کہ اہل تحقیق نے اس پر تنبیہ فرمائی ہے ۔ اوراللہ سبحٰنہ وتعالٰی توفیق کا مالک ہے ۔ (ت)

فقیر کو جہاں ایسے صریح مسئلے پر طلب دلیل نے تعجب دیا وہاں اس کے ساتھ ہی طرز سوال کو دیکھ کر یہ شکر بھی کیا کہ الحمدللہ عقیدہ صحیح ہے ، صرف اطمینان خاطر کو خواہش توضیح ہے ، مگر اس لفظ نے بیشک حیرت بڑھائی کہ قرآن وحدیث میں دلیل نہ پائی ۔ سبحان اللہ مسئلہ ظاہر ، دلیلیں وافر، آیتیں متکاثر ، حدیثیں متواتر ۔ پھرسائل ذی علم ہوتو تو اطلاع نہ ملنے کی کیا صورت۔ اور جاہل بے علم ہوتو اپنے نہ پانے کی بیجا شکایت ۔ فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے مسئلہ تفضیل حضرات شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما میں دلائل جلائل قرآن وحدیث سے جو اکثر بحمداللہ استخراجِ فقیر ہیں نوے ۹۰جز کے قریب ایک کتاب مسمّٰی بہ ”منتھی التفصیل لمبحث التفضیل ”لکھی جس کے طول کو ممِلِّ خواطر سمجھ کر ”مطلع القمر ین فی ابانۃ سبقۃ العمرین (۱۲۹۷ھ) میں اس کی تلخیص کی، پھرکہاں وہ بحث متناہی المقدار اورکہاں یہ بحر ناپیداکنار، اللہ اللہ العظمۃ للہ ”

ولوان ما فی الارض من شجرۃ اقلام والبحریمدہ من بعدہ سبعۃ ابحر مانفدت کلمٰت اللہ۱؂۔ اوراگرزمین میں جتنے پیڑ ہیں سب قلمیں بن جائیں اورسمندر اس کی سیاہی ہو ، اس کے پیچھے سات سمندر اور، تواللہ کی باتیں ختم نہ ہوں (ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۳۱ /۲۷)

بلامبالغہ اگرتوفیق مساعد ہو اس عقیدے کی تحقیق مجلدات سے زائد ہو،مگر بقدرحاجت ووقت فرصت ، قلب مؤمن کی تسکین وتثبیت اورمنکر بدباطن کی تحزین وتبکیت کو صر ف دس آیتوں اورسوحدیثوں پر اقتصار مطلب اوراس معجز عجالہ مسمّی بہ ”قلائد نحورالحورمن فرائد بحورالنور” کو بلحاظ تاریخ ”تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین” سے ملقب کرتاہے ۔ وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب ، وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ وسراج افقہ واٰلہ وصحبہٖ ومتبعیہ وحزبہ انہ سمیع قریب مجیب۔ اللہ تعالٰی کے بغیر میرے لیے کسی کی توفیق نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اوراسی کی طرف رجوع لاتاہوں ۔ اللہ تعالٰی درود نازل فرمائے اس پر جو اس کی تمام مخلوق سے بہتر اور اس کے افق کا سراج ہے ، اورآپ کی آل پر اورآپ کے اصحا ب پر اوراس کے تمام پیروکاروں پر اوراس کی جماعت پر ، بے شک وہ سننے والا ، قریب ، دعاؤں کو قبو ل کرنے والا ہے ۔(ت)

یہ قلائد فرائد دوہیکل پر مشتمل :
ہیکل اول : میں آیات جلیلہ۔
ہیکل دوم : میں احادیث جمیلہ ۔ یہ ہیکل نور افگن چار تابشوں سے روشن :
تابش اول : چند وحی ربانی علاوہ آیات کریمہ قرآنی۔
تابش دوم : ارشادات عالیہ حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلیہم اجمعین۔
اگربعض کلمات انبیاء وملائکہ دیکھئے متبوع کی رکاب میں تابع سمجھئے ۔
تابش سوم : محض وخالص طر ق وروایات حدیث خصائص ۔
تابش چہارم : صحابہ کرام کے آثار رائقہ، اقوال علمائے کتب سابقہ، بشرائے ہواتف رؤیائے صادقہ ۔ واللہ سبحانہ ھو المعین والحمدللہ رب العالمین (اوراللہ سبحٰنہ وتعالٰی ہی مددگار ہے اورتمام خوبیاں اللہ کو جو تمام جہانوں کا پروردگارہے۔ت) ان کے سوا اقوال علماء پر توجہ نہ کی کہ غرضِ اختصار کے منافی تھی ۔ جسے ان کے بعض پر اطلاع پسند آئے ۔

فقیر کے رسائل ”سلطنۃ المصطفیٰ فی ملکوت کل الورٰی ”و ”قمر التمام لنفی الظل عن سید الانام ”و”اجلال جبریل بجعلہ خادماً للمحبوب الجمیل” کی طرف رجوع لائے ۔ واللہ الھادی وولی الایّادی (اوراللہ تعالٰی ہی ہدایت دینے والا اورنعمتوں کا مالک ہے ۔ ت)

ہیکل اول میں جواہر زواہر آیات قرآنیہ

آیت اولٰی : قال تبارک وتعالی : واذخذ اللہ میثاق النبیین لما اٰتیتکم من کتٰب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ قال ء اقررتم واخذتم علی ذٰلکم اصری ط قالو اقررنا قال فاشھدوا وانا معکم من الشٰھدین فمن تولّی بعد ذٰلک فاولٰئک ھم الفاسقون۱؂۔ پہلی آیت : اللہ تبارک وتعالٰی نے فرمایا ، اوریاد کراے محبوب ! جب خد انے عہد لیا پیغمبروں سے کہ جو میں تم کو کتاب وحکمت دوں ، پھر تمہارے پاس آئے رسول تصدیق فرماتا اس کی جو تمہارے ساتھ ہے تو تم ضرور ہی اس پر ایمان لانا ، اوربہت ضروراس کی مدد کرنا ۔ پھر فرمایا کیا تم نے اقرار کیا ، اوراس پر میرا بھاری ذمہ لیا ۔ سب انبیاء نے عرض کی کہ ہم ایمان لائے ۔ فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اورمیں بھی تمہارے ساتھ گواہوں سے ہوں ۔ اب جو اس کے بعد پھرے گا تووہی لوگ بے حکم ہیں۔

(۱؂القرآن الکریم ۳ /۸۱)

امام اجل ابو جعفر طبری وغیرہ محدثین اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولی المسلمین امیر المومنین جناب مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے راوی : لم یبعث اللہ نبیا من اٰدم فمن بعدہ الااخذ علیہ الھعد فی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لئن بعث وھو حی لیؤمنن بہ ولینصرنّہ ویاخذ العھد بذٰلک علی قومہٖ۲؂۔

(۲؂المواہب اللدنیۃ عن علی المقصد الاول اخذ العہد علی الانبیاء المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۶۶)
(جامع البیان(تفسیر الطبری) تحت آیۃ ۳ /۸۱ داراحیاء التراث العربی بیروت۳ /۳۸۷)

یعنی اللہ تعالٰی نے آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام سے لے کر آخر تک جتنے انبیاء بھیجے سب سے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں عہد لیا گیا کہ اگریہ اس نبی کی زندگی میں مبعوث ہوتو وہ ان پرایمان لائے اور ان کی مددفرمائے اوراپنی امت سے اس مضمون کا عہد لے ۔ اسی طرح حِبرالائمہ عالم القرآن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہوا، رواہ ابن جریر ۱؂وابن عساکر وغیرہما(اس کو ابن جریر اورابن عساکر وغیرہ نے روایت کیا۔ ت)

(۱؂جامع البیان(تفسیر الطبری) تحت آیۃ ۳ /۸۱ داراحیاء التراث العربی بیروت۳ /۳۸۷)

بلکہ امام بدرزرکشی وحافظ عماد بن کثیر وامام الحفاظ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اسے صحیح بخاری (عہ) کی طرف نسبت کیا ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ ونحوہ اخرج الامام ابن ابی حاتم فی تفسیرہ عن السدی کما اوردہ الامام الاجل السیوطی فی الخصائص الکبرٰی۲؂۔اوراس کی مثل امام ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں سدی سے روایت کیا جیسا کہ امام اجل سیوطی علیہ الرحمہ نے خصائص کبرٰی میں وارد کیا ہے ۔ (ت)

عہ: قال الزرقانی قال الشامی ولم اظفربہ فیہ ۳؂ ۱۲منہ۔

زرقانی نے کہا : شامی نے فرمایا ہے کہ میں اس کو صحیح بخاری میں نہیں پاسکا۔ت)

(۲؂الخصائص الکبرٰی باب خصوصیۃ باخذ المیثاق علی النبیین الخ مرکز اہل سنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۸)
(۳؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الاول دارالمعرفہ بیروت ۱ /۴۰)

اس عہد ربانی کے مطابق ہمیشہ حضرات انبیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء نشرمناقب وذکر مناصب حضور سید المرسلین صلٰوۃ اللہ وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین سے رطب اللسان رہتے اور اپنی پاک مبارک مجالس ومحافل ملائک منزل کو حضور کی یاد ومداح سے زینت دیتے ، اور اپنی امتوں سے حضورپرنورپر ایمان لانے اورمدد کرنے کا عہد لیتے یہاں تک کہ وہ پچھلا مژدہ رساں کنواری بتول کا ستھر ابیٹا مسیح کلمۃ اللہ علیہ صلوات اللہ مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد۴؂ (اس رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعدتشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔ت)کہتا تشریف لایا۔اورجب سب ستارے روشن مہ پارے مکمنِ غیب میں گئے افتاب عالمتاب ختمیت مآب نے باہزاراں ہزار جاہ وجلال طلوع اجلال فرمایا صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین وبارک وسلم دھر الداھرین (اللہ تعالٰی آپ پر اوردیگر تمام رسولوں پر ہمیشہ ہمیشہ درودوسلام اوربرکت نازل فرمائے ۔ ت)

(۴؂القرآن الکریم ۶۱ /۶)

ابن عساکرسیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی : لم یزل اللہ یتقدم فی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الٰی اٰدم فمن بعدہ ولم تزل الامم تتباشربہ وتستفتح بہ حتی اخرجہ اللہ فی خیر امۃ ، وفی خیر قرن وفی خیر اصحاب وفی خیر بلد۱؂۔ ہمیشہ اللہ تعالٰی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں آدم اور ان کے بعد سب انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام سے پیشگوئی فرماتارہا ، اورقدیم سے سب امتیں تشریف آوری حضور کی خوشیاں مناتیں اور حضور کے توسل سے اپنے اعداء پر فتح مانگتی آئیں ، یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے حضور کو بہترین امم وبہترین قرون وبہترین اصحاب وبہترین بلاد میں ظاہر فرمایا، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

(۱؂الخصائص الکبریٰ بحوالہ ابن عساکر باب خصوصیت باخذ المیثاق الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱/ ۸ و ۹)

اوراس کی تصدیق قرآن عظیم میں ہے : وکانو امن قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاء ھم ماعرفواکفروابہ فلعنۃ اللہ علی الکٰفرین۲؂۔ یعنی اس نبی کے ظہور سے پہلے کافروں پر اس کے وسیلہ سے فتح چاہتے ، پھر جب وہ جانا پہچانا ان کے پاس تشریف لایا منکر ہوبیٹھے تو خدا کی پھٹکار منکروں پر۔

(۲؂القرآن الکریم ۲ /۸۹)

علماء فرماتے ہیں : جب یہود مشرکوں سےلڑتے دعاکرتے : اللھم انصرنا علیہم بالنبی المبعوث فی اٰخرالزمان الذی نجد صفتہ فی التورٰۃ۳؂ الہٰی ! مدددے ان پر صدقہ نبی آخر الزمان کا جس کی نعت ہم تورات میں پاتے ہیں۔

(۳؂الدرالمنثور تحت الآیۃ ۲ /۸۹ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۹۶)

اس دعا کی برکت سے انہیں فتح دی جاتی ۔ ٍ
اسی پیمان الٰہی کا سبب ہے کہ حدیث میں آیا حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : والذی نفسی بیدہٖ لو ان موسیٰ کان حیّاً الیوم ماوسعہ الا ان یتبعنی ۔ اخرجہ الامام احمد ۱؂والدارمی والبیھقی فی شعب الایمان عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما ، ابو نعیم فی دلائل النبوۃ واللفظ لہ عن امیر المؤمنین ۲؂۔عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج اگر موسیٰ دنیا میں ہوتے تو میری پیروی کے سوا ان کو گنجائش نہ ہوتی (اس کو امام احمد،دارمی اورشعب الایمان میں بیہقی نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اورابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے اورلفظ ابو نعیم کے ہیں ۔ت)

(۱؂مسند احمد بن حنبل عن جابر رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۳۸۷)
(۲؂دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الاول عالم الکتب بیروت الجزء الاول ص۸)

اوریہی باعث ہے کہ جب آخر الزمان میں حضرت سیدنا عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نزول فرمائیں گے بآنکہ بدستور منسب رفیع نبوت ورسالت پر ہوں گے ، حضور پرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے امتی بن کر رہیں گے ، حضور ہی کی شریعت پر عمل کریں گے، حضو رکے ایک امتی ونائب یعنی امام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔ حضورسیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم ۔ اخرجہ الشیخان ۳؂عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ کیسا حال ہوگا تمہارا جب ابن مریم تم میں اتریں گے اورتمہارا امام تم میں سے ہوگا (اس کو شیخین نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

(۳؂صحیح البخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسٰی بن مریم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۹۰ )
( صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی بن مریم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۸۷)

اوراس عہد واثق کی پوری تائید وتوکید حق عزجلالہ نے توریت مقد س میں فرمائی جس کی بعض آیتیں ان شاء اللہ تابش اول ہیکل دوم میں مذکور ہوں گی ۔
امام علامہ تقی الملۃ والدین ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں ایک نفیس رسالہ ”التعظیم والمنہ فی لتؤمنن بہ ولتنصرنہ ”لکھا ۔ اوراس میں آیت مذکورہ سے ثابت فرمایا کہ ہمارے حضور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ سب انبیاء کے نبی ہیں، اورتمام انبیاء ومرسلین اوران کی امتیں سب حضور کے امتی ۔ حضور کی نبوت ورسالت زمانہ سیدنا ابوالبشر علیہ الصلٰوۃ والسلام سے روز قیامت تک جمیع خلق اللہ کو شامل ہے ، اورحضور کا ارشاد ”وکنت نبیا واٰدم بین الروح والجسد”۱؂ (میں نبی تھا جبکہ آدم علیہ السلام روح وجسد کے درمیان تھے ۔ ت)اپنے معنی حقیقی پر ہے ۔

(۱؂المستدرک للحاکم کتاب الایمان دارالفکر بیروت ۲ /۶۰۹ )
(کنزالعمال بحوالہ ابن سعد حدیث۳۱۹۱۷ ۳۲۱۱۸مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱ /۴۰۹ و۴۵۰)

اگرہمارے حضور حضرت آدم ونوح وابراہیم وموسیٰ وعیسٰی صلی اللہ تعالٰی علیہم وسلم کے زمانہ میں ظہو رفرماتے ، ان پر فرض ہوتا کہ حضور پر ایمان لاتے اور حضور کے مددگار ہوتے ۔ اسی کا اللہ تعالٰی نے ان سے عہد لیا اورحضور کے نبی الانبیاء ہونے ہی کا باعث ہے کہ شب اسرا تمام انبیاء ومرسلین نے حضور کی اقتداء کی ، اوراس کا پورا ظہور اروز نشور ہوگا جب حضور کے زیر لو ا آدم ومن سوا کا فہ رسل وانبیاء ہوں گے ، صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین۔ یہ رسالہ نہایت نفیس کلام پر مشتمل جسے امام جلال الدین نے خصائص کبری اور امام شہاب الدین قسطلانی نے مواہب لدنیہ اورائمہ مابعد نے اپنی تصانیف منیعہ میں نقل کیا اور اسے نعمت عظمیٰ ومواہب کبرٰی سمجھا من شاء التفصیل فلیرجع الٰی کلما تھم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین (جو تفصیل چاہتا ہے وہ ان کے کلام کی طرف رجوع کرے ان سب پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو۔ ت)

بالجملہ مسلمان بہ نگاہ ایمان اس آیہ کریمہ کے مفادات عظیمہ پر غور کرے ، صاف صریح ارشاد فرمارہی ہے کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اصل الاصول ہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رسولوں کے رسول ہیں ، امتیوں کو جونسبت انبیاء ورسل سے ہے وہ نسبت انبیاء ورسل کو اس سید الکل سے ہے ، امتیوں پرفرض کرتے ہیں رسولوں پر ایمان لاؤ ، اوررسولوں سے عہد وپیمان لیتے ہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے گروید گی فرماؤ۔ غرض صاف صاف جتارہے ہیں کہ مقصود اصلی ایک وہی ہیں باقی تم سب تابع وطفیلی ع
مقصودذاتِ اوست دگرجُملگی طفیل
(مقصود ان کی ذات ہے باقی سب طفیلی ہیں۔)

آیہ لتؤمنن بہٖ ولتنصرنہ کے بعض لطائف

اقول: وباللہ التوفیق (میں اللہ تعالٰی کی توفیق کے ساتھ کہتاہوں۔ت) پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس مضمون کو قرآن عظیم نے کس قدر مہتم بالشان ٹھہرایا اورطرح طرح سے مؤکد فرمایا۔
اوّلاً انبیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء معصومین ہیں۔ زنہار حکم الہٰی کاخلاف ان سے محتمل نہیں ۔ کافی تھا کہ رب تبارک وتعالٰی بطریق امر انہیں ارشادفرماتا اگر وہ نبی تمہارے پاس آئے اس پر ایمان لانا اوراس کی مدد کرنا، مگر اس قدر پر اکتفاء نہ فرمایا بلکہ ان سے عہد وپیمان لیا، یہ عہد عہد الست بربکم۱؂ (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ت)کے بعد دوسرا پیمان تھا، جیسے کلمہ طیبہ میں لاالہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ت)کے ساتھ محمد رسول اللہ (محمد اللہ کے رسول ہیں۔ت) تاکہ ظاہر ہوکہ تمام ماسوائے اللہ پر پہلا فرض ربوبیت الہٰیہ کا اذعان ہے ۔

(۱؂القرآن الکریم ۷ /۱۷۲)

پھر اس کے برابر رسالت محمدیہ پر ایمان ، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وبارک وشرف وبجل وعظم۔
ثانیاً اس عہد کو لامِ قسم سے مؤکد فرمایا: لتؤمنن بہٖ ولتنصرنہ۲؂ ۔ تم ضرور اس کی مدد کرنا اورضروراس پر ایمان لانا۔(ت)

(۲؂القرآن الکریم ۳ /۸۱)

جس طرح نوابوں سے بیعتِ سلاطین پر قسمیں لی جاتی ہیں ۔ امام سُبکی فرماتے ہیں : شاید سوگندِ بیعت اسی آیت سے ماخوذ ہوئی ہے ۔
ثالثاً نون تاکید۔
رابعاً وہ بھی ثقیلہ لاکر ثقل تاکید کو اور دوبالا فرمایا۔
خامساً یہ کمال اہتمام ملاحظہ کیجئے کہ حضرات انبیاء ابھی جواب نہ دینے پائے کہ خود ہی تقدیم فرما کر پوچھتے ہیں : ء اقررتم کیا اس امر پر اقرارلاتے ہو ؟یعنی کمال تعجیل وتسجیل مقصود ہے ۔
سادساً اس قدر پر بھی بس نہ فرمائی بلکہ ارشاد ہوا : واخذتم علٰی ذٰلکم اصری۱؂ ۔ خالی اقرار ہی نہیں بلکہ اس پر میرا بھاری ذمہ لو۔

(۱؂القرآن الکریم ۳ /۸۱)

سابعاً علیہ یا علٰی ھٰذا کی جگہ علٰی ذٰلکم۲؂ فرمایاکہ بُعد اشارت عظمت ہو۔

(۲؂القرآن الکریم ۳ /۸۱)

ثامناً اورترقی ہوئی کہ فاشھدوا۳؂ ۔ ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ ۔ حالانکہ معاذ اللہ اقرار کر کے مُکر جانا ان پاک مقدس جنابوں سے معقول نہ تھا۔

(۳؂القرآن الکریم ۳ /۸۱)

تاسعاً کمال یہ ہے کہ فقط ان کی گواہیوں پر بھی اکتفا نہ ہوئی بلکہ ارشادفرمایا: وانا معکم من الشاھدین۴؂۔ میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہوں سے ہوں ۔

(۴؂القرآن الکریم ۳ /۸۱)

عاشراً سب سے زیادہ نہایت کاریہ ہے کہ اس قدر عظیم جلیل تاکیدوں کے بعد بآنکہ انبیاء کو عصمت عطافرمائی ، یہ سخت شدیدتہدید بھی فرمادی گئی کہ : فمن تولّی بعدذٰلک فاولٰئک ھم الفٰسقون۵؂۔ ابو جو اس اقرار کے بعد پھرے گا فاسق ٹھہرے گا۔

(۵؂القرآن الکریم ۳ /۸۲)

اللہ ، اللہ ! یہ وہی اعتنائے تام واہتمام تمام ہے جو باری تعالٰی کو اپنی توحید کے بارے میں منظورہوا کہ ملائکہ معصومین کے حق میں ارشاد کرتاہے : من یقل منھم انی الٰہ من دونہ فذٰلک نجزیہ جھنم ط کذٰلک نجزی الظٰلمین۶؂۔ جو ان میں سے کہے گا میں اللہ کے سوا معبود ہوں اسے ہم جہنم کی سزادیں گے ، ہم ایسی ہی سزادیتے ہیں ستمگاروں کو ۔

(۶؂القرآ ن الکریم ۲۱ /۲۹)

گویا اشارہ فرماتے ہیں کہ جس طرح ہمیں ایمان کے جز اول لا الٰہ الا اللہ کا اہتمام ہے یونہی جز دوم محمد رسول اللہ سے اعتنائے تام ہے ، میں تمام جہان کا خدا کہ ملائکہ مقربین بھی میری بندگی سے سرنہیں پھیر سکتے اورمیرا محبوب سارے عالم کا رسول ومقتداکہ انبیاء ومرسلین بھی ا سکی بیعت وخدمت کے محیط دائرہ میں داخل ہوئے ۔ والحمدللہ رب العٰلمین ،وصلی اللہ تعالٰی علٰی سید المرسلین محمد واٰلہ وصحبہٖ اجمعین oاشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ وان سیدنا محمد ا عبدہ ورسولہ سید المرسلین وخاتم النبیین واکر م الاولین والاٰخرین صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین۔ سب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا۔اوراللہ تعالٰی درودنازل فرمائے رسولوں کے سردارمحمد مصطفی پر ، آ پ کی آل پر اورآپ کے تمام صحابہ پر ۔ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالٰی کے بغیر کوئی لائق عبادت نہیں وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اوریہ کہ ہمارے سردار محمد مصطفیٰ اس کے خاص بندے اوراس کے رسول ہیں۔ وہ تمام رسولوں کے سردار، تمام نبیوں میں آخری نبی اوراگلوں اورپچھلوں سے افضل ہیں ۔ اللہ تعالٰی کے درودوسلام ہوں ان پر، ان کی آل پر اوران کے تمام صحابہ پر۔ (ت)
اس سے بڑھ کر حضور کی سیادت عامّہ وفضیلت تامہّ پر کون سے دلیل درکارہے ۔

وللہ الحجۃ البالغۃ (اوراللہ کی حجت پوری ہے ۔ ت)

آیت ثانیہ : قال عز مجدہ : وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین۱؂۔ دوسری آیت : اللہ تعالٰی نے فرمایا : اے محبوب ! ہم نے تجھے نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے ۔

(۱؂القرآن الکریم ۲۱ /۱۰۷)

عالم ماسوائے اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تولاجَرَم حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان سب پر رحمت ونعمت رب الارباب ہوئے ، اوروہ سب حضور کی سرکارعالی مدارسے بہر ہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کامین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ ازل سے ابد تک ارض وسماء میں اولٰی وآخرت میں دین ودنیا میں روح وجسم میں چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ میں جہاں پناہ سے بٹی اوربٹتی ہے اورہمیشہ بٹے گی۔ کما بیّنّاہ بتوفیق اللہ تعالٰی فی رسالتنا سلطنۃ المصطفیٰ فی ملکوت کل الورٰی ۔(جیسا کہ ہم نے اس کو اللہ تعالٰی کی توفیق سے اپنے رسالہ”سلطنت المصطفی فی ملکوت الورٰی ”میں بیان کیا ہے ۔ ت)
امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ نے اس آیہ کریمہ کے تحت لکھا: لماکان رحمۃ للعٰالمین لزم ان یکون افضل من کل العٰلمین۱؂ ۔قلت وادعاء التخصیص خروج عن الظاھر بلادلیل وھو لایجوز عند عاقل فضلا عن فاضل واللہ الھادی۔ جب حضور تمام عالم کے لیے رحمت ہیں واجب ہوا کہ تمام ماسوائے اللہ سے افضل ہوں ۔میں کہتاہوں تخصیص کا دعوٰی کرنا ظاہر سے بلادلیل خروج ہے اوروہ کسی عاقل کے نزدیک جائز نہیں چہ جائیکہ کسی فاضل کے نزدیک ۔ اوراللہ تعالٰی ہی ہدایت دینے والا ہے ۔ (ت)

(۱؂مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت الآیۃ ۲ /۲۵۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۱۶۵)

آیت ثالثہ : قال جل ذکرہ : وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہٖ۲؂۔ تیسری آیت : اللہ تعالٰی نے فرمایا : نہ بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر ساتھ زبان اس کی قوم کے ۔

(۲؂القرآن الکریم ۱ ۴/۴)

علماء فرماتے ہیں : یہ آیہ کریمہ دلیل ہے کہ انبیائے سابقین سب خاص اپنی قوم پر رسول کر کے بھیجے جاتے ۔
اگلے انبیاء صرف اپنی قوم کے رسول ہوئے اورہمارے رسول ہر فرد مخلوق کے لئے۔ اقول: وقال اللہ تعالٰی لقد ارسلنا نوحاً الٰی قومہٖ۳؂ وقال تعالٰی والٰی عاد اخاھم ھودا۴؂۔ اقول: (میں کہتاہوں) اللہ تعالٰی نے فرمایا : تحقیق ہم نے نوح کو بھیجا اس کی قوم کی طرف ۔ اورفرمایا اللہ تعالٰی نے عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کو بھیجا۔

(۳؂القرآن الکریم ۷ /۵۹)
(۴؂القرآن الکریم ۷/۶۵)

وقال تعالٰی والٰی ثمود اخاھم صٰلحاً۵؂ وقال تعالٰی ولوطااذ قال لقومہٖ۶؂۔ وقال تعالٰی والٰی مدین اخاھم شیعبا۷؂۔ اورفرمایا کہ ثمود کی طرف انکی برادری سے صالح کو بھیجا ۔ اورفرمایا : اورلُوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا ۔ اورفرمایا: مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا ۔

(۵؂القرآن الکریم ۷ /۷۳)
(۶؂القرآن الکریم ۷ /۸۰)
(۷؂القرآن الکریم ۷/ ۷۵)

وقال تعالٰی ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ باٰیٰتنا الٰی فرعون وملائہٖ۱؂ وقال تعالٰی وتلک حجتنا اٰتینٰھا ابراھیم علٰی قومہ ٖ۲؂ اورفرمایا : پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اوراس کے درباریوں کی طرف بھیجا۔اورفرمایا : اوریہ ہماری دلیل ہے کہ ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم پرعطافرمائی ۔

(۱؂القرآن الکریم ۷/۱۰۳)
(۲؂القرآن الکریم ۶/ ۸۳)

وقال تعالٰی فی یونس علیہ السلام وارسلناہ الٰی مائۃ الف اویزیدون۳؂۔ وقال تعالٰی فی عیسٰی علیہ السلام ورسولاً الٰی بنی اسرائیل۴؂۔ اوریونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا : اورہم نے اسے لاکھ آدمیوں کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ ۔ اورعیسٰی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: اوررسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف۔ (ت)

(۳؂القرآن الکریم ۳۷/۱۴۷)
(۴؂القرآن الکریم ۳/۴۹)

اسی لئے صحیح حدیث میں فرمایا : کان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ۔ رواہ الشیخان۵؂عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا۔(اس کو شیخین نے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ ت)

(۵؂صحیح البخاری کتاب التیمم ومواضع الصلٰوۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۸)
(صحیح مسلم کتاب المساجدومواضع الصلٰوۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۸)

دوسری روایت میں آیا : کان النبی یبعث الٰی قریتہ ولا یعدوھا ۔ رواہ ابویعلی۶؂ عن عوف بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ نبی ایک بستی کی طرف مبعوث ہوتا جس کے آگے تجاوز نہ کرتا۔ (اس کوابو یعلٰی نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ت)

(۶؂الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان بحوالہ ابی یعلٰی حدیث ۶۳۶۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۱۰۴)

اورحضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے فرماتاہے : وماارسلنٰک الا کافّۃ للناس بشیرا ونذیرا ولٰکن اکثر الناس لایعلمون۷؂۔ نہ بھیجا ہم نے تمہیں مگر سب لوگوں کیلئے خوشخبری دیتا اورڈرسناتا، پر بہت لوگ بے خبر ہیں ۔

(۷؂القرآن الکریم ۳۴ /۲۸)

وقال تعالٰی : قل یٰایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ۱؂۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: تو فرمااے لوگو!میں خدا کا رسول ہوں تم سب کی طرف

(۱؂القرآن الکریم ۷ /۱۵۸)

وقال تعالٰی : تبارک الذی نزّل الفرقان علٰی عبدہٖ لیکون للعٰلمین نذیرا۲؂۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا : بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اتارا قرآن اپنے بندے پر کہ ڈرسنانے والا ہوسارے جہان کو ۔

(۲؂القرآن الکریم ۲۵ /۱)

اسی لئے خود حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ارسلت الی الخلق کا فّۃ ۔ اخرجہ مسلم ۳؂ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ میں تمام مخلوق الہٰی کی طرف بھیجاگیا(اس کو مسلم نےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

(۳؂صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلٰوۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۹۹)

حضور کی افضلیت مطلقہ کی یہ دلیل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے ارشادات سے ہے ۔
دارمی ، ابو یعلٰی ، طبرانی ، بیہقی روایت کرتے ہیں اس جناب نے فرمایا: ان اللہ تعالٰی فضل محمداصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی الانبیاء وعلٰی اھل السماء ۔ بیشک اللہ تعالٰی نے محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تمام انبیاء وملائکہ سے افضل کیا۔ حاضرین نے وجہ تفضیل پوچھی ، فرمایا : ان اللہ تعالٰی قال : وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہٖ ، وقال لمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وماارسلنٰک الا کافۃ للناس فارسلہ الٰی الانس والجن۴؂۔ یعنی اللہ تعالٰی نے اوررسولوں کے لیے فرمایا ہے ہم نے نہ بھیجا کوئی رسول مگر ساتھ زبان اس کی قوم کے ۔ اورمحمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فرمایا : ہم نے تمہیں نہیں بھیجا مگر رسول سب لوگوں کیلئے ۔ تو حضور کو تمام انس وجن کا رسول بنایا۔

(۴؂الدرالمنثور تحت الآیۃ ۱۴ /۴ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/۵ و ۶ )
(شعب الایمان حدیث۱۵۱ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۷۳)
(سنن الدارمی باب مااعطی النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الفضل حدیث۴۷ دارالمحاسن للطباعۃ القاہرہ ۱/۲۹و۳۰)

علماء فرماتے ہیں : رسالت والاکا تمام جن وانس کو شامل ہونا اجماعی ہے ، اورمحققین کے نزدیک ملٰئکہ کو بھی شامل ، کما حققنا ہ بتوفیق اللہ تعالٰی فی رسالۃ ”اجلال جبریل ”۔بلکہ تحقیق یہ ہے کہ حجروشجر وارض وسماء وجبال وبحار تمام ماسوا اللہ اس کے احاطہ عامّہ ودائرہ تامّہ میں داخل ، اورخود قرآن عظیم لفظ عٰلمین ، اور روایت صحیح مسلم میں لفظ خلق وہ بھی مؤکد بکلمہ کافّۃ ۔ اس مطلب پر احسن الدلائل طبرانی معجم کبیر میں یعلٰی بن مرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ، حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : مامن شیئ الا یعلم انی رسول اللہ الا کفرۃ الجن والانس۱؂۔ کوئی چیز نہیں جو مجھے رسول اللہ نہ جانتی ہو ، مگر بے ایمان جن وآدمی ۔

(۱؂المعجم الکبیر حدیث۶۷۲ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۲ /۲۶۲ )
( کنزالعمال بحوالہ الطبرانی عن یعلٰی بن مرہ حدیث۳۱۹۲۳ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱ /۴۱۱)

اب نظر کیجئے کہ یہ آیت کتنی وجہ(عہ) سے افضلیتِ مطلقہ حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر حجت ہے :

عہ : ان میں بعض وجوہ افادہ علماء ہیں اوراکثر بحمداللہ تعالٰی استخراجِ فقیر ۱۲منہ

اولاً اس موازنہ سے خود واضح ہے کہ انبیائے سابقین علیہم الصلٰوۃ والتسلیم ایک ایک شہر کے ناظم تھے ۔ اورحضور پرنور سید المرسلین صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ وعلیہم اجمعین سلطان ہفت کشور ، بلکہ بادشاہ زمین وآسمان ۔
ثانیاً اعبائے رسالت سخت گرانبارہیں۔ اوران کا تحمُّل بغایت دشوار انا سنلقی علیک قولا ثقیلاً۲؂ (بے شک عنقریب ہم تم پرایک بھاری بات ڈالیں گے ۔ ت)

(۲؂القرآن الکریم ۷۳/ ۵)

اسی لیے موسیٰ وہارون سے عالی ہمتوں کو پہلے ہی تاکید ہوئی لاتنیاذکری۳؂ دیکھو میرے ذکر سے سست نہ ہوجانا ۔

(۳؂القرآن الکریم ۲۰ /۴۲)

پھر جس کی رسالت ایک قوم خاص کی طرف اس کی مشقت تو اس قدر جس کی رسالت نے انس وجن وشرق وغرب کو گھیر لیا اس کی مؤنت کس قدر۔ پھر جیسی مشقت ویسا ہی اجر، اورجتنی خدمت اتنی ہی قدر افضل العبادات احمزھا (سب سے افضل عبادت سب سے سخت ہوتی ہے ۔ ت)

ثالثاً جیسا کام جلیل ہو ویسا ہی جلالت والا اس کےلئے درکار ہوتاہے ۔ بادشاہ چھوٹی چھوٹی مہموں پر افسران ماتحت کو بھیجتا ہے اورسخت عظیم مہم پر امیر الامراء سردار اعظم کو لاجرم رسالت خاصہ وبعثت عامہ میں جو تفرقہ ہے وہی فرق مراتب ان خاص رسولوں اوراس رسول الکل میں ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین۔

رابعاً یونہی حکیم کی شان یہ ہے کہ جیسے علوِّشان کا آدمی ہو اسے ویسے ہی عالیشان کا م پر مقرر کریں کہ جس طرح بڑے کام پر چھوٹے سردار کا تعین اس کے سرانجام نہ ہونے کا موجب ، یونہی چھوٹے کام پر بڑے سردار کا تقرر نگاہوں میں اس کے ہلکے پن کا جالب۔

خامساً جتنا کام زیادہ اتنا ہی اس کے لیے سامان زیادہ ۔ نواب کو اپنے انتظامِ ریاست میں فوج وخزانہ اسی کے لائق درکار ۔ اور بادشاہ عظیم خصوصا سلطان ہفت اقلیم کو اس کے رتق وفتق ونظم میں اسی کے موافق ۔ اوریہاں سامان وہ تائید الٰہی وتربیت ربانی ہے جو حضرات انبیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء پر مبذول ہوتی ہے ۔ تو ضرور ہے کہ جو علوم ومعارف قلب اقدس پر القاء ہوئے معارف وعلوم جمیع انبیاء سے اکثر واوفٰی ہوں ۔ افادہ الامام الحکیم الترمذی ونقلہ عنہ فی الکبیر الرازی (امام حکیم ترمذی نے اس کا افادہ فرمایا ہے اوراس سے امام رازی نے کبیر میں نقل کیا ہے ۔ ت)

اقول : پھر یہ بھی دیکھنا کہ انبیاء کو ادائے امانت وابلاغِ رسالت میں کن کن باتوں کی حاجت ہوتی ہے ۔
(۱) حلم ، کہ گستاخی کفار پر تنگ دل نہ ہوں ۔ دع اذھٰم وتوکل علی اللہ ۱؂۔ ان کی ایذاپر درگزر فرماؤ اوراللہ پر بھروسا رکھو۔ (ت)

(۱؂ القران الکریم ۳۳ /۴۸)

(۲) صبر، کہ ان کی اذیتوں سے گھبرانہ جائیں۔ فاصبر کما صبراولو العزم من الرسل۲؂ ۔ تو تم صبر کرو جیساہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔ (ت)

(۲؂ القرآن الکریم۴۶ /۳۵)

(۳) تواضع ، کہ ان کی صحبت سے نفورنہ ہوں ۔ واخفض جناحک لمن اتبعک من المؤمنین ۱؂۔ اپنی رحمت کا بازوبچھاؤ اپنے پیرو مسلمانوں کے لیے ۔(ت)

(۱؂القرآن الکریم ۲۶/ ۲۱۵)

(۴) رفق ولینت ، کہ قلوب ان کی طرف راغب ہوں۔ فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم۔ (القرآن الکریم ۳ /۱۵۹)

تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی کہ اے محبوب ! تم ان کے لیے نرم دل ہوئے ۔ (ت)

(۵) رحمت ، کہ واسطہ فاضہ خیرات ہوں۔ ورحمۃ للذین اٰمنوا منکم۳؂ ۔ اورجو تم میں مسلمان ہیں ان کے واسطے رحمت ہیں۔ (ت)

(۳؂ القرآن الکریم ۹ /۶۱)

(۶) شجاعت ، کہ کثرتِ اعداء کو خیال میں نہ لائیں ۔ انی لایخاف لدی المرسلون ۴؂۔ بے شک میرے حضور رسولوں کو خوف نہیں ہوتا۔(ت)

(۴؂القرآن الکریم۲۷ /۱۰)

(۷) جُود وسخاوت ، کہ باعث تالیف قلوب ہوں۔ فان الانسان عبید الاحسان وجبلت القلوب علٰی حب من احسن الیہا، “ولا تجعل یدک مغلولۃ الٰی عنقک”۵؂۔ کیونکہ انسان احسان کا غلام ہے اوردلوں میں خلقی طور پر احسان کرنے والوں کی محبت ڈال دی گئی ہے اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ۔(ت)

(۵؂القرآن الکریم ۱۷/ ۲۹)

(۸) عفوومغفرت، کہ نادان جاہل فیض پاسکیں۔ فاعف عنہم واصفح ط ان اللہ یحب المحسنین۶؂۔ توانہیں معاف کردو اوران سے درگزرکرو بے شک احسان کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں۔ (ت)

(۶؂القرآن الکریم ۵ /۱۳)

(۹) استغناء وقناعت، کہ جُہّال اس دعوٰی عظمٰی کو طلب دنیا پر محمودل نہ کریں ۔ لاتمدن عینیک الی مامتعنابہ ازواجاً منھم۱؂۔ اپنی آنکھ اٹھا کر اس چیز کو نہ دیکھو جو ہم نے ان کے کچھ جوڑوں کو برتنے دی۔ (ت)

(۱؂القران الکریم ۱۵/ ۸۸)

(۱۰) جمالِ عدل ، کہ تثقیف وتادیب وتربیتِ امت میں جس کی رعایت کریں۔ ان حکمت بینہم فاحکم بالقسط۲؂۔ اوراگر ان میں فیصلہ فرماؤ تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ (ت)

(۲؂ القرآن الکریم۵ /۴۲)

(۱۱)کمالِ عقل ، کہ اصل فضائل ومنبع فواضل ہے ، ولہذا عورت کبھی نبی ہوئی ۔ وماارسلنا من قبلک الارجالا۳؂۔ اورہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے۔ (ت)

(۳؂القران الکریم ۱۲ /۱۰۹)

نہ کبھی اہل بادیہ وسُکّان دِہ کو نبوت ملی کہ جفا وغلظت ان کی طینت ہوتی ہے : الارجالا نوحی الیہم من اھل القرٰی ۴؂ ای اھل المصار۔

جنہیں ہم وحی کرتے اورسب شہر کے ساکن تھے (ت)

(۴؂ القران الکریم ۱۲ /۱۰۹)

حدیث میں ہے : من بدأ جفا ۵؂ ۔ (جس نے دیہات میں رہائش اختیار کی اس نے ظلم کیا۔ ت)

(۵؂ مسند احمد بن حنبل عن البراء المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۲۹۷)
(المعجم لکبیر حدیث۱۱۰۳۰ الکتمبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱/ ۵۷)

اسی نظافتِ نسب وحسن سیرت وصورت سب کی صفاتِ جمیلہ کی حاجت ہے کہ ان کی کسی بات پر نکتہ چینی نہ ہو۔ غرض یہ سب انہیں خزائن سے ہیں جو ان سلاطین حقیقت کو عطاہوئے ہیں، پھر جس کی سلطنت عظیم اس کے خزائن عظیم ۔

حدیث میں ہے : ان اللہ تعالٰی ینزل المعونۃ علی قدرالمؤنۃ وینزل الصبرعلی قدر البلاء ۶؂۔ بے شک اللہ تعالٰی ذمہ داری کے مطابق معاونت نازل فرماتاہے اوراازمائش کے مطابق صبر نازل فرماتاہے ۔ (ت)

(۶؂ کنزالعمال بحوالہ عدوابن لال عن ابی ہریرۃ حدیث۱۵۹۹۲ مؤ سسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۳۴۷)

توضرور ہوا کہ ہمارے حضور ان سب اخلاق فاضلہ واوصافِ کاملہ میں تمام انبیاء سے اتم واکمل واعلٰی واجل ہوں ۔ اسی لئے خود ارشاد فرماتے ہیں : انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔ اخرجہ البخاری فی الادب ۱؂وابن سعد والحاکم والبیہقی عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند صحیح ۔ میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا۔ ۔ (اس کو بخاری نے ادب میں اورابن سعد، حاکم اوربیہقی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ت )

(۱؂ الادب المفرد حدیث۲۷۳ المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل ص۷۸)
( السنن الکبرٰی کتاب الشہادات باب بیان مکارم الاخلاق دارصادر بیروت ۱۰/ ۱۹۲)
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر مبعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ دارصادر بیروت ۱ /۱۹۲ ۱۹۳)

وہب بن منبہّ فرماتے ہیں : میں نے اکہتر کتب آسمانی میں لکھا دیکھا کہ روز آفرنیش دنیا سے قیام قیامت تک تمام جان کے لوگوں کو جنتی عقل عطاکی ہے وہ سب مل کر محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آگے ایسی ہے جیسے تمام ریگستان دنیا کے سامنے ریت کا ایک دانہ ۲؂ ۔

(۲؂ سبل الہدٰی والرشاد الباب الثالث دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۹۲ ۱۹۳)

سادساً : ہم اوپر بیان کر آئے کہ حضور کی رسالت زمانہ بعثت سے مخصوص نہیں بلکہ سب کو حاوی ۔ ترمذی جامع میں فائدہ تحسین واللفظ لہ ، اورحاکم وبیہقی وابو نعیم ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ۔ اور احمد مسند اوربخاری تاریخ میں ، اورابن سعد وحاکم وبیہقی وابونعیم میسرۃ الفجر ۳؂۔رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ۔ اوربزار وطبرانی ، ابو نعیم عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ اور ابونعیم بطریق صنالجی امیر المومنین عمر الفاروق لاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ، اورابن سعد ابن ابی الجد عاء ومطرف بن عبداللہ بن الشخیر وعامر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے باسانید متباینہ والفاظ متقاربہ راوی حضور پرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی گئی : “متی وجببت لک النبوۃ ” حضور کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہوئی ؟فرمایا : “واٰدم بین الروح والجسد”۴؂۔ جبکہ آدم درمیان روح اورجسد کے تھے ۔

(۳؂ التاریخ الکبیر ترجمہ ۱۶۰۶ میسرۃ الفجر دارالبازمکۃ المکرمۃ ۷ /۳۷۴)
( الجامع الصغیر حدیث۶۴۲۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۴۰۰)
(۴؂ جامع الترمذی کتاب المناقب باب فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ۲ /۲۰۱ )
(المستدرک للحاکم کتاب التاریخ دارالفکر بیروت ۲ /۶۰۹)
( کنزالعمال بحوالہ ابن سعد حدیث ۳۱۹۱۷و۳۲۱۱۷موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱ /۴۰۹ و ۴۵۰)

جبل الحفظ امام عسقلانی نے کتاب الاصابہ میں حدیثِ میسرہ کی نسبت فرمایا : سندہ، قوی ۱؂ (اس کی سند قوی ہے ۔ ت) ؂ع آدم ستر وتن بآب وگِل داشت کوحکم بملک جان جان ودل داشت (آدم علیہ السلام ابھی گارے کا مجسمہ تھے کہ آنحضرت کی حکومت دل وجان کی مملکت میں تھی ۔ ت)

(۱؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف المیم ترجمہ میسرۃ الفجر ۸۲۸۲ دارالفکر بیروت ۵/۲۱۷)

اسی لئے اکابر علماء تصریح فرماتے ہیں کہ جس کا خدا خالق ہے محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔
شیخ محقق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں: چو بود خلق آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اعظم الاخلاق بعث کر دخدائے تعالٰی اورابسوئے کافہ ناس ومقصور نہ گردانید رسالت اورابرناس بلکہ عام گردانید جن وانس را، بلکہ برجن وانس نیز مقسور نہ گردانید تا آنکہ عام شد تمامہ عالمین را، پس ہرکہ اللہ تعالٰی پروردگار اوست محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رسول اُوست۲؂۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیدائش تمام مخلوق سے اعظم ہے ۔ لہذا اللہ تعالٰی نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف مبعوث فرمایا ۔ آپ کی رسالت کو انسانوں میں منحصر نہیں فرمایا بلکہ جن وانس کے لیے عام کردیا بلکہ جن وانس میں بھی انحصار نہیں فرمایا یہاں تک کہ آپ کی رسالت تمام جہانوں کے لئے عام ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالٰی جس کا پروردگار ہے محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔ (ت)

(۲؂ مداراج النبوۃ باب دوم دراخلاق عظیمہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۴)

اب تو یہ دلیل اور بھی زیادہ عظیم وجلیل ہوگئی کہ ثابت ہوا جو نسبت انبیائے سابقین علیہم الصلٰوۃ والتسلیم سے خاص ایک بستی کے لوگوں کو ہوئی وہ نسبت اس سرکار عرش وقار سے ہرذرّہ مخلوق وہرفردماسوااللہ یہاں تک کہ خود حضرات انبیاء ومرسلین کو ہے ، اوررسول کا اپنی امت سے افضل ہونابدیہی ، والحمدللہ رب العٰلمین (اورسب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا ۔ ت)

آیت رابعہ : تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض منھم من کلم اللہ ورفع بعضھم درجٰت۱؂۔ چوتھی آیت : اللہ تعالٰی نے فرمایا : یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں بعض کو بعض پرفضیلت دی کچھ ان میں وہ ہیں جن سے خد ا نے کلام کیا ، اور ان میں بعض کو درجوں بلند فرمایا۔

(۱؂القرآ ن الکریم ۲ /۲۵۳)

ائمہ فرماتے ہیں یہاں اس بعض سے حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مراد ہیں کہ انہیں سب انبیاء پر رفعت وعظمت بخشی ۔ کما نص علیہ البغوی ۲؂ والبیضاوی۳؂ والنسفی ۴؂ والسیوطی والقسطلانی والزرقانی والشامی والحلبی وغیرہم واقتصار الجلالین ۵؂ دلیل انہ اصح الاقوال لالتزام ذٰلک فی الجلالین۔

جیسا کہ اس پر نص فرمائی ہے بغوی ، بیضاوی ، نسفی ، سیوطی ، قسطلانی ، زرقانی ، شامی اور حلبی وغیرہ نے ، اورجلالین میں اس پر اقتصار اس بات کی دلیل ہے کہ یہی اصح ہے کیونکہ جلالین میں اس کا التزام کیا گیا ہے (کہ اصح پر ہی اقتصار کیا جاتاہے ۔)(ت)

(۲؂معالم التنزیل (تفسیر البغوی) تحت الآیۃ ۲ /۲۵۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۷۷)
(۳؂ انوارالتنزیل (تفسیر البیضاوی )تحت الآیۃ ۲ /۲۵۳ دارالفکر بیروت ۱ /۵۴۹ ۵۵۰)
(۴؂مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) تحت الآیۃ ۲ /۲۵۳ دارالکتاب العربی بیروت ۱ /۱۲۷)
(۵؂ تفسیر جلالین تحت الآیۃ ۲ /۲۵۳ اصح المطابع دہلی ص۳۹)

اوریوں مبہم ذکر فرمانے میں حضور کے ظہور افضلیت وشہرتِ سیادت کی طرف اشارہ تامہ ہے ، یعنی یہ وہ ہیں کہ نام لو یا نہ لو انہی کی طرف ذہن جائے گا، اورکوئی دوسرا خیال نہ آئے گا ۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم ۔

فقیر کہتاہے اہل محبت جانتے ہیں کہ ابہامِ تام میں کیا لطف ومزہ ہے ۔ ع
اے گُل بتو خر سند تو بوئے کسے داری
(اے پھول۱ تجھ پر شادمانی ہے کہ تو کسی کی خوشبو رکھتاہے ۔ ت)
مژدہ اے دل کی مسیحا نفسے مے آید
کہ زانفاسخوشش بوئے کسے می آید
(اے دل !خوشخبری ہو کہ مسیحا آتا ہے ، جس کے عمدہ سانسوں سے کسی کوخوشبوآتی ہے ۔ ت)
ع کسی کا دو قدم چلنا یہاں پامال ہوجانا

آیت خامسہ : قال تبارک (عہ۱) اسمہ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق لیظھرہ، علی الدین کلہٖ ط وکفٰی باللہ شھیدا۱؂ ۔ پانچویں آیت : اللہ تعالٰی نے فرمایا : وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ہدایت اورسچا دین دے کر کہ اسے غالب کرے سب دینوں پر ۔اورخدا کافی ہے گواہ ۔

(۱؂ القرآن الکریم ۴۸ /۲۸)

عہ ۱ : حاشیہ ، استدل الامام ابن سبع بھٰذہ الاٰیۃ علی ان شرعنا ناسخ الشرائع کما ذکرہ فی الخصائص الکبری ۳؂ فافاد ان الدین فی الاٰیۃ علی عمومہ الحقیقی شامل الادیان الحقۃ السابقۃ غیر مختص بادیان الکفار الموجودۃ فی زمن الاسلام فتم لکلام ۱۲منہ۔

امام ابن سبع نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا کہ ہماری شریعت تمام شریعتوں کیلئے ناسخ ہے جیسا کہ امام سیوطی نے خصائص کبرٰی میں اس کو ذکر فرمایا اوریہ افادہ کیا کہ اس اایت میں دین اپنے حقیقی عموم پرہے جو سابقہ تمام ادیان حقہ کو شامل ہے اورزمانہ اسلام میں پائے جانے والے ادیان کفار کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ لام پورا ہوا منہ (ت)

(۳؂ الخصائص الکبری باب اختصاصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الخ مرکز اہل سنت برکات رضا گجرات ہند ۲ /۱۸۷)

اوراس امت مرحومہ سے فرماتاہے : کنتم خیر(عہ۲) امۃ اخرجت للناس ۲؂۔ تم سب سے بہتر امت ہوکہ لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ۔

(۲؂ القرآن الکریم ۳ /۱۱۰)

عہ ۲ : استدل بھذہ الایۃ الرازی و التفتازانی و القسطلانی و ابن حجر المکی و غیر ہم و العبد الضعیف ضم الیھا الایۃ الاولی فسلمت من الجدال کما یعرفہ المتأمل ۱۲ منہ۔

اس آیت کریمہ سے امام الرازی ،تفتازانی ،قسطلانی اور ابن حجر مکی وغیرہ نے استدلال کیا اور عبد ضعیف نے اس کے ساتھ پہلی آیت کو ملایا تو یہ جدال سے سلامت ہوئی جیساکہ غور کرنے والا جانتا ہے ۔۱۲منہ

آیات کریمہ ناطق کہ حضور کا دین تمام ادیان سے اعلی و اکمل اور حضور کی امت سب امم سے بہتر و افضل ، تو لاجرم اس دین کا صاحب اور اس امت کا آقا سب دین و امت و الوں سے افضل و اعلٰی امام احمد وترمذی بافادہ تحسین وابن ماجہ وحاکم معاویہ بن حیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضورسید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و سلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : انکم تتمون سبعین امۃ انتم خیرھا و اکرمھا علی اللہ ۱؂۔ تم ستر امتوں کو پورا کرتے ہو کہ اللہ کے نزدیک ان سب سے بہتر و بزرگ تر تم ہو ۔

(۱؂جامع الترمذی ابواب التفسیر تحت الایۃ ۳ /۱۱۰ آمین کمپنی دہلی ۲ /۱۲۵)
( مسند امام احمد حنبل عن ابی سعید الخدری المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۶۱ )
(کنزالعمال حدیث ۳۴۴۶۳ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۵۶ ۱۶۹)

آیت سادسہ : قال جلت عظمتہ : یٰا دم اسکن انت و زوجک الجنۃ ۲؂۔

چھٹی آیت : اللہ تعالی نے فرمایا اے آدم !تو اور تیری بیوی جنت میں رہو ۔(ت)

(۲؂ القرآن الکریم ۲/ ۳۵ )

وقال تعالی یا نوح اھبط بسلام منا۳؂۔

اور اللہ تعالی نے فرمایا اے نوح کشتی سے اتر ہماری طرف سے سلام ۔

(۳؂القرآن الکریم ۱۱/ ۴۸)

وقال تعالی : یا ابراھیم قد صدقت الرؤیا۴؂ ۔

اور اللہ تعالی نے فرمایا اے ابراہیم بے شک تو نے خواب سچ کر دکھایا ۔

(۴؂القرآن الکریم ۳۷/ ۱۰۵ )

وقال تعالی یموسی انی انا اللہ۵؂ ۔

اور اللہ تعالی نے فرمایا بے شک میں ہی ہوں اللہ (ت)۔

(۵؂ القرآن الکریم۲۸ /۳۰ )

وقال تعالی یٰعیسٰی اِنِّی مُتَوفِّیک۶؂۔

اور اللہ تعالی نے فرمایا اے عیسی میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا۔ (ت)

(۶؂ القرآن الکریم۳/ ۵۵)

وقال تعالی یاداؤد انا جعلنک خلیفۃ۷؂۔

اور اللہ تعالی نے فرمایا اے داؤد بے شک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا۔(ت)

(۷؂ القرآن الکریم ۳۸ /۲۶)

وقال تعالی یا زکریا انا نبشرک۱؂

اور اللہ تعالی نے فرمایا اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں۔(ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۱۹ /۷)

وقال تعالی یایحیی خذ الکتاب بقوۃ۲؂ ۔

اور اللہ تعالی نے فرمایا اے یحیی کتاب مضبوط تھام ۔(ت)

(۲؂القرآن الکریم۹ /۱۲)

غرض قرآن عظیم کا عام محاورہ ہے کہ تمام انبیائے کرام کو نام لے کر پکارتا ہے مگر جہاں محمد رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے خطاب فرمایا ہےحضور کے اوصاف جلیلہ و القاب حمیدہ ہی سے یادکیا ہے یٰا یھا النبی انا ارسلنک ۳؂۔

اے نبی ہم نے تجھے رسول کیا۔

(۳؂ القرآن الکریم ۳۳/ ۴۵)

یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک۴؂۔

اے رسول پہنچا جو تیری طرف اترا ۔

(۴؂ القرآن الکریم ۵/ ۶۷)

یا یھا المزملoقم الیل۵؂۔

اے کپڑا اوڑھے لیٹنے والے رات میں قیام فرما۔

(۵؂ القرآن الکریم۷۳ /۱ و۲)

یایھا المدثر oقم فانذر ۶؂۔

اے جھرمٹ مارنے والے کھڑا ہو ،لوگوں کو ڈر سنا۔

(۶؂ القرآن الکریم۷۴/ ۱ و ۲)

یٰسo و القرآن الحکیم oانک لمن المرسلین ۷؂۔

اے یٰس یا اے سردار مجھے قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک تو مرسلوں سے ہے ۔

(۷؂ القرآن الکریم۳۶ /۱تا۳ )

طہ oماانزلنا علیک القرآن لتشقی۸؂۔

اے طہ! یا اے پاکیزہ رہنما ! ہم نے تجھ پر قرآن اس لیے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑے ۔

(۸؂ القرآن الکریم۲۰ / ۱ و ۲ )

ہر ذی عقل جانتا ہے کہ جو ان نداؤں اور ان خطابوں کو سنے گا بالبداہت حضور سید المرسلین و انبیائے سابقین کا فرق جان لے گا ع
یا دم ست با پدر انبیاء خطاب
یایھا النبی خطاب محمد است
(”اے آدم!” نبیوں کے باپ کے لیے خطاب ہے ۔اور محمد مصطفٰی صلی تعالی علیہ وسلم کے لیے خطاب ہے۔ ”اے نبی” ۔ت )

امام عزالدین بن عبد السلام وغیرہ علمائے کرام فرماتے ہیں بادشاہ جب اپنے تمام امرا کو نام لےکر پکارے اور ان میں خاص ایک مقرب کو یوں ندا فرمایا کرے اے مقرب حضرت اے نائب سلطنت ،اے صاحب عزت ،اے سردار مملکت ___تو کیا کسی طرح محل ریب وشک باقی رہے گا کہ یہ بندہ بارگاہ سلطانی میں سب سے زیادہ عزت و وجاہت والا اور سرکار سلطانی کو تمام عمائد و ارکین سے بڑھ کر پیارا ہے فقیر کہتا ہے غفراللہ تعالی لہ ،خصوصا یا یھا المزمل۱؂،

اے کپڑا اوڑھے لیٹنے والے۔(ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۷۳ /۱ )

ویٰایھا المدثر۲؂ ۔

اے جھرمٹ مارنے والے ۔(ت)

(۲؂ القرآن الکریم ۷۴ /۱)

تووہ پیارے خطاب ہیں جن کا مزہ اہل محبت جانتے ہیں ان آیتو ں کے نزول کے وقت سید عالم صلی تعالی علیہ وسلم بالا پوش اوڑھے ،جھرمٹ مارے لیٹے تھے ،اسی وضع و حالت سے حضور کو یاد فرما کر ندا کی گئی ،بلا تشبیہ جس طرح سچا چاہنے ولا اپنے پیارے محبوب کو پکارے :او بانکی ٹوپی والے ،او دھانی دوپٹے والے ع
او دامن اٹھا کے جانے والے فسبحان اللہ و الحمد و الصلواۃ الزھراء علی الحبیب ذی الجاہ ۔ اللہ تعالی کو پاکی ہے اور تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں اور روشن درود وجاہت والے محبوب پر ۔( ت)

ثم اقول (پھر میں کہتا ہوں ۔ت)نہایت یہ ہے کہ اشقیائے یہود مدینہ و مشرکین مکہ جو حضور سے جاہلانہ گفتگو میں کرتے ۔ان مقالات خبیثہ کو بغرض رد و ابطال و مژدہ رسانی عذاب و نکال بار ہا نقل فرمایا گیا مگر ان گستاخوں کی اس بے ادبانہ ندا کا کہ نام لے کر حضور کو پکارتے ۔محل نقل میں ذکر نہ آیا ۔ہاں جہاں انھوں نے وصف کریم سے ندا کی تھی ،اگرچہ ان کے زعم میں بطور استہزا تھی ،اسے قرآن مجید نقل کر لایا کہ : قالو ا یٰایھا الذی نزل علیہ الذکر۳؂۔

بولے اے وہ جس پر قرآن اترا ۔صلی اللہ تعالی علیہ وسلم،

(۳؂ القرآن الکریم ۷۳ /۱)

بخلاف حضرات انبیائے سابقین علیہم الصلواۃ و التسلیم کہ ان کے کفار کے مخاطبے ویسے ہی منقول ہیں ۔ یانوح قد جادلتنا۴؂ ،

اے نوح تم ہم سے جھگڑے ،

(۴؂ القرآن الکریم ۱۱ /۳۲)

ء انت فعلت یاھذا بالھتنا یا ابراھیم ۱؂۔

کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا اے ابراہیم!

(۱؂القرآن الکریم ۲۱ /۶۲)

یاموسی ادع لنا ربک بما عھد عندک۲؂ ۔

اے موسی ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے ۔

(۲؂ القرآن الکریم ۷ /۱۳۴)

یاصالح ائتنا بما تعدنا۳؂۔

اے صالح ہم پر لے آو جس تم وعدہ دے رہے ہو ۔

(۳؂القرآن الکریم ۷ /۷۷)

یا شعیب ما نفقہ کثیرا مما تقول۳؂۔

اے شعیب ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں (ت)

(۴؂القرآن الکریم ۱۱ /۹۱)

بلکہ اس زمانہ کے مطیعین بھی انبیاء علیہم الصلواۃ و التسلیم سے یونہی خطاب کرتے ہیں اور قرآن عظیم نے اسی طرح نقل فرمائی ،
اسباط نے کہا : یٰموسی لن نصبر علی طعام واحد ۵؂۔

اے موسٰی !ہم سے تو ایک کھانے پر ہرگز صبر نہ ہوگا۔

(۵؂ القرآن الکریم ۲ /۶۱)

حواریوں نے کہا : یعسی ابن مریم ھل یستطیع ربک۶؂۔

اے عیسٰی بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا ۔ (ت)

(۶؂ القرآن الکریم ۵ /۱۱۲)

یہاں اس کا یہ بندوبست فرمایاکہ اس امت مرحومہ پر اس نبی کریم علیہ افضل الصلٰوۃ والتسلیم کا نام پاک لے کر خطاب کرنا ہی حرام ٹھہرایا:

قال اللہ تعالٰی : لاتجعلواددعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا۷؂۔

اللہ تعالٰی نے فرمایا: رسول کا پکارنا آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔

(۷؂القرآن الکریم ۲۴/ ۶۳)

کہ اے زید،اے عمرو۔ بلکہ یوں عرض کرو : یارسول اللہ ، یانبی اللہ ، یا سدی المرسلین، یا خاتم النبیین ، یاشفیع المذنبین، صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم وعلٰی اٰلک اجمعین۔

ابو نعیم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں راوی : قال کانوا یقولون یا محمد یا اباالقاسم فنھٰھم اللہ عن ذٰلک اعظاماً لنبیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، فقالوایا نبی اللہ ، یا رسول اللہ۱؂ ۔

یعنی پہلے حضور کو یا محمد یا ابالقاسم کہا جاتا اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کی تعظیم کو اس سے نہی فرمائی ، جب سے صحابہ کرام یا نبی اللہ ، یا رسول اللہ کہا کرتے ۔

(۱؂ دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الاول عالم الکتب بیروت الجزء الاول ص۷)
( الدرالمنثور تحت الآیۃ ۲۴ /۶۳ داراحیاء التراث العربی بیروت ۶ /۲۱۱)

بیہقی امام علقمہ وامام اسود اورابو نعیم امام حسن بصری وامام سعید بن جبیر سے تفسیر کریمہ مذکورہ میں راوی : لاتقولوا یا محمد ولٰکن قولوا یا رسول اللہ ، یا نبی اللہ ۲؂ ۔ یعنی اللہ تعالٰی فرماتاہے : یا محمد نہ کہو بلکہ یا نبی اللہ ، یارسول اللہ کہو۔

(۲؂ تفسیر الحسن البصری تحت الآیۃ ۲۴ /۶۳ المکتبۃ التجاریۃ مکۃ المکرمۃ ۲ /۱۶۴)
( الدرالمنثوربحوالہ عبدبن حمید عن سعید بن جبیر والحسن تحت الآیۃ ۲۴ /۶۳ داراحیاء التراث العربی بیروت ۶ /۲۱۱)

اسی طرح امام قتادہ تلمیذ انس بن مالک سے روایت کی ، رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔
ولہذا علماء تصریح فرماتے ہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نام لے کر نداکرنی حرام ہے ۔
اورواقعی محل انصاف ہے جسے اس کا مالک ومولٰی تبارک وتعالٰی نام لے کر نہ پکارے غلام کی کیا مجال کہ راہِ ادب سے تجاوز کرے بلکہ امام زین الدین مراغی وغیرہ محققین نے فرمایا : گریہ لفظ کسی دعاء میں وارد ہوجو خود نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی جیسے دعائے یا محمد انی توجھت بک الی ربی۳؂۔ اے محمد!میں آپ کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا۔( ت)

(۳؂ المستدرک للحاکم کتاب صلٰوۃ التطوع دعاء ردالبصر دارالفکر بیروت ۱ /۳۱۳ ۵۱۹ ۵۲۶)
( سنن ابن ماجۃ کتاب اقامۃ الصلٰوۃ باب ماجاء فی حاجۃ الصلٰوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۰۰)

تاہم اس کی جگہ یارسول اللہ ، یا نبی اللہ چاہیے ، حالانکہ الفاظ دعاء میں حتی الوسع تغییر نہیں کی جاتی ۔ کما یدل علیہ حدیث نبیک الذی ارسلت ورسولک الذی ارسلت (جیسا کہ اس پر دلالت کرتی ہے حدیث مبارک ”تیرا نبی جس کو تُو نے بھیجا اورتیرا رسول جس کو تو نے بھیجا”ت)

یہ مسئلہ مہمّہ جس سے اکثر اہل زمانہ غافل ہیں نہایت واجب الحفظ ہے ۔ فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے اس کی تفصیل اپنے مجموعہ فتاوٰی مسمّٰی بہ العطایاالنبویہ فی الفتاوی الرضویہ میں ذکر کی۔وباللہ التوفیق ۔ خیر یہ تو خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا معاملہ تھا ۔ حضور کے صد قہ میں اس امت مرحومہ کا خطاب بھی خطابِ امم سابقہ سے ممتازٹھہرا ۔ اگلی امتوں کو اللہ تعالٰی یا ایھا المساکین۱؂۔

فرمایا کرتا۔

(۱؂نسیم الریاض الباب الاول الفصل الثالث مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۸۸)

توریت مقدس میں جابجا یہی لفظ ارشاد ہوا ہے ، قالہ خیثمۃ رواہ ابن ابی حاتم اوردہ السیوطی فی الخصائص الکبرٰی (یہ خیثمہ نے کہا جس کو ابن ابی حاتم نے روایت کیا اورامام سیوطی نے خصائص کبری مین وارد کیا ہے ۔ت)

اوراس مت مرحومہ کو جب ندافرمائی ہے یٰایھالذین اٰمنوا۲؂

فرمایاگیا ہے ، یعنی اے ایمان والو!امتی کے لیے اس سے زیادہ اورکیا فضیلت ہوگی ۔

(۲؂القرآن الکریم ۲ /۱۸۳)

سچ ہے پیارے کے علاقہ والے بھی پیارے ۔ آخر نہ سنا کہ فرماتاہے : فاتبعونی یحببکم اللہ۳؂ ۔

میری پیروی کرو اللہ کے محبوب ہوجاؤ گے ۔

(۳؂ القرآن الکریم ۳ /۳۱)

آیت سابعہ : قال جل جلالہ

لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون ۴؂۔

ساتویں آیت : حق جل جلالہ اپنے حبیب کریم علیہ افضل الصلٰو ۃ والتسلیم سے فرماتا ہے : تیری جان کی قسم وہ کافر اپنے نشے میں اندھے ہورہے ہیں ۔

(۴؂ القرآن الکریم ۱۵ / ۷۲)

وقال تعالٰی :

لا اقسم بھٰذا البلد o وانت حل بھٰذا لبلد o ۵؂ ۔

اوراللہ تعالٰی نے فرمایا : میں قسم یاد کرتاہوں اس شہر کی کہ تو اس میں جلوہ فرماہے ۔

(۵؂ القرآن الکریم ۹۰ / ۱ و ۲)

وقال تعالی(عہ۱) :

وقیلہ یرب ان ھؤلاء قوم لا یؤمنون ۱؂۔

اور اللہ تعالٰی نے فرمایا : مجھے قسم ہے رسول کے اس کہنے کی کہ اے رب میرے ! یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ،

(۱؂ القرآن الکریم ۴۳/ ۸۸)

عہ ۱: قلت اغفل الامام القسطلانی ھذہ الآیۃ فی المواھب وقد سوغ فیھا ھذا المعنی الامام النسفی فی المدارک ۱۲ منہ۔

میں کہتاہوں امام قسطلانی نے مواہب میں اس کی طرف توجہ نہ فرمائی جبکہ تفسیر مدارک میں امام نسفی نے اس آیہ کریمہ میں اس معنی کو روا رکھا ۱۲منہ (ت)۔

قال تعالی : و العصر۲؂۔

اور اللہ تعالی نے فرمایا قسم زمان برکت نشان محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی۔

(۲؂ القرآن الکریم ۱۰۳/ ۱)

اے مسلمان ! یہ مرتبہ جلیلہ اس جان محبوبیت کے سو ا کسے میسر ہوا کہ قرآن عظیم نے ان کے شہرکی قسم کھائی ،ان کی باتوں کی قسم کھائی ،ان کے زمانے کی قسم کھائی ،ان کی جان کی قسم کھائی ،صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہاں اے مسلمان !محبوبیت کبری کے یہی معنی ہیں والحمد للہ رب العالمین۔ (اور سب تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا ۔ت)

ابن مردویہ اپنی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں :

ما حلف اللہ بحیاۃ احد الا بحیاۃ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال تعالی :

لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون o

و حیاتک یا محمد۳؂۔

یعنی اللہ تعالی نے کبھی کسی کی زندگی کہ قسم یاد نہ فرمائی سوائے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے کہ آیہ :

لعمرک میں فرمایا تیری جان کی قسم اے محمد(عہ۲)۔

عہ ۲: ذکر ھذہ التاویل فی التفسیر الکبیر ثم القاضی البیضاوی فی تفسیرہ و تبعھما القسطلانی و اقرہ الزرقانی ۱۲ منہ۔

اس تاویل کو (امام رازی نے) تفسیر کبیر میں پھر قاضی بیضاوی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا امام قسطلانی نے ان کی اتباع کی اور زرقانی نے اس کو برقرار رکھا ۔ت )

(۳؂ الدر المنثور بحوالہ ابن مردویہ تحت الایہ ۱۵ /۷۲ دار احیاء التراث العربی بیروت ۵ /۸۰)

ابو یعلی ،ابن جریر ،ابن مردویہ ،ابن بیہقی ،ابو نعیم ،ابن عساکر ،بغوی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی:

ماخلق اللہ وما ذراء وما براء نفسا اکرم علیہ من محمد صلی اللہ تعالی علیہ و سلم وما حلف اللہ بحیاۃ احد الا بحیاۃ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون ۱؂۔

(۱؂ الدر المنثور بحوالہ ابی یعلی و ابن جریر و ابن مردویہ و البیہقی تحت الآیہ ۱۵ /۷۲ بیروت ۵ /۸۰)

(جامع البیان تحت الآیہ ۱۵ /۷۲ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱۴ /۵۴ ۵۵)

(دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الرابع عالم الکتب بیروت الجز الاول ص۱۲ )

اللہ تعالی نے ایسا کوئی نہ بنایا ،نہ پیدا کیا ،نہ آفرینش فرمایا جو اسے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے زیادہ عزیز ہو ،نہ کبھی ان کی جان کے سوا کسی کی جان کی قسم یاد فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے مجھے تیری جان کی قسم وہ کافر اپنی مستی میں بہک رہے ہیں ۔

امام حجۃ الاسلام (عہ۱) محمد غزالی احیاء العلوم اور امام محمد بن الحاج عبدری مکی مدخل اورامام احمد محمد خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ اور علامہ شہاب الدین خفاجی نسیم الریاض میں ناقل حضرت امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ایک حدیث طویل میں حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کرتے ہیں :

بابی انت وامی یا رسول اللہ لقد بلغ من فضیلتک عند اللہ تعالی ان اقسم بحیاتک دون سائر الانبیاء ولقد بلغ من فضیلتک عندہ ان اقسم بتراب قدمیک فقال :

لا اقسم بھذالبلد ۱؂۔

یارسول اللہ !میرے ماں باپ حضور پر قربان بیشک حضور کی بزرگی خدا تعالی کے نزدیک اس حد کو پہنچی کہ حضور کی زندگی کی قسم یاد فرمائی ،نہ باقی انبیاء علیہ الصلواہ و السلام کی ۔اور تحقیق حضور کی فضلیت خدا کے یہاں اس نہایت کی ٹھہری کہ حضور کی خاک پاک کی قسم یاد فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے مجھے قسم اس شہر کی ۔(ت)

(۱؂المواھب اللدنیہ المقصد السادس النوع الخامس الفصل الخامس المکتبہ الاسلامی بیروت ۳ /۲۱۵)

(نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض الباب الاول الفصل الاول الفصل الرابع مرکز اہلسنت ہند ۱/ ۱۹۶)

عہ۱ : ذکرہ فی احیاء والمدخل بطولہ وفی المواھب والنسیم کلمات منہ ،و کذا الامام القاضی عیاض فی الشفاء و عزاہ الامام الجلال السیوطی فی مناھل الصفاصاحب اقتباس الانوار ولابن الحاج فی مدخلہ قال وکفی بذلک سند المثلہ فانہ لیس مما یتعلق بہ الاحکام اھ و ذکرہ فی النسیم۲؂۔

اس کو احیاء العلوم اور مدخل میں مفصل ذکر کیا ہے جبکہ مواہب و نسیم میں اس سے کلمات ذکر کیے گئے ہیں ۔اور یونہی امام قاضی عیاض نے شفاء میں ذکر فرمایا ۔امام سیوطی نے اس کو مناہل صفاء صاحب اقتباس الانوار کی طرف منسوب کیا ۔ابن الحاج نے اپنی کتاب مدخل میں کہا کہ اس کی مثل کے لیے یہ سند کافی ہے کیونکہ اس کے ساتھ شرعی احکام متعلق نہیں ہوتے اھ اور اس کو نسیم میں ذکر کیا ہے ۔

(۲؂نسیم الریاض فی شرح ش فاء القاضی العیاض الفصل السابع مرکز اھل السنت گجرات ہند ۱ /۲۴۸)

اقول : وھو کلام نفیس طویل جلیل رثی بہ امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالی عنہ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حین تحقق لہ موتہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بخطبۃ ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کما یظہر بمراجعۃ الحدیث بطولہ فماوقع فی شرح المواھب للعلامۃ الزرقانی فی المقصد السادس تحت آیۃ

لااقسم بھذا البلد

ان عمر رضی اللہ تعالی عنہ قال لنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم واقرہ علیہ ۱؂ اھ سہو ینبغی التنبیہ لہ ۱۲ منہ ۔

اقول : میں کہتا ہوں وہ طویل و نفیس کلام ہے جس کے ساتھ امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا مرثیہ کہا جبکہ ان کے لیے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے خطبہ سے آپ کی موت ثابت ہوگئی جیساکہ طویل حدیث کی طرف رجوع کرنے سے ظاہر ہوتا ہے ۔چنانچہ علامہ زرقانی کی شرح مواہب کے مقصد سادس میں آیت کریمہ

لا اقسم بھذا البلد

کے تحت جو واقع ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لیے کہی اور آپ نے اس کو برقرار رکھا اھ سہو ہے جس پر متنبہ کرنا چاہیے ۱۲منہ)

(۱؂ شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ المقصد السادس النوع الخامس الفصل الخامس المکتبہ الاسلامی بیروت ۶ /۲۳۴)

شیخ محقق رحمہ اللہ تعالی مدارج میں فرماتے ہیں :

ایں لفظ در ظاہر نظر سخت مے در آید نسبت بجناب عزت چوں گویند کہ سو گندمے خورد بخاکپائے حضرت رسالت و نظر بحقیقت معنی صاف و پاک است کہ غبارے نیست برآں تحقیق ایں سخن آنست کہ سو گند خوردن حضرت رب العزت جل جلالہ بچیزے غیر ذات و صفات خود برائےاظہارِ شرف وفضیلت و تمیز آں چیز است نزد مردم و نسبت بایشاں تا بدانند کہ آں امر عظیم وشریف است ،نہ آنکہ اعظم است نسبت بوئے تعالٰی الخ ۲؂۔

یہ لفظ ظاہری نظر میں اللہ تعالی رب العزت کی طرف نسبت کرنے میں سخت ہیں ۔جب یوں کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت رسالت مآب کی خاک پا کی قسم ارشاد فرماتا ہے اور نظر حقیقت میں معنی بالکل پاک و صاف ہے کہ اس پر غبار نہیں اس کی تحقیق یہ ہے کہ اللہ رب العزت کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی چیز کی قسم یاد فرمانا اس لیے ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک لوگوں کہ بنسبت اس چیز کا شرف ،فضلیت اور ممتاز ہونا ظاہر ہو جائے تاکہ وہ جان لیں کہ یہ چیز عظمت وشرف والی ہے ۔یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ چیز اللہ تعالی کی نسبت اعظم ہے الخ (ت)

(۲؂مدارج النبوۃ باب سوم دربیان فضل وشرافت مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۶۵)

آیت ثامنہ (آٹھویں آیت ): قرآن عظیم میں جا بجا حضرات انبیاء علیہم الصلواۃ والثناء سے کفار کی جاہلانہ جدال مذکور جس کے مطالعہ ظاہر کہ وہ اشقیاء طرح طرح سے حضرات انبیاء میں سخت کلامی و بیہودہ گوئی کرتے اور حضرات رسل علیہ الصلواۃ و السلام اپنے حلم و عظیم و فضل کریم کے لائق جواب دیتے ۔

سیدنا نوح علیہ الصلواۃ والسلام سے ان کی قوم نے کہا : انا لنراک فی ضلال مبین۳؂، بیشک ہم تمھیں کھلا گمراہ سمجھتے ہیں ۔

(۳؂القران الکریم ۷ /۶۰)

فرمایا : یاقوم لیس بی ضلالۃ و لکنی رسول من رب العلمین۱؂۔ اے میری قوم !مجھے گمراہی سے کچھ علاقہ نہیں میں تو رسول پروردگار عالم کی طرف سے ۔

(۱؂القران الکریم ۷ /۶۱ا)

سیدنا ہود علیہ الصلواۃ و السلام سے عاد نے کہا : انالنرک فی سفاھۃ و انا لنظمنک من الکذبین ۲؂۔ یقینا ہم تمھیں حماقت میں خیال کرتے ہیں ،اور ہمارے گمان میں تم بے شک جھوٹے ہو ۔

(۲؂القران الکریم ۷ /۶۶)

فرمایا : یاقوم لیس بی سفاھۃ و لکنی رسول من رب العلمین۳؂۔ اے میری قوم !مجھ میں اصلا سفاہت نہیں ،میں تو پیغمبر ہوں رب العلمین کا ۔

(۳؂القران الکریم ۷ /۶۷)

سیدنا شعیب علیہ الصلواۃ والسلام سے مدین نے کہا : انا لنرک فینا ضعیفا ج ولو لا رھطک لرجمنک وما انت علینا بعزیز۴؂ ہم تمھیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں ۔اور اگر تمھارے ساتھ کے یہ چند آدمی نہ ہوتے تو ہم تمھیں پتھروں سے مارتے ،اور کچھ تم ہماری نگاہ میں عزت والے نہیں ۔

(۴؂القران الکریم ۱۱ /۹۱)

فرمایا : یاقوم ارھطی اعزعلیکم من اللہ و اتخذتموہ وراء کم ظہریا۵؂۔ اے میری قوم !کیا میرے کنبے کے یہ معدود لوگ تمھارے نزدیک اللہ سے زیادہ زبردست ہیں اور اسے تم بالکل بھلائے بیٹھے ہو ۔

(۵؂القران الکریم ۱۱ /۹۲)

سیدنا موسی علیہ الصلواۃ والسلام سے فرعون نے کہا : انی لاظنک یاموسی مسحورا۶؂ میرے گمان میں تو اے موسی !تم پر جادو ہوا ۔

(۶؂القران الکریم ۱۷ /۱۰۱)

فرمایا : لقد علمت ما انزل ھولاء الا رب السموات و الارض بصائر ج وانی لا ظنک یافرعون مثبورا ۱؂۔ تو خوب جانتا ہے کہ انھیں نہ اتارا مگر آسمان و زمین کے مالک نے دلوں کی آنکھیں کھولنے کو ،اور میرے یقین میں تو اے فرعون ! تو ہلاک ہونے والا ہے ۔

(۱؂ القران الکریم ۱۷ /۱۰۲)

مگر حضور سید المرسلین افضل المحبوبین محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین کی خدمت والا میں کفار نے جو زبان درازی کی ہے ملک السموات و الارض جل جلالہ خود متکفل جواب ہوا ہے ،اور محبوب اکرم مطلوب اعظم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف سے آپ مدافعہ فرمایا ہے ۔طرح طرح حضور کی تنزیہ و تبریت ارشاد فرمائی ۔جابجا رفع الزام اعدائے ایام پر قسم یاد فرمائی ،یہاں تک کہ غنی مغنی عزمجدہ نے ہر جواب خطاب سے حضور کو غنی کر دیا،اور اللہ تعالی کا جواب دینا حضور کے خود جواب دینے سے بدرجہا حضور کے لیے بہتر ہوا۔اور یہ وہ مرتبہ عظمٰی ہے کہ نہایت نہیں رکھتا۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ط واللہ ذوالفضل العظیم۲؂ (یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطافرماتاہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ت )

(۲؂القرآن الکریم ۵ /۵۴)

(۱)کفار نے کہا : یاایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون۳؂ اے وہ جن پر قرآن اترا ،بیشک تم مجنون ہو۔

(۳؂القران الکریم ۱۵ /۶)

حق جل وعلا نے فرمایا : ن o والقلم وما یسطرون o ما انت بنعمۃ ربک بمجنون۴؂ قسم قلم اور نوشتہائے ملائک کی تو اپنے رب کے فضل سے ہرگز مجنون نہیں ۔

(۴؂ القرآن الکریم ۶۸ /۱ و ۲)

وان لک لاجراغیر ممنون۵؂ اور بے شکتیرے لیے اجر بے پایا ہے ۔

(۵؂القرآن الکریم ۶۸ /۳)

کہ تو ان دیوانوں کی بدزبانی پر صبر کرتا اور حلم وکرم سے پیش آتا ہے ۔مجنون تو چلتی ہوا سے الجھا کرتے ہیں ، تیرا سا حلم وصبر کوئی تمام عالم کے عقلاء میں تو بتادے ۔ وانک لعلی خلق عظیم ۶؂ اور بے شک تو بڑے عظمت والے ادب تہذیب پر ہے ۔

(۶؂القرآن الکریم ۶۸ /۴)

کہ ایک حلم وصبر کیا تیری خصلت ہے اس درجہ عظیم وباشوکت ہے کہ اخلاق عاقلان جہان مجتمع ہو کر اس کے ایک شمہ کو نہیں پہنچتے ۔پھر اس سے بڑھ کراندھا کون جو تجھے ایسے لفظ سے یاد کرے ،مگر یہ ان کا اندھا پن بھی چند روز کا ہے ۔ فستبصرو یبصرون o بایکم المفتون۱؂

(۱؂القران الکریم ۶۸/ ۵ و ۶)

عنقریب تو بھی دیکھے گا اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کسے جنون ہے ۔
آج اپنی بے خردی و دیوانگی وکور باطنی سے جو چاہیں کہہ لیں ،آنکھیں کھلنے کا دن قریب آتا ہے ،اور دوست ودشمن سب پر کھلا چاہتا ہے کہ مجنون کون تھا ۔

(۲) وحی اترنے میں جو کچھ دنوں دیر لگی کافر بولے : ان محمد ا ودعہ ربہ وقلاہ ۲؂ ۔ بیشک محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ان کے رب نے چھوڑدیا ،اور دشمن پکڑا ۔

(۲؂معالم التنزیل (تفسیر البغوی )تحت الآیۃ ۹۳ /۴۶۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴/ ۴۶۵)

حق جل وعلا نے فرمایا : والضحی o والیل اذا سجی۳؂۔ قسم ہے دن چڑھے کی ،اور قسم رات کی جب اندھیری ڈالے ۔

(۳؂ القرآن العظیم ۹۳ /۱ و ۲)

یاقسم اے محبوب تیرے روئے روشن کی ،اور قسم تیری زلف کی جب چمکتے رخساروں پر بکھر آئے ۔ : ما ودّعک ربک وما قلی۴؂۔ نہ تجھے تیرے رب نے چھوڑا اورنہ دشمن بنایا ۔

(۴؂ القرآن العظیم ۹۳ /۳)

اوریہ اشقیاء بھی دل میں خوب سمجھتے ہیں کہ خدا کی تجھ پر کیسی مہر ہے ،اس مہر ہی کو دیکھ دیکھ کر جلے جاتے ہیں ،اور حسد وعناد سے یہ طوفان جوڑتے ہیں اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں مگر خبر نہیں کہ : وللاخرۃ خیرلک من الاولی۵؂ بے شک آخرت تیرے لیے دنیا سے بہتر ہے ۔

(۵؂ القرآن العظیم ۹۳ /۴)

وہاں جو نعمتیں تجھ کو ملیں گی نہ آنکھوں نے دیکھیں ،نہ کانوں نے سنیں ،نہ کسی بشر یا ملک کے خطرے میں آئیں ،جن کا اجمال یہ ہے : ولسوف یعطیک ربک فترضی۱؂ قریب ہے تجھے تیرا رب اتنا دے گا کہ تو راضی ہوجائے گا ۔

(۱؂ القرآن العظیم ۹۳/ ۵)

اس دن دوست دشمن سب پرکھل جائے گا کہ تیرے برابر کوئی محبوب نہ تھا ۔خیر ،اگر آج یہ اندھے آخرت کا یقین نہیں رکھتے تو تجھ پر خدا کی عظیم ،جلیل ،کثیر ،جزیل نعمتیں رحمتیں آج کی تو نہیں قدیم ہی سے ہیں ۔کیا تیرے پہلے احوال انھوں نے نہ دیکھے اور ان سے یقین حاصل نہ کیا کہ جو نظر عنایت تجھ پر ہے ایسی نہیں کہ کبھی بدل جائے ، الم یجد ک یتیمافاوی الی اخرالسورۃ۲؂ کیا اس نے تمھیں یتیم نہ پایا پھر جگہ دی (سورت کے اخر تک ۔ت)

(۲؂القرآن العظیم ۹۳ /۶)

(۳) کفار نے کہا : لست مرسلا ۳؂۔

تم رسول نہیں ہو ۔

(۳؂القرآن العظیم ۱۳ /۴۳)

حق جل وعلا نے فرمایا : یٰس ط والقران الحکیم انک لمن المرسلین۴؂

اے سردار !مجھے قسم ہے حکمت والے قرآن کی تو بیشک مرسل ہے ۔

(۴؂القرآن العظیم ۳۶ /۱تا ۳)

(۴)کفار نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو شاعری کا عیب لگایا ۔

حق جل وعلانے فرمایا : وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ۵؂ ط ان ھو الا ذکر وقرآن مبین۶؂

(۵؂و۶؂ القرآن العظیم ۳۶ /۶۹)

نہ ہم نے انھیں شعر سکھایا اور نہ وہ ان کے لائق تھا ۔وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن بیان والا قرآن۔

(۵) منافقین حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتے اور ان میں کوئی کہتا ایسا نہ ہو کہیں ان تک خبر پہنچے ۔کہتے : پہنچے گی تو کیا ہوگا ،ہم سے پوچھیں گے ہم مکر جائیں گے ،قسمیں کھا لیں گے ،انھیں یقین آجائے گا ،کہ ھو اذن۷؂ وہ تو کان ہیں جیسی ہم سے سنیں گے مان لیں گے ۔

(۷؂ القرآن العظیم ۹ /۶۱)

حق جل وعلا نے فرمایا : اذن خیر لکم۸؂ ۔ وہ تمھارے بھلے کے لیے کان ہیں ۔کہ جھوٹے عذر بھی قبول کر لیتے ہیں ۔

(۸؂القرآن العظیم ۹/ ۶۱)

اور بکمال حلم وکرم چشم پوشی فرماتے ہیں ۔ ورنہ کیا انھیں تمھارے بھیدوں اور خلوت کی چھپی باتوں پر آگاہی نہیں ۔ یؤمن باللہ ۱؂

خدا پر ایمان لاتے ہیں ۔

(۱؂القرآن العظیم ۹ /۶۱)

اور وہ تمھارے اسرار سے انھیں مطلع کرتاہے ، پھر تمھاری جھوٹی قسموں کا انھیں کیونکر یقین آئے ۔ہاں ویؤمن للمومنین۲؂۔

ایمان والوں کی بات واقعی مانتے ہیں ۔

(۲؂القرآن العظیم ۹ /۶۱)

کہ انھیں ان کے دل کی سچی حالتوں پر خبر ہے ۔اس لیے ورحمۃ للذین آمنوا منکم ۳؂۔

مہربانی ان پر جو تم میں ایمان لائے

(۳؂القرآن العظیم ۹ /۶۱)

کہ ان کے طفیل سے انھیں ہمیشگی کے گھر میں بڑے بڑے رتبے ملتے ہیں ۔اور اگر چہ یہ بھی ان کی رحمت ہے کہ دنیا میں تم سے چشم پوشی ہوتی ہے ۔مگر اس کا نتیجہ اچھا نہ سمجھو ،کہ تمھاری گستا خیوں سے انھیں ایذا پہنچی ہے ۔ والذین یوذون رسول اللہ لہم عذاب الیم۴؂۔

اور جو لوگ رسول اللہ کو ایذادیں ان کیلئے دکھ کی مار ہے۔

(۴؂القرآن العظیم۹/۶۱)

(۶) ابن ابی شقی ملعون نے جب وہ کلمہ ملعونہ کہا : لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل۵؂ ،

اگر ہم مدینہ لوٹ کر گئے تو ضرور نکال باہر کریگا عزت والا ذلیل کو ۔

(۵؂ القران الکریم ۶۳ /۸)

حق جل وعلا نے فرمایا : وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولکن المنفقین لا یعلمون۶؂۔

عزت تو ساری خدا ورسول ومومنین ہی کے لیے ہے ،پر منافقین کو خبر نہیں ۔

(۶؂ القران الکریم ۶۳ /۸)

(۷) عاص بن وائل شقی نے جو صاحبزادہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے انتقال پر ملال پر حضور کو ابتر یعنی نسل بریدہ کہا ۔حق جل وعلا نے فرمایا : انا اعطینک الکوثر ۷؂۔

بیشک ہم نے تمھیں خیر کثیر عطا فرمائی ۔

(۷؂القران الکریم ۱۰۸ /۱)

کہ اولاد سے نام چلنے کو تمھاری رفعت ذکر سے کیا نسبت ،کروڑوں صاحب اولاد گزرے جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا ،اور تمھاری ثناء کا ڈنکا تو قیام قیامت تک اکناف عالم واطراف جہاں میں بجے گا اور تمھارے نام نامی کا خطبہ ہمیشہ ہمیشہ اطباق فلک آفاق زمین میں پڑھا جائے گا ۔پھر اولاد بھی تمھیں نفیس و طیب عطا ہوگی جن کی بقاء سے بقائے عالم مربوط رہیگی اس کے سوا تمام مسلمان تمھارے بال بچے ہیں ،اور تم سا مہربان ان کے لیے کوئی نہیں ،بلکہ حقیقت کار کو نظر کیجیے تو تمام عالم تمھاری اولاد معنوی ہے کہ تم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا ،اور تمھارے ہی نور سے سب کی آفرینش ہوئی ۔اسی لیے جب ابو البشر آدم تمھیں یاد کرتے تو یوں کہتے یا ابنی صورۃ وابای معنًی۱؂۔

اے میرے ظاہر بیٹے اور حقیقت میں میرے باپ ۔

(۱؂ المدخل لابن الحاج فصل فی مولد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دار الکتب العربی بیروت ۲ /۳۴)

پھر آخرت میں جو تمہیں ملنا ہے اس کا حال تو خدا ہی جانے ۔ جب اس کی یہ عنایت بیغایت تم پر مبذول ہو۔ تو تم ان اشقیاء کی زبان درازی پر کیوں ملول ہوبلکہ فصل لربک وانحر۲؂۔

رب کے شکرانہ میں اس کے لیے نماز پڑھو اورقربانی کرو۔

(۲؂ القرآن الکریم ۱۰۸ /۲)

انّ شانئک ھو الابتر۳؂۔

جو تمہارا دشمن ہے وہی نسل بریدہ ہے ۔

(۳؂القرآن الکریم ۱۰۸/ ۳)

کہ اورتمہارے دین حق میں آکر بوجہ اختلاف دین اس کی نسل سے جدا ہوکرتمہارے دینی بیٹوں میں شمارکئے جائیں گے ۔ پھر آدمی بے نسل ہوتا۔تو یہی سہی کہ نام نہ چلتا ۔ اس سے نام بدکاباقی رہنا ہزار درجہ بدتر ہے ۔ تمہارے دشمن کا ناپاک نا م ہمیشہ بدی ونفرین کے ساتھ لیا جائے گا،اورروز قیامت ان گستاخیوں کی پوری سزا پائے گا۔ والعیاذباللہ تعالٰی۔

(۸)جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے قریب رشتہ داروں کو جمع فرماکر وعظ ونصیحت اوراسلام واطاعت کی طرف دعوت کی ۔ ابولہب شقی نے کہا : تبّالک سائر الیوم لہذا جمعتنا۴؂۔

ٹوٹنا اورہلاک ہونا تمہارے لیے ہمیشہ کو ، کیا ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا۔

(۴؂صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ تب یدا ابی لہب ۱۱۱ قدیمی کتب خانہ ۲ /۷۴۳)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان من مات علی اکفرالخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۴)
(تفسیر المراغی تحت الآیۃ ۱۱۱ /۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳۰ /۲۶۰)

حق جل وعلانے فرمایا: تبّت یدا ابی لھب وتب o ۵؂ مااغنٰی عنہ مالہ وما کسب o۱؂ سیصلٰی نارًاذات لھبo ۲؂ وامرأتہ حمّالۃ الحطب o ۳؂ فی جیدھا حبل من مسد o۴؂۔

(۵؂تا ۴؂ القرآن الکریم ۱۱۱ /۱ تا ۵)

ٹوٹ گئے دونوں ہاتھ ابولہب کے ۔ اوروہ خودہلاک وبربادہوا،اس کے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اورجو کمایا۔ اب بیٹھاچاہتاہے بھڑکتی آگ میں ۔ اوراس کی جو رولکڑیوں کا گٹھا سر پر لئے ۔اس کے گلے میں مُونج کی رسی ۔

بالجملہ اس روش کی آیتیں قرآن عظیم میں صدہا نکلیں گی۔ اسی طرح حضرت یوسف وبتول مریم اورادھر ام المومنین صدیقہ علی سید ھم وعلیہم الصلٰوۃ والسلام کے قصے اس مضمون پر شاہدِ عدل ہیں۔ حضرت والد ماجد ”سرورالقلوب فی ذکر المحبوب ”میں فرماتے ہیں : ”حضر ت یوسف کودودھ پیتے بچے ، اور حضرت مریم کو حضرت عیسٰی کی گواہی سے لوگوں کی بدگمانی سے نجات بخشی، اورجب حضرت عائشہ پر بہتان اٹھا خود ان کی پاک دامنی کی گواہی دی، اورسترہ آیتیں نازل فرمائیں، اگرچاہتا ایک ایک درخت اورپتھر سے گواہی دلواتامگر منظور یہ ہوا کہ محبوبہ محبوب کی طہارت وپاکی پر خود گواہی دیں اورعزت وامتیاز ان کا بڑھائیں ۵؂۔ ”انتہٰی۔

(۵؂سرورالقلوب فی ذکر المحبوب)

محل غور ہے کہ اراکین دولت ومقربان حضرت سے باغیانِ سرکش بگستاخی وبے ادبی پیش آئیں۔اوربادشاہ ان کے جوابوں کو انہیں پر چھوڑ دے ۔ مگر ایک سردار بلدن اوقار کے ساتھ یہ برتاؤ ہوکہ مخالفین جو زبان درازی اس کی جناب میں کریں ۔ حضرت سطلان اس مقرب ذی شان کو کچھ نہ کہنے دے ، بلکہ بہ نفس نفیس اس کی طرف سے تکفل جواب کرے ۔ کیا ہر ذی عقل اس معاملہ کو دیکھ کر یقین قطعی نہ کرے گا کہ سرکار سلطانی میں جو اعزاز اس مقرب جلیل کا ہے دوسرے کا نہیں ، اورجو خاص نظر اس کے حال پر ہے اوروں کا حصہ اس میں نہیں۔ والحمدللہ رب العٰلمین۔

آیت تاسعہ : قال تعالٰی عظمتہ : عسٰی ان یبعثک ربک مقاماًمحموداط۱؂ نویں آیت: اللہ تعالٰی نے فرمایا : قریب ہے تجھے تیرا رب بھیجے گا تعریف کے مقام میں ۔

(۱؂القرآن الکریم ۱۷ /۷۹)

صحیح بخاری وجامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے فرمایا : سئل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عن المقام المحمود فقال ھو الشفاعۃ ۲؂۔

(۲؂ صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ ۱۷ باب قولہ عسٰی ان یبعثک الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۶۸۶)
( جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ بنی اسرائیل امین کمپنی دہلی ۲ /۱۴۲)

حضرت سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سوال ہوا : مقام محمود کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : شفاعت ۔
اسی طرح احمد وبیہقی ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی : سئل عنہا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یعنی قولہ عسٰی ان یبعثک ربک مقاما محموداً ط فقال ھی الشفاعۃ ۳؂ ۔

(۳؂ مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۴۴۴)
( نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض بحوالہ احمد والبیہقی فصل فی تفضیلہ بالشفاعۃ ۲ /۳۴۵)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اللہ تعالٰی کے قول ”قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں”کے بارے میں سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا وہ شفاعت ہے ۔ (ت)
اورشفاعت کی حدیثیں خود متواتر ومشہور اورصحاح وغیرہ میں مروی ومسطور ، جن کی بعض ان شاء اللہ تعالٰی ہیکل دوم میں مذکور ہوں گی۔
اس دن آدم صفی اللہ سے عیسٰی کلمۃ اللہ تک سب انبیاء اللہ علیہم الصلٰوۃ والسلام نفسی نفسی فرمائیں گے اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انا لھا انا لھا ۴؂۔ میں ہوں شفاعت کےلیے ، میں ہوں شفاعت کے لیے ۔

(۴؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل فی تفضیلہ بالشفاعۃ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۸۰)

انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین سب ساکت ہوں گے اوروہ متکلم ۔ سب سربگریبان ، وہ ساجد وقائم۔ سب محل خوف میں ، وہ آمن وناہم۔ سب اپنی فکر میں ، انہیں فکر عوالم ۔سب زیر حکومت ، وہ مالک وحاکم،۔ بارگاہِ الہٰی میں سجدہ کرینگے ۔ ان کا رب انہیں فرمائے گا: یا محمد ارفع رأسک وقل تسمع وسل تعطہ واشفع تشفع۱؂۔

(۱؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۹)

اے محمد!اپنا سراٹھاؤ اورعرض کرو کہ تمہاری عرض سنی جائے گی، اورمانگو کہ تمہیں عطاہوگا ، اورشفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہے ۔

اس وقت اولین وآخرین میں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )کی حمد وثناء کا غلغلہ پڑ جائے گااوردوست ، دشمن ، موافق ، مخالف، ہر شخص حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کی افضلیتِ کبرٰی وسیادت عظمٰی پر ایمان لائے گا۔ والحمدللہ رب العٰلمین۔ ؎
مقام محمود ونامت محمد
بہ نیساں مقامے ونامے کہ دارد
آپ کا مقام محمود اورنام محمد ہے ، ایسا مقام اورنام کون رکھتاہے ۔ت)

امام محی السنۃ بغوی معالم التنزیل میں فرماتے ہیں : عن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قال ان اللہ عزّوجل اتخذ ابراھیم خلیلا وان صاحبکم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خلیل اللہ واکرم الخلق علی اللہ ثم قرأ ”عسٰی ان یبعثک ربک مقام محمود o” قال یجلسہ علی العرش۲؂۔ یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی بیشک اللہ عزوجل نے ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو خلیل بنایا۔ اوربیشک تمہارے آقام محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خلیل اورتمام خلق سے زیادہ اس کے نزدیک عزیز وجلیل ہیں۔ پھر یہ آیت تلاوت کر کے فرمایا اللہ تعالٰی انہیں روز قیامت عرش پر بٹھائے گا۔

(۲؂ معالم التنزیل (تفسیر بغوی)تحت الآیۃ ۱۷/ ۷۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت۳ /۱۰۹)

وعزا نحوہ فی المواھب ۴؂للثعلبی ۔ (اس کی مثل مواہب میں ثعلبی کی طرف منسوب ہے ۔ ت)

(۳؂ المواہب اللدنیۃ الفصل الثالث الشفاعۃ والمقام المحمود المکتب الاسلامی بیروت ۴ / ۶۴۲)

امام عبدبن حمید وغیرہ حضرت مجاہد تلمیذ رشید حضرت حبرالامہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے اس آیت کی تفسیر میں راوی : یجلسہ اللہ تعالٰی معہ علی العرش۱؂ ۔ اللہ تعالٰی انہیں عرش پر اپنے ساتھ بٹھائے گا ۔یعنی معیتِ تشریف وتکریم کہ وہ جلوس ومجلس سے پاک ومتعالی ہے۔

(۱؂المواہب اللدنیۃ عن القسطلانی المقصد العاشر الفصل الثالث المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۶۴۲)
( شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ عبد بن حمید وغیرہ المقصد العاشر الفصل الثالث ۸ /۳۶۸)

امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں ناقل امام علامہ سید الحفاظ شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی رحمہ للہ تعالٰی فرماتے ہیں مجاہد کا یہ قول نہ ازروئے نقل مدفوع نہ از جہت (عہ) نظر ممنوع ، اورنقاش نے ابو داودصاحبِ سنن رحمہ اللہ تعالٰی سے نقل کیا۔ من انکرھذا القول فھو متھم ۱؂۔ جو اس قول سے انکار کرے وہ متہم ہے ۔

(۱؂المواہب اللدنیۃ عن العسقلانی المقصد العاشر الفصل الثالث المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۶۴۳)

عہ : رد علی الواحدی حیث بالغ فی الانکار علی ذٰلک وابلغ الجزاف منتھاہ کما قال الاول بلغ السیل رواہ حتی قال ”لایمیل الیہ الا قلیل العقل عدیم الدین۲؂۔اھ”

یہ رد ہے واحدی پر کیونکہ اس نے اس قول کے انکار میں بہت مبالغہ کیا اوراپنے بے تکے کلام کو انتہا تک پہنچایا جیسا کہ قول اول میں کیا اورسیلاب اپنی سیرابی تک پہنچا۔ اس نے کہا کہ اس کی طرف نہیں مائل ہوگا مگرکم عقل اوربے دین اھ ۔

(۲؂المواہب اللدنیۃ عن القسطلانی المقصد العاشر الفصل الثالث المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۶۴۳)

واللہ تعالٰی یسامح المسلمین واحتج لزعمہ بمالاحجۃ لہ فیہ وقدردہ علیہ العلماء کما یظھر بالرجوع الی المواہب وشرحہ واعظم ماتشبث بہ فی ذٰلک انہ تعالٰی قال

”مقاماً محموداo”۳؂

لم یقل مقعدا والمقام موضع القیام لاموضع القعود۔

اللہ تعالٰی مسلمانوں سے درگزر فرمائے ۔ اوراس نے اپنے گمان کے مطابق جس چیز سے استدلال کی ااس میں اس کے لے کوئی دلیل نہیں ہے ، بیشک اس پر علماء کرام نے رَد فرمایا جیسا کہ مواہب اوراس کی شرح کی طرف رجوع کرنے سے ظاہر ہوتا ہے ۔ سب سے بڑی دلیل جس سے اس نے تمسک کیا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے ”مقاماً محمودًا ”فرمایا ہے ”مقعدا محمودًا ”نہیں فرمایا اورمقام موضع قیام ہے نہ کہ موضع قعود۔

(۳؂القرآن الکریم ۱۷/۷۹)

قال الزرقانی واجیب بانہ یصح علی انہ المقام مصدر میمی لاسم مکان۲؂ اھ ای فیقوم مقام المفعول المطلق ای یبعثک بعثا محمودا۔

زرقانی نے کہااس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ مقام مصدر میمی ہے نہ کہ ظرف مکان اھ ۔یعنی یہ مفعول مطلق کے قائم مقام ہے اورمعنٰی یہ ہوگا کہ اللہ تعالٰی تجھے اٹھائے گا ایسا اٹھانا جو محمود ہوگا۔

(۲؂ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد العاشر الفصل الثالث دارالمعرفۃ بیروت ۸ /۳۶۸)

اقول : وباللہ التوفیق علی ان الرافعۃ بعدالتواضع من تواضع للہ رفعہ اللہ فالقعود انما یکون بعد مایقوم النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بین یدی ربہ تبارک وتعالٰی علی قدم الخدمۃ قدلک المکان مقام محمود ومقعد محمود وکلام اللہ سبحٰنہ وتعالٰی بما یقتصر علی بعض الشیئ کما فی قولہ تعالٰی

سبحٰن الذی اسرٰی بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصٰی ۳؂،

اقول : (میں کہتاہوں )اور توفیق اللہ تعالٰی کی طرف سے ۔ علاوہ ازیں رفعت تواضع کے بعد ہے ، جو اللہ تعالٰی کے لیے عاجزی کرتاہے اللہ تعالٰی اس کورفعت عطافرماتاہے ۔ چنانچہ قعود اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قدمِ خدمت پر قیامت کے بعد ہوگا تووہی مکان مقام محمود اورمقعد محمود ہوگا اوراللہ کا کلام بعض شے پر مقتصر ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے سبحٰن اللہ الذی الخ (پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجدِ اقصٰی تک )

(۳؂ القرآن الکریم ۱۷ /۱)

وقدثبت فی الاحادیث انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یسجد بین یدی ربہ تبارک وتعالٰی ایاماً اسبوعا او اسبوعین ثم یرفع راسہ ، وانما سمّاہ اللہ تعالٰی مقاماً محموداً لامسجدًا فان لم ینف بہ امرالسجود فلم ذا ینفی امرالقعود قال الواحدی”واذاقیل السلطان بعث فلانافھم منہ انہ ارسلہ الی قوم لاصلح مھما تھم ولا یفھم منہ انہ اجلس مع نفسہ ۱؂۔

اورتحقیق احادیث سے ثابت ہوچکا ہے کہ نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ تبارک وتعالٰی کی بارگاہ میں ایک ہفتہ یا دو ہفتے سجدہ ریز رہیں گے پھر سراٹھائیں گے اس جگہ کا نام اللہ تعالٰی نے مقام محمود رکھا ہے مسجد نہیں رکھا۔ تو جب امر سجود اس کے منافی کیسے ہوگا؟ واحدی نے کہا جب کہا جائے کہ فلاں کو بادشاہ نے مبعوث کیا تو اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ بادشاہ نے اس قوم کی طرف بھیجا ہے کہ ان کی مہمات کی اصلاح کرے ، یہ نہیں سمجھا جاتاکہ بادشاہ نے اسے اپنے ساتھ بٹھالیا ۔

(۴؂)
(۱؂المواھب اللدنیۃ بحوالہ الواحدی المقصد العاشر الفصل الثالث المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۶۴۳)

قال الزرقانی وھذا مردودبان ھذا عادۃ یجوز تخلفھا علٰی ان احوال الاٰخرۃ لایقاس علی احوال الدنیا۲؂یبعثھم اللہ تعالٰی فی جمعھم عندہ لیحکم بینھم لالیرسلھم الی قوم فجاز ان یکون ھذا البعث بالاجلاس لاللرسال مع ان الارسال کما یغایر الجلوس فکذا القیام عندہ ولکن الھوس یأتی بالعجائب والحل ان البعث من عندہ ھو الذی ذکرھا الواحدی والبعث من محل للحضور عندہ لاینافی الجلوس عندہ کما لایخفی ۔ قال الزرقانی تحت قول الواحدی لایمیل الیہ الخ ھذا مجاز فۃ فی الکلام لاتلیق بطالب فضلاعن عالم بعد ثبوت القول عن تابعی جلیل ووجد مثلہ عن صحابیین ابن عباس وابن مسعود ۱؂ اھ ۔قلت بل عن ثلٰثۃ ثالثھم ابن سلام کما نقلنا فی المتن رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ثم بعد کتابتی ھذا المحل رأیت الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وھٰھنا تم الہٰنا والحمدللہ الٰہنا ۔

زرقانی نے کہا یہ مردودہے کیونکہ ایک امر عادی ہے جس کے خلاف ہونا بھی جائز ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کہ احوالِ آخرت کو احوال دنیا پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ اللہ تعالٰی کو مبعوث فرما کر سب کو ایک میدان میں جمع کریگا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے نہ کہ ان کو اصلاح کے لیے کسی قوم کے پاس بھیجے گا ۔ تو جائز ہے کہ یہ بعث بٹھانے کے ساتھ ہونہ کہ بھیجنے کے ساتھ باوجودیکہ ارسال جس طرح بیٹھنے کے مغایرہے اسی طرح اس کے پاس کھڑے رہنے کے بھی مغایر ہے لیکن جنون عیب وغریب امور کو لاتا ہے اوراس کا حل یہ ہے کہ جس بعث کو واحدی نے ذکر کیا ہے وہ ہے ”بعث من عندہ ” اپنے پاس سے بھیجنا ۔اوروہ بعث جو کسی محل سے اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لیے ہو وہ اس کے پاس بیٹھنے کے منافی نہیں، جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ واحدی کے قول ”لا یمیل الیہ الخ”کے تحت زرقانی نے یہ کہا کہ یہ بے تکا کلام ہے جو کسی طالب کے لائق بھی نہیں چہ جائیکہ عالم کے لایق ہوجبکہ ایک جلیل القدر تابعی سے یہ قول ثابت ہوچکا ہے اوراسکی مثل دو صحابیوں یعنی ابن عباس اورابن مسعود سے۔ میں کہتاہوں بلکہ تین صحابہ سے ۔ تیسرے ابن سلام ہیں جیسا کہ ہم نے متن میں نقل کیا ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ پھر اس محل کی کتابت کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث دیکھی ، یہاں ہماری بحث تام ہوگئی ، اورسب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں جو ہمارا معبود ہے ۔

(۲؂ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد العاشر الفصل الثالث دارالمعرفۃ بیروت ۸ /۲۶۸)
(۱؂ شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ المقصد العاشر الفصل الثالث دارالمعرفۃ بیروت۸ /۳۶۸)

قال الامام الجلیل الجلا ل فی الدر المنثور اخرج الدیلمی عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

عسٰی ان یبعثک ربک مقام محمودا

قال یجلسنی معہ علی السریر۱؂۔

امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے در منثور میں فرمایا دیلمی نے ابن عمر ضی اللہ تعالٰی عنہما سے رایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعلاٰی علیہ وسلم نے آیت کریمہ ”عسٰی ان یبعثک ربک مقاما محمود ا”(قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں )کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالٰی مجھے اپنے ساتھ تخت پر بٹھائے گا ۔

(۱؂الدرالمنثور تحت الآیۃ ۱۷ /۷۹ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۸۷)

وقد عرفنا من ھٰھنا صدق ابن تیمیۃ فی قول فی الثعلبی ان الواحدی صاحبہ کان ابصر منہ بالعربیۃ لکنہ ابعد عن اتباع السف۲؂ اھ، وان کان ابن تیمیۃ نفسہ ابعد وابعد وبالجملۃ فاسمع مااثرناہ عن الامام ابی داودوالامام الدار قطنی والامام العسقلانی فھم الائمۃ الاجلۃ الشان وایاک وان تلتفت الٰی زعمہ لیس بذالک فی ھذا الشان والحمدللہ رب العٰلمین۔ ۱۲منہ ”

تحقیق ہم نے یہاں سے ثعلبی کے بارے میں ابن تیمیہ کے اس قول کی صداقت جان لی کہ واحدی جو ثعلبی کا ساتھی ہے وہ ثعلبی سے بڑ ھ کر عربیت میں مہارت رکھتا ہے مگر اسلاف کی اتباع سے بہت ہی دور ہے اھ خلاصہ یہ کہ تُو سن لے اس کو جو ہم نے نقل کیاہے امام ابوداود ، امام دار قطنی اورامام عسقلانی سے ، کیونکہ وہ انتہائی جلالت شان والے آئمہ ہیں ، اوراس شخص کے قول باطل کی طرف التفات سے بچ جو ان کے ہم پلّہ نہیں ہے، اور سب تعریفیں اللہ تعالٰی کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ۱۲منہ (ت) (۲؂)

اسی طرح امام دارقطنی نے اس قول کی تصریح فرمائی ، اوراس کے بیان میں چند اشعار (عہ) نظم کیے ۔ کما فی نسیم الریاض (جیسا کہ نسیم الریاض میں ہے ۔ ت)

عہ : وہ اشعار یہ ہیں : ؎
حدیث الشفاعۃ عن احمد
الی احمد المصطفٰی نسند ہ
وقد جاء الحدیث باقعادہ
علی العرش ایضا ولا نجحدہ
امروا الحدیث علٰی وجھہ
ولاتدخلوافیہ مایفسدہ
ولاتنکروا انہ قاعد
ولاتنکروا انہ یقعدہ
اوردھا فی النسیم ۳؂۔کلاانہ أجاد فی ذٰلک رحمہ اللہ تعالٰی رحمۃ واسعۃ الخ ۱۲منہ۔

ترجمہ اشعار : بحوالہ امام احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مروی ہے ہم احمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک اس کا اسناد کرتے ہیں ۔ یہ حدیث بھی آئی ہے کہ اللہ تعالٰی آپ کو عرش پربٹھائے گااورہم اس کا انکار نہیں کرتے ۔ انہوں نے حدیث کو درست بیان کیا ہے تم اس میں کلام فاسد کو داخل مت کرو، نہ اس بات کا انکار کرو کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرش پر جلوہ گر ہوں گے اور نہ ہی اس بات کا انکار کرو کہ اللہ تعالٰی آپ کو عرش پر بٹھائے گا)۔ اس کو نسیم الریاض میں مکمل بیان کیا گیا ہے اوراس سلسلہ میں انہوں نے خوب اشعار کہے ہیں، اللہ تعالٰی ان پر وسیع رحمت نازل فرمائے ۔(ت)

(۳؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل فی تفضیلہ بالشفاعۃ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲/ ۳۴۳)

ابو الشیخ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی : ان محمدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یوم القیٰمۃ یجلس علی کرسی الرب بین یدی الرب ۱؂ ۔ بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روزِ قیامت رب کے حضور رب کی کرسی پر جلوس فرمائیں گے ۔

(۱؂المواہب اللدنیہ المقصد العاشر الفصل الثالث المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۶۴۳و۶۴۴)

معالم میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے : یقعدہ علی الکرسی ۲؂۔ اللہ تعالٰی انہیں کرسی پر بٹھائے گا ، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی اٰلہٖ واصحابہ اجمعین، والحمدللہ رب العٰلمین (اللہ تعالٰی درود نازل فرمائے آپ پر ، آپ کی آل پر اورآپ کے تمام صحابہ پر ، اورتمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے جو کل جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ت)

(۲؂معالم التنزیل (تفسیر بغوی)تحت الآیۃ ۱۷ /۷۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳ /۱۰۹)

آیت عاشرہ (دسویں آیت) :

قرآن شریف کے تفصیلی ارشادات ومحاورات ونقل اقوال وذکر احوال پر نظر کیجئے ، تو ہر جگہ اس نبی کریم علیہ افضل الصلٰوۃ والتسلیم کی شان سب انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام سے بلند وبالا نظر آتی ہے ، یہ وہ بحرِ ذخّار ہے جس کی تفصیل کو دفتر درکار علمائے دین مثل امام ابو نعیم وابن فورک و قاضی عیاض وجلال سیوطی و شھاب قسطلانی وغیرہم رحمہم اللہ تعالٰی نے ان تفرقوں سے بعض کی طرف اشارہ فرمایا ۔ فقیر اول ان کے چند اخراجات ذکر کر کے پھر بعض امتیاز کہ باندک تامل اس وقت ذہن قاصر میں حاضرہوئے ظاہر کرے گا تطویل سے خوف اوراختصار کا قصد بیس پر اقتصارکا باعث ہوا :

(۱)خلیل جلیل علیہ الصلٰوۃ والتجیل سے نقل فرمایا :

فلاتخزنی یوم یبعثون ۱؂

مجھے رسوا نہ کرنا جس دن لوگ اٹھائے جائیں ۔

(۱؂القرآن الکریم ۲۶ /۸۷)

حبیب قریب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے خود ارشاد ہوا :

یوم لایخزی اللہ النبی والذین اٰمنومعہ۲؂۔

جس دن خدارسوا نہ کرے گا نبی اور اسکے ساتھ والے مسلمانوں کو۔

(۲؂القرآن الکریم ۶۶ /۸)

حضور کے صدقے میں صحابہ بھی اس بشارتِ عظمٰی سے مشرف ہوئے ۔

(۲) خلیل علیہ الصلٰوۃ والسلام سے تمنائے وصال نقل کی :

انی ذاھب الی ربی سیہدین۳؂۔

(بیشک میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں اور وہ مجھے راہ دے گا۔ ت)

(۳؂القرآن الکریم ۳۷/ ۹۹)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خود بلاکر عطائے دولت کی خبر دی:

سبحٰن الذی اسرٰی بعبدہٖ۴؂۔

(پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا۔ ت)

(۴؂القرآن الکریم ۱۷ /۱)

(۳) خلیل علیہ الصلٰوۃ والسلام سے آرزوئے ہدایت نقل فرمائی :

سیھدین۵؂

(وہ مجھے راہ دے گا۔ت)

(۵؂القرآن الکریم ۳ /۹۹)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے خود ارشادفرمایا :

ویھدیک صراطاً مستقیما۶؂

(اورتمہیں سیدھی راہ دکھا دے۔ت)

(۶؂القرآن الکریم ۴۸/۲)

(۴) خلیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کےلئے آیا فرشتے ان کے معزز مہمان ہوئے :

ھل اتٰک حدیث ضیف ابراہیم المکرمین۷؂۔

اے محبوب !کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی ؟(ت)

(۷؂القرآن الکریم ۵۱/۲۴)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کےلئے فرمایا فرشتے ان کے لشکری وسپاہی بنے :

وایدہ، بجنودلم تروھا۸؂ یمددکم ربکم بخمسہ اٰلاف من الملئکۃ مسومین۹؂ والملٰئکۃ بعد ذٰلک ظھیر۱۰؂۔

اوران فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھیں ، تمہارا رب تمہاری مددکو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا ، اوراس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔ (ت)

(۸؂القرآن الکریم ۹ /۴۰)

(۹؂القرآن الکریم ۳ /۱۲۵)

(۱۰؂ القرآن الکریم ۶۶ /۴)

(۵) کلیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کو فرمایا، انہوں نے خدا کی رضاچاہی :

وعجلت الیک رب لترضٰی ۱؂۔

اورتیری طرف میں جلدی کر کے حاضرہوا کہ تو راضی ہو۔ (ت)

(۱؂القرآن الکریم ۲۰ /۸۴)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے بتایا ، خدا نے ان کی رضاچاہی :

فلنولینک قبلۃ ترضٰھا۲؂، ولسوف یعطیک ربک فترضٰی۳؂۔

توضرورہم تمہیں پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے ۔ اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤگے ۔ (ت)

(۲؂القرآن الکریم ۲ /۱۴۴)

(۳؂القرآن الکریم ۹۳/ ۵)

(۶) کلیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کا بخوف فرعون مصر سے تشریف لے جانا بلفظ فرار نقل فرمایا:

ففرت منکم لمّا خفتکم۴؂۔

تومیں تمہارے یہاں سے نکل گیا جبکہ تم سے ڈرا ۔ (ت)

(۴؂القرآن الکریم ۲۶ /۲۱)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ہجرت فرمانا باحسن عبارات ادافرمایا :

اذ یمکر بک الذین کفروا۵؂۔

اوراے محبوب !یاد کر جب کافر تمہارے ساتھ مکر کرتے تھے ۔ (ت)

(۵؂القرآن الکریم ۸ /۳۰)

(۷) کلیم اللہ علیہ الصلٰوۃ والتسلیم سے طُور پر کلام کیا اور اسے سب پر ظاہر فرمادیا :

انا اخترتک فاستمع لما یوحٰی o اننی انا اللہ لا الٰہ الا انا فاعبدنی ، واقم الصلٰوۃ لذکری ۶؂

الٰی اٰخر الاٰیات۔

اورمیں نے تجھے پسند کیا، اب کان لگا کر سن جو تجھے وحی ہوتی ہے ، بیشک میں ہی ہوں اللہ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری بندگی کر اورمیری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ آیات کے آخر تک۔ (ت)

(۶؂القرآن الکریم ۲۰ /۱۳ ۱۴)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فوق السمٰوٰت مکالمہ فرمایا اورسب سے چھپایا :

فاوحٰی الٰی عبدہٖ مااوحٰی۱؂۔

اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی ۔( ت)

(۱؂القرآن الکریم ۵۳ /۱۰)

(۸) داودعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو ارشادہوا : لاتتبع الہوٰی فیضلک عن سبیل اللہ۲؂۔ خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ تجھے بہکادے خدا کی راہ سے ۔

(۲؂القرآن الکریم ۳۸/ ۲۶)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں بقسم فرمایا : وماینطق عن الھوٰی o ان ھوالا وحی یوحٰی ۳؂۔ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کہتا ، وہ تو نہیں مگر وحی کہ القا ہوتی ہے ۔

(۳؂القرآن الکریم ۵۳ /۳ ۴)

اب فقیر عرض کرتاہے وباللہ التوفیق : (۹) نوح وہود علیہما الصلٰوۃ والسلام سے دعانقل فرمائی : رب النصرنی بما کذّبون ۴؂۔ الہٰی !میری مدد فرما بدلا اس کا کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا۔

(۴؂القرآن الکریم ۲۳ /۲۶)

محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے خود ارشاد ہوا: وینصرک اللہ نصرا عزیزا۵؂ ۔ اللہ تیری مدد فرمائے گازبردست مدد۔

(۵؂القرآن الکریم ۴۸ /۳)

(۱۰) نوح وخلیل علیہما الصلٰوۃ والتسلیم سے نقل فرمایا،انہوں نے اپنی امت کی دعائے مغفرت کی : ربنا(عہ) اغفرلی ولوالدی وللمؤمنین یوم یقوم الحساب۱؂۔ (۱؂القرآن الکریم ۷۱ /۲۸)

اے ہمارے رب!مجھے بخش دے اورمیرے ماں باپ کو اورسب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا۔ (ت)

عہ : یہ لفظ دعائے خلیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ہیں ، اوردعائے نوح علیہ الصلٰوۃ والسلام ان لفظوں سے ہے :

رب اغفرلی ولوادی ولمن دخل بیتی مؤمنا وللمؤمنین والمؤمنٰت۶؂

(۶؂القرآن الکریم ۱۴ /۴۱)

اے میرے رب !مجھے بخش دے اورمیرے ماں باپ کو اوراسے جو ایمان کے ساتھ میرے گھرے میں ہے اورسب مسلمان مردوں اورسب مسلمان عورتوں کو ۔ (ت)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خود حکم دیا اپنی امت کی مغفرت مانگو : واستغفر لذنبک وللمؤمنین والمؤمنٰت۲؂ ۔ اور اے محبوب!اپنے خاصوں اورعام مسلمان مردوں اورعورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔(ت)

(۲؂القرآن الکریم ۴۷/ ۱۹)

(۱۱) خلیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کے لیے آیا ، انہوں نے پچھلوں میں اپنے ذکر جمیل باقی رہنے کی دعاکی : واجعل لی لسان صدق فی الاٰخرین۳؂۔ اورمیرسچی ناموری رکھ پچھلوں میں ۔(ت)

(۳؂القرآن الکریم ۲۶ /۸۴)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سےخود فرمایا : ورفعنا لک ذکرک۴؂ (اورہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ ت )

(۴؂القرآن الکریم ۹۴ /۴)

اوراس سے اعلٰی وارفع مژدہ ملا : عسٰی عن یبعثک ربک مقاماً محمودًا۵؂ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمدکریں ۔ (ت)

(۵؂القرآن الکریم ۱۷ /۷۹)

کہ جہاں اولین وآخرین جمع ہوں گے حضور کی حمد وثناء کا شورہر زبان سے جوش زن ہوگا۔

(۱۲) خلیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قصہ میں فرمایا، انہوں نے قوم لوط علیہ الصلٰوۃ والسلام سے رفع عذاب میں بہت کوشش کی : یجادلنا فی قوم لوط۶؂ (ہم سے لوط کے بارے میں جھگڑنے لگا۔ت)

(۶؂القرآن الکریم ۱۱ /۷۴)

یا ابراہیم اعرض عن ھٰذا۷؂۔ اے ابراہیم !اس خیال میں نہ پڑ۔

(۷؂القرآن الکریم ۱۱/۷۶)

عرض کی : ان فیھا لوطا۸؂۔ اس بستی میں لوط جو ہے ۔

(۸؂القرآن الکریم ۲۹ /۳۲)

حکم ہوا : نحن اعلم بمن فیھا۹؂ ۔ ہمیں خوب معلوم ہیں جو وہاں ہیں۔

(۹؂القرآن الکریم ۲۹ /۳۲)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ارشاد ہوا: ماکان اللہ لیعذبھم وانت فیھم۱۰؂۔ اللہ ان کافروں پر بھی عذاب نہ کرے گا جب تک اے رحمت عالم! تُو ان میں تشریف فرماہے ۔

(۱۰؂القرآن الکریم ۸ /۳۳)

(۱۳) خلیل علیہ الصلٰوۃ والسلام سے نقل فرمایا : ربنا وتقبل دعا ۱؂ الہٰی!میری دعا قبول فرما ۔

(۱؂القرآن الکریم۱۴ /۴۰)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اوران کے طفیلیوں کو ارشاد ہوا: قال ربکم ادعونی استجب لکم۲؂ تمہارارب فرماتاہے مجھے سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔

(۲؂القرآن الکریم ۴۰ /۶۰)

(۱۴) کلیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی معراج درخت دنیا پر ہوئی : نودی من شاطئ الواد الایمن فی البقعۃ المبارکۃ من الشجرۃ۳؂۔ ندا کی گئی میدان کے دائیں کنارے سے برکت والے مقام میں پیڑ سے ۔ (ت)

(۳؂القرآن الکریم ۲۸/۲۳)

حبیب صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم کی معراج سدرۃ المنتہٰی وفردوسِ اعلٰی تک بیان فرمائی : عند سدرۃ المنتہٰی o عند ھا جنۃ المأوی۴؂ سدرۃ المنتہٰی کے پاس، اس کے پاس جنت الماوٰی ہے ۔ (ت)

(۴؂القرآن الکریم ۵۳ /۱۴ ۱۵)

(۱۵) کلیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے وقت ارسال اپنی دل تنگی کی شکایت کی : ویضیق صدری ولا ینطلق لسانی فارسل الٰی ھٰرون ۵؂ اورمیرا سینہ تنگی کرتاہے اورمیری زبان نہیں چلتی تو تُو ہارون کو بھی رسول کر۔ (ت)

(۵؂القرآن الکریم ۲۶ /۳۲)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خود شرحِ صد ر کی دولت بخشی ، اوراس سے منتِ عظمٰی رکھی : الم نشرح لک صدرک ۔ (کیا ہم نے تمہارا سینہ کشادہ نہ کیا۔ ت)

(۱۶) کلیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم پر حجاب نار سے تجلی ہوئی : فلما جاء ھانودی ان بورک من فی النار ومن حولھا۶؂۔

(۶؂القرآن الکریم ۹۴ /۱)

پھر جب وہ آگ کے پاس آیا، ندا کی گئی کہ برکت دیا گیا وہ جو اس آگ کی جلوہ گاہ میں ہے (یعنی حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر جلوہ نور سے تجلی ہوئی اوروہ بھی غایت تفخیم وتعظیم کےلئے بالفاظ ابہام بیان فرمائی گئی : اذ یغشی السدرۃ ما یغشٰی۱؂۔ جب چھا گیا سدرہ پر جو کچھ چھایا۔

(۱؂القرآن الکریم ۵۳ /۱۶)

ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، بزار ، ابویعلی ، بیہقی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث طویل معراج میں راوی : ثم انتھی الی السدرۃ فغشیھا نور الخلاّق عزوجل فکلّمہ تعالٰی عند ذٰلک فقال لہ سل ۲؂۔ (۲؂ تفسیر ابن ابی حاتم تحت الآیۃ ۱۷ /۱ مکتبہ نزار مصطفی البابی مکۃ المکرمۃ ریاض ۷ /۲۳۱۳)
(جامع البیان(تفسیر طبری)تحت الآیۃ ۵۳ /۱۶ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲۷/ ۶۸)
( الدرالمنثور بحوالہ البزار وابویعلٰی وابن ابی حاتم وابن مردویۃ والبیہقی تحت الآیۃ ۱۷ /۱ ۵/ ۱۷۸ )

پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سدرہ تک پہنچے ۔ خالق عزوجل کا نور اس پر چھایا ۔ اس قت جل جلالہ، نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کلام کیا اورفرمایا : مانگو اھ ملخصاً۔

(۱۷) کلیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم سے اپنے اور اپنے بھائی کے سوا، سب سے براء ت وقطع تعلق نقل فرمایا۔ جب انہوں نے اپنی قوم کو قتالِ عمالقہ کا حکم دیا اورانہوں نے نہ مانا ۔ عرض کی :

رب انی لا املک الا نفسی واخی فافرق بیننا وبین القوم الفٰسقین۳؂۔

الہٰی ! میں اختیار نہیں رکھتا مگر اپنا اور اپنے بھائی کا ، تو جدائی فرمادے ہم میں اور اس گنہگار قوم میں ۔

(۳؂القرآن الکریم ۵ /۲۵)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ظلِ وجاہت میں کفار تک کو داخل فرمایا :

ماکان اللہ لیعذبھم وانت فیھمo ۴؂ عسٰی ان یبعثک ربک مقاما محموداo۵؂

اوراللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب !تم ان میں تشریف فرماہو۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اس جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔ (ت)

(۴؂القرآن الکریم ۸ /۳۳)

(۵؂القرآن الکریم ۱۷/ ۷۹)

یہ شفاعت کبرٰی ہے کہ تمام اہل موقف موافق ومخالف سب کو شامل ۔

(۱۸) ہارون وکلیم علیہم الصلٰوۃ والتسلیم کے لیے فرمایا ، انہوں نے فرعون کے پا س جاتے اپنا خوف عرض کیا:

ربنا انّنا نخاف ان یفرط علینا اوان یطغٰی ۱؂

اے ہمارے رب!بے شک ہم ڈرتے ہیںکہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا شرارت سے پیش آئے ۔(ت)

(۱؂القرآن الکریم ۲۰/ ۴۵)

اس پر حکم ہوا :

لاتخافا اننی معکمااسمع وارٰی ۲؂ط۔

ڈرو نہیں ،میں تمہارے ساتھ ہوں ، سنتا اوردیکھتا۔

(۲؂القرآن الکریم ۲۰ /۴۶)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خو د مژدہ نگہبانی دیا:

واللہ یعصمک من الناس۳؂۔

(اوراللہ تمہاری نگہبانی کرنے گا لوگوں سے ۔ ت)

(۳؂القرآن الکریم ۵ /۲۷)

(۱۹) مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حق میں فرمایا ان سے پرائی بات پر یوں سوال ہوگا:

یعیسی ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اللہ ۴؂۔

اے مریم کے بیٹے عیسٰی !کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دوخداٹھیرالو۔

(۴؂القرآن الکریم ۵ /۱۱۶)

معالم میں ہے اس سوال پر خوف الہٰی سے حضرت روح اللہ صلوات اللہ وسلامہ، علیہ کا بند بند کانپ اٹھے گااورہر بُنِ مُوسٰی خون کا فوارہ بہے گا پھر جواب ۵؂عرض کریں گے جس کی حق تعالٰی تصدیق فرماتاہے ۔

(۵؂معالم التنزیل (تفسیرالبغوی)تحت الآیۃ ۵ /۱۱۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۶۶)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جب غزوہ تبو ک کا قصد فرمایا اور منافقوں نے جھوٹے بہانے بناکر نہ جانے کی اجازت لے لی۔اس پر سوال تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بھی ہوا مگر یہاں جو شان لطف ومحبت وکرم وعنایت ہے قابل غور ہے ارشاد فرمایا :

عفااللہ عنک لم اذنت لھم ۶؂۔

اللہ تجھے معاف فرمائے ، تو نے انہیں اجازت کیوں دے دی۔

(۶؂القرآن الکریم۹ /۴۳)

سبحان اللہ !سوال پیچھے ہے اورمحبت کا کلمہ پہلے ۔

والحمدللہ رب العالمین۔

(۲۰) مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام سے نقل فرمایا ، انہوں نے اپنے امتیوں سے مدد طلب کی :

فلما احس عیسٰی منہم الکفر قال من انصاری الی اللہ ط قال الحواریون نحن انصاراللہ ۱؂۔

پھر جب عیسٰی نے ان سے کفرپایا ، بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف ۔ حواریوں نے کہا ہم دین خدا کے مددگار ہیں ۔

(۱؂القرآن الکریم ۳ /۵۲)

حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت انبیاء ومرسلین کو حکم نصرت ہوا:

لتؤمنن بہٖ ولتنصرنہ۲؂ ۔

(تم ضرور ضروراس پر ایمان لانا اور ضرورضروراس کی مدد کرنا ۔ ت)

(۲؂القرآن الکریم ۳ /۸۱)

غرض جو کسی محبوب کوملا وہ سب اوراس سے افضل واعلٰی انہیں ملا، اورجو انہیں ملا وہ کسی کو نہ ملا۔؎

حسن یوسف دم عیسی ید بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہاداری

آپ یوسف (علیہ السلام )کا حسن ، عیسی (علیہ السلام )کی پھونک اورروشن ہاتھ رکھتے ہیں ۔ جو کمالات وہ سارے رکھتے ہیں آپ اکیلے رکھتے ہیں ۔ ت)

صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی اٰلہٖ واصحابہ وبارک وکرم ، والحمدللہ رب العٰلمین۔

صفحہ نمبر 36 تک